امن اور دوستی کو عام کرنے کیلیے اپنے کلچر کو پیش کرنا چاہیے سارہ لورین
ہمارے ہاں کردار کی ڈیمانڈ کوپورا کرنے میں کوتاہی برتی جاتی ہے، اداکارہ
اداکارہ وماڈل سارہ لورین نے کہا ہے کہ ہمارے چاروں صوبے اپنی رسم و رواج، موسیقی، بولیوں اور ملبوسات کی وجہ سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں تاہم جب ہم اپنے ملک یا دنیا کے کسی بھی خطے کی کہانی کو اپنی فلم یا ڈرامے میں پیش کرتے ہیں تو ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اس کے مطابق وہی کلچر بھی دکھائیں۔
سارہ لورین نے ''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ مغربی ہوں یا مشرقی ممالک ان کے ملبوسات میں فرق نمایاں ہے لیکن ان کی اپنی اپنی خوبصورتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم فلموںاورڈراموں میں کسی بھی ملک یا قوم کی عکاسی کرتے ڈریس دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن پاکستان فلم انڈسٹری میں اس پرکبھی توجہ نہیں دی گئی۔
اداکارہ نے کہا کہ ہمارے ہاں کردار کی ڈیمانڈ کوپورا کرنے میں تھوڑی سی کوتاہی برتی جاتی رہی ہے۔ حالانکہ دنیا بھرمیں بننے والی فلموں میں ڈریس ڈیزائنرکا کام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مگربدقسمتی سے ہمارے ہاں اس شعبے پرتوجہ ہی نہیں دی جاتی۔ یہاں پرلوگوں کا ایسا مائنڈ سیٹ ہوچکا ہے کہ اس شعبے کی بہتری کے آثاربہت کم دکھائی دیتے ہیں۔
سارہ لورین کا کہنا تھا کہ اگرہم اپنے پڑوسی ملک بھارت کی فلم انڈسٹری بالی وڈ میں بننے والی فلموں اوران کے کرداروں کو دیکھیں توہمیں ان کے لباس سے مختلف علاقوں کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ وہاں پرفلم کا اسکرپٹ تیارہونے کے بعد ڈائریکٹر، رائٹراورڈریس ڈیزائنرمل کرباقاعدہ میٹنگز کرتے ہیں اورپھر ان کرداروں کے حوالے سے تحقیق کی جاتی ہے، لوکیشنز دیکھی جاتی ہیں اورپھر کہیں جاکر ڈریس تیارکئے جاتے ہیں۔یہ باقاعدہ ایک اہم شعبہ ہے جس کوہمیشہ پاکستان فلم انڈسٹری میں نظراندازکیا گیا ہے۔
اداکارہ کے مطابق ایسی صورتحال میں جہاں پاکستان میں نیا سینما اورفلمسازی کا انداززورپکڑرہا ہے، وہیں فیشن کے شعبے کی خدمات حاصل کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، اس پر توجہ دی جائے تو شائقین مزید انٹرٹین ہونگے اوردنیا بھر میں سافٹ امیج بھی جائے گا۔
سارہ لورین نے ''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ مغربی ہوں یا مشرقی ممالک ان کے ملبوسات میں فرق نمایاں ہے لیکن ان کی اپنی اپنی خوبصورتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم فلموںاورڈراموں میں کسی بھی ملک یا قوم کی عکاسی کرتے ڈریس دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن پاکستان فلم انڈسٹری میں اس پرکبھی توجہ نہیں دی گئی۔
اداکارہ نے کہا کہ ہمارے ہاں کردار کی ڈیمانڈ کوپورا کرنے میں تھوڑی سی کوتاہی برتی جاتی رہی ہے۔ حالانکہ دنیا بھرمیں بننے والی فلموں میں ڈریس ڈیزائنرکا کام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مگربدقسمتی سے ہمارے ہاں اس شعبے پرتوجہ ہی نہیں دی جاتی۔ یہاں پرلوگوں کا ایسا مائنڈ سیٹ ہوچکا ہے کہ اس شعبے کی بہتری کے آثاربہت کم دکھائی دیتے ہیں۔
سارہ لورین کا کہنا تھا کہ اگرہم اپنے پڑوسی ملک بھارت کی فلم انڈسٹری بالی وڈ میں بننے والی فلموں اوران کے کرداروں کو دیکھیں توہمیں ان کے لباس سے مختلف علاقوں کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ وہاں پرفلم کا اسکرپٹ تیارہونے کے بعد ڈائریکٹر، رائٹراورڈریس ڈیزائنرمل کرباقاعدہ میٹنگز کرتے ہیں اورپھر ان کرداروں کے حوالے سے تحقیق کی جاتی ہے، لوکیشنز دیکھی جاتی ہیں اورپھر کہیں جاکر ڈریس تیارکئے جاتے ہیں۔یہ باقاعدہ ایک اہم شعبہ ہے جس کوہمیشہ پاکستان فلم انڈسٹری میں نظراندازکیا گیا ہے۔
اداکارہ کے مطابق ایسی صورتحال میں جہاں پاکستان میں نیا سینما اورفلمسازی کا انداززورپکڑرہا ہے، وہیں فیشن کے شعبے کی خدمات حاصل کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، اس پر توجہ دی جائے تو شائقین مزید انٹرٹین ہونگے اوردنیا بھر میں سافٹ امیج بھی جائے گا۔