خزاں پرستوں نے وار کرکے شجر وفا کا گرا دیا ہے

پاکستان کو عدم استحکام کا شکار رکھنے کے لیے ملک دشمنوں نے ایک اور ہدف حاصل کرلیا۔

پاکستان کو عدم استحکام کا شکار رکھنے کے لیے ملک دشمنوں نے ایک اور ہدف حاصل کرلیا۔ فوٹو : فائل

پہاڑ جیسا مضبوط شخص، اصولوں پرکبھی لچک نہ دکھانے والا،اس معاملے میں اپنوں کو بھی خاطر میں نہ لانے والا لیکن بعض جبہ و دستار والوں سے بالکل مختلف، شہرت، اثرورسوخ اس کی شخصیت میں ہلکی سی اکڑفوں پیدا نہ کرسکی، اس قدر سادگی پسند کہ گزشتہ جمعۃ المبارک اپنے گھر میں تن تنہا موجود تھے، نہ کوئی محافظ نہ کوئی مددگار انسان، ایسے میںقاتل گھر کی دیواریں پھلانگ کر داخل ہوئے، خنجروں کے پے درپے وار کرکے اکاسی سالہ بزرگ کو شہید کرڈالا اور پھر ازحد آرام وسکون سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

مولانا سمیع الحق کے پوتے عبدالحق نے بتایا کہ وہ راولپنڈی میں اپنے مکان میں اکیلے تھے جب نامعلوم شخص نے انھیں چھریوں سے وار کر کے ہلاک کردیا۔ یقیناً مولانا ایک سادہ شخصیت تھے، انھیں سادگی پسند ہی ہوناچاہئے تھا لیکن ان کی جماعت کے لوگوں کو اتنا سادہ لوح نہیں ہوناچاہئے تھا کہ انھوں نے اپنے قائد کو گھر میں چھوڑ دیا، کسی ایک کو بھی ان کی دیکھ بھال پر مامور نہ رکھا۔

کہتے ہیں کہ ان کا محافظ اور ڈرائیور دونوں کسی کام کی غرض سے باہر نکل گئے تھے۔ ایک ایسی شخصیت کی حفاظت میں غفلت جس کے دینی مدرسے'دارالعلوم حقانیہ' سے افغانستان کے ہزاروں طالبان نے تعلیم حاصل کی، بڑی تعداد میں افغان مجاہدین نے اسی کی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ 'حقانی' کا لاحقہ لگایا۔

افغان طالبان کے امیر خان متقی، مولوی احمد جان اور ملا خیر اللہ خیرخواہ جیسے لوگ بھی اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے۔ حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی جن کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوا، بھی وہ یہیں سے متاثر ہوکر نکلے تھے۔ اسی تناظر میں ایک حلقہ مولانا سمیع الحق کو ''بابائے طالبان'' بھی قراردیتارہاہے۔

ان کے مدرسے میں تعلیم و تربیت پانے والے یہی افغان طالبان گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے زائد عرصہ سے افغانستان پر قابض امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف بھرپورمزاحمت کررہے ہیں۔ تھک ہار کر امریکا اور اس کی حمایت یافتہ کابل حکومت پاکستانی حکومت سے بار بار درخواستیں کررہی تھی کہ مولانا سمیع الحق افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں، مولانا ہمیشہ افغانستان میں امن کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔

تاہم امریکی اور ان کے اتحادی ایسے فارمولے پر مذاکرات کرناچاہتے تھے جس میں امریکا کی حمایت یافتہ حکومت کا کردار بھی برقرار رہے۔ مولانا سمیع الحق ایک آزادمنش شخصیت تھے اور حریت فکر کے مالک ، بھلا وہ کیسے ایک غیرملکی قوت کے کہنے پر اپنے بیٹوں(طالبان) کو دب کر صلح کرنے پر تیارکرتے۔ لازمی امر ہے کہ وہ افغانستان میں فتح یاب طالبان کا سربلند ہی رکھناچاہتے تھے۔

کوئی وقت تھا، جب مولانا سمیع الحق مذاکراتی عمل کے لئے سرگرم رہے لیکن وہ جلد ہی گھر بیٹھ گئے کہاجاتاہے کہ میاں نوازشریف کی حکومت جس اندازمیں مولانا سے یہ کام لیناچاہتی تھی، وہ اس پر تیارنہ تھے۔ اس کی تفصیل خود مولانا سمیع الحق نے یوں بتائی:'' طالبان انھیں باپ کا درجہ دیتے ہیں اور ان کے دارالعلوم سے فارغ التحصیل طالبان افغانستان میں جہاد کر رہے ہیں۔ نواز شریف ہمت کرتے اور بیرونی دباؤ میں نہ آتے تو مسائل حل ہوسکتے تھے''۔ یوں میاں نوازشریف اور مولاناسمیع الحق کی اپروچ ایک نہ ہوسکی۔

یہی کہانی ایک غیرملکی خبررساں ادارے سے وابستہ صحافی ہارون الرشید نے بتائی:''مولانا سمیع الحق نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مثبت ردعمل نہ ملنے کی وجہ سے طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکراتی مشن سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ مسلسل رابطے کی کوشش کے باوجود نواز شریف کی طرف سے کوئی جوابی رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس بارے میں وزیراعظم کو بھیجے گئے خط کا جواب دیا گیا۔ تاہم وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک مختصر تحریری بیان میں کہا گیا کہ 'مولانا سمیع الحق سے دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے عمومی بات ہوئی تھی۔ انھیں کوئی متعین مشن نہیں سونپا گیا تھا۔'

گزشتہ چندہفتوں کے دوران بھی افغانستان میں مولانا کی ثالثی کے خواہاں لوگ دارالعلوم حقانیہ کے چکر لگاتے رہے اور مولانا نے انھیں مثبت جواب دیا۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں اس کی تفصیلات یوں ظاہر کی تھیں:'' افعان علماء اور امن کونسل کے وفد نے ملاقات کے دور ان کہا ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں جنگ ختم ہو جائے اور کوئی مصالحت کا راستہ نکالا جائے۔ ا فغانستان میں امن اور بات چیت کے سلسلے میں افغان سفیر بھی میرے پاس آئے تھے جس پر میں نے بتایا کہ یہ اچھا مقصد اور اچھا مشن ہے، اس کیلئے زمینی حقائق درکار ہوںگے صرف زبانی جمع خرچ سے مصالحت نہیں ہوسکتی۔ یہ بہت گھمبیر مسئلہ ہے اس کی بنیادوں کو تلاش کر نا ہوگا۔ میں نے بتایا کہ اس گھمبیر مسئلہ کا علاج میرے پاس نہیں ہے اس کی بنیادی وجوہات کو دیکھنا ہوگا۔ میں نے امریکیوں، افغان سفیر اور افغان حکام سے بھی کہا ہے، بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کہتے ہیں، غیر ملکی افواج افغانستان پر مسلط ہیں،ہماری لڑائی افغان حکمرانوں سے نہیں۔ امریکا نے بد اعتماد ی کی فضا پیدا کردی ہے، جیسے ہی مذاکرات ہوتے ہیں امریکہ کی جانب سے کوئی ایسی حرکت کی جاتی ہے جس سے مذاکرات کی فضا خراب ہوجاتی ہے۔ میں نے افغان علماء اور امن کونسل کے مشترکہ وفد سے کہاکہ آپ فی الحال امریکا، پاکستان اور افغان حکومت کو علیحدہ کرکے آپ اور طالبان آپس میں بیٹھ جائیں، پہلے افغانستان کو آزا د ہونا چاہیے اس کے بعد آپس میں سیاست کریں، مشترکہ حکومت بنائیں، طالبان کا ساتھ دیں یا نہ دیں یہ بعد کے مسائل ہیں،(مسئلے کا حل یہ ہے کہ) حکمت یار اور دوسرے گروپ ایک صفحے پر آ جائیں۔''

مولانا سمیع الحق1985ء سے 1991ء تک اور پھراور 1991 سے 1997 تک پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے رکن رہے۔ وہ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے لئے ہمیشہ سرگرم جدوجہد کرتے رہے، جنرل ضیاء الحق کے دور میںقومی اسمبلی اور سینیٹ میں شریعت بل پیش کرنے والے سینیٹرقاضی عبدالطیف مولانا سمیع الحق ہی کے دست راست تھے۔ اس کے بعد وہ ملک میں ملی یکجہتی کے قیام کے لئے سرگرم ہوگئے اور مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کی زیرقیادت ملی یکجہتی کونسل کا حصہ بھی رہے۔ سن دوہزار دو میں چھ مذہبی جماعتوں کا سیاسی اتحاد 'متحدہ مجلس عمل' کے نام سے قائم ہوا، مولانا سمیع الحق کی جمعیت علمائے اسلام (س) ان میں سے ایک تھی۔ تاہم وہ مسلسل شکوہ کرتے رہے کہ اتحاد پر دو جماعتوں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ اور جماعت اسلامی کو غلبہ حاصل ہے۔ چنانچہ وہ زیادہ عرصہ اس اتحاد کا حصہ نہ رہ سکے، سن دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات سے قبل انھیں ایک بار پھر متحدہ مجلس عمل کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن مولانا نہ مانے۔

مولانا سمیع الحق کا کہناتھاکہ اس بار متحدہ مجلس عمل میں اس لئے شامل نہیں ہوا کیونکہ پہلے بھی انہوں نے مایوس کیا، اسمبلی میں70 لوگ گئے تھے نہ دین، نہ افغانستان اور نہ اسلام کیلئے کوئی کام کیا بلکہ پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ معاہدوں میں شامل ہوئے اور خود دستخط کئے میں نے جب منع کیا تو پھر مجھے ایم ایم اے سے نکال دیا گیا''۔


اس کے بعد مولانا عمران خان کی تحریک انصاف کا ساتھ دینے لگے تاہم کچھ ہی عرصہ بعد انھوں نے تحریک انصاف سے اتحاد پر مایوسی کا اظہار کرناشروع کردیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ تحریک انصاف کے اندر ایک مخصوص لابی مولانا سمیع الحق کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ دونوں جماعتوں کے درمیان معاملات اس قدرخراب ہوگئے کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران میں وہ تحریک انصاف سے اتحاد کو اپنی غلطی کہتے پائے گئے۔

اگرچہ سن 2013ء سے 2018ء تک کے عرصہ کے دوران میں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے مولاناسمیع الحق کے مدارس کو 30کروڑ روپے بطور فنڈز جاری کئے۔ اس پر مخالفین نے عمران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، خود اس وقت کی وفاقی حکومت کے وزیراطلاعات و نشریات اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما سینیٹرپرویزرشید نے اس پر افسوس ظاہرکیاتھا۔ تاہم عمران خان نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہاتھاکہ اس سے انتہا پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ان کے بقول ''اس سے مدرسے کے طلبہ کو معاشرے کا حصہ بنانے، مرکزی دھارے میں لانے اور انہیں بنیاد پرستی سے دور رکھنے میں مدد ملے گی۔''

سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے جس نے پاکستان معاشرے میں ایک تعمیری کردار ادا کرنے والی شخصیت کو اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھا؟ پولیس حکام نے ابتدائی رپورٹ میں اس قتل میں دہشت گردی کے پہلو کو مسترد کردیاہے کیونکہ ان حکام کے خیال میں جس اندازمیں مولانا پر خنجروں کے پے درپے وارکئے گئے، وہ ذاتی دشمنی کی غمازی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مولانا کی کسی سے ذاتی دشمنی ہوسکتی تھی؟ ہرگزنہیں، ایسی بلندمرتبت شخصیت کے ذاتی معاندین نہیں ہوتے، وہ ذاتی دشمنیوں سے بہت بالاترہوتے ہیں، ہاں! صرف نظریاتی پرخار رکھنے والے ہی انھیں اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ملکی اداروں بشمول پاک افغان طالبان سے ان کے اچھے مراسم رہے، وہ دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ تھے۔

واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ مولانا سمیع الحق کو پاکستانی طالبان نے نشانہ بنایاہو کیونکہ میاں نوازشریف کے دورحکومت میں انہی کو پل بناتے ہوئے پاکستانی طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کیاگیاتھا، اس کا مطلب ہے کہ انھیں پاکستانی طالبان کے تمام حلقوں میں احترام کی نظروں سے دیکھاجاتاتھا۔ اگرچہ پولیوویکسینیشن کے معاملے میں ان کی اور پاکستانی طالبان کی اپروچ میں اختلاف تھا، تاہم یہ اختلاف زیادہ اہمیت کا حامل نہ تھا۔

مولانا سمیع الحق کے بیٹے مولانا حامدالحق(سابق رکن قومی اسمبلی) کا کہنا ہے:'' لگتا ہے کہ توہین رسالت کیس سے توجہ ہٹانے کے لئے ان کے والد کو شہید کیاگیا ہے، اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی قوتیں جو ملک میں اسلام کا غلبہ نہیں چاہتیں، جو جہاد مخالف ہیں، جو مدرسوں اور خانقاہوں کی مخالفت کرتے ہیں وہی طاقتیں اس قتل میں ملوث ہیں۔انھوں نے واضح کیا کہ افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے والد کو خطرہ تھا کیوں کہ والد صاحب افغانستان کو امریکا کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے جبکہ ہمیں ملکی خفیہ اداروں نے بھی متعدد بار بتایا تھا کہ مولانا سمیع الحق بین الاقوامی خفیہ اداروں کے ہدف پر ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا حامد الحق کا کہنا تھا کہ ہم نے پولیس اور سیکیورٹی اداروں کو دھمکیوں کے حوالے سے آگاہ کردیا تھا، جب کہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک میں بھی سیکیورٹی سخت کردی گئی تھی تاہم مولانا صاحب سیکیورٹی کو پسند نہیں کرتے تھے اس لیے سفر میں ان کے ساتھ دوستوں کے علاوہ کوئی سیکیورٹی اہلکار نہیں ہوتا تھا۔ دوسری طرف پولیس حکام کاکہناہے کہ مولانا سمیع الحق کو پہلے بھی دھمکیاں ملتی رہی ہیں جس کے نتیجے میں ان کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنے کا کہا گیا تھا۔

مولانا سمیع الحق امریکا کی پالیسیوں کو کسی بھی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ پاکستانی حکمرانوں کی امریکا سے قربتوں کو پاکستان کے مفاد میں نہیں دیکھتے تھے۔ ان کا کہناتھا: ''ہم سترہ برس سے خدشہ ظاہر کررہے تھے کہ امریکا کی دوستی آپ کو مہنگی پڑے گی، وہ آپ کو برباد کردے گی، وہ سب خدشات سوفیصد سچ ثابت ہوئے''۔ وہ ان حکمرانوں کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے رہے جنھوں نے یہ پالیسیاں اختیارکیں۔ ان کا کہناتھا کہ امریکا خود کہتاہے کہ آدھے سے زیادہ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے، ایسے میں حقانی نیٹ ورک کو کیا ضرورت ہے کہ وہ پاکستان میں رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں''۔

پاک افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے حلقوں کا خیال ہے کہ بظاہراس قتل کے تانے بانے افغان انٹیل جنس سے ملتے نظر آتے ہیں، پاکستان میں کسی گروہ سے مولانا سمیع الحق کی ایسی دشمنی نہ تھی کہ یوں قتل کیا جاتا، جس طرح افغان انٹیلی جنس سے جڑے پیجز ان کی شہادت پہ خوشیاں منارہے رہیں اس سے ان کی طرف شک گہرا ہوتا ہے بعض افغان سوشل میڈیا صارف اسے جنرل رازق کا انتقام بھی قرار دے رہے ہیں بقیہ افغان میڈیا پہ اکوڑہ خٹک سے ایک خاص نفرت پہ مبنی خبریں اور دستاویزی فلمیں معمول کا حصہ ہیں''۔ اس تناظر میں سیکورٹی اداروں سے ضرور پوچھ گچھ ہونی چاہئے کہ انھوں نے اس قدر اہم شخصیت کی حفاظت کے لئے اپنے فرائض سرانجام دینے میں غفلت یا سستی کیوں برتی۔

مولانا سمیع الحق پاکستان کے دینی اور سیاسی حلقوں میں ازحد اہمیت رکھتے تھے بالخصوص صوبہ خیبرپختون خواہ اور بلوچستان میں ان کے شاگردوں، چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ مولانا کے قتل سے واقعتاً ایک بڑا خلا پیدا ہوچکاہے، کاش! اس قوم پر ایسے بڑوں کا سایہ ہمیشہ سلامت رہتا! ان کے قتل سے ایک بات ازحد واضح ہوجاتی ہے کہ ابھی یہ ملک بیرونی طاقتوں، ان کی ایجنسیوں اور ان کے پالتو دہشت گردوں سے پاک نہیں ہوسکا، وہ جہاں چاہتے ہیں، جیسے چاہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں نشانہ بناتے ہیں۔

اس تناظر میں نہایت ضروری ہے کہ ملکی سلامتی کے ادارے، انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی سٹریٹیجی پر نظرثانی کریں، اپنی غلطیوں، کمیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیتے ہوئے نئی منصوبہ بندی کے ساتھ ملک میں امن وامان قائم کریں۔

 
Load Next Story