متوسط و غریب طبقہ کو ریلیف اور ٹیکس دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت
بائیس کروڑ افراد میں سے صرف ساڑھے 6 لاکھ افراد کا ٹیکس ادا کرنا آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 10 لاکھ لوگ ٹیکس نیٹ پر ہیں، ان میں سے بھی ساڑھے 6لاکھ ٹیکس ادا کررہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانا ضروری ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس چوری کی اس قدر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ ملکی نظام چلانے کے لیے ہمیں غیروں کے سامنے جھولی پھیلانا پڑتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں امرا سے ٹیکس وصول کرکے غربا پر خرچ کیا جاتا ہے۔
تعلیم، صحت، انفرااسٹرکچر اور سبسڈیز دے کر عوام کا معیار زندگی بہتر کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں عوام ایمانداری سے انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں جس بنا پر ان ملکوں کی حکومتوں کو کشکول اٹھا کر بھیک نہیں مانگنا پڑتی۔ اس تناظر میں فاضل جج کے یہ ریمارکس چشم کشا ہیں کہ ملک میں نہ ایکسپورٹس ہیں نہ امپورٹس ہیں، 6 ارب ڈالر مل گئے، ابھی ہم بھیک مانگنے آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں۔
خود فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق ڈیڑھ کروڑ افراد شاہانہ زندگی گزارنے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتے، ملک کی بائیس کروڑ آبادی میں سے صرف پندرہ لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں جن میں اکثریت کا تعلق تنخواہ دار طبقے سے ہے۔
یہ اعداد و شمار واقعی تشویشناک ہیں جب کہ صورتحال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے نئی اصلاحات اور ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کے لیے کم از کم 8 لاکھ سالانہ انکم والوں کو بھی ٹیکس کے دائرہ کار میں لے لیا ہے جس کے بعد متوسط طبقے کے کئی افراد بھی ٹیکس نیٹ میں آگئے ہیں، نیز حکومت کی جانب سے براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس ادا کرنے والوں میں غریب اور متوسط طبقہ پہلے ہی شامل ہے جب کہ امرا اور بالائی طبقہ کے وہ افراد جنھیں حقیقی معنوں میں ٹیکس ادا کرنا چاہیے وہ اس سے گریز کرتے ہیں، شہری علاقوں کے علاوہ بااثر زمیندار و جاگیردار، قبائلی علاقوں کے عمائدین اور اشرافیہ کے نمایندے ''داداگیری'' سے ٹیکس ادا نہیں کرتے یا برائے نام دیتے ہیں۔
بائیس کروڑ افراد میں سے صرف ساڑھے 6 لاکھ افراد کا ٹیکس ادا کرنا آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ حکومت ٹیکس وصولی کے حوالے سے قوانین سخت کرے اور بالائی طبقے کے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لائے تو ہم بیرونی قرضے بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سے بھی چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غریب و متوسط طبقے کو ریلیف فراہم کرکے ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ سیلز ٹیکس، جی ایس ٹی اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بھی کم کی جائے تاکہ غریب آدمی پر ٹیکس کا بوجھ نہ پڑے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانا ضروری ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس چوری کی اس قدر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ ملکی نظام چلانے کے لیے ہمیں غیروں کے سامنے جھولی پھیلانا پڑتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں امرا سے ٹیکس وصول کرکے غربا پر خرچ کیا جاتا ہے۔
تعلیم، صحت، انفرااسٹرکچر اور سبسڈیز دے کر عوام کا معیار زندگی بہتر کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں عوام ایمانداری سے انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں جس بنا پر ان ملکوں کی حکومتوں کو کشکول اٹھا کر بھیک نہیں مانگنا پڑتی۔ اس تناظر میں فاضل جج کے یہ ریمارکس چشم کشا ہیں کہ ملک میں نہ ایکسپورٹس ہیں نہ امپورٹس ہیں، 6 ارب ڈالر مل گئے، ابھی ہم بھیک مانگنے آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں۔
خود فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق ڈیڑھ کروڑ افراد شاہانہ زندگی گزارنے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتے، ملک کی بائیس کروڑ آبادی میں سے صرف پندرہ لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں جن میں اکثریت کا تعلق تنخواہ دار طبقے سے ہے۔
یہ اعداد و شمار واقعی تشویشناک ہیں جب کہ صورتحال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے نئی اصلاحات اور ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کے لیے کم از کم 8 لاکھ سالانہ انکم والوں کو بھی ٹیکس کے دائرہ کار میں لے لیا ہے جس کے بعد متوسط طبقے کے کئی افراد بھی ٹیکس نیٹ میں آگئے ہیں، نیز حکومت کی جانب سے براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس ادا کرنے والوں میں غریب اور متوسط طبقہ پہلے ہی شامل ہے جب کہ امرا اور بالائی طبقہ کے وہ افراد جنھیں حقیقی معنوں میں ٹیکس ادا کرنا چاہیے وہ اس سے گریز کرتے ہیں، شہری علاقوں کے علاوہ بااثر زمیندار و جاگیردار، قبائلی علاقوں کے عمائدین اور اشرافیہ کے نمایندے ''داداگیری'' سے ٹیکس ادا نہیں کرتے یا برائے نام دیتے ہیں۔
بائیس کروڑ افراد میں سے صرف ساڑھے 6 لاکھ افراد کا ٹیکس ادا کرنا آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ حکومت ٹیکس وصولی کے حوالے سے قوانین سخت کرے اور بالائی طبقے کے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لائے تو ہم بیرونی قرضے بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سے بھی چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غریب و متوسط طبقے کو ریلیف فراہم کرکے ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ سیلز ٹیکس، جی ایس ٹی اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بھی کم کی جائے تاکہ غریب آدمی پر ٹیکس کا بوجھ نہ پڑے۔