جمال خشوگی کا قتل آزادی اظہار کا قتل

بد قسمتی سے عرب مسلم ممالک کے حکمران اختلاف برداشت نہیں کرتے اور آزادی اظہارکا تصور ان کے لیے اجنبی ہے۔

ayazbabar@gmail.com

سعودی انٹیلی جنس کو جمال خشوگی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے کی چار دیواری کے اندر قتل کرنے کے بجائے روس اور بعض دوسرے ملکوں سے کچھ سیکھنا چاہیے تھا ۔ ان ملکوں نے جب ناپسندیدہ صحافیوں کو راستے سے ہٹانا چاہا تو پیچھے کوئی پکا نشان نہیں چھوڑا، حالانکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی طرف سے ان ملکوں کے خفیہ اداروں کی طرف انگلی اٹھائی گئی، مگر خشوگی کو ٹھکانے لگانے کے بھونڈے سعودی طریقوں کے برعکس ان ملکوں کے خفیہ اداروں کے خلاف کچھ بھی ٹھوس طریقے سے ثابت نہیں کیا جاسکا ۔

خشوگی کے قتل پر پوری دنیا میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، مگر بہت سے لوگوں نے ان کے وہ کالم نہیں پڑھے ہوں گے، جن میں انھوں نے سعودی شاہی خاندان کو تنقیدکا نشانہ بنایا تھا ۔ یہاں ان کے بعض کالموں کا حوالہ دینا مناسب ہوگا۔

خشوگی نے یمن کے خلاف سعودی جنگ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ '' یمن میں یہ وحشیانہ جنگ جتنی طویل ہوگی اتنا ہی زیادہ مستقل نقصان ہوگا، اگر یہ جنگ بند ہوجائے تو یمن کے عوام غربت ، بیماری اورپانی کی قلت کے خلاف لڑسکیں گے اور اپنے ملک کی تعمیر نوکریں گے۔ ولی عہد ( محمد بن سلمان)کو یہ جنگ ختم کرنی چاہیے۔''

انھوں نے اس سال ستمبر میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں جس کا عنوان تھا ''سعودی عرب کے ولی عہد کو یمن کی وحشیانہ جنگ بندکرکے اپنے ملک کا وقاربحال کرنا چاہیے'' میں لکھا کہ '' سعودی عرب کو یمن میں پچھلے تین سال سے زیادہ عرصے سے جاری لڑائی کے نقصان کا سامنا کرنا چاہیے ۔ اس لڑائی نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کوکشیدہ کردیا ہے، علاقائی سلامتی کی حرکیات کو متاثرکیا ہے اور عالم اسلام میں اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے، اگر سعودی عرب ، بیک وقت ایران کو یمن سے باہر رکھنے اور جنگ کو اپنے حق میں موافق شرائط پر ختم کرنے کی غیر معمولی پوزیشن لیتے ہوئے اپنا کردار جنگ پسند سے امن پسند میں تبدیل کرے تووہ اپنے اثر و رسوخ اور اہم حیثیت کو مغربی حلقوں میں استعمال کرسکتا ہے اور بین الاقوامی اداروں کواس تنازع کو حل کرنے کے لیے بااختیار بنا سکتا ہے، مگر اس تنازع کو حل کرنے کے راستے تیزی سے بند ہورہے ہیں۔''

انھوں نے یمن کی جنگ کے مالی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ

'' حوثی فوج کی طرف سے فائرکیا جانے والا ہر میزائل ملک کے لیے سیاسی اور مالی دونوں لحاظ سے بوجھ کا باعث ہے۔ حوثیوں کو سپلائی کیے جانے والے ایرانی میزائل کی لاگت کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اندازے سے کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی میزائل 3 ملین ڈالر کے پیٹریاٹ میزائل کا مقابلہ نہیں کرتا ۔''

یمن کے تنازع سے منسلک غیرمتوقع اخراجات کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب بین الاقوامی مارکیٹس میں زیادہ ادھارکر رہا ہے اورواضح طور پر یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ فنڈزکس مقصد کے لیے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے بین الاقوامی بینکوں سے 11 بلین ڈالرکے قرضے لیے ہیں ۔

خشوگی نے نومبر،2017ء میں ، سعودی حکومت کی طرف سے بڑی کاروباری شخصیات کی گرفتاری سے ایک دن قبل واشنگٹن پوسٹ کے لیے اپنے آرٹیکل میں جس کا عنوان تھا '' سعودی عرب کے ولی عہد پیوٹن کی طرح کام کر رہے ہیں'' لکھا کہ

'' سعودی شاہی خاندان کے افراد خود کو پارٹی سمجھتے ہیں ، اپنی مرضی سے اس انداز میں اختیارات اور احکامات دیتے ہیں جو بڑی حد تک ناقابل فہم ہے۔ہفتے کی"Night of the Long Knives" (30 جون،1934ء کو ہٹلرکی طرف سے نازی لیڈروں کی تطہیر)کے بعد جو چیز قطعی واضح ہے، وہ یہ ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان روایتی طریقہ کارکو ختم کر رہے ہیں اور تمام اختیارات کو ولی عہد کی حیثیت سے اپنی پوزیشن میں مرتکزکر رہے ہیں ۔ یہ تطہیر محمد بن سلمان کی اصلاحات کے بارے میں معمولی سی تنقید بھی قطعاً برداشت نہ کرنے کے ساتھ شروع ہوئی ہے۔''

اپنے ملک میں کرپشن کا ذکرکرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ


''سعودی عرب میں کرپشن بیشتر دوسرے ملکوں کی کرپشن سے بالکل مختلف ہے۔''

لارنس رائٹ نے2004ء میں نیویارکر میں لکھا کہ

''جو ٹھیکے دیے جاتے ہیں، ان میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی ہوتی ہے یا پھر وہ مکمل سراب ہوتے ہیں ۔''

محمد بن سلمان نے پچھلے سال بلوم برگ کو ایک انٹرویوکے دوران انکشاف کیا کہ

'' ایک عام اندازے کے مطابق ہر سال 80 سے100 بلین ڈالرکے درمیان کے بے مقصد اخراجات ہوتے ہیں۔''

لارنس رائٹ نے سوال کیا کہ'' کیا 32 سالہ ولی عہد روس کے میخائل گورباچوف یا ولادیمیر پیوٹن کی طرح کام کرتے ہیں ؟کیا وہ واقعی پورے نظام کی اصلاح کررہے ہیں؟ یا وہ تمام تر اختیارات کو مزید اپنے ہاتھوں میں مرتکزکرنے کے لیے ممتازشخصیات پر قابو پا رہے ہیں؟

جمال خشوگی لکھتے ہیں کہ

'' چنانچہ میں بدعنوانی ختم کرنے کے لیے چلائی جانے والی مہم کی تعریف کرتے ہوئے سعودی میڈیا پر زور دیتا ہوں کہ وہ کرپشن کے معاملات سامنے آنے کے ساتھ ان کی غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کی حوصلہ افزائی میں فعال کردار ادا کرے۔ ہم سعودی عوام رٹزکارلٹن ہوٹل میں شاہی خاندان کے افراد اور سرکاری حکام کو دیکھنے سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں ، ہمیں اہم اور اثر انداز ہونے والی تبدیلیوں اور اس سے کہیں زیادہ ہمارے ملک کے بارے میں ولی عہد کے ویژن کے بارے میں بولنے کا حق حاصل ہونا چاہیے، اب ہم ایک گونگی بہری سلطنت نہیں ہیں۔''

ان کا خیال تھا کہ اس بات کو تسلیم کیے بغیرکہ سیاسی اسلام عرب معاشرے کا جزو ہے،کسی بھی عرب ملک میں کوئی سیاسی اصلاح یا جمہوریت ممکن نہیں ہے۔انھیں اخوان المسلمین سے ہمدردی تھی اور انھوں نے تجویز پیش کی تھی کہ سعودی عرب کو وہابی ازم کا احیا کرنا چاہیے اور اخوان المسلمین کے ساتھ قریبی تعلق استوارکرنا چاہیے۔ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کو ختم کرنے کے بارے میں یہ سعودی عرب کی پالیسی کے خلاف تھا ۔

بد قسمتی سے عرب مسلم ممالک کے حکمران اختلاف برداشت نہیں کرتے اور آزادی اظہارکا تصور ان کے لیے اجنبی ہے۔ خشوگی کا بہیمانہ قتل ، اس مینوفیکچرنگ نقص کی ایک واضح مثال ہے۔
Load Next Story