کراچی میں جنگوں سے متعلق تاریخی یادگاریں
کراچی میں انیسویں صدی سے لے کر بیسویں صدی میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم تک کی برطانوی یادگاریں موجود ہیں
جنگیں تو جنگیں ہوتی ہیں جو صرف اور صرف تباہی لا کر نہ صرف ملکوں بلکہ قوموں تک کو برباد کردیتی ہیں؛ جس کے نتیجے میں زندگی مفلوج ہوجاتی ہے اور ترقی کی جگہ تباہی لے لیتی ہے جس پر قومیں ایک طویل عرصے تک نوحہ کناں رہتی ہیں۔ ویسے تو دنیا کے تمام ممالک کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح ایسی جنگوں کا شکار رہے ہیں بلکہ وہ خود بھی اس کا حصہ بنتے رہے ہیں، ایسے میں پاکستان کس طرح جنگوں سے محفوظ رہ سکتا تھا۔ وہ بھی متعدد بار ایسی جنگوں کا شکار رہا مگر آج ہمیں صرف 1965 یا پھر 1971 کی جنگیں ہی یاد ہیں۔ مگر قیام پاکستان سے قبل بھی شہر کراچی کا خطہ جنگوں کا حصہ بنتا رہا ہے، یہاں تک کہ 1839 میں انگریزوں نے باقاعدہ طور پر تالپوروں سے جنگ لڑ کر اس خطے پر قبضہ کیا۔
مگر اس خطے میں ہونے والی جنگوں سے ہمیں صرف نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ سندھ، بالخصوص کراچی کے اس خطے نے پہلی اور دوسری عالمی جنگ، دونوں دیکھیں لیکن کراچی کا خطہ نہ صرف محفوظ رہا بلکہ ہونے والی ان عالمی جنگوں میں شہر نے بے پناہ ترقی کی۔ شہر کراچی کی اصل ترقی کا سفر اسی طرح شروع ہوا۔ پہلی عالمی جنگ کی شروعات آسٹریا کے شہزادے کے قتل کے نتیجے میں، 28 جون 1914 کو شروع ہوئی۔ اس جنگ میں گو کہ جرمنی کے مدمقابل برطانیہ تھا لہذا دنیا کے بیشتر ممالک نہ صرف اس کی زد میں آئے بلکہ تباہ و برباد بھی ہوئے۔ یہی وہ پہلی جنگ بھی تھی جو بیک وقت سمندروں، فضاؤں اور زمین پر لڑی گئی اور جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ کیمیائی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا گیا۔ برٹش انڈیا کے لاکھوں سپاہیوں نے برطانیہ کی طرف سے جرمنی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور اپنی بہادری کی تاریخ رقم کی۔
کراچی اس جنگ سے قدرے محفوظ رہا مگر اس کے اثرات یہاں بھی مرتب ہوئے۔ لیکن، حیرت انگیز طور پر، یہ شہر مختلف محاذوں پر فوجی کمک پہنچانے کےلیے اہم محل وقوع کی حیثیت رکھتا تھا اور ہندوستان کی تمام بندرگاہوں کی نسبت یورپ، شمالی افریقہ اور مشرقی وسطی سے قریب ترین بندرگاہ تھا۔ اس لیے فوجیں، سامان حرب، اور غذائی اشیاء تک جنگ زدہ علاقوں کو یہیں سے بھیجی جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں محاذ سے لوٹنے والے زخمی فوجیوں کا علاج بھی کراچی ہی میں کیا جاتا تھا، لہذا یہاں نہ صرف اسپتال قائم ہوئے بلکہ مختلف دفاتر اور نئے ادارے بھی کھلے جن سے ملازمتوں کے بہتر مواقع پیدا ہوئے اور دوسرے علاقوں سے لوگ جوق در جوق آکر یہاں آباد ہونے لگے۔ اس کے سبب رہائشی مکانوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی جسے دور کرنے کےلیے کئی نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔
شہر میں مکانوں کی قلت سے اچانک کرایوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا اور اسی سبب پگڑی سسٹم کا آغاز ہوا جس میں کرائے داروں سے منہ مانگے کرائے سمیت پگڑی کی بھاری رقم بھی وصول کی جانے لگی۔ نتیجتاً اُس وقت کی حکومت کو باقاعدہ طور پر کرائے داروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کےلیے ''رینٹ کنٹرول'' کے نام سے ایک علیحدہ محکمہ قائم کرنا پڑا جس سے کرایوں میں زیادتی کا ازالہ تو ہوگیا مگر مکانوں کی کمی کا مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوسکا جس کے سبب تاجروں نے شہر کے مختلف علاقوں میں مکانات کی تعمیر شروع کرکے انہیں کرائے پر دینا شروع کردیا۔
اسی دور میں پہلی مرتبہ ایک بوہرا سیٹھ آدم علی ملا لقمان جی نے جودھ پور کے سرخ پتھروں سے نیپیئر روڈ پر ایک محل نما عمارت تعمیر کروائی اور اس کے بعد سرخ پتھروں سے عمارات کی تعمیر کا سلسلہ چل پڑا۔ ہائی کورٹ بلڈنگ ہو یا الائیڈ بینک، موہٹا پیلس ہو یا لکشمی بلڈنگ، اسٹیٹ بینک کی پرانی عما رت ہو یا دوسری سرخ پتھروں سے تعمیر کردہ عمارتیں، یہ سب اسی دور کی یادیں ہیں۔
اس وقت گو کہ مہنگائی کچھ زیادہ نہ تھی اور آٹا 8 روپے من، چاول 10روپے من، دالیں 4 آنے سیر، چینی 4 آنے سیر، چائے 4 آنے سیر، دودھ 3 آنے سیر، ریشمی کپڑا 4 روپے گز، اور سوٹ کا گرم کپڑا 6 روپے گز ہوا کر تا تھا؛ جبکہ مزدور کی اجرت 12 آنے اور معمار کی مزدوری 2 رو پے 4 آنے یومیہ ہوا کرتی تھی۔ اس میں بھی اچانک اضافہ ہوگیا اور لوگ خوشحال ہونے لگے۔
پہلی جنگِ عظیم 1914 میں شروع ہوکر 1918 تک جاری رہی اور اٹلی، رومانیہ، جاپان، آسٹریلیا، بلغاریا، فرانس اور امریکا کو شدید نقصان پہنچا۔ آخرکار خدا خدا کرکے 11 نومبر 1918 کوجنگ بندی ہوگئی جس کے بعد لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔ مگر چار سال جاری رہنے والی اس عالمی جنگ سے بیشتر ممالک کا کھربوں پاؤنڈز کا نقصان ہوا جبکہ لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کے بعد جنگ سے متاثرہ تمام ممالک نے ایک بار پھر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی جدوجہد شروع کردی۔
لیکن ابھی وہ پوری طرح سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ اچانک ہی، پہلی جنگ عظیم کے 21 سال بعد، دوسری جنگ عظیم یکم ستمبر 1939 کو شروع ہوئی اور 14 اگست 1945 کو اس کا اختتام ہوا۔ اس جنگ سے بھی دنیا بھر میں بے پناہ تباہی ہوئی۔ ایک کروڑ 50 لاکھ افراد اس جنگ میں لقمہ اجل بنے، جن میں 61 لاکھ 15 ہزار فوجی بھی شامل تھے۔ علاوہ ازیں، دوسری جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی فوجیوں کی تعداد کا تخمینہ ساڑھے تین لاکھ سے بھی زیادہ کا لگایا گیا۔
دوسری عالمی جنگ میں کراچی بھی فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوگیا جس سے اس کی تجارتی، معاشی اور صنعتی سرگرمیوں میں تیزی آگئی جبکہ رہائش گاہوں میں کمی کے سبب اسی دور میں گنیش کھوپرا مل سے لی مارکیٹ تک کا ویران علا قہ آباد ہوا۔ اسی دور میں شہر کے مختلف علاقوں میں فوجی نقل و حرکت کےلیے سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے نقل مکانی کرکے شہر کراچی میں آنے کے سبب تاجروں نے فائدہ اٹھایا اور کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان ضرورت کی دوگنے داموں فروخت شروع کردی جس کے پیش نظر برٹش گورنمنٹ نے اسی دور میں راشن کا نظام بھی روشناس کروایا۔ پہلا راشنی دفتر اور راشنی شاپ کھارادر کے اندر کھولا گیا جہاں عوام کو لمبی قطاریں لگا کر راشن لینا پڑتا تھا۔
دوسری جنگ عظیم میں کراچی کے سول ہوائی اڈے، ماری پور کے فوجی ہوائی اڈے اور بندرگاہ نے بھی بے پناہ ترقی کرکے بین الاقوامی شہرت حاصل کرلی۔ دونوں عالمی جنگوں کی یادگاریں آج تک کراچی میں موجود ہیں۔ فریئر ہال کے ساتھ جنگ عظیم اول کی ایک ایسی ہی یاد گار بلوچ انفینٹری رجمنٹ کے بلوچ سپا ہیوں کی ہے جس کا افتتاح ڈیوک آف ونڈسر نے 1922 میں کیا تھا۔ اس پر نہ صرف بہادری اور شجاعت سے لڑنے والے بلوچ سپاہیوں کے نام درج ہیں بلکہ جودھ پور کے سرخ پتھر سے تعمیر اس یادگار پر یہ بھی درج ہے کہ خدا کی تعریف اور بلوچ رجمنٹ کے ہمارے ان دوستوں کی یاد میں جنہوں نے جنگ عظیم اول 1914 تا 1918 میں اپنی جا نیں نچھاور کیں۔
اس کے علاوہ ڈالمیا روڈ پر بھی وار سمیٹری کے نام سے ایک صاف ستھرا قبرستان ہے جہاں 645 فوجیوں کی قبریں موجود ہیں جبکہ اس سلسلے کی سب سے زیادہ یادگاریں عبداللہ ہارون روڈ پر واقع چرچ میں ہیں جس کا سنگ بنیاد 1852 میں سر بارٹلے فریئر نے رکھا اور جس کا افتتاح 1855میں بشپ آف بمبئی نے کیا۔ چونکہ یہ اس وقت ایک فوجی علاقہ تھا، لہذا اسے برطانوی افواج اور ان کے خاندانوں کی عبادت کےلیے تعمیر کیا گیا۔ اسی لیے نہ صرف اس چرچ کو انتہائی کشادہ و دیدہ زیب بنایا گیا، بلکہ اس کے ٹاور کو ڈیڑھ سو فٹ بلند تعمیر کیا گیا۔
اُن دنوں برٹش نیوی کے بحری جہازوں کو راستہ دکھا نے کےلیے ایک لائٹ ہاؤس کی ضرورت پڑی، اور وہ کسی ایسے ٹاور کی تلاش میں تھے جو نیوی قوانین کے مطابق 115 فٹ بلند ہو۔ ایسے میں ان کی نظر شہر کراچی میں اس وقت کے سب سے اونچے اس ٹاور پر پڑی اور انہوں نے اسے لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ کچھ عرصے اس کا استعمال جاری رکھا گیا مگر کیونکہ یہ شہر کراچی کا سب سے بلند ٹاور تھا، لہذا لوگ اس سے خوف کھانے لگے جس کی بناء پر اس کی دو منزلوں کو بشپ آف لاہور کی ہدایت پر منہدم کردیا گیا۔ اس کے بعد سے یہ ٹاور، جس پر تب سے آج تک ایک گھڑیال نصب ہے، لوگوں کو اپنے گھنٹوں کے ذریعے وقت بتانے کا کام کرتا آرہا ہے۔
اسی چرچ کے احاطے میں 1849 میں تعمیر کی جانے والی ایک ایسی یادگار بھی موجود ہے جس کے چاروں کونوں پر توپوں کے ماڈل نصب ہیں۔ اس کی تختی پر لکھی عبارت کے مطابق: عزت مآب جنرل چارلس نیپیئر، کمانڈر ان چیف افواج ہندوستان اور کچھ غیر سرکاری حضرات نے مل کر معزز ملکہ کی 22 ویں رجمنٹ کے سپاہیوں کی یاد میں یہ یادگار تعمیر کرائی تھی۔ چرچ کے ہال کے اندر 100 زیادہ پیتل، تانبے، سنگ مرمر کی تختیاں جابجا نصب ہیں جن پر عالمی جنگوں میں بہادری و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جانیں قربان کرنے والے ہندوستانی اور برطانوی افسران اور سپا ہیوں کے نام درج ہیں؛ جبکہ انہی تختیوں پر بحری افواج سے تعلق رکھنے والے وہ سپاہی اور افسران جو اپنی جان کی بازی لگاتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہوئے تھے، ان کے نام بھی درج ہیں۔
اس وقت کراچی سے بلوچستان تک عیسائیوں کے پروٹسٹنٹ فرقے کے بشپ صادق ڈینئل اس چرچ کے بھی روحانی پیشوا ہیں۔ انہوں نے ایک ملاقات میں اس بات کی تصدیق کی کہ ماضی میں چرچ کا ٹاور ڈیڑھ سو فٹ بلند تھا اور اسے اس وقت کی نیوی بطور لائٹ ہاؤس استعمال کرتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہ سول لا ئن کوارٹرز کا علا قہ تھا جس کے اطراف میں بیرکوں کے اندر فوجی آباد تھے، لہذا ابتدائی طور پر وہی اس چرچ کی تعمیر سے لے کر عرصہ دراز تک اس کی دیکھ بھال بھی کرتے رہے۔ اسی وجہ سے ان برطانوی فوجیوں کو عزت و تکریم دینے اور ان کے ناموں کو زندہ جاوید کرنے کی غرض سے چرچ کے اندر ان کے کارناموں اور ناموں کی تختیاں موجود ہیں جن کے ذریعے آج بھی عبادت کےلیے آنے والے مسیحی برادری کے لوگوں کو تاریخ اور برطانوی افواج کے کارناموں سے واقفیت ملتی ہے۔
چونکہ اب اس علاقے میں صرف فوجی آباد نہیں بلکہ عام شہری بھی مقیم ہیں، اس لیے اب اس چرچ میں عبادت کےلیے پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ آتے ہیں اور عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ سے واقفیت بھی حاصل کرتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مگر اس خطے میں ہونے والی جنگوں سے ہمیں صرف نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ سندھ، بالخصوص کراچی کے اس خطے نے پہلی اور دوسری عالمی جنگ، دونوں دیکھیں لیکن کراچی کا خطہ نہ صرف محفوظ رہا بلکہ ہونے والی ان عالمی جنگوں میں شہر نے بے پناہ ترقی کی۔ شہر کراچی کی اصل ترقی کا سفر اسی طرح شروع ہوا۔ پہلی عالمی جنگ کی شروعات آسٹریا کے شہزادے کے قتل کے نتیجے میں، 28 جون 1914 کو شروع ہوئی۔ اس جنگ میں گو کہ جرمنی کے مدمقابل برطانیہ تھا لہذا دنیا کے بیشتر ممالک نہ صرف اس کی زد میں آئے بلکہ تباہ و برباد بھی ہوئے۔ یہی وہ پہلی جنگ بھی تھی جو بیک وقت سمندروں، فضاؤں اور زمین پر لڑی گئی اور جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ کیمیائی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا گیا۔ برٹش انڈیا کے لاکھوں سپاہیوں نے برطانیہ کی طرف سے جرمنی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور اپنی بہادری کی تاریخ رقم کی۔
کراچی اس جنگ سے قدرے محفوظ رہا مگر اس کے اثرات یہاں بھی مرتب ہوئے۔ لیکن، حیرت انگیز طور پر، یہ شہر مختلف محاذوں پر فوجی کمک پہنچانے کےلیے اہم محل وقوع کی حیثیت رکھتا تھا اور ہندوستان کی تمام بندرگاہوں کی نسبت یورپ، شمالی افریقہ اور مشرقی وسطی سے قریب ترین بندرگاہ تھا۔ اس لیے فوجیں، سامان حرب، اور غذائی اشیاء تک جنگ زدہ علاقوں کو یہیں سے بھیجی جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں محاذ سے لوٹنے والے زخمی فوجیوں کا علاج بھی کراچی ہی میں کیا جاتا تھا، لہذا یہاں نہ صرف اسپتال قائم ہوئے بلکہ مختلف دفاتر اور نئے ادارے بھی کھلے جن سے ملازمتوں کے بہتر مواقع پیدا ہوئے اور دوسرے علاقوں سے لوگ جوق در جوق آکر یہاں آباد ہونے لگے۔ اس کے سبب رہائشی مکانوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی جسے دور کرنے کےلیے کئی نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔
شہر میں مکانوں کی قلت سے اچانک کرایوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا اور اسی سبب پگڑی سسٹم کا آغاز ہوا جس میں کرائے داروں سے منہ مانگے کرائے سمیت پگڑی کی بھاری رقم بھی وصول کی جانے لگی۔ نتیجتاً اُس وقت کی حکومت کو باقاعدہ طور پر کرائے داروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کےلیے ''رینٹ کنٹرول'' کے نام سے ایک علیحدہ محکمہ قائم کرنا پڑا جس سے کرایوں میں زیادتی کا ازالہ تو ہوگیا مگر مکانوں کی کمی کا مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوسکا جس کے سبب تاجروں نے شہر کے مختلف علاقوں میں مکانات کی تعمیر شروع کرکے انہیں کرائے پر دینا شروع کردیا۔
اسی دور میں پہلی مرتبہ ایک بوہرا سیٹھ آدم علی ملا لقمان جی نے جودھ پور کے سرخ پتھروں سے نیپیئر روڈ پر ایک محل نما عمارت تعمیر کروائی اور اس کے بعد سرخ پتھروں سے عمارات کی تعمیر کا سلسلہ چل پڑا۔ ہائی کورٹ بلڈنگ ہو یا الائیڈ بینک، موہٹا پیلس ہو یا لکشمی بلڈنگ، اسٹیٹ بینک کی پرانی عما رت ہو یا دوسری سرخ پتھروں سے تعمیر کردہ عمارتیں، یہ سب اسی دور کی یادیں ہیں۔
اس وقت گو کہ مہنگائی کچھ زیادہ نہ تھی اور آٹا 8 روپے من، چاول 10روپے من، دالیں 4 آنے سیر، چینی 4 آنے سیر، چائے 4 آنے سیر، دودھ 3 آنے سیر، ریشمی کپڑا 4 روپے گز، اور سوٹ کا گرم کپڑا 6 روپے گز ہوا کر تا تھا؛ جبکہ مزدور کی اجرت 12 آنے اور معمار کی مزدوری 2 رو پے 4 آنے یومیہ ہوا کرتی تھی۔ اس میں بھی اچانک اضافہ ہوگیا اور لوگ خوشحال ہونے لگے۔
پہلی جنگِ عظیم 1914 میں شروع ہوکر 1918 تک جاری رہی اور اٹلی، رومانیہ، جاپان، آسٹریلیا، بلغاریا، فرانس اور امریکا کو شدید نقصان پہنچا۔ آخرکار خدا خدا کرکے 11 نومبر 1918 کوجنگ بندی ہوگئی جس کے بعد لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔ مگر چار سال جاری رہنے والی اس عالمی جنگ سے بیشتر ممالک کا کھربوں پاؤنڈز کا نقصان ہوا جبکہ لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کے بعد جنگ سے متاثرہ تمام ممالک نے ایک بار پھر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی جدوجہد شروع کردی۔
لیکن ابھی وہ پوری طرح سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ اچانک ہی، پہلی جنگ عظیم کے 21 سال بعد، دوسری جنگ عظیم یکم ستمبر 1939 کو شروع ہوئی اور 14 اگست 1945 کو اس کا اختتام ہوا۔ اس جنگ سے بھی دنیا بھر میں بے پناہ تباہی ہوئی۔ ایک کروڑ 50 لاکھ افراد اس جنگ میں لقمہ اجل بنے، جن میں 61 لاکھ 15 ہزار فوجی بھی شامل تھے۔ علاوہ ازیں، دوسری جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی فوجیوں کی تعداد کا تخمینہ ساڑھے تین لاکھ سے بھی زیادہ کا لگایا گیا۔
دوسری عالمی جنگ میں کراچی بھی فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوگیا جس سے اس کی تجارتی، معاشی اور صنعتی سرگرمیوں میں تیزی آگئی جبکہ رہائش گاہوں میں کمی کے سبب اسی دور میں گنیش کھوپرا مل سے لی مارکیٹ تک کا ویران علا قہ آباد ہوا۔ اسی دور میں شہر کے مختلف علاقوں میں فوجی نقل و حرکت کےلیے سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے نقل مکانی کرکے شہر کراچی میں آنے کے سبب تاجروں نے فائدہ اٹھایا اور کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان ضرورت کی دوگنے داموں فروخت شروع کردی جس کے پیش نظر برٹش گورنمنٹ نے اسی دور میں راشن کا نظام بھی روشناس کروایا۔ پہلا راشنی دفتر اور راشنی شاپ کھارادر کے اندر کھولا گیا جہاں عوام کو لمبی قطاریں لگا کر راشن لینا پڑتا تھا۔
دوسری جنگ عظیم میں کراچی کے سول ہوائی اڈے، ماری پور کے فوجی ہوائی اڈے اور بندرگاہ نے بھی بے پناہ ترقی کرکے بین الاقوامی شہرت حاصل کرلی۔ دونوں عالمی جنگوں کی یادگاریں آج تک کراچی میں موجود ہیں۔ فریئر ہال کے ساتھ جنگ عظیم اول کی ایک ایسی ہی یاد گار بلوچ انفینٹری رجمنٹ کے بلوچ سپا ہیوں کی ہے جس کا افتتاح ڈیوک آف ونڈسر نے 1922 میں کیا تھا۔ اس پر نہ صرف بہادری اور شجاعت سے لڑنے والے بلوچ سپاہیوں کے نام درج ہیں بلکہ جودھ پور کے سرخ پتھر سے تعمیر اس یادگار پر یہ بھی درج ہے کہ خدا کی تعریف اور بلوچ رجمنٹ کے ہمارے ان دوستوں کی یاد میں جنہوں نے جنگ عظیم اول 1914 تا 1918 میں اپنی جا نیں نچھاور کیں۔
اس کے علاوہ ڈالمیا روڈ پر بھی وار سمیٹری کے نام سے ایک صاف ستھرا قبرستان ہے جہاں 645 فوجیوں کی قبریں موجود ہیں جبکہ اس سلسلے کی سب سے زیادہ یادگاریں عبداللہ ہارون روڈ پر واقع چرچ میں ہیں جس کا سنگ بنیاد 1852 میں سر بارٹلے فریئر نے رکھا اور جس کا افتتاح 1855میں بشپ آف بمبئی نے کیا۔ چونکہ یہ اس وقت ایک فوجی علاقہ تھا، لہذا اسے برطانوی افواج اور ان کے خاندانوں کی عبادت کےلیے تعمیر کیا گیا۔ اسی لیے نہ صرف اس چرچ کو انتہائی کشادہ و دیدہ زیب بنایا گیا، بلکہ اس کے ٹاور کو ڈیڑھ سو فٹ بلند تعمیر کیا گیا۔
اُن دنوں برٹش نیوی کے بحری جہازوں کو راستہ دکھا نے کےلیے ایک لائٹ ہاؤس کی ضرورت پڑی، اور وہ کسی ایسے ٹاور کی تلاش میں تھے جو نیوی قوانین کے مطابق 115 فٹ بلند ہو۔ ایسے میں ان کی نظر شہر کراچی میں اس وقت کے سب سے اونچے اس ٹاور پر پڑی اور انہوں نے اسے لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ کچھ عرصے اس کا استعمال جاری رکھا گیا مگر کیونکہ یہ شہر کراچی کا سب سے بلند ٹاور تھا، لہذا لوگ اس سے خوف کھانے لگے جس کی بناء پر اس کی دو منزلوں کو بشپ آف لاہور کی ہدایت پر منہدم کردیا گیا۔ اس کے بعد سے یہ ٹاور، جس پر تب سے آج تک ایک گھڑیال نصب ہے، لوگوں کو اپنے گھنٹوں کے ذریعے وقت بتانے کا کام کرتا آرہا ہے۔
اسی چرچ کے احاطے میں 1849 میں تعمیر کی جانے والی ایک ایسی یادگار بھی موجود ہے جس کے چاروں کونوں پر توپوں کے ماڈل نصب ہیں۔ اس کی تختی پر لکھی عبارت کے مطابق: عزت مآب جنرل چارلس نیپیئر، کمانڈر ان چیف افواج ہندوستان اور کچھ غیر سرکاری حضرات نے مل کر معزز ملکہ کی 22 ویں رجمنٹ کے سپاہیوں کی یاد میں یہ یادگار تعمیر کرائی تھی۔ چرچ کے ہال کے اندر 100 زیادہ پیتل، تانبے، سنگ مرمر کی تختیاں جابجا نصب ہیں جن پر عالمی جنگوں میں بہادری و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جانیں قربان کرنے والے ہندوستانی اور برطانوی افسران اور سپا ہیوں کے نام درج ہیں؛ جبکہ انہی تختیوں پر بحری افواج سے تعلق رکھنے والے وہ سپاہی اور افسران جو اپنی جان کی بازی لگاتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہوئے تھے، ان کے نام بھی درج ہیں۔
اس وقت کراچی سے بلوچستان تک عیسائیوں کے پروٹسٹنٹ فرقے کے بشپ صادق ڈینئل اس چرچ کے بھی روحانی پیشوا ہیں۔ انہوں نے ایک ملاقات میں اس بات کی تصدیق کی کہ ماضی میں چرچ کا ٹاور ڈیڑھ سو فٹ بلند تھا اور اسے اس وقت کی نیوی بطور لائٹ ہاؤس استعمال کرتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہ سول لا ئن کوارٹرز کا علا قہ تھا جس کے اطراف میں بیرکوں کے اندر فوجی آباد تھے، لہذا ابتدائی طور پر وہی اس چرچ کی تعمیر سے لے کر عرصہ دراز تک اس کی دیکھ بھال بھی کرتے رہے۔ اسی وجہ سے ان برطانوی فوجیوں کو عزت و تکریم دینے اور ان کے ناموں کو زندہ جاوید کرنے کی غرض سے چرچ کے اندر ان کے کارناموں اور ناموں کی تختیاں موجود ہیں جن کے ذریعے آج بھی عبادت کےلیے آنے والے مسیحی برادری کے لوگوں کو تاریخ اور برطانوی افواج کے کارناموں سے واقفیت ملتی ہے۔
چونکہ اب اس علاقے میں صرف فوجی آباد نہیں بلکہ عام شہری بھی مقیم ہیں، اس لیے اب اس چرچ میں عبادت کےلیے پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ آتے ہیں اور عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ سے واقفیت بھی حاصل کرتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔