ننھے میاں ضدی اور خود سَر ہوگئے ہیں
ہر فرمائش فوراً پوری کریں گی تو یہی ہو گا۔
ضدی ہے یہ بچہ کہ بس کیا بتاؤں، پریشان کرکے رکھ دیا ہے، سارا دن اس کے پیچھے بھاگتے رہو، دیکھتے رہو کہ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کر دے، کوئی نقصان نہ کر بیٹھے۔''
یہ ان ماؤں کے شکوے ہیں جن کے بچے صرف ضدی نہیں ہوتے بلکہ ان کی بعض عادات اور رویوں پر توجہ نہ دی جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ بچے خود سَر بھی ہوجاتے ہیں۔
بچہ ضد کیوں کرتا ہے؟ اس کی سیدھی سادی وجہ یہ ہے کہ مائیں بچپن ہی سے ان کی ہر بات بلا چوں و چرا مان لیتی ہیں۔ بچہ جس چیز کی فرمائش کرتا ہے، اکثر مائیں وہ حاضر کردیتی ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب آپ ماں بنی تھیں تو بچے کی دیکھ بھال اور اس کی ضروریات پوری کرنا گویا آپ کی اولین ترجیح اور اہم ترین مقصد تھا۔ آپ اس کے رونے یا اس کی ذرا سی آواز سن کر سب کام چھوڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتی ہیں اور گود میں اٹھا کر یہ جاننے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اسے بھوک یا پیاس لگی ہے یا پھر کوئی مسئلہ ہے۔
بچے ذرا بڑے ہو جاتے ہیں اور پیروں پیروں چلنے لگتے ہیں تب بھی آپ ان کی خدمت میں ہمہ وقت حاضر رہتی ہیں۔ وہ اشاروں میں یا توتلی زبان میں آپ سے کسی چیز کا تقاضا کرتے ہیں تو آپ فوراً ہی وہ خواہش پوری کردیتی ہیں۔ ہر ماں کی طرح آپ بھی اپنے ننھے کے لاڈ اٹھاتی ہیں، مگر جب بچہ چار پانچ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور تب صورتِ حال بہت مختلف ہوتی ہے۔
والدین اور خصوصاً ماں کا یہی لاڈ پیار اور ننھے میاں کی ایک آواز پر بھاگے بھاگے آنا بچے کو اس کا عادی بنا دیتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اس کی ہر فرمائش چٹکی بجاتے ہی پوری ہو جائے گی اور اگر اس کے کہنے پر ایسا نہیں ہو گا تو وہ رو پیٹ کر اپنی بات منوا لے گا۔ اگرچہ تمام ہی بچے اپنی بات منوانے کے لیے رونا اور اودھم مچانا جانتے ہیں، مگر اس موقع پر والدین سمجھ داری کا ثبوت نہ دیں تو ان کو بچے کے ہاتھوں بلیک میل ہونا پڑتا ہے۔ اس عادت کا بعد میں غلط نتیجہ سامنے آتا ہے اور شعور کی عمر کو پہنچنے تک اس کی ضد کرنے کی عادتیں اتنی پختہ ہوجاتی ہیں کہ وہ خود بھی پریشان ہوتا رہتا ہے۔ ایسے بچے بڑے عمر کو پہنچنے پر اپنے اردگرد کے ماحول سے بے پروا اور من مانی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ایسا بچہ بے جا ضد کرتا ہے۔
خصوصاً مہما نوں کے سامنے بدتمیزی کرتا ہے۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ان سے وابستہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ وہ ان سے کسی موقع پر کیا توقع کرتے ہیں اور انہیں کسی کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ انہیں صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ جس چیز کی وہ خواہش کریں وہ فوراً ان کے سامنے حاضر کر دی جائے۔
ضدی بچہ ماؤں کو زچ کردیتا ہے۔ یہ انہیں گھر میں تو تنگ کرتے ہی ہیں، لیکن کہیں رشتہ داروں کے گھر بھی جائیں تو یہ وہاں بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو والدین کے لیے شرمندگی کا سبب بن جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی سجی سجائی چیز، کھانے کی شے یا کھلونے دیکھ کر حاصل کرنے کی ضد اور بعض اوقات ضد پوری کرنے کے لیے بدتمیزی کی انتہا کر دینا اور چیخنا چلانا یا رونا۔ یہ سب ماؤں کو میزبان کے سامنے شرمندہ کردیتا ہے۔ اگر ماں بچپن ہی سے بچوں کو روک ٹوک کے ساتھ اس کی ضد کو نظر انداز کرنے لگے تو یہ نوبت ہی نہ آئے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کا کسی بھی موقع پر ردعمل، ان کی عادات اور ان کا مزاج فطرت کے مطابق ہوتا ہے اور اکثر ان کو سنبھالنا دشوار ہو جاتا ہے، مگر عمر کے ساتھ ان میں تبدیلی آنا چاہیے اور صبر اور برداشت جیسے اوصاف اجاگر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچہ کوئی بھی چیز آپ سے مانگ رہا ہے تو فوراً وہ چیز اس کے سامنے نہ رکھ دیں، چاہے وہ اس کا دودھ کا فیڈر ہی کیوں نہ ہو۔ اسے ذرا سا برداشت اور صبر کرنے پر آمادہ کریں۔ بظاہر یہ آپ کو عجیب لگتا ہے، مگر اسی میں آپ کے لیے آسانی ہے۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہو گا اس میں ایک قسم کا ٹھہراؤ اور تقاضا کرنے کے بعد خواہش کے پوری ہونے کے لیے تحمل اور ضبط کا مظاہرہ کرنے کی عادت ہو گی۔
اسی طرح بچے کی ضد یا کوئی فرمائش غیر ضروری ہے تو اسے نظر انداز کردیں۔ اس موقع پر آپ اس کے ردعمل کے مطابق سمجھانے کے ساتھ تھوڑی سختی سے بھی پیش آسکتی ہیں۔ اگر بچے نے ضروری چیز مانگ لی ہو تو اس کو تھوڑی دیر ٹھہرنے کے لیے کہیں اور پھر مطلوبہ چیز فراہم کر دیں۔ بچے کو کوئی بھی شے فوراً ملنے لگے تو وہ بے صبری کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں اور اسی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ وہ منہ سے نکلی ہوئی بات فوری پوری ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور ایسا نہ کرنے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں، لیکن اگر بچے کو اس کے مانگنے کے کچھ دیر بعد مطلوبہ شے ملے گی تو وہ بچپن ہی سے صبر و قناعت سیکھے گا۔
ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کی ضرورت محسوس کریں تو الگ بات ہے، مگر بچوں کو نرمی اور پیار سے بتائیے کہ جب وہ ضد کرتے ہیں تو آپ کتنی پریشان ہوجاتی ہیں۔ اپنی اس کیفیت کو مناسب الفاظ میں بچوں کے ساتھ شیئر کیجیے اور سمجھائیے کہ ان کی ضد سے آپ کو تکلیف ہوئی ہے۔ بچوں کو بتائیں کہ جب دوسروں کے سامنے وہ ضد کریں گے اور آپ کی بات نہیں مانیں گے تو دوسرے لوگوں کے سامنے آپ کو شرمندگی محسوس ہو گی۔ اسی طرح ایسے بچوں کو کوئی بھی پیار نہیں کرتا اور انہیں اچھا بچہ نہیں سمجھتا۔ وقتاً فوقتاً آپ بچوں کو یہ احساس دلاتی رہیں تو بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔
بچے یوں بھی بہت حساس ہوتے ہیں۔ آپ کے سمجھانے بجھانے پر وہ محسوس کریں گے کہ ان کا ضد کرنا اچھا نہیں ہے اور آہستہ آہستہ ضد اور خود سری چھوڑ دیں گے۔ ایک جملہ بچوں کے کان میں بار بار ڈالتی رہیں، وہ یہ کہ ''مما اسے سب سے زیادہ پیار کرتی ہیں جو مما کی بات مانتا ہے اور وہی کرتا ہے جو مما کہتی ہیں۔'' اس کا نفسیاتی اثر ہو گا اور بچہ آپ کا پیار اور توجہ سمیٹنے کے لیے اچھا بننے کی کوشش کرے گا۔
بچے کو اس کے رشتے داروں کے دوسرے بچوں کی مثالیں دے کر سمجھائیے۔ بچہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کے سامنے دوسرے بچوں کی تعریف کی جائے یا اسے دوسروں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جائے۔ وہ آپ کے اور دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سننے کے لیے اپنے آپ کو فرماں بردار ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اور اپنی ضد کرنے کی عادت چھوڑ دے گا۔ بچہ ضد میں آکر رونے یا چیخنے چلانے لگے تو آپ بچے سے دور ہوکر خود کو گھریلو کام میں مصروف کر لیں۔ گود میں بچے کو لے کر یا اس کی کوئی پسندیدہ چیز دے کر بہلانے کی کوشش ہرگز مت کریں۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو اس کا رونا دھونا اور چیخنا چلانا اچھا نہیں لگے گا اور یقیناً اس سے آپ پریشان ہوں گی، مگر یاد رہے کہ یہ سب آپ اس کے فائدے اور بھلے کے لیے ہی کر رہی ہیں۔ بچہ روتے روتے خود ہی چپ ہوجائے گا اور اپنی ضد سے باز رہے گا۔ کچھ عرصے تک ایسا ہوتا رہے گا تو بچہ جان جائے گا کہ اس کے رونے اور چلانے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس طرح ماں اس سے دور ہو جاتی ہے تو وہ اپنی اس عادت کو خود ہی ترک کردے گا۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ سوچیے کہ کہیں وہ آپ کے پیار اور بھرپور توجہ سے تو محروم نہیں ہے۔ اکثر بچہ اس وہم کا شکار بھی ہو جاتا ہے کہ اس کے والدین اس کے دوسرے بہن بھائی کے مقابلے میں اسے زیادہ پیار اور توجہ نہیں دیتے تو بچہ لاشعوری طور پر آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بھی ضد اور فرمائشیں کرسکتا ہے۔ وہ بے جا شور مچاتا ہے، یا ضد کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ماں تمام کام چھوڑ کر اس کی بات سنے۔ اس طرف بھی دھیان دیں اور بچوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق اور امتیاز نہ برتیں۔
یہ ان ماؤں کے شکوے ہیں جن کے بچے صرف ضدی نہیں ہوتے بلکہ ان کی بعض عادات اور رویوں پر توجہ نہ دی جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ بچے خود سَر بھی ہوجاتے ہیں۔
بچہ ضد کیوں کرتا ہے؟ اس کی سیدھی سادی وجہ یہ ہے کہ مائیں بچپن ہی سے ان کی ہر بات بلا چوں و چرا مان لیتی ہیں۔ بچہ جس چیز کی فرمائش کرتا ہے، اکثر مائیں وہ حاضر کردیتی ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب آپ ماں بنی تھیں تو بچے کی دیکھ بھال اور اس کی ضروریات پوری کرنا گویا آپ کی اولین ترجیح اور اہم ترین مقصد تھا۔ آپ اس کے رونے یا اس کی ذرا سی آواز سن کر سب کام چھوڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتی ہیں اور گود میں اٹھا کر یہ جاننے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اسے بھوک یا پیاس لگی ہے یا پھر کوئی مسئلہ ہے۔
بچے ذرا بڑے ہو جاتے ہیں اور پیروں پیروں چلنے لگتے ہیں تب بھی آپ ان کی خدمت میں ہمہ وقت حاضر رہتی ہیں۔ وہ اشاروں میں یا توتلی زبان میں آپ سے کسی چیز کا تقاضا کرتے ہیں تو آپ فوراً ہی وہ خواہش پوری کردیتی ہیں۔ ہر ماں کی طرح آپ بھی اپنے ننھے کے لاڈ اٹھاتی ہیں، مگر جب بچہ چار پانچ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور تب صورتِ حال بہت مختلف ہوتی ہے۔
والدین اور خصوصاً ماں کا یہی لاڈ پیار اور ننھے میاں کی ایک آواز پر بھاگے بھاگے آنا بچے کو اس کا عادی بنا دیتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اس کی ہر فرمائش چٹکی بجاتے ہی پوری ہو جائے گی اور اگر اس کے کہنے پر ایسا نہیں ہو گا تو وہ رو پیٹ کر اپنی بات منوا لے گا۔ اگرچہ تمام ہی بچے اپنی بات منوانے کے لیے رونا اور اودھم مچانا جانتے ہیں، مگر اس موقع پر والدین سمجھ داری کا ثبوت نہ دیں تو ان کو بچے کے ہاتھوں بلیک میل ہونا پڑتا ہے۔ اس عادت کا بعد میں غلط نتیجہ سامنے آتا ہے اور شعور کی عمر کو پہنچنے تک اس کی ضد کرنے کی عادتیں اتنی پختہ ہوجاتی ہیں کہ وہ خود بھی پریشان ہوتا رہتا ہے۔ ایسے بچے بڑے عمر کو پہنچنے پر اپنے اردگرد کے ماحول سے بے پروا اور من مانی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ایسا بچہ بے جا ضد کرتا ہے۔
خصوصاً مہما نوں کے سامنے بدتمیزی کرتا ہے۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ان سے وابستہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ وہ ان سے کسی موقع پر کیا توقع کرتے ہیں اور انہیں کسی کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ انہیں صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ جس چیز کی وہ خواہش کریں وہ فوراً ان کے سامنے حاضر کر دی جائے۔
ضدی بچہ ماؤں کو زچ کردیتا ہے۔ یہ انہیں گھر میں تو تنگ کرتے ہی ہیں، لیکن کہیں رشتہ داروں کے گھر بھی جائیں تو یہ وہاں بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو والدین کے لیے شرمندگی کا سبب بن جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی سجی سجائی چیز، کھانے کی شے یا کھلونے دیکھ کر حاصل کرنے کی ضد اور بعض اوقات ضد پوری کرنے کے لیے بدتمیزی کی انتہا کر دینا اور چیخنا چلانا یا رونا۔ یہ سب ماؤں کو میزبان کے سامنے شرمندہ کردیتا ہے۔ اگر ماں بچپن ہی سے بچوں کو روک ٹوک کے ساتھ اس کی ضد کو نظر انداز کرنے لگے تو یہ نوبت ہی نہ آئے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کا کسی بھی موقع پر ردعمل، ان کی عادات اور ان کا مزاج فطرت کے مطابق ہوتا ہے اور اکثر ان کو سنبھالنا دشوار ہو جاتا ہے، مگر عمر کے ساتھ ان میں تبدیلی آنا چاہیے اور صبر اور برداشت جیسے اوصاف اجاگر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچہ کوئی بھی چیز آپ سے مانگ رہا ہے تو فوراً وہ چیز اس کے سامنے نہ رکھ دیں، چاہے وہ اس کا دودھ کا فیڈر ہی کیوں نہ ہو۔ اسے ذرا سا برداشت اور صبر کرنے پر آمادہ کریں۔ بظاہر یہ آپ کو عجیب لگتا ہے، مگر اسی میں آپ کے لیے آسانی ہے۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہو گا اس میں ایک قسم کا ٹھہراؤ اور تقاضا کرنے کے بعد خواہش کے پوری ہونے کے لیے تحمل اور ضبط کا مظاہرہ کرنے کی عادت ہو گی۔
اسی طرح بچے کی ضد یا کوئی فرمائش غیر ضروری ہے تو اسے نظر انداز کردیں۔ اس موقع پر آپ اس کے ردعمل کے مطابق سمجھانے کے ساتھ تھوڑی سختی سے بھی پیش آسکتی ہیں۔ اگر بچے نے ضروری چیز مانگ لی ہو تو اس کو تھوڑی دیر ٹھہرنے کے لیے کہیں اور پھر مطلوبہ چیز فراہم کر دیں۔ بچے کو کوئی بھی شے فوراً ملنے لگے تو وہ بے صبری کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں اور اسی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ وہ منہ سے نکلی ہوئی بات فوری پوری ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور ایسا نہ کرنے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں، لیکن اگر بچے کو اس کے مانگنے کے کچھ دیر بعد مطلوبہ شے ملے گی تو وہ بچپن ہی سے صبر و قناعت سیکھے گا۔
ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کی ضرورت محسوس کریں تو الگ بات ہے، مگر بچوں کو نرمی اور پیار سے بتائیے کہ جب وہ ضد کرتے ہیں تو آپ کتنی پریشان ہوجاتی ہیں۔ اپنی اس کیفیت کو مناسب الفاظ میں بچوں کے ساتھ شیئر کیجیے اور سمجھائیے کہ ان کی ضد سے آپ کو تکلیف ہوئی ہے۔ بچوں کو بتائیں کہ جب دوسروں کے سامنے وہ ضد کریں گے اور آپ کی بات نہیں مانیں گے تو دوسرے لوگوں کے سامنے آپ کو شرمندگی محسوس ہو گی۔ اسی طرح ایسے بچوں کو کوئی بھی پیار نہیں کرتا اور انہیں اچھا بچہ نہیں سمجھتا۔ وقتاً فوقتاً آپ بچوں کو یہ احساس دلاتی رہیں تو بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔
بچے یوں بھی بہت حساس ہوتے ہیں۔ آپ کے سمجھانے بجھانے پر وہ محسوس کریں گے کہ ان کا ضد کرنا اچھا نہیں ہے اور آہستہ آہستہ ضد اور خود سری چھوڑ دیں گے۔ ایک جملہ بچوں کے کان میں بار بار ڈالتی رہیں، وہ یہ کہ ''مما اسے سب سے زیادہ پیار کرتی ہیں جو مما کی بات مانتا ہے اور وہی کرتا ہے جو مما کہتی ہیں۔'' اس کا نفسیاتی اثر ہو گا اور بچہ آپ کا پیار اور توجہ سمیٹنے کے لیے اچھا بننے کی کوشش کرے گا۔
بچے کو اس کے رشتے داروں کے دوسرے بچوں کی مثالیں دے کر سمجھائیے۔ بچہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کے سامنے دوسرے بچوں کی تعریف کی جائے یا اسے دوسروں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جائے۔ وہ آپ کے اور دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سننے کے لیے اپنے آپ کو فرماں بردار ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اور اپنی ضد کرنے کی عادت چھوڑ دے گا۔ بچہ ضد میں آکر رونے یا چیخنے چلانے لگے تو آپ بچے سے دور ہوکر خود کو گھریلو کام میں مصروف کر لیں۔ گود میں بچے کو لے کر یا اس کی کوئی پسندیدہ چیز دے کر بہلانے کی کوشش ہرگز مت کریں۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو اس کا رونا دھونا اور چیخنا چلانا اچھا نہیں لگے گا اور یقیناً اس سے آپ پریشان ہوں گی، مگر یاد رہے کہ یہ سب آپ اس کے فائدے اور بھلے کے لیے ہی کر رہی ہیں۔ بچہ روتے روتے خود ہی چپ ہوجائے گا اور اپنی ضد سے باز رہے گا۔ کچھ عرصے تک ایسا ہوتا رہے گا تو بچہ جان جائے گا کہ اس کے رونے اور چلانے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس طرح ماں اس سے دور ہو جاتی ہے تو وہ اپنی اس عادت کو خود ہی ترک کردے گا۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ سوچیے کہ کہیں وہ آپ کے پیار اور بھرپور توجہ سے تو محروم نہیں ہے۔ اکثر بچہ اس وہم کا شکار بھی ہو جاتا ہے کہ اس کے والدین اس کے دوسرے بہن بھائی کے مقابلے میں اسے زیادہ پیار اور توجہ نہیں دیتے تو بچہ لاشعوری طور پر آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بھی ضد اور فرمائشیں کرسکتا ہے۔ وہ بے جا شور مچاتا ہے، یا ضد کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ماں تمام کام چھوڑ کر اس کی بات سنے۔ اس طرف بھی دھیان دیں اور بچوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق اور امتیاز نہ برتیں۔