بینظیر بھٹو پاکستانی سیاست پرتین دہائیوں تک چھائی رہیں بہادرعورت کی موت مریں
بھٹوؤں کی جرات اوربہادری شاید 27دسمبر2007ء کودفن ہوگئی۔
بیگم نصرت بھٹونے ایک مرتبہ اپنی بڑی بیٹی بنیظیربھٹوکواپنے کنبے میں سب سے زیادہ غالب بچہ اوراس سے نمٹنامشکل قراردیاتھا۔
ان کی شخصیت کبھی تبدیل نہیں ہوئی ،وہ پاکستانی سیاست پرقریباًتین دہائیوں تک چھائی رہیں اوربہادرعورت کی موت مریں۔ان کی ایک دفعہ اپنے بھائی میرمرتضی بھٹوسے ایک کھلونا کارپرلڑائی ہوئی جوان کے پاپانے میرکیلیے خریدی تھی ۔وہ کھلونالیتی بنیں جبکہ بھٹوکوبیٹے کیلیے نیاخریدناپڑا۔سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکے امیرخاندان میں پیداہونے کے باوجودانھوںنے خوشیوں سے زیادہ دکھ جھیلے حالانکہ وہ عالم اسلام میں پہلی مسلمان وزیر اعظم بنیں اوردومرتبہ اس عہدے پرفائزرہیں۔ان کے والد ذوالفقاربھٹوکوپھانسی،بھائیوں شاہنوازاورمرتضی کی اموات ، جیل میں پانچ برس ،نظربندی،جنرل ضیاء اورمشرف دورمیں 7برس جلاوطنی،مقدمے ،جیل میں قیدخاوند کے ساتھ غیریقینی زندگی اورخودکش حملے میں انجام ہوا۔
ان کی غالب شخصیت نے انھیں آکسفورڈیونیورسٹی کی صدربنایا اورجب وہ سیاست میں داخل ہوئیں توانھوں نے اپنی والدہ کوتاحیات چیرپرسن بناکرتمام اختیارات خودحاصل کرلیے۔عملی سیاست میں اپنے والدکے دورکے طاقتوررہنماؤں نوابزادہ نصراللہ خان ،خان عبدالولی خان،میرغوث بخش بزنجو اور پروفیسر غفوراحمدکی موجودگی میں بھی وہ چھائی رہیں۔وہ اپنی مضبوط شخصیت کے بل بوتے پرسیاسی حریف نوازشریف کے ساتھ معاملات طے کرنے میں بھی کامیاب رہیں۔انھوں نے نوازشریف کے ساتھ کئے گئے 'چارٹرآف ڈیموکریسی' کو1973ء کے آئین کے بعدسب سے بہترین دستاویزقراردیااوراسے آئین کے حصہ بنانے کی خواہش ظاہرکی۔
نوازشریف،جنھیں ان کی موت سے شدیددھچکا لگاتھا،انھوں نے بھی بنظیربھٹوکوپختہ سیاسی رہنماقراردیاتھا ۔ تاہم ایک شخصیت ایسی تھی جس پروہ غالب نہ آسکیں اوروہ تھے ان کے والدذوالفقارعلی بھٹو۔3اپریل 1979ء کی رات موت کی کوٹھڑی میں وہ طالب علم کی طرح اپنے استادسے نوٹس لیتی رہیں جبکہ بیگم بھٹواس دوران روتی رہیں۔ وہ جانتی تھیںکہ یہ وہ لمحات ہیں جوکبھی واپس نہیں آئیں گے لہذا انھوں نے اپنے سیاسی گرو سے تمام ہدایت لیں۔ ان سے لی گئی ایک نصیحت یہ تھی کہ پیپلزپارٹی میں کس پراعتمادکرناہے اورکس پرنہیں۔ انھوں نے ان حقائق کاانکشاف راقم الحروف سے ایک انٹرویومیں کیا۔ انھوں نے اپنی زندگی اورموت دونوں میں بہادری دکھائی۔ 18اکتوبر2007ء کودھمکیوں کے باعث وہ ریلی ملتوی کرسکتی تھیں تاہم انھوں نے آگے بڑھنے کافیصلہ کیا۔ خودکش دھماکے کے بعد،جس میں پییپلزپارٹی کے 150کارکن مارے گئے ،وہ بلاول ہاؤس میں نہیں بیٹھیں بلکہ اگلے روززخمی کارکنوں کی عیادت کی۔
وہ واپس دبئی جاسکتی تھیں تاہم انھوں نے پولیس کوخط لکھا اوران لوگوں کونامزدکیاجوان کی زندگی کے درپے تھے، ان میں جنرل مشرف،چوہدری پرویزالہی اورآئی بی کے سابق سربراہ اعجازشاہ شامل تھے۔ وہ27دسمبر2007ء کے جلسے سے بذریعہ ویڈیولنک خطاب کرسکتی تھیں تاہم وہ موت کاپھرسامنے کرنے کیلیے لیاقت باغ چلی گئیں۔ ان کے قتل کے بعدایسی جرات ان کی جماعت میں پھرکبھی دکھائی نہیں دی اوربھٹواوربنظیرکی جماعت 2013ء کے انتخابات میں لوگوں کاسامناکرنے کیلیے باہر نہ نکلی۔ جماعت توشایدزندہ رہے تاہم بھٹوؤں کی جرات اوربہادری شاید 27دسمبر2007ء کودفن ہوگئی۔ ان کے قتل کی سازش کرنے والے بنظیر کی عادت اورجرات سے آگاہ تھے۔ وہ جانتے تھے انھیں لوگوں سے دور رکھا جا سکتا ہے نہ روکا جا سکتا ہے چنانچہ وہ 'پارٹی کارکن'بن کرسامنے آئے اورا نھیں ان کے اپنے لوگوں کے سامنے ماردیا۔
بیگم بھٹوجنرل ضیاء کی مخالفت میں انتہاپسند تھیں جبکہ بنظیران کے مقابلے میں زیادہ حقیقت پسندتھیں اورانھوں نے اپنی والدہ کوقائل کیاکہ سابق پی این اے رہنماؤں کوضیاء کیخلاف اتحادبنانے اورانتخابات کرانے پرمجبورکرنے کیلیے 70کلفٹن میںمدعوکیاجائے حالانکہ ان میں سے کچھ پرانھیں شک تھاکہ انھوں نے بھٹوکی پھانسی کی بالواسطہ طور پرتوثیق کی تھی۔اس کے نتیجے میں ایم آرڈی بنی۔ بینظیرنے بعدازں جماعت کاچارج سنبھالااوران کاحقیقی تاریخی سفراس وقت شروع ہواجب انھوں نے 10اپریل 1986ء کولاہورمیں قدم رکھا۔ایک اندازے کے مطابق5لاکھ لوگوں نے ان کااستقبال کیا۔بی بی اپنی واپسی کے بعد ایک بدلی ہوئی رہنما تھیں۔ وہ امریکا اوراسٹیبلشمینٹ کیخلاف ویسے جارح نہیں تھیں جیسے کہ وہ 1977ء سے 1985ء تک رہی تھیں ،اس کے باوجود1988ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی فتح کومحدودکیاگیا۔ وہ ایجی ٹیشن کے فن سے آشناتھیںاورانھوں نے کئی مواقع پر پولیس اورخفیہ ایجنسیوں کوچکمہ دے کراحتجاجی ریلیوں کی قیادت کی۔
وہ ایک بارلیاری اوردوسری مرتبہ راولپنڈی میں شدید آنسوگیس اورفائرنگ کے باوجودنمودارہوئیں۔1987ء میں ان کی شادی آصف زرداری سے ہوگئی ۔ اس موقع پربھی جوڑے نے لیاری میں بڑے عوامی استقبالیہ کااہتمام کیا۔ انھوں نے ایام جدوجہد میں بلاول کوجنم دیاحتی کہ دوبیٹیوں کی پیدائش کے بعد ملنے والی دھمکیاں بھی ان کے سیاسی سفرکونہ روک سکیں۔1988ء کے دھاندلی زدہ انتخابات اورسجھوتہ حکومت کوتسلیم کرناشاید ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ ان کے بھائی مرتضی نے انھیں نتائج نہ ماننے اوراپوزیشن میں بیٹھنے کامشورہ دیا۔انھوں نے عالم اسلام میں پہلی خاتون وزیراعظم بن کرنئی تاریخ رقم کی،اس ضمن میں انھوں نے قدامت پسندحلقوں کی تنقیدکابھی سامناکیاجوایک عورت کووزیراعظم ماننے کیخلاف تھے۔
راقم الحروف کوکسی دوسری خاتون سیاستدان میںاتنی صلاحیت نظرنہیں آتی کوہ وہ کم ازکم مستقبل قریب میں بی بی کاریکارڈتوڑسکے۔انھوں نے اپنے دومختصرادوار میں فاش غلطیاں کیں تاہم یہ بھی تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ اسٹیبلشمینٹ نے دوصدورغلام اسحاق خان اورفاروق احمد لغاری کے ذریعے ان کی حکومتیں برطرف کیں۔ مشرف کی بغاوت کے بعدوہ دوبارہ جلاوطن ہوگئیں اور2002ء میں نااہل قراردی گئیں تاہم جب وہ اپنی دوسری جلاوطنی ختم کرکے 18اکتوبر2007ء کوواپس آئیں توکم وبیش 10 لاکھ لوگ ان کے استقبال کیلیے قائداعظم انٹرنیشنل ایرپورٹ پرموجودتھے۔ انھوں نے قابل آفرین زندگی گذاری اوربہادرعورت کی موت مریں۔پیپلزپارٹی تب تک دوبارہ نہیں اٹھ سکتی جب تک اسے ایسی جرات اوریقین کامل میسرنہ آجائے۔
ان کی شخصیت کبھی تبدیل نہیں ہوئی ،وہ پاکستانی سیاست پرقریباًتین دہائیوں تک چھائی رہیں اوربہادرعورت کی موت مریں۔ان کی ایک دفعہ اپنے بھائی میرمرتضی بھٹوسے ایک کھلونا کارپرلڑائی ہوئی جوان کے پاپانے میرکیلیے خریدی تھی ۔وہ کھلونالیتی بنیں جبکہ بھٹوکوبیٹے کیلیے نیاخریدناپڑا۔سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکے امیرخاندان میں پیداہونے کے باوجودانھوںنے خوشیوں سے زیادہ دکھ جھیلے حالانکہ وہ عالم اسلام میں پہلی مسلمان وزیر اعظم بنیں اوردومرتبہ اس عہدے پرفائزرہیں۔ان کے والد ذوالفقاربھٹوکوپھانسی،بھائیوں شاہنوازاورمرتضی کی اموات ، جیل میں پانچ برس ،نظربندی،جنرل ضیاء اورمشرف دورمیں 7برس جلاوطنی،مقدمے ،جیل میں قیدخاوند کے ساتھ غیریقینی زندگی اورخودکش حملے میں انجام ہوا۔
ان کی غالب شخصیت نے انھیں آکسفورڈیونیورسٹی کی صدربنایا اورجب وہ سیاست میں داخل ہوئیں توانھوں نے اپنی والدہ کوتاحیات چیرپرسن بناکرتمام اختیارات خودحاصل کرلیے۔عملی سیاست میں اپنے والدکے دورکے طاقتوررہنماؤں نوابزادہ نصراللہ خان ،خان عبدالولی خان،میرغوث بخش بزنجو اور پروفیسر غفوراحمدکی موجودگی میں بھی وہ چھائی رہیں۔وہ اپنی مضبوط شخصیت کے بل بوتے پرسیاسی حریف نوازشریف کے ساتھ معاملات طے کرنے میں بھی کامیاب رہیں۔انھوں نے نوازشریف کے ساتھ کئے گئے 'چارٹرآف ڈیموکریسی' کو1973ء کے آئین کے بعدسب سے بہترین دستاویزقراردیااوراسے آئین کے حصہ بنانے کی خواہش ظاہرکی۔
نوازشریف،جنھیں ان کی موت سے شدیددھچکا لگاتھا،انھوں نے بھی بنظیربھٹوکوپختہ سیاسی رہنماقراردیاتھا ۔ تاہم ایک شخصیت ایسی تھی جس پروہ غالب نہ آسکیں اوروہ تھے ان کے والدذوالفقارعلی بھٹو۔3اپریل 1979ء کی رات موت کی کوٹھڑی میں وہ طالب علم کی طرح اپنے استادسے نوٹس لیتی رہیں جبکہ بیگم بھٹواس دوران روتی رہیں۔ وہ جانتی تھیںکہ یہ وہ لمحات ہیں جوکبھی واپس نہیں آئیں گے لہذا انھوں نے اپنے سیاسی گرو سے تمام ہدایت لیں۔ ان سے لی گئی ایک نصیحت یہ تھی کہ پیپلزپارٹی میں کس پراعتمادکرناہے اورکس پرنہیں۔ انھوں نے ان حقائق کاانکشاف راقم الحروف سے ایک انٹرویومیں کیا۔ انھوں نے اپنی زندگی اورموت دونوں میں بہادری دکھائی۔ 18اکتوبر2007ء کودھمکیوں کے باعث وہ ریلی ملتوی کرسکتی تھیں تاہم انھوں نے آگے بڑھنے کافیصلہ کیا۔ خودکش دھماکے کے بعد،جس میں پییپلزپارٹی کے 150کارکن مارے گئے ،وہ بلاول ہاؤس میں نہیں بیٹھیں بلکہ اگلے روززخمی کارکنوں کی عیادت کی۔
وہ واپس دبئی جاسکتی تھیں تاہم انھوں نے پولیس کوخط لکھا اوران لوگوں کونامزدکیاجوان کی زندگی کے درپے تھے، ان میں جنرل مشرف،چوہدری پرویزالہی اورآئی بی کے سابق سربراہ اعجازشاہ شامل تھے۔ وہ27دسمبر2007ء کے جلسے سے بذریعہ ویڈیولنک خطاب کرسکتی تھیں تاہم وہ موت کاپھرسامنے کرنے کیلیے لیاقت باغ چلی گئیں۔ ان کے قتل کے بعدایسی جرات ان کی جماعت میں پھرکبھی دکھائی نہیں دی اوربھٹواوربنظیرکی جماعت 2013ء کے انتخابات میں لوگوں کاسامناکرنے کیلیے باہر نہ نکلی۔ جماعت توشایدزندہ رہے تاہم بھٹوؤں کی جرات اوربہادری شاید 27دسمبر2007ء کودفن ہوگئی۔ ان کے قتل کی سازش کرنے والے بنظیر کی عادت اورجرات سے آگاہ تھے۔ وہ جانتے تھے انھیں لوگوں سے دور رکھا جا سکتا ہے نہ روکا جا سکتا ہے چنانچہ وہ 'پارٹی کارکن'بن کرسامنے آئے اورا نھیں ان کے اپنے لوگوں کے سامنے ماردیا۔
بیگم بھٹوجنرل ضیاء کی مخالفت میں انتہاپسند تھیں جبکہ بنظیران کے مقابلے میں زیادہ حقیقت پسندتھیں اورانھوں نے اپنی والدہ کوقائل کیاکہ سابق پی این اے رہنماؤں کوضیاء کیخلاف اتحادبنانے اورانتخابات کرانے پرمجبورکرنے کیلیے 70کلفٹن میںمدعوکیاجائے حالانکہ ان میں سے کچھ پرانھیں شک تھاکہ انھوں نے بھٹوکی پھانسی کی بالواسطہ طور پرتوثیق کی تھی۔اس کے نتیجے میں ایم آرڈی بنی۔ بینظیرنے بعدازں جماعت کاچارج سنبھالااوران کاحقیقی تاریخی سفراس وقت شروع ہواجب انھوں نے 10اپریل 1986ء کولاہورمیں قدم رکھا۔ایک اندازے کے مطابق5لاکھ لوگوں نے ان کااستقبال کیا۔بی بی اپنی واپسی کے بعد ایک بدلی ہوئی رہنما تھیں۔ وہ امریکا اوراسٹیبلشمینٹ کیخلاف ویسے جارح نہیں تھیں جیسے کہ وہ 1977ء سے 1985ء تک رہی تھیں ،اس کے باوجود1988ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی فتح کومحدودکیاگیا۔ وہ ایجی ٹیشن کے فن سے آشناتھیںاورانھوں نے کئی مواقع پر پولیس اورخفیہ ایجنسیوں کوچکمہ دے کراحتجاجی ریلیوں کی قیادت کی۔
وہ ایک بارلیاری اوردوسری مرتبہ راولپنڈی میں شدید آنسوگیس اورفائرنگ کے باوجودنمودارہوئیں۔1987ء میں ان کی شادی آصف زرداری سے ہوگئی ۔ اس موقع پربھی جوڑے نے لیاری میں بڑے عوامی استقبالیہ کااہتمام کیا۔ انھوں نے ایام جدوجہد میں بلاول کوجنم دیاحتی کہ دوبیٹیوں کی پیدائش کے بعد ملنے والی دھمکیاں بھی ان کے سیاسی سفرکونہ روک سکیں۔1988ء کے دھاندلی زدہ انتخابات اورسجھوتہ حکومت کوتسلیم کرناشاید ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ ان کے بھائی مرتضی نے انھیں نتائج نہ ماننے اوراپوزیشن میں بیٹھنے کامشورہ دیا۔انھوں نے عالم اسلام میں پہلی خاتون وزیراعظم بن کرنئی تاریخ رقم کی،اس ضمن میں انھوں نے قدامت پسندحلقوں کی تنقیدکابھی سامناکیاجوایک عورت کووزیراعظم ماننے کیخلاف تھے۔
راقم الحروف کوکسی دوسری خاتون سیاستدان میںاتنی صلاحیت نظرنہیں آتی کوہ وہ کم ازکم مستقبل قریب میں بی بی کاریکارڈتوڑسکے۔انھوں نے اپنے دومختصرادوار میں فاش غلطیاں کیں تاہم یہ بھی تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ اسٹیبلشمینٹ نے دوصدورغلام اسحاق خان اورفاروق احمد لغاری کے ذریعے ان کی حکومتیں برطرف کیں۔ مشرف کی بغاوت کے بعدوہ دوبارہ جلاوطن ہوگئیں اور2002ء میں نااہل قراردی گئیں تاہم جب وہ اپنی دوسری جلاوطنی ختم کرکے 18اکتوبر2007ء کوواپس آئیں توکم وبیش 10 لاکھ لوگ ان کے استقبال کیلیے قائداعظم انٹرنیشنل ایرپورٹ پرموجودتھے۔ انھوں نے قابل آفرین زندگی گذاری اوربہادرعورت کی موت مریں۔پیپلزپارٹی تب تک دوبارہ نہیں اٹھ سکتی جب تک اسے ایسی جرات اوریقین کامل میسرنہ آجائے۔