نیب کا مؤثر کردار ناگزیر کیوں 

اگر کسی کرپٹ شخص کو قانون کی گرفت سے نکلنے کا یقین ہو تو اسے اپنے کرتوت کیوں برے محسوس ہوں گے۔

لوٹ کے مال کو قانونی بنانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے والے بدعنوان لوگ قانون کو اس قدر حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اپنا ماضی چھپانے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ یہ طرز عمل خاص طور پر ان شہریوں کے اضطراب میں اضافہ کرتا ہے جو بڑی مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آج سماج کے اہم ترین طبقات میں جرائم پیشہ افراد کی بہتات ہے۔

سول سروس، بیوروکریسی اور دیگر اعلیٰ عہدوں سے ریٹائر ہونے والے دیانت دار افراد کے دل میں یہ حسرت تو پیدا ہوتی ہوگی کہ انھیں مال بنانے کا موقع ملا لیکن وہ اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ہم ان کی صورت میں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے یہ مثال چھوڑے جارہے ہیں کہ دیانت داری کی کوئی قدروقیمت نہیں۔

غیر قانونی دولت کے بل پر جرائم پیشہ افراد ، ''جمہوریت'' کے نقاب میں، ہر سطح پر وفاداریوں کی بے دریغ خریداری کے ذریعے ریاست پر گرفت جما چکے ہیں۔ 1920سے 1960 کی دہائیوں تک امریکا میں جوا، جسم فروشی، شراب فروشی، ناجائز اسلحہ، اسمگلنگ وغیرہ جیسے دھندے قانونی کاروبار کے ساتھ ساتھ فروغ پاتے رہے اور پھر ایف بی آئی ''منظم جرائم'' کے خلاف حرکت میں آئی۔

ان جرائم پیشہ افراد کی اگلی نسل اپنی پہچان بدل کر معاشرے کے ذمے دار طبقات میں سرائیت کرگئے اور حکومتی و ریاستی فیصلوں میں بھی شریک ہونے لگے۔ ایسے جرائم پیشہ خاندان جو انتہائی معزز سمجھے جانے والے کلب میں شامل ہیں اور انھیں معزز ترین شہری سمجھا جاتا ہے، وہ کارپوریٹ بورڈز کا حصہ ہیں، پاکستان میں بھی حالات اس سے مختلف نہیں۔

نیب میں غیر قانونی تقرریوں کے خلاف سو موٹو کی سماعت کرتے ہوئے ، مارچ 2017میں سپریم کورٹ نے نیب کے چار ڈائریکٹر جنرلز کو برطرف کیا۔ برطرفی کا سبب بیان کیا گیا کہ یہ افسران نیب میں تعیناتی کے وقت مطلوبہ تعلیمی قابلیت نہیں رکھتے تھے۔ ان میں سے تین افسران ایسے تھے جو رضاکارانہ طور پر اس ادارے میں نہیں آئے تھے بلکہ انھیں نیب میں خدمات پیش کرنے کے لیے مامور کیا گیا تھا۔ انھیں 2003ء میں نیب میں کام جاری رکھنے یا اپنے ادارے میں واپس جانے کا اختیار دیا گیا لیکن انھوں نے اپنے ادارے میں اپنا کیرئیر بشمول پنشن، ملنے والی علاج معالجے کی سہولت، ویلفیئر پالیسی کے تحت ریٹائرمنٹ پر مکان اور پلاٹ جیسی مراعات قربان کردیں ۔

ترقی کے امتحان میں یہ افسران''ملٹری لاء''کا امتحان پاس کرچکے تھے، اس امتحان میں کام یابی کے لیے مینول آف پاکستان ملٹری لاز کے ساتھ قانون شہادت، شواہد کے حصول اور ''کنڈکٹ آف انکوائری اینڈ انویسٹی گیشنز'' کا نظری اور عملی سطح پر علم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مری کے ''اسکول آف ملٹری انٹیلی جینس'' سے انٹیلی جینس کورس کرچکے تھے، جس میں ملزمان سے پوچھ گچھ، تفتیشی عمل، لکھائی کے فرانزک تجزئیے اور شواہد یا معلومات کے حصول، جائزے اور چھان بین سے متعلق عمیق معلومات اور عملی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی قابلیت اور نیب میں چار سالہ متعلقہ تجربے کی بنا پر انھیں نیب میں شامل کرلیا گیا جو میرٹ اور قانون کے عین مطابق تھا۔


قومی اسمبلی میں شہباز شریف اور آصف زرداری کو ساتھ ساتھ داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے ''جمہوری'' طور پر احتساب کے پنجرے سے نکلنے کے لیے ''دو پرندے ایک ساتھ پر پھڑ پھڑا رہے'' ہیں۔ حال ہی میں ''احتساب کی راہ میں رکاوٹیں'' کے عنوان سے شایع ہونے والے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا: احتساب کی گرفت سے بچ نکلنے کے لیے سیاسی قوتوں کی صف بندی پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ریکارڈ درست رکھنے کے لیے 2013سے اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

پنجاب جو اس وقت احتساب کا مرکز بنا ہوا ہے، اس کے بارے میں اعداد و شمار بتاتے ہیں؛ ڈی جی حسنین احمد(2013-2015)نے ایک سال میں اوسطاً 196معاملات کی تحقیقات کروائیں جب کہ اسی دورانیے میں برطرف ہونے والے افسر نے فی برس 210 معاملات کی تحقیقات کیں جن میں سے 208مقدمات ختم ہوئے۔ ان کے پیش رو ڈی جی شہزاد سلیم نے (2017 سے اب تک) اوسطاً200 تحقیقات کیں جن میں سے 198ختم ہوگئیں۔ حسنین نے فی برس 36ریفرینس دائر کیے جب کہ برھان نے 46ریفرینس دائر کیے جن میں سے 13پر فیصلے ہوئے، شہزاد نے 50ریفرینس دائر کیے جن میں سے ہر سال تقریبا 23پر فیصلہ ہوا۔

حسنین نے فی سال 125گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جن میں سے 69پر عمل درآمد ہوا، برھان نے 154وارنٹ گرفتاری کا اجرا کیا ان میں سے 121پر عمل ہوا۔ شہزاد نے 414 وارنٹ جاری کیے اور 170پر عمل درآمد کیا گیا۔ حسنین نے فی سال 1124ملین روپے ، برھان نے 675ملین روپے اور شہزاد نے 4140ملین اوسطاً فی برس بازیاب کروائے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ان افسران کاریکارڈ پنجاب میں نیب کی شاندار کارکردگی کا ثبوت ہیں۔''

وکی پیڈیا کے مطابق '' جب کوئی قانون کے ظاہر کے بجائے اس کی روح پر عمل درآمد کرتا ہے تو دراصل وہ قانون بنانے والے کے اصل مقصد پر عمل پیرا ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ اس کے لیے ظاہر الفاظ پر من و عن عمل کیا جائے۔'' اگر کسی ملزم کو قانون کی تکنیکی پیچیدگیوں اور الفاظ و اصطلاحات کی تعبیرو تشریخ کے گورکھ دھندے کا سہارا لینے کی اجازت دے دی جائے تو انصاف نہیں ہوسکے گا۔

بعض واضح مقدمے میں ہمارا عدالتی مؤقف حیران کردیتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون کی اپنی محدودات ہیں! اگر کسی کرپٹ شخص کو قانون کی گرفت سے نکلنے کا یقین ہو تو اسے اپنے کرتوت کیوں برے محسوس ہوں گے۔ اگر نیب کا مؤثر کردار یقینی نہیں بنایا گیا تو ، جرائم پیشہ افراد کو آئینی تحفظ دینے کے تناظر میں یہ ملک ''اچکوں کی جنت'' بن جائے گا اور یہی پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
Load Next Story