اکیسویں صدی میں غاروں میں رہنے والے پاکستانی

خضدار کے پہاڑی علاقہ ساسول کمب میں سو کے قریب ایسے گھرانے موجود ہیں جو سال کے پانچ ماہ غاروں میں زندگی بسر کرتے ہیں

اس علاقے کے لوگ سال کے پانچ ماہ غاروں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ (تصاویر: حنیف بلوچ)

ماضی کے آثار، قدیم تہذیب و تمدن اور ثقافتی ورثے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ماضی میں لوگ سردیوں سے بچنے کےلیے غاروں میں رہتے تھے اور آگ جلاکر سرد موسم سے محفوظ ہوتے تھے۔ جب دنیا نے جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ترقی کے نئے سفر کا آغاز کیا تو انسان نے ضرورت کے تحت ہر اس چیز کو ایجاد کیا جو اس کی زندگی میں آسائش و آرام لانے کا باعث بنا ہے۔ لالٹین کی جگہ انرجی سیور نے لیا۔ گرمیوں میں ائیرکنڈیشنڈ اور سردیوں میں ہیٹر کا استعمال شروع ہوگیا۔ گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ لباس متعارف ہوگئے۔



اتنی ترقی کے باوجود بعض علاقوں میں ترقی کے آثار نہیں پہنچ سکے ہیں۔ یا ان علاقوں کے مکین اپنی قدیم تہذیب و تمدن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، یہ ایک الگ سوال ہے؟بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں لوگ ابھی بھی اپنی قدیم اور روایتی تہذیب و ثقافت کے امین سمجھے جاتے ہیں جہاں آج بھی شہری زندگی سے زیادہ وہ اپنی دیہاتی زندگی کو نہ صرف ترجیح دیتے ہیں بلکہ وہ زیادہ خوش بھی نظر آتے ہیں۔



خضدار کے علاقے یونین کونسل ساسول کے گاؤں کمب میں آج بھی اکیسویں صدی کی جھلک دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ یہاں کے مکین سردیوں کے موسم میں غار نما مکانات بناکر اس میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ساسول کا گاؤں کمب خضدار سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک قدیم گاؤں ہے۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش مال مویشی اور کھیتی باڑی ہے۔




سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو سے اس گاؤں کے حوالے سے پتا چلا کہ اب بھی بلوچستان کے ضلع خضدار کے پہاڑی علاقہ ساسول کمب (Sasol Kumb) میں سو کے قریب ایسے گھرانے موجود ہیں جو سال کے پانچ ماہ غاروں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر غار نما مکان بناتے ہیں اور سردیوں کا موسم انہی غار نما مکانات میں بسر کرتے ہیں۔ اس علاقے کے لوگ نسل درنسل نومبر سے اپریل کے وسط تک پہاڑوں میں غار نما مکانات بناکر ان میں رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے توسط سے جب علاقے کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان حنیف بلوچ سے رابطہ ممکن ہوا تو اس نے علاقے کی ماضی کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ تین صدیوں سے یہاں کے لوگ نومبر کے وسط سے اپریل کے وسط تک پہاڑی علاقے میں بنائے گئے غاروں کو اپنا عارضی مسکن بناتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سال کے باقی اوقات ایک کلومیٹر کے فاصلے پر یہ لوگ کچے مکانات اور جھونپڑیوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔



علاقے میں تعلیم کے نام پر ایک پرائمری سکول تو موجود ہے لیکن پڑھائی نہیں ہوتی۔ جبکہ صحت عامہ کی سہولیات دستیاب نہیں۔

جب علاقے کے رہائشی حنیف بلوچ سے پوچھا گیا کہ پھر یہ لوگ قرب و جوار کے دوسرے علاقوں میں رہائش اختیار کیوں نہیں کرتے، کیونکہ یہ گاؤں خضدار سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ تو حنیف بلوچ نے بتایا کہ ان لوگوں کو اپنے گاؤں سے اتنی محبت ہے کہ یہ لوگ کسی اور علاقے میں نقل مکانی کرکے منتقل ہونا پسند نہیں کرتے۔ حنیف بلوچ کے مطابق یونین کونسل ساسول کے علاقہ کمب میں لوگوں کا ذریعہ معاش مال مویشیاں پالنا ہے جبکہ بارشوں کے بعد یہ لوگ فصل بھی اگاتے ہیں جو ان کی زندگی کا اثاثہ ہے۔



یہاں کے لوگ زیرزمین کنوویں کھود کر پانی حاصل کرتے ہیں، اور بروقت بارش ہونے سے تالاب میں پانی جمع ہوتا ہے، جسے یہاں کے مکین اور جانور پیتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story