آخر ہم کدھر جارہے ہیں…

پڑوسی ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے بعد طالبان نے پاکستان کا رخ کیا اور یہاں آہستہ آہستہ قدم جمانے لگے۔

لاکھوں انسانوں اور ہزاروں عصمتوں، مال و دولت، عزیز و اقارب کی قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے ملک کے عوام کی بدنصیبی کہ ان کے ہر دلعزیز قائد محمد علی جناح اپنا مشن پورا کرنے کے بعد زیادہ عرصہ حیات نہ رہ سکے اور اپنے خوابوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت نے اس نوزائیدہ مملکت کی بدنصیبی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ اس کے باوجود وہ لوگ جنہوں نے اس مملکت خداداد کی تشکیل کے لیے جان و مال عزت و آبرو کی قربانیاں پیش کی تھیں یا وہ نسل جو براہ راست تحریک پاکستان سے متاثر ہوئی تھی موجود تھی،

ان کے دل جذبہ حب الوطنی سے سرشار تھے وہ اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن اور مستحکم و خود مختار ہوتا ہوا دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ لہٰذا وہ جذبہ ایثار سے سرشار باوجود کم وسائل خود بھی علم و ہنر کے حصول کے لیے کوشاں رہے اور وطن کی خدمت و ترقی کو بھی اپنا شعار بنائے رہے، دوسری جانب انگریزوں کی چاپلوسی اور خوشامد کے ذریعے مراعات حاصل کرنے والا طبقہ جس کو بلا کسی نقصان و قربانی کے بیٹھے بٹھائے ایک آزاد ملک مل گیا تھا وہ اپنے اثر و رسوخ کے سہارے ملکی سیاست پر چھا جانے کے لیے کھیل کھیلتا رہتا، جس کے نتیجے میں حالت یہ ہوئی کہ چند ماہ بلکہ چند روزہ وزارت عظمیٰ ہماری تاریخ کا حصہ بنی۔ ان ہی سیاسی ریشہ دوانیوں نے ملک میں حقیقی جمہوریت کو پنپنے نہ دیا۔ 65 سالہ ملکی تاریخ کا بڑا حصہ مطلق العنانیت کی نذر ہو گیا۔

اس ملک و قوم کو مزید پستی کی طرف دھکیلنے کا آغاز بھٹو کے غیر جمہوری زوال اور ضیاء الحق کے نزول اجلال سے ہوا۔ اس دور میں ہر شخص اپنی جان و آبرو بچانے کی کوشش میں ڈرا سہما رہا، کسی نے بھی ملک عزیز پر چھانے والی نحوست پر دھیان نہ دیا۔ حالانکہ ہمارے دانشور، شاعر و ادیب اس صورت حال کو نہ صرف محسوس کر رہے تھے بلکہ اپنے اپنے انداز سے تمام تر سختیوں اور پابندیوں کے باوجود عوام تک پہنچانے کا فرض بھی ادا کر رہے تھے۔ مگر جب ہر محب وطن کے لیے قید و بند اور سر عام کوڑوں کی سزا سنائی جا رہی ہو تو لوگ ملک کی بگڑتی صورت حال کو کس طرح سنبھالتے؟ جب یہ وحشیانہ کھیل ایک فضائی حادثے کے بعد انجام پذیر ہوا تو عوام نے سکھ کا سانس لے کر آنکھیں مل مل کر ملکی منظرنامے پر نگاہ ڈالی تو تعصب، انتہا پسندی، مذہبی جنونیت کے علاوہ کلاشنکوف کلچر پوری طرح ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ ہماری اشرافیہ ایئرکنڈیشنڈ ڈرائنگ رومز میں بیٹھی ملکی سیاست کو اپنی انگلیوں پر نچا رہی تھی، اس خاصی طویل مطلق العنانیت کے بعد پھر جمہوریت اپنے حقیقی روپ میں بحال نہ ہو سکی۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دو دو دور حکومت کوئی بھی اپنی جمہوری مدت پوری نہ کر سکے اور پھر آمریت ۔۔۔۔!

پڑوسی ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے بعد طالبان نے پاکستان کا رخ کیا اور یہاں آہستہ آہستہ قدم جمانے لگے۔ ہماری انتظامیہ جو ہمیشہ ہی جاگیرداروں، وڈیروں کے گھر کی لونڈی رہی ہے، اپنی روایتی تساہل پسندی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ اگر کچھ لوگوں نے آنے والے خطرے کی نشاندہی کی تو نہ صرف ان سے صرفِ نظر کیا گیا بلکہ ان کا مذاق بھی اڑایا گیا کہ اگر آپ کو پاکستان بالخصوص کراچی میں انتہا پسند نظر آ رہے ہیں تو آپ ہی زحمت فرما کر ان کو پکڑ کر ہمارے حوالے کر دیجیے۔ مگر جب شہر کا یہ حال ہوا کہ روزانہ کی بنیاد پر لاشیں گرنے لگیں، کاروباری حلقے کو بھتے اور اغواء برائے تاوان کا سامنا کرنا پڑا، تو ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر حقیقت سے آنکھیں چرانے کی گھناؤنی کوشش کی گئی، جس کے ماتحت مسئلہ حل ہونے کے بجائے ماؤں کے لال، بہنوں کے بھائی، بیویوں کے سہاگ اور بچوں کے سر سے باپ کا سایہ اٹھنا روز کا معمول بن گیا، تو انتظامیہ و عدلیہ نے جنبش تو کی مگر ان کے نتائج کبھی مثبت طور پر سامنے نہ آ سکے۔


مئی 2013ء کے انتخابات میں صورت حال یہ رہی کہ سوائے کچھ سیاسی جماعتوں کے اور کسی پارٹی کو انتخابی مہم چلانے کی مہلت نہ مل سکی۔ فائرنگ، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے روز کا معمول بن گئے، سیاسی جماعت کے کارکن، انتخابی دفاتر ہی نہیں بلکہ امیدوار بھی بم اور گولیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ بھاری انتخابی بجٹ رکھنے والی پارٹیوں نے بڑے بڑے جلسے بھی کیے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بڑے بڑے اشتہارات بھی پیش کیے گئے مگر وہ جماعتیں جن کا انتخابی بجٹ نہ ہونے کے برابر تھا وہ اس سہولت سے بھی محروم رہیں بلکہ ایسی سیاسی جماعتیں اپنی جان پر کھیل کر چھوٹی سی کارنر میٹنگ تک نہ کر سکیں۔

بہرحال یہ پر خطر دور بھی گزر گیا، انتخابات ہوئے نئی حکومت نئے ارادوں اور امیدوں کے ساتھ میدان عمل میں آئی، عوام نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کہ نئی حکومت بڑی پر جوش اور باعمل ہے لہٰذا بہت کم وقت میں لوڈشیڈنگ سے لے کر مہنگائی، بے روزگاری اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی پر قابو پالے گی۔ اتوار 16 جون کے اخبارات میرے سامنے ہیں جن میں کوئٹہ اور زیارت کے سانحات کی تفصیل ہے، یہ تفصیلات ٹی وی چینلز کے ذریعے پہلے ہی تمام پاکستانیوں کو بلکہ دنیا بھر کو مل چکی ہیں۔ ان بے حد افسوسناک واقعات کی ذمے داری بھی ایک کالعدم تنظیم نے قبول کر لی ہے۔ تحقیقات کا روایتی پہیہ چل چکا ہے، سانحے پر اظہار افسوس اور ذمے داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے عزائم کے بارے میں ہر اہم شخص بیان دے چکا ہے۔

مگر کیا اس بدترین صورت حال کے ذمے داران کبھی قانون کی گرفت میں آ سکیں گے؟ آ گئے تو کیا کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے؟ کیا یہ انتہاپسند پوری ریاستی مشنری سے زیادہ طاقتور ہیں؟ اور کیا ان سے نمٹنا ہمارے بس سے باہر ہے؟ بات یہ ہے کہ یہ سب اس وقت بہت ممکن اور آسان ہوتا ہے جب پوری قوم متحد اور ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوتی ہے۔ (ایسی یکجہتی کا مظاہرہ ماضی میں کئی بار ہو چکا ہے) مگر جس قوم کو متحد رکھنے کے بجائے خود قوم کے کرتا دھرتا اپنے معاشی و سیاسی اغراض کی خاطر ہر سطح پر متفرق کر چکے ہوں، مہنگائی، بے روزگاری، بجلی اور گیس کے بحران نے جس کی کمر نہ صرف توڑ دی ہو بلکہ ادھ موا کر دیا ہو وہ قوم بظاہر تو زندہ ہے مگر صرف سسک رہی ہے۔ جس کے افراد گلی کوچوں میں ہی نہیں، گھر دفاتر تو درکنار، اسپتالوں میں بھی محفوظ نہیں۔ اپنی جان و مال عزت و آبرو کی فکر میں دن رات گھلتی ہوئی قوم اس عظیم سانحے پر خون کے آنسو تو بہا سکتی ہے مگر ایک طاقتور اور سرگرم زندہ قوم کی طرح کمر کس کر مقابلے کے لیے کھڑی نہیں ہو سکتی۔

یوں تو ہمارے درمیان اتفاق و اتحاد کے بجائے ہر سطح پر طرح کے اختلافات موجود ہیں، مگر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح چاروں صوبوں کی متفقہ اور قابل احترام شخصیت ہیں مگر شاید اب ان کو بھی متنازعہ بنانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ چاروں صوبوں کے لوگ اپنے قائد سے منسوب قومی و ثقافتی یادگار اور ورثے کی بے حرمتی پر سراپا احتجاج ہیں۔ ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوار ہے۔ ہر کوئی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ آخر ان دہشت گردوں کا ایجنڈا کیا ہے؟ پولیو مہم کو سبوتاژ کر کے قوم کو معذور کرنا، خواتین کو تعلیم و ہنر سے محروم کر کے بلا کھڑکی کے کمروں میں مقید کرنا، اسلام کے پر امن مشن کو انتہاپسندی سے تعبیر کر کے پوری دنیا میں بدنام کرنا۔۔۔۔؟

ظہور اسلام سے قبل دور جہالت میں بھی جب انسانی حقوق کی پاسداری کا دور دور تصور نہ تھا، دشمن اور جنگ و جدال کے کچھ اصول تھے مگر اسلام کے ان ٹھیکیداروں نے تو کہیں کوئی اصول مرتب کیا ہی نہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ اسلام کے بہی خواہ نہیں بلکہ اسلام دشمن عناصر کے آلہ کار ہیں۔ لہٰذا ہر پاکستانی بلکہ ہر مسلمان ان سے نجات کا خواہشمند ہے۔ کیا ہماری ریاست جو اسلام کا قلعہ کہلاتی ہے قوم کو ان سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جائے گی؟
Load Next Story