عوام کی پہلی ضرورت
ملک میں نئی حکومت کے روایتی تعریف کنندگان نئے حکمرانوں کو نجات دہندہ وزیراعظم اور خدا کا عطیہ قرار دے رہے ہیں.
سات ارب انسانوں پر مشتمل ہماری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ انسانوں کی طبقاتی تقسیم ہے۔ کئی طبقات پر مشتمل اس دنیا کا سب سے بڑا طبقہ Have Not یعنی ان محروم اور محکوم لوگوں کا ہے جنگی ساری زندگی دو وقت کی روٹی کے پیچھے بھاگتے گزرجاتی ہے۔ اس طبقاتی ظالمانہ نظام کو بدلنے کی عملی اور نظریاتی کوششیں جو افراد اور جو جماعتیں کرتی رہی ہیں وہ خواہ اپنے مقصد میں کامیاب رہی ہوں یا ناکام، قابل مبارکباد، قابل تحسین، قابل احترام ہیں۔ دنیا کے تمام ملکوں کا حکمران طبقہ اور سیاستدان چونکہ Have سے تعلق رکھتے ہیں اور اس نظام کے ثمرات سے مالامال ہوتے ہیں لہٰذا ان سے یہ امید کرنا کہ وہ اس طبقاتی نظام کو ختم کردیں گے ایک احمقانہ خیال کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس حوالے سے فطری طور پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے اور واضح ظلم کے خلاف آخر کوئی منظم تحریک کیوں نہیں اٹھتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ درمیانے طبقے کے وہ لوگ جو اس ظلم کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بدقسمتی سے خوب سے خوب تر کی تلاش میں اس قدر مصروف ہوجاتے ہیں کہ انھیں ان کی تاریخی ذمے داری تک یاد نہیں رہتی، دوسری طرف اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ہیگل مارکس اور اینجلز کے بعد کوئی ایسا مفکر فلسفی اور نظریہ ساز پیدا نہ ہوا جو دنیا کے سامنے آج کے حالات کے تقاضوں کے مطابق کوئی ایسا قابل عمل نظریہ پیش کرسکے جو دنیا کی 90 فیصد آبادی کو اس طبقاتی استحصال سے بچاسکے۔
اس کمزوری نے طبقاتی نظام کے محافظوں کو یہ موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ دنیا کو اس بات پر قائل کرلیں کہ اس طبقاتی نظام کے بغیر گزارا ممکن نہیں اور ان کی کامیابی کا اندازہ اس افسوس ناک حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ملک جو طبقاتی نظام کے خلاف وجود میں آئے تھے وہ بھی آج اس نظام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نظام کے رکھوالوں نے اس نظام کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ بنا رکھا ہے کہ مڈل کلاس میں کتنا اضافہ ہورہا ہے یہ دیکھا جائے اور یہی پیمانہ بالواسطہ طور پر اس نظام کی تبدیلی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ معاشی انصاف پر مبنی نظام کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی اس 90 فیصد آبادی کو آسودہ زندگی گزارنے کا موقع ملے جو اپنی محنت سے دنیا کو رزق سمیت زندگی کی ہر ضرورت اشیائے صرف اور اشیائے تعیش پیدا کرکے دیتی ہے۔
آسودہ زندگی کا مطلب اچھی غذا ، اچھی تعلیم، بہتر علاج، بہتر کپڑا، بہتر ٹرانسپورٹ ہر شخص کی صلاحیتوں کے مطابق روزگار بہتر رہائش، بہتر تفریحی سہولتیں، یہ وہ چند ضروریات ہیں جو آسودہ زندگی کی مثال کہی جاسکتی ہیں۔ اس قسم کی آسودہ زندگی کا پسماندہ ملکوں میں تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، ترقی یافتہ ملکوں میں اگرچہ عوام کو دو سو سال میں کچھ سہولتیں دی گئی ہیں لیکن وقتی آسودہ زندگی یہاں کے عوام کو بھی میسر نہیں کیونکہ کرپشن سمیت مختلف حوالوں سے دولت کا لگ بھگ 80 فیصد حصہ دو فیصد اشرافیہ کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے جو محنت سے نہیں چالاکی، عیاری، بے ایمانی سے حاصل کیا جاتا ہے۔دنیا بھر میں اس طبقاتی اور بہیمانہ استحصال سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے جمہوریت کا وہ پرفریب نظام قائم کیا گیا ہے اور اس نظام کا ایسا ماڈل بناکر رکھا گیا ہے جسے ہمارے سیاستدان ترقی کی معراج یا جمہوریت کا حاصل قرار دیتے ہیں۔
پاکستان میں ویلفیئر اسٹیٹ کے نام پر 65 سال سے عوام کو مسلسل دھوکا دیا جارہا ہے، اس عرصے میں عوام کی زندگی ہر آنے والے نئے دور میں مزید عذاب ناک بنتی چلی گئی ہے۔ 11 مئی 2013 کے بعد مسلم لیگ (ن) کے خاندان کی نئی حکومت عوام سے وہی وعدے دہرا رہی ہے جو 65 سال سے دہرائے جارہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور بھی اس لیے ممکن نہیں کہ یہاں کا پیش منظر اس قدر ہولناک ہے کہ اس سے نجات کی بھی کوئی امید نہیں۔ پچھلی حکومتوں کی نااہلی نے جو مسائل پیدا کردیے ہیں وہ اس قدر گمبھیر ہیں کہ عوام روٹی، روزگار، تعلیم، علاج کو پس پشت ڈال کر صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں ہمارے خاندان کو زندگی کا تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ نے انھیں گھر کے اندر اور گھر کے باہر غیر محفوظ بنادیا ہے، عوام بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سے اس قدر پریشان ہیں کہ وہ اس سے نجات کا مطالبہ کر رہے ہیں بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں کارخانے بند ہوگئے ہیں اور لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں، عوام گرمی سے بچنے کے لیے پنکھے جھل رہے ہیں اور گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے لکڑیاں جلانے پر مجبور ہورہے ہیں۔
ٹرانسپورٹ کی قلت کی وجہ سے عوام بسوں کی چھتوں اور دروازوں پر لٹک کر انتہائی مخدوش حالت میں سفر کر رہے ہیں۔ بھتہ کلچر کے پھیلاؤ کا عالم یہ ہے کہ صنعت کار، تاجر برادری، ڈاکٹر، وکیل، انجینئر سمیت ہر طبقہ بھتے کے بہ جبر مطالبے سے زندہ درگور ہوکر رہ گیا ہے، بھتے کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر بھتہ مافیا اغوا کرلیتی ہے، جان سے مار دیتی ہے۔ اب ہماری جرائمی ترقی کا عالم یہ ہے کہ شارٹ ٹرم اغوا کا نیا کلچر متعارف کرایا گیا ہے جس میں اغوا کنندگان مغوی کو اس کی کار میں اس وقت تک گھماتے رہتے ہیں جب تک اغوا کا تاوان وصول نہ ہوجائے۔ اسٹریٹ کرائم کا حال یہ ہے کہ کوئی بینک سے رقم نکال کر گھر تک محفوظ نہیں جاتا۔ موبائل، موٹرسائیکل، کار چھیننا عام بات ہے۔ یہ ساری نعمتیں ہماری اشرافیائی جمہوریت کی عطا ہیں۔ ان جان لیوا مسائل نے عوام کے ذہن سے روٹی کپڑے مکان کا تصور چھین لیا ہے اور اس کی اولین ترجیح جان کی سلامتی ہے۔ آسودہ زندگی اور ویلفیئر اسٹیٹ تو آج کے منظر نامے میں خواب کی باتیں بن کر رہ گئی ہیں۔
ملک میں نئی حکومت کے روایتی تعریف کنندگان نئے حکمرانوں کو نجات دہندہ وزیراعظم اور خدا کا عطیہ قرار دے رہے ہیں، جب کہ بے چارے نئے حکمران حیران ہیں کہ وہ کس طرح عوام کو درپیش ان مسائل کو حل کریں جو ان کے قابو سے باہر ہیں۔ ہماری نئی حکومت سے یہ توقع رکھنا ایک حماقت ہے کہ وہ عوام کو آسودہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرے گی اور ملک کو ویلفیئر اسٹیٹ بنادے گی۔ میاں صاحب روایتی سیاسی خطرات سے بچنے کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی جو بات کر رہے ہیں وہ تدبر نہیں ان کی مجبوری ہے اور ہم پورے یقین کے ساتھ یہ بات کرسکتے ہیں کہ بہت کم وقت کے اندر اقتدار کی بھوکی طاقتیں میاں صاحب کی ٹانگیں کھینچتی نظر آئیں گی۔ یہی ہماری تاریخ ہے، یہی ہماری سیاست ہے، یہی ہماری جمہوریت ہے۔
میاں صاحبان عوام کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان کی نیت پر کوئی شک ہے نہ شبہ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے لیے بہت کچھ کرنے سے پہلے عوام کی جان ومال کا تحفظ ضروری ہے اور عوام کے جان و مال کی دشمن طاقتیں خود ہمارے حکمرانوں کی سیاسی مصلحتوں اور نااہلی کی وجہ سے اس قدر مضبوط اور مستحکم ہوگئی ہیں کہ وہ بات چیت بھی اپنی شرائط پر کرنا چاہتی ہیں۔ وہ جس کو چاہتی ہیں، جہاں چاہتی ہیں، جب چاہتی ہیں ایک بھیانک موت سے دوچار کرسکتی ہیں کوئی ریاستی طاقت انھیں روکنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ہوسکتا ہے میاں صاحب کے لیے ان اندھی بہری طاقتوں کے دل میں نرم گوشہ ہو لیکن ان کے مقاصد اس قدر واضح ہیں کہ ان کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔
کیا میاں صاحب ان طاقتوں کو ان کے اہداف سے دست بردار کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟ ہم نے یہاں ابھی نہ گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ کی بات کی ہے، نہ مہنگائی کی بات کی ہے، نہ بے روزگاری کی بات کی ہے، نہ تعلیم اور علاج کی بات کی ہے، نہ آسودہ زندگی کی بات کی ہے، نہ ویلفیئر اسٹیٹ کی بات کی ہے، کیونکہ یہ ساری باتیں ساری ضرورتیں زندہ رہنے سے مشروط ہیں اور ملک کا کوئی ادارہ عوام کو زندہ رہنے کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ یہ ہے ہماری زندگی یہ ہے ہماری ریاست یہ ہے ہماری حکومت ہم دعا گو ہیں کہ سب سے پہلے میاں برادران عوام کو زندگی کا تحفظ ہی فراہم کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ نظام کی تبدیلی معاشی انصاف تو بہت دور کی باتیں ہیں۔
جا بھلا کر تیرا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
اس حوالے سے فطری طور پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے اور واضح ظلم کے خلاف آخر کوئی منظم تحریک کیوں نہیں اٹھتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ درمیانے طبقے کے وہ لوگ جو اس ظلم کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بدقسمتی سے خوب سے خوب تر کی تلاش میں اس قدر مصروف ہوجاتے ہیں کہ انھیں ان کی تاریخی ذمے داری تک یاد نہیں رہتی، دوسری طرف اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ہیگل مارکس اور اینجلز کے بعد کوئی ایسا مفکر فلسفی اور نظریہ ساز پیدا نہ ہوا جو دنیا کے سامنے آج کے حالات کے تقاضوں کے مطابق کوئی ایسا قابل عمل نظریہ پیش کرسکے جو دنیا کی 90 فیصد آبادی کو اس طبقاتی استحصال سے بچاسکے۔
اس کمزوری نے طبقاتی نظام کے محافظوں کو یہ موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ دنیا کو اس بات پر قائل کرلیں کہ اس طبقاتی نظام کے بغیر گزارا ممکن نہیں اور ان کی کامیابی کا اندازہ اس افسوس ناک حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ملک جو طبقاتی نظام کے خلاف وجود میں آئے تھے وہ بھی آج اس نظام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نظام کے رکھوالوں نے اس نظام کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ بنا رکھا ہے کہ مڈل کلاس میں کتنا اضافہ ہورہا ہے یہ دیکھا جائے اور یہی پیمانہ بالواسطہ طور پر اس نظام کی تبدیلی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ معاشی انصاف پر مبنی نظام کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی اس 90 فیصد آبادی کو آسودہ زندگی گزارنے کا موقع ملے جو اپنی محنت سے دنیا کو رزق سمیت زندگی کی ہر ضرورت اشیائے صرف اور اشیائے تعیش پیدا کرکے دیتی ہے۔
آسودہ زندگی کا مطلب اچھی غذا ، اچھی تعلیم، بہتر علاج، بہتر کپڑا، بہتر ٹرانسپورٹ ہر شخص کی صلاحیتوں کے مطابق روزگار بہتر رہائش، بہتر تفریحی سہولتیں، یہ وہ چند ضروریات ہیں جو آسودہ زندگی کی مثال کہی جاسکتی ہیں۔ اس قسم کی آسودہ زندگی کا پسماندہ ملکوں میں تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، ترقی یافتہ ملکوں میں اگرچہ عوام کو دو سو سال میں کچھ سہولتیں دی گئی ہیں لیکن وقتی آسودہ زندگی یہاں کے عوام کو بھی میسر نہیں کیونکہ کرپشن سمیت مختلف حوالوں سے دولت کا لگ بھگ 80 فیصد حصہ دو فیصد اشرافیہ کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے جو محنت سے نہیں چالاکی، عیاری، بے ایمانی سے حاصل کیا جاتا ہے۔دنیا بھر میں اس طبقاتی اور بہیمانہ استحصال سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے جمہوریت کا وہ پرفریب نظام قائم کیا گیا ہے اور اس نظام کا ایسا ماڈل بناکر رکھا گیا ہے جسے ہمارے سیاستدان ترقی کی معراج یا جمہوریت کا حاصل قرار دیتے ہیں۔
پاکستان میں ویلفیئر اسٹیٹ کے نام پر 65 سال سے عوام کو مسلسل دھوکا دیا جارہا ہے، اس عرصے میں عوام کی زندگی ہر آنے والے نئے دور میں مزید عذاب ناک بنتی چلی گئی ہے۔ 11 مئی 2013 کے بعد مسلم لیگ (ن) کے خاندان کی نئی حکومت عوام سے وہی وعدے دہرا رہی ہے جو 65 سال سے دہرائے جارہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور بھی اس لیے ممکن نہیں کہ یہاں کا پیش منظر اس قدر ہولناک ہے کہ اس سے نجات کی بھی کوئی امید نہیں۔ پچھلی حکومتوں کی نااہلی نے جو مسائل پیدا کردیے ہیں وہ اس قدر گمبھیر ہیں کہ عوام روٹی، روزگار، تعلیم، علاج کو پس پشت ڈال کر صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں ہمارے خاندان کو زندگی کا تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ نے انھیں گھر کے اندر اور گھر کے باہر غیر محفوظ بنادیا ہے، عوام بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ سے اس قدر پریشان ہیں کہ وہ اس سے نجات کا مطالبہ کر رہے ہیں بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں کارخانے بند ہوگئے ہیں اور لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں، عوام گرمی سے بچنے کے لیے پنکھے جھل رہے ہیں اور گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے لکڑیاں جلانے پر مجبور ہورہے ہیں۔
ٹرانسپورٹ کی قلت کی وجہ سے عوام بسوں کی چھتوں اور دروازوں پر لٹک کر انتہائی مخدوش حالت میں سفر کر رہے ہیں۔ بھتہ کلچر کے پھیلاؤ کا عالم یہ ہے کہ صنعت کار، تاجر برادری، ڈاکٹر، وکیل، انجینئر سمیت ہر طبقہ بھتے کے بہ جبر مطالبے سے زندہ درگور ہوکر رہ گیا ہے، بھتے کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر بھتہ مافیا اغوا کرلیتی ہے، جان سے مار دیتی ہے۔ اب ہماری جرائمی ترقی کا عالم یہ ہے کہ شارٹ ٹرم اغوا کا نیا کلچر متعارف کرایا گیا ہے جس میں اغوا کنندگان مغوی کو اس کی کار میں اس وقت تک گھماتے رہتے ہیں جب تک اغوا کا تاوان وصول نہ ہوجائے۔ اسٹریٹ کرائم کا حال یہ ہے کہ کوئی بینک سے رقم نکال کر گھر تک محفوظ نہیں جاتا۔ موبائل، موٹرسائیکل، کار چھیننا عام بات ہے۔ یہ ساری نعمتیں ہماری اشرافیائی جمہوریت کی عطا ہیں۔ ان جان لیوا مسائل نے عوام کے ذہن سے روٹی کپڑے مکان کا تصور چھین لیا ہے اور اس کی اولین ترجیح جان کی سلامتی ہے۔ آسودہ زندگی اور ویلفیئر اسٹیٹ تو آج کے منظر نامے میں خواب کی باتیں بن کر رہ گئی ہیں۔
ملک میں نئی حکومت کے روایتی تعریف کنندگان نئے حکمرانوں کو نجات دہندہ وزیراعظم اور خدا کا عطیہ قرار دے رہے ہیں، جب کہ بے چارے نئے حکمران حیران ہیں کہ وہ کس طرح عوام کو درپیش ان مسائل کو حل کریں جو ان کے قابو سے باہر ہیں۔ ہماری نئی حکومت سے یہ توقع رکھنا ایک حماقت ہے کہ وہ عوام کو آسودہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرے گی اور ملک کو ویلفیئر اسٹیٹ بنادے گی۔ میاں صاحب روایتی سیاسی خطرات سے بچنے کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی جو بات کر رہے ہیں وہ تدبر نہیں ان کی مجبوری ہے اور ہم پورے یقین کے ساتھ یہ بات کرسکتے ہیں کہ بہت کم وقت کے اندر اقتدار کی بھوکی طاقتیں میاں صاحب کی ٹانگیں کھینچتی نظر آئیں گی۔ یہی ہماری تاریخ ہے، یہی ہماری سیاست ہے، یہی ہماری جمہوریت ہے۔
میاں صاحبان عوام کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان کی نیت پر کوئی شک ہے نہ شبہ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے لیے بہت کچھ کرنے سے پہلے عوام کی جان ومال کا تحفظ ضروری ہے اور عوام کے جان و مال کی دشمن طاقتیں خود ہمارے حکمرانوں کی سیاسی مصلحتوں اور نااہلی کی وجہ سے اس قدر مضبوط اور مستحکم ہوگئی ہیں کہ وہ بات چیت بھی اپنی شرائط پر کرنا چاہتی ہیں۔ وہ جس کو چاہتی ہیں، جہاں چاہتی ہیں، جب چاہتی ہیں ایک بھیانک موت سے دوچار کرسکتی ہیں کوئی ریاستی طاقت انھیں روکنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ہوسکتا ہے میاں صاحب کے لیے ان اندھی بہری طاقتوں کے دل میں نرم گوشہ ہو لیکن ان کے مقاصد اس قدر واضح ہیں کہ ان کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔
کیا میاں صاحب ان طاقتوں کو ان کے اہداف سے دست بردار کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟ ہم نے یہاں ابھی نہ گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ کی بات کی ہے، نہ مہنگائی کی بات کی ہے، نہ بے روزگاری کی بات کی ہے، نہ تعلیم اور علاج کی بات کی ہے، نہ آسودہ زندگی کی بات کی ہے، نہ ویلفیئر اسٹیٹ کی بات کی ہے، کیونکہ یہ ساری باتیں ساری ضرورتیں زندہ رہنے سے مشروط ہیں اور ملک کا کوئی ادارہ عوام کو زندہ رہنے کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ یہ ہے ہماری زندگی یہ ہے ہماری ریاست یہ ہے ہماری حکومت ہم دعا گو ہیں کہ سب سے پہلے میاں برادران عوام کو زندگی کا تحفظ ہی فراہم کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ نظام کی تبدیلی معاشی انصاف تو بہت دور کی باتیں ہیں۔
جا بھلا کر تیرا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے