کیسے مسلمان ہیں ہم
ہمیں ایک سادہ سی بات جان لینا چاہیے کہ اس دنیا میں ہمارے خیر خواہوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
ایک دور تھا چند برس پہلے... اس میں ملک میں ہر شہری، عوام کا ہر فرد انسان سمجھا جاتا تھا۔ اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اسی طرح مل جل کر رہتے تھے جس طرح کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لوگ، بغیر کسی تفریق کے، سب کی خوشیاں اور غم سانجھے تھے، ایک کا دکھ سب کا دکھ ہوتا تھا اور ایک کی خوشی باقی سب کی خوشی۔
مل کر کھیل تماشے کرتے اور زندگی کا لطف اٹھاتے تھے، کیسر لال کی بیٹی کی شادی پر جوزف اور محمد دین اسی طرح بڑھ چڑھ کا کام کرتے تھے جس طرح بیٹیوں کے مامے چاچے کرتے تھے... کیونکہ اس بچی نے بچپن سے ہی انھیں ماما اور چاچا کہہ کر بلایا تھا، ان کی گودوں میں پل کر ان کی بیٹیوں کے ساتھ کھیل کر وہ ان ہی کی بیٹیوں کی طرح بابل کا گھر چھوڑ کر جا رہی تھی۔
کبیر احمد کی والدہ کا انتقال ہوا تو برادری کے لیے کھانے پکانے اور ماں کی آخری تقریبات کو بخوبی کرنے کو اس کی جیب میں کچھ نہ تھا مگر گردھاری لال اور امر سنگھ تھے نا جن کے پاس اتنی رقم تھی کہ وہ اپنے اس مسلمان بھائی کا سر نیچا نہ ہونے دیتے اور اس عہد کے ساتھ کہ کبھی توفیق ہوئی تو لوٹا دینا ورنہ مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں نا!!! یہ تو وہ باتیں ہیں جنھیں میںنے اپنے والد صاحب سے سنا کہ ان کی آنکھ دیکھی باتیں تھیں، ایک چھوٹے سے گاؤں میں بھی ہر کوئی اس طرح رہتا کہ کوئی اختلاف کسی کو نظر نہ آتا...
اگر ہوا بھی ہو گا تو اس کا تعلق مذہب یا فرقے سے ہرگز نہ تھا۔ تقسیم ہندوستان کے لیے فسادات کے دوران ہمارے گاؤں سے ہجرت کر کے ہندوستان جانے والے اپنی امانتیں ہمارے گاؤں کے سرکردہ افراد کے پاس رکھوا کر گئے تھے کہ ہنگامے سرد ہوئے تو وہ یہیں لوٹ کر آئیں گے جہاں کی مٹی سے ان کا خمیر اٹھا تھا... ایسا کبھی ہوا نہیں مگر اس سے ہجر و فراق کی ہزاروں داستانیں رقم ہوئیں ۔
پھر ہم نے اپنا بچپن بھی اسی طرح گزارا، کسی گھر میں پکنے والی کوئی بھی چیز ایسی نہ ہوتی تھی جسے صرف گھر والے ہی کھاتے ہوں ۔ اس میں سے حصہ الگ کردیا جاتا تھا، مسجد کے مولوی صاحب کے لیے ، عین کھانے کے وقت کسی گداگر کے صدا بلند کرنے کے خیال سے پیشگی، ارد گرد رہنے والی بیوہ عورتیں اور یتیم بچے، چند سفید پوش گھرانے جہاں ویسی غربت نہ سہی مگر گھر والے اپنی عزت کا بھرم رکھنے کے لیے کبھی کبھار بھوکے پیٹ ہی سو جاتے تھے۔ آدھا کلو گوشت بھی آلو ڈال کر پکا لیا جاتا اور گھر کے سات آٹھ افراد کے ساتھ ساتھ اتنے اور لوگوں کا نصیب بھی ایک گھر میں پکنے والی اس بابرکت ہانڈی میں ہوتا تھا۔اب چار لوگوں کے گھر میں کلو سوا کلو گوشت کا سالن ایک وقت بھی پورا نہیں پڑتا۔
ہم سب بفضل خدا مسلمان ہیں ... اس لیے کہ ہم مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوئے۔ ہمارے بزرگوں نے ان پڑھ ہونے کے باوجود مذہب کی روح کو سمجھا کیونکہ اس وقت مذہب کو سکھانے اور سمجھانے والوں کے ذاتی مفادات اور فرقہ بندیاں تھیں نہ رنگ برنگے پگڑ ان کی پہچان کی علامت۔ مسلمان ہونے کا مطلب صرف مسلمان تھا، بلکہ ایک ایسا صاف ستھرا، سچا، نیک نیت اور سچا انسان جو کسی کو نقصان پہنچانے کا نہیں سوچتا، وعدہ خلافی نہیں کرتا اور جھوٹ نہیں بولتا۔ دوسرے کے مذہب کا مذاق نہیں اڑاتا اور نہ ہی دوسرے کی نیت پر شک کرتا ہے، جو صحیح ہے اسے اختیار کرتا ہے اور جو غلط ہے اس سے اجتناب کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس میں مثتسنیات بھی تھیں مگر جو جھوٹا ، فساد پھیلانے والااور رشوت خور ہوتا ، اس سے سب قطع تعلق کر لیتے تھے۔ اس کے گھر کسی مجبوری سے جانا ہوتا تو اس کے گھر کا پانی بھی نہ پیتے تھے۔ کسی کے گھر اچانک دولت کی ریل پیل شروع ہو جاتی تو اس کے ذرائع آمدن مشکوک ہو جاتے تھے اور لوگ اس سے کنارا کر لیتے تا کہ اس کے گھر دولت آنے کے ذرائع اور ان کے اثرات باقی لوگوں کے بچوں پر بھی نہ پڑیں۔
مذہب اور سیاست عام محفلوں میں ممنوعہ موضوعات ہوتے تھے، کوئی کسی کے مذہب کا مذاق نہ اڑاتا تھا نہ کسی کے جذبات کو مجروح کرتا اور نہ ہی کسی سادہ سی بات کو لے کر اسے مذہبی رنگ دے کر باقیوںکے جذبات کو بھی برانگیختہ کرتا تھا۔ کوئی بڑا ہی ظالم شخص ہوتا تھا جو اپنی انا کی تسکین کے لیے اپنے سے کمتر لوگوں پر زندگی تنگ کرتا تھا، اپنے اختیارات کا کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتا تھا۔ کوئی کسی کے جان ، مال اور عزت پر بری نظر نہیں رکھتا تھا اور مذہب اور فرقے سے بالا تر ہو کر اپنی زندگیوں کو سادہ انداز سے گزارتے تھے۔جب سے ہمارے ملک کو کھیل کا وہ میدان سمجھ لیا گیا ہے جہاں سب لوگ کھیل سکتے ہیں، جو کھیل چاہے کھیلیں ، جس طرح کے قاعدے قانون چاہیں وہ مرتب کریں۔
ہم نے بیرونی قوتوںکو اپنی صفوں میں در آنے دیا ہے اور وہ اب ہمارے ملک کے وجود کی گہرائی میں اتر چکے ہیں، کینسر بن کر انھوں نے ہمیں کھوکھلا کردیا ہے۔ ہمارے ہی اندر سے انھوںنے ہمارے لیے وائرس بنائے ہیں، ہمارے اینٹی باڈیز بنائے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں وہ مذہب کے نام پر کچھ نہ کچھ ایسا ٹیکہ لگاتے ہیں کہ ہمارے اینٹی باڈی اپنا کام شروع کر دیتے ہیں ۔ مذہبی گروہوںکے لیڈروں کو وہ ملکی اداروں کے خلاف زہر آلودٹیکے لگاکر تصادم کی فضا پیدا کر دیتے ہیں اور ہمارے عوام تو ویسے ہی بے دماغ ہیں، انھیں صرف وہ سمجھ میں آتا ہے جو انھیں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دکھاتا ہے۔
ہمیں ایک سادہ سی بات جان لینا چاہیے کہ اس دنیا میں ہمارے خیر خواہوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ہم ایک ایسی چھوٹی سی مچھلی ہیں جو مگر مچھوں سے بھرے ہوئے سمندر میں رہ رہی ہے... جہاں پر کچھ بڑی مچھلیاں ہمارے ہی اندر سے ہمیں کھا کھا کر اتنی پھول گئی ہیں کہ وہ مگرمچھوں کی دوست بن گئی ہیں ۔ وہ رہتی ہمارے بیچ ہیں، کہلاتی بھی مچھلیاں ہی ہیں مگر ان کے ناطے مگرمچھوں کے ساتھ ہیں اور ان کے مفادات کے لیے کام کر کے ہی انھیں بقا ہے۔ ہم عوام انھیں اپنی صفوں میں دیکھتے ہیں، جان بھی لیتے ہیں مگر ان کے بارے میں کچھ کر نہیں سکتے کیونکہ ہم آپس میں مربوط ہیں نہ متحد۔
کوئی غریب رکشے والا خود کو آگ لگا کر بھسم کر لیتا ہے یا بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر تاروں کو چھو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے تو ہم حکومت کو گالیاں دینے لگتے ہیں اور اسے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ایک ہزار روپیہ جرمانہ کرنیوالے ٹریفک وارڈن کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ ٹریفک وارڈن اپنے فرائض کو نہ نبھائے تو وہ مجرم ٹھہرتا ہے... خود کشی کرنیوالے کے دماغ پر پہلے سے ہی اپنے مسائل کا بوجھ ہوتا ہے کہ وہ جرمانہ اس کے لیے آخری چوٹ ثابت ہوتا ہے جسے ادا کرنے کا وہ اہل نہیں ہوتا... ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارے ملک میں لوگ غربت سے تنگ آکر خودکشیاں کرتے ہیں؟ کیا ان کے کوئی اہل محلہ نہیں ہیں جنھیں علم ہو کہ کوئی غربت کی کس حد کو چھو رہا ہے؟
کیا انھیں ہماری زکوۃ میں سے کچھ حصہ نہیں مل سکتا کہ ان کے وہ مسائل حل ہو سکیں جن سے نجات کے لیے وہ اپنی جان لینے کی آخری حد سے بھی گزر جاتے ہیں؟ حکومت بالکل ذمے دار ہے... لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ ہم میں سے ٹیکس کون کون دیتا ہے؟ اس وقت ملک کو بیرونی اور اندرونی طاقتوں نے مل کر اکھاڑہ بنایا ہوا ہے، یہاں چند لوگوں کے ذاتی مفادات کی وجہ سے کبھی کچھ اور کبھی کچھ جواز بنا کر عام آدمی کی زندگی کو مشکل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
زندگی کا پہیہ جام کر دیا جاتا ہے یہ سوچے بنا کہ لوگوں کے خاندانوں میں اموات ہوتی ہیں جہاں انھیں پہنچنا ہوتا ہے اور نہیں پہنچ پاتے۔ لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں اورتکلیف میں مبتلا رہتے ہیں۔ مہینوں پہلے سے شادیاں پلان کی جاتی ہیں۔ بچوں کے بیرونی یونیورسٹیوں سے الحاق کے باعث امتحانات ہوتے ہیں۔ بیرون ملک کی پروازیں مس کرنے کے باعث کئی لوگ تاخیر کے باعث اپنی ملازمت سے ہاتھ کھو بیٹھتے ہیں۔
سڑکوں پر پھنسی ہوئی گاڑیوں کے بیچ ایمبولینسز بھی ہوتی ہیں جن کے سائرن چیختے رہتے ہیں اور ان میں مریض تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ دیہاڑی داروں نے کام کر کے ہر روز اپنے گھر کے لیے راشن بھی لانا ہوتا ہے ، ان کے گھروں کا چولہا ٹھنڈا رہتا ہے۔ اتنے لوگوںکی زندگیوں کو عذاب بنادیا جاتا ہے... آخر ان کا کیا قصور ہے؟ ان کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذمے دار کون ہے اور ان کا جواب اللہ کے سامنے دینے کے لیے کون کون تیار ہے؟
مل کر کھیل تماشے کرتے اور زندگی کا لطف اٹھاتے تھے، کیسر لال کی بیٹی کی شادی پر جوزف اور محمد دین اسی طرح بڑھ چڑھ کا کام کرتے تھے جس طرح بیٹیوں کے مامے چاچے کرتے تھے... کیونکہ اس بچی نے بچپن سے ہی انھیں ماما اور چاچا کہہ کر بلایا تھا، ان کی گودوں میں پل کر ان کی بیٹیوں کے ساتھ کھیل کر وہ ان ہی کی بیٹیوں کی طرح بابل کا گھر چھوڑ کر جا رہی تھی۔
کبیر احمد کی والدہ کا انتقال ہوا تو برادری کے لیے کھانے پکانے اور ماں کی آخری تقریبات کو بخوبی کرنے کو اس کی جیب میں کچھ نہ تھا مگر گردھاری لال اور امر سنگھ تھے نا جن کے پاس اتنی رقم تھی کہ وہ اپنے اس مسلمان بھائی کا سر نیچا نہ ہونے دیتے اور اس عہد کے ساتھ کہ کبھی توفیق ہوئی تو لوٹا دینا ورنہ مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں نا!!! یہ تو وہ باتیں ہیں جنھیں میںنے اپنے والد صاحب سے سنا کہ ان کی آنکھ دیکھی باتیں تھیں، ایک چھوٹے سے گاؤں میں بھی ہر کوئی اس طرح رہتا کہ کوئی اختلاف کسی کو نظر نہ آتا...
اگر ہوا بھی ہو گا تو اس کا تعلق مذہب یا فرقے سے ہرگز نہ تھا۔ تقسیم ہندوستان کے لیے فسادات کے دوران ہمارے گاؤں سے ہجرت کر کے ہندوستان جانے والے اپنی امانتیں ہمارے گاؤں کے سرکردہ افراد کے پاس رکھوا کر گئے تھے کہ ہنگامے سرد ہوئے تو وہ یہیں لوٹ کر آئیں گے جہاں کی مٹی سے ان کا خمیر اٹھا تھا... ایسا کبھی ہوا نہیں مگر اس سے ہجر و فراق کی ہزاروں داستانیں رقم ہوئیں ۔
پھر ہم نے اپنا بچپن بھی اسی طرح گزارا، کسی گھر میں پکنے والی کوئی بھی چیز ایسی نہ ہوتی تھی جسے صرف گھر والے ہی کھاتے ہوں ۔ اس میں سے حصہ الگ کردیا جاتا تھا، مسجد کے مولوی صاحب کے لیے ، عین کھانے کے وقت کسی گداگر کے صدا بلند کرنے کے خیال سے پیشگی، ارد گرد رہنے والی بیوہ عورتیں اور یتیم بچے، چند سفید پوش گھرانے جہاں ویسی غربت نہ سہی مگر گھر والے اپنی عزت کا بھرم رکھنے کے لیے کبھی کبھار بھوکے پیٹ ہی سو جاتے تھے۔ آدھا کلو گوشت بھی آلو ڈال کر پکا لیا جاتا اور گھر کے سات آٹھ افراد کے ساتھ ساتھ اتنے اور لوگوں کا نصیب بھی ایک گھر میں پکنے والی اس بابرکت ہانڈی میں ہوتا تھا۔اب چار لوگوں کے گھر میں کلو سوا کلو گوشت کا سالن ایک وقت بھی پورا نہیں پڑتا۔
ہم سب بفضل خدا مسلمان ہیں ... اس لیے کہ ہم مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوئے۔ ہمارے بزرگوں نے ان پڑھ ہونے کے باوجود مذہب کی روح کو سمجھا کیونکہ اس وقت مذہب کو سکھانے اور سمجھانے والوں کے ذاتی مفادات اور فرقہ بندیاں تھیں نہ رنگ برنگے پگڑ ان کی پہچان کی علامت۔ مسلمان ہونے کا مطلب صرف مسلمان تھا، بلکہ ایک ایسا صاف ستھرا، سچا، نیک نیت اور سچا انسان جو کسی کو نقصان پہنچانے کا نہیں سوچتا، وعدہ خلافی نہیں کرتا اور جھوٹ نہیں بولتا۔ دوسرے کے مذہب کا مذاق نہیں اڑاتا اور نہ ہی دوسرے کی نیت پر شک کرتا ہے، جو صحیح ہے اسے اختیار کرتا ہے اور جو غلط ہے اس سے اجتناب کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس میں مثتسنیات بھی تھیں مگر جو جھوٹا ، فساد پھیلانے والااور رشوت خور ہوتا ، اس سے سب قطع تعلق کر لیتے تھے۔ اس کے گھر کسی مجبوری سے جانا ہوتا تو اس کے گھر کا پانی بھی نہ پیتے تھے۔ کسی کے گھر اچانک دولت کی ریل پیل شروع ہو جاتی تو اس کے ذرائع آمدن مشکوک ہو جاتے تھے اور لوگ اس سے کنارا کر لیتے تا کہ اس کے گھر دولت آنے کے ذرائع اور ان کے اثرات باقی لوگوں کے بچوں پر بھی نہ پڑیں۔
مذہب اور سیاست عام محفلوں میں ممنوعہ موضوعات ہوتے تھے، کوئی کسی کے مذہب کا مذاق نہ اڑاتا تھا نہ کسی کے جذبات کو مجروح کرتا اور نہ ہی کسی سادہ سی بات کو لے کر اسے مذہبی رنگ دے کر باقیوںکے جذبات کو بھی برانگیختہ کرتا تھا۔ کوئی بڑا ہی ظالم شخص ہوتا تھا جو اپنی انا کی تسکین کے لیے اپنے سے کمتر لوگوں پر زندگی تنگ کرتا تھا، اپنے اختیارات کا کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتا تھا۔ کوئی کسی کے جان ، مال اور عزت پر بری نظر نہیں رکھتا تھا اور مذہب اور فرقے سے بالا تر ہو کر اپنی زندگیوں کو سادہ انداز سے گزارتے تھے۔جب سے ہمارے ملک کو کھیل کا وہ میدان سمجھ لیا گیا ہے جہاں سب لوگ کھیل سکتے ہیں، جو کھیل چاہے کھیلیں ، جس طرح کے قاعدے قانون چاہیں وہ مرتب کریں۔
ہم نے بیرونی قوتوںکو اپنی صفوں میں در آنے دیا ہے اور وہ اب ہمارے ملک کے وجود کی گہرائی میں اتر چکے ہیں، کینسر بن کر انھوں نے ہمیں کھوکھلا کردیا ہے۔ ہمارے ہی اندر سے انھوںنے ہمارے لیے وائرس بنائے ہیں، ہمارے اینٹی باڈیز بنائے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں وہ مذہب کے نام پر کچھ نہ کچھ ایسا ٹیکہ لگاتے ہیں کہ ہمارے اینٹی باڈی اپنا کام شروع کر دیتے ہیں ۔ مذہبی گروہوںکے لیڈروں کو وہ ملکی اداروں کے خلاف زہر آلودٹیکے لگاکر تصادم کی فضا پیدا کر دیتے ہیں اور ہمارے عوام تو ویسے ہی بے دماغ ہیں، انھیں صرف وہ سمجھ میں آتا ہے جو انھیں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دکھاتا ہے۔
ہمیں ایک سادہ سی بات جان لینا چاہیے کہ اس دنیا میں ہمارے خیر خواہوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ہم ایک ایسی چھوٹی سی مچھلی ہیں جو مگر مچھوں سے بھرے ہوئے سمندر میں رہ رہی ہے... جہاں پر کچھ بڑی مچھلیاں ہمارے ہی اندر سے ہمیں کھا کھا کر اتنی پھول گئی ہیں کہ وہ مگرمچھوں کی دوست بن گئی ہیں ۔ وہ رہتی ہمارے بیچ ہیں، کہلاتی بھی مچھلیاں ہی ہیں مگر ان کے ناطے مگرمچھوں کے ساتھ ہیں اور ان کے مفادات کے لیے کام کر کے ہی انھیں بقا ہے۔ ہم عوام انھیں اپنی صفوں میں دیکھتے ہیں، جان بھی لیتے ہیں مگر ان کے بارے میں کچھ کر نہیں سکتے کیونکہ ہم آپس میں مربوط ہیں نہ متحد۔
کوئی غریب رکشے والا خود کو آگ لگا کر بھسم کر لیتا ہے یا بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر تاروں کو چھو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے تو ہم حکومت کو گالیاں دینے لگتے ہیں اور اسے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ایک ہزار روپیہ جرمانہ کرنیوالے ٹریفک وارڈن کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ ٹریفک وارڈن اپنے فرائض کو نہ نبھائے تو وہ مجرم ٹھہرتا ہے... خود کشی کرنیوالے کے دماغ پر پہلے سے ہی اپنے مسائل کا بوجھ ہوتا ہے کہ وہ جرمانہ اس کے لیے آخری چوٹ ثابت ہوتا ہے جسے ادا کرنے کا وہ اہل نہیں ہوتا... ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارے ملک میں لوگ غربت سے تنگ آکر خودکشیاں کرتے ہیں؟ کیا ان کے کوئی اہل محلہ نہیں ہیں جنھیں علم ہو کہ کوئی غربت کی کس حد کو چھو رہا ہے؟
کیا انھیں ہماری زکوۃ میں سے کچھ حصہ نہیں مل سکتا کہ ان کے وہ مسائل حل ہو سکیں جن سے نجات کے لیے وہ اپنی جان لینے کی آخری حد سے بھی گزر جاتے ہیں؟ حکومت بالکل ذمے دار ہے... لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ ہم میں سے ٹیکس کون کون دیتا ہے؟ اس وقت ملک کو بیرونی اور اندرونی طاقتوں نے مل کر اکھاڑہ بنایا ہوا ہے، یہاں چند لوگوں کے ذاتی مفادات کی وجہ سے کبھی کچھ اور کبھی کچھ جواز بنا کر عام آدمی کی زندگی کو مشکل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
زندگی کا پہیہ جام کر دیا جاتا ہے یہ سوچے بنا کہ لوگوں کے خاندانوں میں اموات ہوتی ہیں جہاں انھیں پہنچنا ہوتا ہے اور نہیں پہنچ پاتے۔ لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں اورتکلیف میں مبتلا رہتے ہیں۔ مہینوں پہلے سے شادیاں پلان کی جاتی ہیں۔ بچوں کے بیرونی یونیورسٹیوں سے الحاق کے باعث امتحانات ہوتے ہیں۔ بیرون ملک کی پروازیں مس کرنے کے باعث کئی لوگ تاخیر کے باعث اپنی ملازمت سے ہاتھ کھو بیٹھتے ہیں۔
سڑکوں پر پھنسی ہوئی گاڑیوں کے بیچ ایمبولینسز بھی ہوتی ہیں جن کے سائرن چیختے رہتے ہیں اور ان میں مریض تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ دیہاڑی داروں نے کام کر کے ہر روز اپنے گھر کے لیے راشن بھی لانا ہوتا ہے ، ان کے گھروں کا چولہا ٹھنڈا رہتا ہے۔ اتنے لوگوںکی زندگیوں کو عذاب بنادیا جاتا ہے... آخر ان کا کیا قصور ہے؟ ان کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذمے دار کون ہے اور ان کا جواب اللہ کے سامنے دینے کے لیے کون کون تیار ہے؟