ایک گھر بنانا ہے
مجھے یاد ہے بچپن میں گھر سے باہر، شام کے وقت ریت کا گھروندا بنانا میرا پسندیدہ مشغلہ ہوا کرتا تھا...
مجھے یاد ہے بچپن میں گھر سے باہر، شام کے وقت ریت کا گھروندا بنانا میرا پسندیدہ مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ وہ گھر گھنٹوں کی محنت سے بنتا۔ اسے گلاب، موتیے، بوگن ویلیا کے پھولوں سے سجایا جاتا۔ جب وہ گھر بن جاتا تو نہ جانے کہاں سے وہ شرارتی لڑکا چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے نمودار ہوتا اور اس کی ایک ٹھوکر سے وہ گھروندا اور تمام پھول پتے بکھر جاتے۔ بچپن میں گھروندے بکھرنے کے دکھ نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ گھر بنانا بہت مشکل کام ہے اور جب محنت و انتظار کے بعد گھر بن جائے تو اس کا بکھرنا بہت تکلیف دیتا ہے۔ جیسے وہ ریت کا گھروندا بکھرتا اور میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ جاتے۔
ہر گھر کی ایک الگ کہانی ایک الگ خوشبو ہوتی ہے۔ دہلیز پر قدم رکھتے ہی مخصوص خوشبوئیں آپ کا استقبال کرتی ہیں، مکینوں کا مزاج بھی گھروں کے ماحول سے جھلکنے لگتا ہے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ گھر میں کس طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ ان میں کتنی محبت و ربط باہمی ہے۔ جو در و دیوار و گھریلو اشیاء بے اختیار بول پڑیں گی۔
گھر مشکل سے بنتے ہیں، گھر بھی انسانیت سے اپنائیت کا احساس مانگتے ہیں، اس قبولیت کے جذبے سے ماحول سازگار بنتے ہیں، کیونکہ انسانوں کے درمیان ذہنی و روحانی موافقت نہ ہو تو گھر بھی بے چین و دکھی ہو جاتے ہیں۔ ہم ہمیشہ انسان کے جذبوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مگر اس دنیا میں موجود ہر شے اپنے ہونے کا احساس مانگتی ہے۔ وہ بھی توجہ و محبت کی متقاضی ہے۔ محبت دراصل آئینہ ہے جیسے عکس اور آئینہ الگ نہیں ہیں بالکل اسی طرح گھر اور مکین علیحدہ نہیں ہیں۔ گھر سے محبت نہ ہو تو وہ سرائے بن جاتے ہیں۔ وہ فقط مٹی، چونے، سیمنٹ سے ایستادہ مکان ہوتے ہیں۔
مکان کو گھر بننے میں بہت وقت لگتا ہے۔ خلوص، محبت، اپنائیت و یکجہتی سے گھروں کا تانا بانا بنا جاتا ہے۔ گھر کی دیواروں میں کئی خواب پروئے جاتے ہیں۔ جذبوں سے بھرپور دھڑکنوں کا آہنگ گونجتا ہے فضاؤں میں۔ تب کہیں جا کر مکان گھر بنتے ہیں۔ مگر انسانوں کی ترجیحات بدل جاتی ہیں وہ ذہنی تضادات میں الجھ کر گھر کو فراموش کر دیتے ہیں۔ گھر کی حقیقت جب ثانوی ہو جاتی ہے تو وہ مٹی بھی چیخ اٹھتی ہے، جس پر گھر شان سے سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے۔
مگر انسان ذات کے غرور کے بھنور میں مٹی کی پکار نہیں سن پاتا۔ جس معاشرے کے لوگ اپنے گھر سے محبت نہیں کرتے وہ نہ ختم ہونے والی افراتفری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ گھر ایک محفوظ پناہ گاہ ہے، جو انسان کو بارش، برف باری، طوفان اور سورج کے گرم تھپیڑوں سے بچاتی ہے۔ اسے شناخت عطا کرتی ہے۔ گھروں کی تمام تر رونقیں مکینوں کے دم سے ہیں۔ گھر مرد اور عورت مل کے بناتے ہیں۔ دونوں میں ذہنی و فکری طور پر تضاد پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فرق اتنا ہے جس قدر MARS اور VENUS کے درمیان ہے۔ مارس جنگوں کا دیوتا کہلاتا ہے۔ اختیار، اقتدار و حکمرانی کا دلدادہ ہے جب کہ وینس حسن، محبت و تخلیق کی دیوی کہلاتی ہے۔ مرد حاکمیت جتلاتا ہے اور عورت احساس کو بانٹتی ہے اور سچائی کی خواہشمند رہتی ہے۔
حاکمیت کہتی ہے جو زندگی کا سچ ہے اسے جھیلو خواب مت دیکھو، مگر حساسیت خواب دیکھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اسے خوابوں کی زمین میں اپنا حصہ چاہیے۔ یوں حاکمیت و حساسیت کا ٹکراؤ چلتا رہتا ہے۔ گھر محبت سے بنتا ہے جہاں انا و حاکمیت ہو وہاں محبت نہیں ملتی۔ اور جن گھروں میں محبت نہ ہو وہ گھر نہیں کہلاتے۔
انسان کے ذہن میں سو بلین نیورونز ہیں اور شہد کی مکھی کے پاس فقط ایک ملین نیورونز ہیں۔ جو اسے رنگ و آہنگ، سمت، مقصد، فیصلہ اور منصوبہ بندی سمجھاتے ہیں۔ اتنے کم نیورونز پا کر بھی وہ کس محبت سے گھر بناتی ہے۔ اور اس گھر کو مٹھاس سے سجا دیتی ہے۔ یہی حال پرندوں کا ہے۔ تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بناتے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے گھونسلے ان کی زندگی کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ سر شام ان کی خوشی قابل دید ہوتی ہے، ان کے پر گھونسلے کے سکون کو محسوس کر کے سرشاری سے اڑتے ہیں۔ اس پوری کائنات میں جانوروں سے لے کر پرندوں اور چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑوں تک سب کے سب انتھک محنت اور تندہی سے گھر بناتے ہیں۔
اس گھر سے محبت کرتے ہیں، مگر سو بلین نیورونز کا مالک انسان جس گھر کو محنت سے بناتا ہے، اسے ہی توڑنے پر تل جاتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ گھر پر فقط اسی کی حاکمیت و اجارہ داری ہو۔ فقط اسی کا حصہ ہو۔ یوں گھروں کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ مشترکہ کنبے کا نظام بھی یوں بکھرتا ہے۔ لیکن ایشیا کے وہ ملک جو Group Oriented Society (محبت سے تشکیل پانے والا سماج) کہلاتے ہیں وہ آج دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اتفاق کی طاقت نے انھیں مضبوط بنایا ہے۔ تعظیم نے انھیں عزت بخشی ہے۔
اذیت پرستی نے انسان کو چیزوں سے محبت کرنے کا ہنر عطا کیا ہے۔ وہ جتنی اشیا سے محبت کرنے لگا ہے اتنی ہی بے اطمینانی اس کے دل میں در آئی ہے۔ پھر اس تعیش پرستی کی وجہ سے گھر بکھرنے لگے۔ پھر لوگوں کو یکایک بڑے گھروں کا خبط سوار ہونے لگا ہے۔ متوسط طبقے کے لوگوں کی ساری زندگی گھر کے لیے پیسہ جوڑتے گزر جاتی ہے۔ کچھ لوگ پرانے گھر فروخت کر کے بڑا اور کشادہ گھر بنانے کی مصروفیت ڈھونڈ نکالتے ہیں اور خود تک کو بھول جاتے ہیں۔ ایک ایسے ہی شخص کے بارے میں سنا تھا، جس نے اچھی جاب کے باوجود تنگدستی میں گزارا کیا۔ ایک خوبصورت گھر بنانے کی دھن اس پر سوار تھی۔
میاں بیوی دونوں کی کمائی نہ بچوں کے کام آتی اور نہ ہی گھر کی سہولتوں پر صرف ہوتی۔ بچے فرمائشیں کرتے تو انھیں قرضوں کی فہرست گنوا دی جاتی اور وہ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے۔ پھر سالوں کی محنت رنگ لائی اور ایک پوش ایریے میں انھوں نے خوبصورت گھر بنا لیا۔ گھر کے بنتے ہی فالج نے انھیں آن گھیرا اور آج وہ محض ایک کمرے تک محدود ہیں۔ انھوں نے بچوں کی خواہشوں کو رد کیا اور آج وہی بچے انھیں نہیں پوچھتے۔
ایک اور خاتون بھی سالوں تک گھر بنانے کی دھن میں مبتلا تھیں۔ جس گھر میں رہتی تھیں وہ انھیں چھوٹا لگتا تھا، سالوں کے انتظار کے بعد ان کا گھر جب بن کے تیار ہوا تو وہ بھی کینسر جیسی موذی بیماری کا شکار ہو گئیں۔ انھیں اس گھر میں رہنا بھی نصیب نہ ہوا۔ بیٹیوں کی شادیاں ہو گئیں، بیٹے باہر چلے گئے۔ ان کے میاں اکیلے اس بڑے سے گھر میں رہتے ہیں۔ گھر تو لمحہ موجود کی کشش سے سنورتے ہیں۔ چھوٹا ہی گھر کیوں نہ ہو، وہاں سکون و محبتیں ہوں۔ ایک دوسرے کے لیے احساس ہو، رشتوں سے جڑی چھوٹی چھوٹی خوشیاں انسان کو زندہ اور متحرک رکھتی ہیں۔ مگر خواہشوں کے سامنے رشتے ناتے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ لمحہ موجود کہیں کھو جاتا ہے۔
یہ ''حال'' انسان کا قیمتی سرمایہ ہے۔ ماضی کا پیچھا کرنے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ مستقبل کے پٹے ہوئے لوگ بھی ناخوش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ کسی بڑی خوشی کی آس میں کھوئے رہتے ہیں۔
بہت سال پہلے کی بات ہے جب ہندوستان کے مسلمان اپنا الگ گھر پانے کے لیے بے چین تھے۔ ایک ہی آس، ایک ہی خواب ایک ہی لگن تھی کہ ایک گھر بنانا ہے۔ اس وقت زبان، رنگ ونسل سب یکجا تھے۔ اتفاق کے پرچم تلے سب متحد تھے۔ اجتماعی طاقت ان کے ساتھ تھی۔ جذبے کی سچائی نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ کئی جانوں کے نذرانے، آہوں، سسکیوں اور دعاؤں کی بازگشت میں مسلمانوں کا ایک الگ گھر بنا۔ اور جب گھر بن گیا تو مکین ہی بدل گئے! وہ دوبارہ تفریق کے خانے میں تقسیم ہو گئے۔ حاکمیت و اجارہ داری کی بات کرنے لگے۔ جس گھر کو محبت و عقیدت سے بنایا تھا اسے زبان، رنگ، نسل ومذہب کی بنیاد پر توڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ اپنی ہی سر زمین پر ظلم و جبر کی نئی تاریخ لکھنے لگے۔ مٹی چیختی رہی مگر وہ اپنی ہی زمین کے دکھ کو نہ سمجھ سکے۔ انسان جب خواب کی تعبیر پا لیتا ہے تو وہی خواب اس کے لیے کس قدر بے معنی ہو جاتا ہے۔ گھر سے توقعات پوری نہ ہوں تو انسان تصور میں ایک گھر بناتا ہے، جو اس کی مرضی اور پسند کے مطابق ہوتا ہے اور وہ تصوراتی گھر میں رہنا شروع کر دیتا ہے۔ جو لوگ زمین کی حدوں میں اپنا گھر نہیں بنا سکتے وہ گھر بنانے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ خواب جینے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ جس طرح ہوائیں پہاڑوں اور سمندروں سے راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھتی رہتی ہیں۔
ہر گھر کی ایک الگ کہانی ایک الگ خوشبو ہوتی ہے۔ دہلیز پر قدم رکھتے ہی مخصوص خوشبوئیں آپ کا استقبال کرتی ہیں، مکینوں کا مزاج بھی گھروں کے ماحول سے جھلکنے لگتا ہے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ گھر میں کس طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ ان میں کتنی محبت و ربط باہمی ہے۔ جو در و دیوار و گھریلو اشیاء بے اختیار بول پڑیں گی۔
گھر مشکل سے بنتے ہیں، گھر بھی انسانیت سے اپنائیت کا احساس مانگتے ہیں، اس قبولیت کے جذبے سے ماحول سازگار بنتے ہیں، کیونکہ انسانوں کے درمیان ذہنی و روحانی موافقت نہ ہو تو گھر بھی بے چین و دکھی ہو جاتے ہیں۔ ہم ہمیشہ انسان کے جذبوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مگر اس دنیا میں موجود ہر شے اپنے ہونے کا احساس مانگتی ہے۔ وہ بھی توجہ و محبت کی متقاضی ہے۔ محبت دراصل آئینہ ہے جیسے عکس اور آئینہ الگ نہیں ہیں بالکل اسی طرح گھر اور مکین علیحدہ نہیں ہیں۔ گھر سے محبت نہ ہو تو وہ سرائے بن جاتے ہیں۔ وہ فقط مٹی، چونے، سیمنٹ سے ایستادہ مکان ہوتے ہیں۔
مکان کو گھر بننے میں بہت وقت لگتا ہے۔ خلوص، محبت، اپنائیت و یکجہتی سے گھروں کا تانا بانا بنا جاتا ہے۔ گھر کی دیواروں میں کئی خواب پروئے جاتے ہیں۔ جذبوں سے بھرپور دھڑکنوں کا آہنگ گونجتا ہے فضاؤں میں۔ تب کہیں جا کر مکان گھر بنتے ہیں۔ مگر انسانوں کی ترجیحات بدل جاتی ہیں وہ ذہنی تضادات میں الجھ کر گھر کو فراموش کر دیتے ہیں۔ گھر کی حقیقت جب ثانوی ہو جاتی ہے تو وہ مٹی بھی چیخ اٹھتی ہے، جس پر گھر شان سے سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے۔
مگر انسان ذات کے غرور کے بھنور میں مٹی کی پکار نہیں سن پاتا۔ جس معاشرے کے لوگ اپنے گھر سے محبت نہیں کرتے وہ نہ ختم ہونے والی افراتفری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ گھر ایک محفوظ پناہ گاہ ہے، جو انسان کو بارش، برف باری، طوفان اور سورج کے گرم تھپیڑوں سے بچاتی ہے۔ اسے شناخت عطا کرتی ہے۔ گھروں کی تمام تر رونقیں مکینوں کے دم سے ہیں۔ گھر مرد اور عورت مل کے بناتے ہیں۔ دونوں میں ذہنی و فکری طور پر تضاد پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فرق اتنا ہے جس قدر MARS اور VENUS کے درمیان ہے۔ مارس جنگوں کا دیوتا کہلاتا ہے۔ اختیار، اقتدار و حکمرانی کا دلدادہ ہے جب کہ وینس حسن، محبت و تخلیق کی دیوی کہلاتی ہے۔ مرد حاکمیت جتلاتا ہے اور عورت احساس کو بانٹتی ہے اور سچائی کی خواہشمند رہتی ہے۔
حاکمیت کہتی ہے جو زندگی کا سچ ہے اسے جھیلو خواب مت دیکھو، مگر حساسیت خواب دیکھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اسے خوابوں کی زمین میں اپنا حصہ چاہیے۔ یوں حاکمیت و حساسیت کا ٹکراؤ چلتا رہتا ہے۔ گھر محبت سے بنتا ہے جہاں انا و حاکمیت ہو وہاں محبت نہیں ملتی۔ اور جن گھروں میں محبت نہ ہو وہ گھر نہیں کہلاتے۔
انسان کے ذہن میں سو بلین نیورونز ہیں اور شہد کی مکھی کے پاس فقط ایک ملین نیورونز ہیں۔ جو اسے رنگ و آہنگ، سمت، مقصد، فیصلہ اور منصوبہ بندی سمجھاتے ہیں۔ اتنے کم نیورونز پا کر بھی وہ کس محبت سے گھر بناتی ہے۔ اور اس گھر کو مٹھاس سے سجا دیتی ہے۔ یہی حال پرندوں کا ہے۔ تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بناتے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے گھونسلے ان کی زندگی کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ سر شام ان کی خوشی قابل دید ہوتی ہے، ان کے پر گھونسلے کے سکون کو محسوس کر کے سرشاری سے اڑتے ہیں۔ اس پوری کائنات میں جانوروں سے لے کر پرندوں اور چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑوں تک سب کے سب انتھک محنت اور تندہی سے گھر بناتے ہیں۔
اس گھر سے محبت کرتے ہیں، مگر سو بلین نیورونز کا مالک انسان جس گھر کو محنت سے بناتا ہے، اسے ہی توڑنے پر تل جاتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ گھر پر فقط اسی کی حاکمیت و اجارہ داری ہو۔ فقط اسی کا حصہ ہو۔ یوں گھروں کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ مشترکہ کنبے کا نظام بھی یوں بکھرتا ہے۔ لیکن ایشیا کے وہ ملک جو Group Oriented Society (محبت سے تشکیل پانے والا سماج) کہلاتے ہیں وہ آج دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اتفاق کی طاقت نے انھیں مضبوط بنایا ہے۔ تعظیم نے انھیں عزت بخشی ہے۔
اذیت پرستی نے انسان کو چیزوں سے محبت کرنے کا ہنر عطا کیا ہے۔ وہ جتنی اشیا سے محبت کرنے لگا ہے اتنی ہی بے اطمینانی اس کے دل میں در آئی ہے۔ پھر اس تعیش پرستی کی وجہ سے گھر بکھرنے لگے۔ پھر لوگوں کو یکایک بڑے گھروں کا خبط سوار ہونے لگا ہے۔ متوسط طبقے کے لوگوں کی ساری زندگی گھر کے لیے پیسہ جوڑتے گزر جاتی ہے۔ کچھ لوگ پرانے گھر فروخت کر کے بڑا اور کشادہ گھر بنانے کی مصروفیت ڈھونڈ نکالتے ہیں اور خود تک کو بھول جاتے ہیں۔ ایک ایسے ہی شخص کے بارے میں سنا تھا، جس نے اچھی جاب کے باوجود تنگدستی میں گزارا کیا۔ ایک خوبصورت گھر بنانے کی دھن اس پر سوار تھی۔
میاں بیوی دونوں کی کمائی نہ بچوں کے کام آتی اور نہ ہی گھر کی سہولتوں پر صرف ہوتی۔ بچے فرمائشیں کرتے تو انھیں قرضوں کی فہرست گنوا دی جاتی اور وہ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے۔ پھر سالوں کی محنت رنگ لائی اور ایک پوش ایریے میں انھوں نے خوبصورت گھر بنا لیا۔ گھر کے بنتے ہی فالج نے انھیں آن گھیرا اور آج وہ محض ایک کمرے تک محدود ہیں۔ انھوں نے بچوں کی خواہشوں کو رد کیا اور آج وہی بچے انھیں نہیں پوچھتے۔
ایک اور خاتون بھی سالوں تک گھر بنانے کی دھن میں مبتلا تھیں۔ جس گھر میں رہتی تھیں وہ انھیں چھوٹا لگتا تھا، سالوں کے انتظار کے بعد ان کا گھر جب بن کے تیار ہوا تو وہ بھی کینسر جیسی موذی بیماری کا شکار ہو گئیں۔ انھیں اس گھر میں رہنا بھی نصیب نہ ہوا۔ بیٹیوں کی شادیاں ہو گئیں، بیٹے باہر چلے گئے۔ ان کے میاں اکیلے اس بڑے سے گھر میں رہتے ہیں۔ گھر تو لمحہ موجود کی کشش سے سنورتے ہیں۔ چھوٹا ہی گھر کیوں نہ ہو، وہاں سکون و محبتیں ہوں۔ ایک دوسرے کے لیے احساس ہو، رشتوں سے جڑی چھوٹی چھوٹی خوشیاں انسان کو زندہ اور متحرک رکھتی ہیں۔ مگر خواہشوں کے سامنے رشتے ناتے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ لمحہ موجود کہیں کھو جاتا ہے۔
یہ ''حال'' انسان کا قیمتی سرمایہ ہے۔ ماضی کا پیچھا کرنے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ مستقبل کے پٹے ہوئے لوگ بھی ناخوش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ کسی بڑی خوشی کی آس میں کھوئے رہتے ہیں۔
بہت سال پہلے کی بات ہے جب ہندوستان کے مسلمان اپنا الگ گھر پانے کے لیے بے چین تھے۔ ایک ہی آس، ایک ہی خواب ایک ہی لگن تھی کہ ایک گھر بنانا ہے۔ اس وقت زبان، رنگ ونسل سب یکجا تھے۔ اتفاق کے پرچم تلے سب متحد تھے۔ اجتماعی طاقت ان کے ساتھ تھی۔ جذبے کی سچائی نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ کئی جانوں کے نذرانے، آہوں، سسکیوں اور دعاؤں کی بازگشت میں مسلمانوں کا ایک الگ گھر بنا۔ اور جب گھر بن گیا تو مکین ہی بدل گئے! وہ دوبارہ تفریق کے خانے میں تقسیم ہو گئے۔ حاکمیت و اجارہ داری کی بات کرنے لگے۔ جس گھر کو محبت و عقیدت سے بنایا تھا اسے زبان، رنگ، نسل ومذہب کی بنیاد پر توڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ اپنی ہی سر زمین پر ظلم و جبر کی نئی تاریخ لکھنے لگے۔ مٹی چیختی رہی مگر وہ اپنی ہی زمین کے دکھ کو نہ سمجھ سکے۔ انسان جب خواب کی تعبیر پا لیتا ہے تو وہی خواب اس کے لیے کس قدر بے معنی ہو جاتا ہے۔ گھر سے توقعات پوری نہ ہوں تو انسان تصور میں ایک گھر بناتا ہے، جو اس کی مرضی اور پسند کے مطابق ہوتا ہے اور وہ تصوراتی گھر میں رہنا شروع کر دیتا ہے۔ جو لوگ زمین کی حدوں میں اپنا گھر نہیں بنا سکتے وہ گھر بنانے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ خواب جینے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ جس طرح ہوائیں پہاڑوں اور سمندروں سے راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھتی رہتی ہیں۔