ٹی ٹوئنٹی کرکٹ عالمی نمبر ون پاکستان نے دھاک بٹھادی

کیویز کے خلاف ون ڈے سیریز میں بھی فتح کی امیدیں روشن

کیویز کے خلاف ون ڈے سیریز میں بھی فتح کی امیدیں روشن۔ فوٹو: اے ایف پی

عمران خان کے نئے پاکستان میں تبدیلی کی امید کی جا رہی تھی، عوام کو یقین تھا کہ 71سال کے طویل عرصے کے بعد ان کے حالات بھی ضرور بدلیں گے، ان کو روزگار کے مواقع ملیں گے، غربت اور مہنگائی میں کمی آئے گی لیکن گزشتہ 2 ماہ میں کچھ بھی تو نہیں بدلا، ماضی کی طرح اب بھی وہی ہنگامے، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ، کرپشن اور لوٹ مار کی بھرمار، طاقتور کی کمزور پر دھونس دھاندلی، مہنگائی کا بے قابو ہوتا جن، اور تو اور پستیوں اور ناکامیوں میں گھری ہمارے کھیلوں کے حالات بھی جوں کے توں ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اس شعبے میں بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے۔

مایوسیوں اور ناکامیوں کے اس دور میں بھی اگر کوئی پاکستانی عوام کو مسلسل خوشخبری دے رہی ہے تو وہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم ہے، وہ ٹیم جو دیار غیر میں مسلسل فتوحات سمیٹ کر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ریکارڈ پر ریکارڈ بنارہی ہے۔

جمعہ کی رات دبئی میں پاکستانی شاہینوں نے نیوزی لینڈ کو دوسرے میچ میں بھی زیر کرکے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں مسلسل گیارہویں سیریز جیتنے کا منفرد کارنامہ سرانجام دیا ہے، عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر قابض گرین شرٹس کا کینگروز کے بعد کیویز کے خلاف بھی سیریز اپنے نام کرنا کوئی معمولی بات نہیں، قومی ٹیم کی اس کارکردگی کی جتنی بھی تعریف کی جائے، وہ کم ہے، یقینی طور پر ان بڑی کامیابیوں کا سہرا پاکستانی ٹیم بالخصوص کپتان سرفراز احمد کو جاتا ہے۔

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے بعد پاکستان کو نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کا چیلنج درپیش ہے، متحدہ عرب امارات میں ہی3میچوں پر مشتمل 7 نومبر سے شروع ہونے والی اس سیریز کے لیے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان بھی کیا جا چکا، اگرغور کیا جائے تو ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹیکرکٹ میں بہت فرق ہوتا ہے، مختصر فارمیٹ میں چھوٹے چھوٹے اہداف کی گیم ہوتی ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ بسا اوقات ایک اچھا اوور، ایک اچھا تھرو یا ایک بروقت شاٹ ہی میچ کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں۔

کپتان سرفراز احمد کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس طرز کی کرکٹ میں ان کے پاس دنیا کا بہترین بولنگ اٹیک موجود ہے، ٹیم کو ایک لیفٹ آرم سپنر، ایک بہترین لیگ سپنر، دو پارٹ ٹائم آف سپنر، دو رائٹ آرم پیسر اور ایک لیفٹ آرم پیسر کی خدمات میسر ہیں تاہم ایک روزہ کرکٹ کی ضروریات اور ہوتی ہیں، کھلاڑیوں کو صرف مار دھاڑ کرنے کی بجائے کریز پر جم کر کھیلنا بھی پڑتا ہے، پاکستان کے لیے نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ سیریز کی اہمیت اس لحاظ سے بھی بہت زیادہ اس لئے بھی ہے کہ گرین شرٹس کے پاس ون ڈے رینکنگ میں اپنی بہتری پانے کا سنہری موقع ہے۔

آئی سی سی ون ڈے سیریز میںآنے والے دنوں میںآسٹریلیا، جنوبی افریقہ، پاکستان اور نیوزی لینڈ کی پوزیشنز میں تبدیلی ہوسکتی ہے، ایک روزہ سیریز سے قبل خوشخبری یہ بھی ہے کہ فٹنس مسائل سے چھٹکارہ پانے کے بعد اوپنر امام الحق مکمل طور پر فٹ ہو گئے ہیں اور انہوں نے قائداعظم ون ڈے کپ میں ایچ بی ایل کی نمائندگی کرتے ہوئے پی ٹی وی کے خلاف85 رنز کی عمدہ اننگز کھیل کر اپنی فٹنس اور فارم ثابت کر دی ہے۔

ون ڈے رینکنگ کی آل راؤنڈر کیٹگری کی ٹاپ 5کھلاڑیوں میں جگہ بنانے والے واحد پاکستانی کرکٹر محمد حفیظ نے بھی کینگروز کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کم بیک کیا، عمدہ کارکردگی کے بعد ٹی ٹوئنٹی میں بھی فتح گر اننگز کھیلیں، اب ون ڈے سیریز میں بھی ایکشن میں نظر آئیں گے۔


کیویز کے خلاف اوپنرز کی ذمہ دارانہ بیٹنگ اور بولرز کی غیر معمولی کارکردگی گرین شرٹس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گی، ایک روزہ سیریز میں آصف علی، شاہین آفریدی، عثمان شنواری سمیت بعض دوسرے کھلاڑی بھی حتمی سکواڈ کا حصہ بننے میں کامیاب ہوئے ہیں،اب یہ ان کھلاڑیوں پر منحصر ہے کہ وہ اس سنہری موقع سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ پر ''آ بیل مجھے مار'' کی کہاوت صادق آتی ہے، جب سب کچھ ٹھیک چل رہا ہو، قومی ٹیم آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی مضبوط ٹیموں کے خلاف بھی فتح وکامرانیوں کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہو، امام الحق، محمد عباس، فخر زمان اور حسن علی سمیت متعدد نوجوان کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کے بعد قومی ٹیم کا حصہ بن کر انٹرنیشنل مقابلوں میں بھی غیر معمولی کھیل پیش کر کے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہوں تو ایسے میں داغدار اور پہلے سے آزمائے ہوئے ٹیسٹ کرکٹرز پر مشتمل کرکٹ کمیٹی بنانے کی آخر کیا ضرورت تھی؟

اور کرکٹ کمیٹی کا سربراہ بھی اس ٹیسٹ کرکٹر کو بنا دیا جو گزشتہ 4برس سے ببانگ دہل اعلان کر رہا تھا کہ وہ داغدار کرکٹرز کے ہوتے ہوئے بورڈ میں کام نہیں کر سکتا، اب چیئرمین پی سی بی احسان مانی اور چیف آپریٹنگ آفیسر نے ایک ہی میٹنگ میں نہ جانے کون سی جادو کی چھڑی گھمادی کہ 4سال کے الزامات ایک دم ہی دھل گئے، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر جسٹس قیوم کمیشن رپورٹ نامکمل ہی تھی تو سابق کپتان سلیم اور فاسٹ بولر عطاء الرحمن کے کیریئر کے ساتھ کیوں کھلواڑ کیا گیا،آغاز میں ہی ان کرکٹرز کو بھی کیوں نہ کلین چٹ دے دی گئی؟

کرکٹ کمیٹی کے چیئرمین محسن خان کے 2 اور کارنامے ان دنوں زبان زدوعام پر ہیں، سابق اوپنر نے اپنے ایک انٹرویو میں قومی ٹیم کے چیف کوچ مکی آرتھر کو بے وقوف گدھا تک کہہ دیا تھا، شنیدہے کہ غیر ملکی قومی کوچ نے پی سی بی حکام پر واضح کر رکھا ہے کہ وہ اس وقت تک محسن خان کے ساتھ میٹنگ میں نہیں بیٹھیں گے جبکہ تک وہ ان سے معافی نہیں مانگیں گے۔

ابھی ان تنازعات کی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ محسن خان نے چیئرمین کمیٹی کا عہدہ سنبھالتے ہی ایک اور ایسا بیان داغ دیا جس سے کرکٹ حلقوں میں بھونچال آگیا، سابق اوپنر نے رائے دے دی کہ سرفراز احمد کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایک ایسے کھلاڑی کو کپتانی سے ہٹائے جانے کی بات ہو رہی ہے جس کی قیادت میں گرین کیپس نے حال ہی میں یو اے ای میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز اپنے نام کی ہے اور وہ کھلاڑی جو پوری ٹیم ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہے، اس کو طویل طرز کی کرکٹ میں قومی ٹیم کی کپتانی سے علیحدہ ہونے کا مشورہ دیا جا رہا ہے،اگر حقیقت میں اس تجویز پر عمل درآمد ہو گیا توغور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا ٹیم میں اس وقت کوئی ایسا کھلاڑی بھی موجود ہے جو طویل طرز کی کرکٹ میں سرفراز احمد کی جگہ بھی لے سکے۔

کرکٹ کی دنیا میں ایک بات بڑی مشہور ہے کہ کسی میچ کی فاتح ٹیم میں اگلے مقابلے کے لیے چھیڑخوانی نہیں کی جاتی اور زیادہ تر پہلی والی ٹیم کو ہی میدان میں اتارا جاتا ہے، ادھر تو کھلاڑیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں بلکہ فاتح ٹیم کے کپتان کو ہٹانے کے مشورے دیئے جا رہے ہیں۔
Load Next Story