کشمیر کا کوئی مستقل حل نہیں ہے
پاکستان ایسی جگہ جہاں کشمیر انھیں موزوں لگتا ہے‘دلی بظاہر سمجھتا ہے کہ ہم سب درست ہیں‘کشمیر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ہمارے ایک محترم بزرگ اور پیپلز پارٹی (شیرپائو) کے رہنماء عبدالرازق خان مرحوم بہت زیرک 'سیاسی شعور کے مالک اور دانشور تھے 'میں نے زندگی میں ان سے بہت کچھ سیکھا ہے 'ایک دن کسی مسئلے پر اختلاف تھا تو انھوں نے مجھے کہا کہ دیکھو سیاست میں ہمیشہ سو(100) مانگا کرو'کم مانگنے سے تمہارا قد کم معلوم ہوگا لیکن اگر پانچ (5)ملتے ہوں تو انکار نہ کرنا وہ لے لو اور پچانوے(95) کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھو'انکار کی صورت میں وہ پانچ بھی ہاتھ سے جاتے رہیں گے۔
انھوں نے اس سلسلے میں مزدور تنظیموں کی مثال دی کہ وہ چالیس (40) مطالبات کی فہرست دے کر ہڑتال کر دیتے ہیں'جب طویل مذاکرات کے بعد دس (10) مطالبا ت منظور ہوجاتے ہیں تو وہ ہڑتال اس وعدے کے ساتھ ختم کردیتے ہیں کہ باقی تیس(30) مطالبات کے لیے جدوجہدجاری رہے گی۔یہ بات مجھے آئی ایس آئی کے سابقہ ڈی جی جنرل (ر)اسد درانی کی کشمیر کے بارے میں باتیں دیکھ کر یاد آئیں'انھوں نے اپنی کتاب میں بہت اچھے طریقے سے کشمیر کے مسئلے کے حل کے بارے میں دلائل دیے ہیں'میں نے یہ کتاب نہیں پڑھی لیکن کشمیر کے مسئلے پر کچھ اقتباسات نظر سے گزرے ہیں جو قارئین کی دلچسپی کے لیے حاضر ہیں۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر)اسد درانی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور نہ ہی بھارت پورا کشمیر لے سکتے ہیں اور نہ ہی اسے چھوڑ سکتے ہیں'منقسم یا مشترکہ طور پر زیر انتظام کشمیر کے بجائے 'یا کسی اور فارمولے کے بجائے ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کے مشورے پر عمل کرنا ہوگاکہ ''جتنا لے سکتے ہو لے لو''۔
پاکستان اور بھارت کے جاسوسی ایجنسی کے سابق سربراہان کی جانب سے لکھی گئی کتاب ''دی سپائی کرانیکلز''میں دونوں ملکوں کے درمیان اہم ایشوز پر بات کی گئی ہے 'جن میں کارگل آپریشن'ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلز کا اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا آپریشن'کل بھوشن یادیو کی گرفتاری'حافظ سعید'کشمیر'برہان وانی اور دیگر معاملات شامل ہیں۔
جنرل درانی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم مودی لومڑی اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اونٹ ہیں'مودی جیسے لیڈر پاکستان کے لیے موزوں ہیں'کیونکہ ایسے لوگ ایجنسی کی ترجیح ہوتے ہیں کیونکہ سخت گیر لوگ ہی سخت فیصلے کر سکتے ہیں'1998میں بی جے پی کی حکومت نے ایٹمی دھماکے کیے جن کی وجہ سے پاکستان کو بھی یہی اقدام کرنے کا سنہری موقعہ ملا ۔ان کا ماننا ہے کہ بی جے پی جیسی سخت گیر بھارتی سیاسی جماعتیں ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو شاید کانگریس نہ کرسکے۔
جنرل درانی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے لیے موزوں نعرہ''تنازع سے تعاون''ہو سکتا ہے 'پاکستان اور بھارت کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کے سر براہان نے مفصل انداز میں اس ایشو پر بات کی ہے 'کتاب میں کشمیر پر پورے چھ باب ہیں۔جنرل درانی کے مطابق مسئلہ کشمیر کاکوئی براہ راست حل موجود نہیں'منقسم یا مشترکہ زیر انتظام کشمیر کے بجائے یا زیر بحث کسی اور فارمولے کے بجائے بالواسطہ طور پر کوئی راستہ اختیار کرنا ہوگا'جس میں چھوٹے چھوٹے اقدامات 'جیسا کہ بس اور تجارت'سے شروعات کرنا ہوگی 'انھوں نے کہا کہ بھٹو کا مشورہ اچھا تھا 'مجھے نہیں معلوم کہ ایسی چیزیں کیسے نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں'کیا ہمیں سب چاہیے یا کچھ نہیں چاہیے' کیا یہ صرف ایسا ہی ہے کہ لے لو یا چھوڑ دو؟ جب ہمیں سب کچھ چاہیے یا کچھ نہیں چاہیے تو ممکنہ طور پر ہمیں کچھ نہیں ملتا لیکن یہ بھی ہے کہ جس کسی نے بھی یہ پوچھا ہے کہ کیا آپ یہ لینا چاہتے ہیں یا چھوڑنا چاہتے ہیں'تو اس کا ممکنہ مطلب آپ کا امتحان لینا ہوتا ہے لہذا جیسا کہ بھٹو نے کہا کہ'' جتنا لے سکتے ہو لے لو''۔
جنرل درانی نے مشورہ دیا ہے کہ دہلی اور اسلام آباد کو چاہیے کہ پچھلی نشست پر بیٹھیں اور چھوٹے چھوٹے اقدامات' جیسا کہ تھوڑی سی تجارت سے اور لوگوں کو آپس میں گھلنے ملنے کا موقع دیا جائے 'ہمیں کوئی طریقہ دوبارہ ایجاد نہیں کرنا ہمارے سامنے موجود لوگ 'جو ذہین ہیں' نے عوامی سطح پر معاملات شروع کرنے کا طریقہ تلاش کر رکھا ہے۔
تھوڑی سی نقل وحرکت'تھوڑی تجارت'لوگوں کو ان معاملات میں مصروف کریں اور دلی و اسلام آباد پچھلی نشست پر بیٹھ جائیں جیسے ہی لوگ اطمینان محسوس کریں گے تو لوگ شاید خود ہی یہ کہیں کہ ہم آپ دو ملکوں کے درمیان کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں بننا چاہتے جو جنگ وغیرہ کا سبب بنے 'ہم سب جیسے ہیں ویسے ہی ٹھیک ہیں'اسٹیٹس میں کوئی تبدیلی نہ کریں' کوئی بڑی بات نہ کریں'دونوں ملک ہماری مثال پر عمل کریں گے لیکن یہ طریقہ کار بالواسطہ ہونا چاہیے بات چیت جاری رکھیں اور یہ نہ کہیں کہ آخر میں آپ کو کیا کرنا چاہیے 'جب بات تنازعہ طے کرنے کی آئے تو اسے انقلابی عمل ہونا پڑے گااور سب کو یہ روایتی عقلمندی کی بات یاد رکھنی ہوگی کہ ہمیشہ آپ کو جو چاہیے وہ نہیں ملتا'جو آپ کو مل سکتا ہے اتنا ہی لے لیں۔
آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ختم چھٹی' جتنا مل رہا ہے اتنا لے لیں صورتحال بہتر کریں اور اس کے بعد پانچ'آٹھ یا دس سال کے مناسب عرصہ کے بعد میز پر واپس آئیں اور سوال اٹھائیں کہ پناہ گزینوں کی واپسی کا کیا ہوگا؟کشمیر کے معاملے میں یہ طریقہ کار مسئلے کے حل پر بات چیت کا طریقہ ہو سکتا ہے۔
بھارتی ایجنسی'' را''کے سابق چیف اے ایس دلت نے مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کہانی یہ ہے کہ جب شیخ عبداللہ 1975میں افضل بیگ کے ساتھ معاہدے پر آگے بڑھے تو انھوں نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو پاکستان بھیجا۔
ڈاکٹر فاروق نے بھٹو صاحب سے ملاقات کی جنہوں نے مبینہ طور پر فاروق کو بتایا کہ ''اس موقع پر ہم آپ کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر سکتے 'لہذا جتنا آپ لے سکتے ہیں لے لیں اگر آپ کو کشمیر میں امن اور اقتدار کی پیشکش کی جا رہی ہے تو یہ قبول کرلیں''دلت نے مزید کہا ہے کہ کشمیر میں ایک اور کہانی یہ بھی تھی کہ یاسین ملک کو امریکیوں نے مشورہ دیا کہ دلی کے ساتھ تجارت کریں'جب یاسین نے کہا کہ دلی ناموزوں ہے تو انھیں بتایا گیا کہ جو آپ کو مل رہا ہے آپ کو وہ لینا چاہیے 'یاسین کو بتایا گیا کہ یہ حتمی انتظام نہیں ہے لیکن اگر کوئی پیشکش آتی ہے تو اسے قبول کرنا چاہیے' اسے آپ سیمی فائنل کہیں یا کوارٹر فائنل ؟کون جانتا ہے کہ کیا ہو جائے 'یہی وہ بات ہے کہ جس کا پرچار ڈاکٹر فاروق عبداللہ متعدد بار کر چکے ہیں'کشمیر میں آپ کوئی چیز تبدیل نہیں کر سکتے۔
سابق را چیف نے کہا کہ جو ان کا ہے وہ ان کا ہی ہے 'جو ہمارا ہے وہ ہمارا رہے گا'کوئی بات فرض نہیں کی جاسکتی 'ہمیں کنٹرول لائن کا معاملہ طے کرنا ہے 'یہ کام کئی طریقوں سے کیا جا سکتا ہے اور ممکن ہے کہ اتنے بے ڈھنگے انداز سے نہیں جتنا فاروق بتاتے ہیں لیکن یہ جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے کا جوہر تھا'' ایل او سی پلس''۔ایل او سی کو اس انداز سے بنایا گیا تھا کہ کہ دونوں فریق جیت جائیں کوئی نہیں ہارا'یہی وہ بات ہے جہاں آگے بڑھنے کا طریقہ موجود ہے۔
پاکستان ایسی جگہ جہاں کشمیر انھیں موزوں لگتا ہے'دلی بظاہر سمجھتا ہے کہ ہم سب درست ہیں'کشمیر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مودی کے الیکشن کے حوالے سے سابق آئی ایس آئی سربراہ لکھتے ہیں کہ مودی کے الیکشن پر پاکستان میں ردعمل یہ تھا کہ یہ بھارت کے لیے درست ہے 'مودی کو بھارت کا خیال رکھنے دیں'اس کا امیج خراب کریں اور ممکنہ طور پر ملک کا اندرونی توازن بھی خراب ہو میں ان کی چالوں سے متاثر نہیں ہوں۔
پاکستان کو افغانستان میں مشکل صورت حال سے دو چار کرکے اسے کیا ملا ؟وہ رائیونڈ آکر نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کرتے ہیں اور ان کے اس ڈرامے اور تماشے نے شاندار ہیجانی کیفیت پیدا کی 'لوگ حیران و پریشان رہ گئے اور وہیں کھڑے رہ گئے 'میں واجپائی جیسی شخصیت کو ترجیح دوں گا'جس نے کچھ حاصل تو نہیں کیا لیکن اس کا طریقہ درست تھا۔
پاکستان کا بھارت میں ترجیحی رہنما کون ہو سکتا ہے کے سوال پر بات کرتے ہوئے جنرل درانی کا کہنا ہے کہ سخت گیر لوگ ہی سخت فیصلے کر سکتے ہیں'یہ بات مجھے 1997کے آخر میں 1998کے الیکشن میں بی جے پی کی جیت سے قبل ایک واقعے کی یاد آگئی 'میں نے ایک اخبار میں ایک آرٹیکل شایع کیا تھا کہ انڈیانہ بھیڑیے سے کون خوفزدہ ہے؟۔
یہ آرٹیکل اس بارے میں تھا کہ ہمیں بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے خوفزدہ نہیں ہونا چائیے کیونکہ یہ ہمارے لیے اچھا ثابت ہو سکتا ہے اگر زیادہ نہیں تو ہندوستان کے سیکولر ملک ہونے کی شبیہ خراب ہو جائے گی 'چند ہفتوں بعد اس جگہ دھماکا ہوا جہاں ایڈوانی کو خطاب کرنا تھا 'اس سے بی جے پی کی حمایت میں اضافہ ہوا'یہ جنوبی بھارت میں زیادہ نہیں تھی 'دھماکے کے بعد سوئٹزر لینڈ کے ایک اخبار نے میرا آرٹیکل شایع کیا اور اسے مذکورہ واقع سے جوڑ دیا اور اپنی رپورٹ میں بتایا کہ درانی کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی کامیابی ان کے لیے اچھی ہو سکتی ہے۔وہ لوگ منتخب ہوگئے اور میں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ وہ جوہری دھماکے کریںکیونکہ اس سے پاکستان کو بھی ایسا کرنے کا موقع ملے گا'یہ پارٹی ایسے فیصلے کر سکتی ہے جو شاید کانگریس نہ کر سکے۔
انھوں نے اس سلسلے میں مزدور تنظیموں کی مثال دی کہ وہ چالیس (40) مطالبات کی فہرست دے کر ہڑتال کر دیتے ہیں'جب طویل مذاکرات کے بعد دس (10) مطالبا ت منظور ہوجاتے ہیں تو وہ ہڑتال اس وعدے کے ساتھ ختم کردیتے ہیں کہ باقی تیس(30) مطالبات کے لیے جدوجہدجاری رہے گی۔یہ بات مجھے آئی ایس آئی کے سابقہ ڈی جی جنرل (ر)اسد درانی کی کشمیر کے بارے میں باتیں دیکھ کر یاد آئیں'انھوں نے اپنی کتاب میں بہت اچھے طریقے سے کشمیر کے مسئلے کے حل کے بارے میں دلائل دیے ہیں'میں نے یہ کتاب نہیں پڑھی لیکن کشمیر کے مسئلے پر کچھ اقتباسات نظر سے گزرے ہیں جو قارئین کی دلچسپی کے لیے حاضر ہیں۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر)اسد درانی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور نہ ہی بھارت پورا کشمیر لے سکتے ہیں اور نہ ہی اسے چھوڑ سکتے ہیں'منقسم یا مشترکہ طور پر زیر انتظام کشمیر کے بجائے 'یا کسی اور فارمولے کے بجائے ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کے مشورے پر عمل کرنا ہوگاکہ ''جتنا لے سکتے ہو لے لو''۔
پاکستان اور بھارت کے جاسوسی ایجنسی کے سابق سربراہان کی جانب سے لکھی گئی کتاب ''دی سپائی کرانیکلز''میں دونوں ملکوں کے درمیان اہم ایشوز پر بات کی گئی ہے 'جن میں کارگل آپریشن'ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلز کا اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا آپریشن'کل بھوشن یادیو کی گرفتاری'حافظ سعید'کشمیر'برہان وانی اور دیگر معاملات شامل ہیں۔
جنرل درانی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم مودی لومڑی اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اونٹ ہیں'مودی جیسے لیڈر پاکستان کے لیے موزوں ہیں'کیونکہ ایسے لوگ ایجنسی کی ترجیح ہوتے ہیں کیونکہ سخت گیر لوگ ہی سخت فیصلے کر سکتے ہیں'1998میں بی جے پی کی حکومت نے ایٹمی دھماکے کیے جن کی وجہ سے پاکستان کو بھی یہی اقدام کرنے کا سنہری موقعہ ملا ۔ان کا ماننا ہے کہ بی جے پی جیسی سخت گیر بھارتی سیاسی جماعتیں ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو شاید کانگریس نہ کرسکے۔
جنرل درانی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے لیے موزوں نعرہ''تنازع سے تعاون''ہو سکتا ہے 'پاکستان اور بھارت کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کے سر براہان نے مفصل انداز میں اس ایشو پر بات کی ہے 'کتاب میں کشمیر پر پورے چھ باب ہیں۔جنرل درانی کے مطابق مسئلہ کشمیر کاکوئی براہ راست حل موجود نہیں'منقسم یا مشترکہ زیر انتظام کشمیر کے بجائے یا زیر بحث کسی اور فارمولے کے بجائے بالواسطہ طور پر کوئی راستہ اختیار کرنا ہوگا'جس میں چھوٹے چھوٹے اقدامات 'جیسا کہ بس اور تجارت'سے شروعات کرنا ہوگی 'انھوں نے کہا کہ بھٹو کا مشورہ اچھا تھا 'مجھے نہیں معلوم کہ ایسی چیزیں کیسے نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں'کیا ہمیں سب چاہیے یا کچھ نہیں چاہیے' کیا یہ صرف ایسا ہی ہے کہ لے لو یا چھوڑ دو؟ جب ہمیں سب کچھ چاہیے یا کچھ نہیں چاہیے تو ممکنہ طور پر ہمیں کچھ نہیں ملتا لیکن یہ بھی ہے کہ جس کسی نے بھی یہ پوچھا ہے کہ کیا آپ یہ لینا چاہتے ہیں یا چھوڑنا چاہتے ہیں'تو اس کا ممکنہ مطلب آپ کا امتحان لینا ہوتا ہے لہذا جیسا کہ بھٹو نے کہا کہ'' جتنا لے سکتے ہو لے لو''۔
جنرل درانی نے مشورہ دیا ہے کہ دہلی اور اسلام آباد کو چاہیے کہ پچھلی نشست پر بیٹھیں اور چھوٹے چھوٹے اقدامات' جیسا کہ تھوڑی سی تجارت سے اور لوگوں کو آپس میں گھلنے ملنے کا موقع دیا جائے 'ہمیں کوئی طریقہ دوبارہ ایجاد نہیں کرنا ہمارے سامنے موجود لوگ 'جو ذہین ہیں' نے عوامی سطح پر معاملات شروع کرنے کا طریقہ تلاش کر رکھا ہے۔
تھوڑی سی نقل وحرکت'تھوڑی تجارت'لوگوں کو ان معاملات میں مصروف کریں اور دلی و اسلام آباد پچھلی نشست پر بیٹھ جائیں جیسے ہی لوگ اطمینان محسوس کریں گے تو لوگ شاید خود ہی یہ کہیں کہ ہم آپ دو ملکوں کے درمیان کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں بننا چاہتے جو جنگ وغیرہ کا سبب بنے 'ہم سب جیسے ہیں ویسے ہی ٹھیک ہیں'اسٹیٹس میں کوئی تبدیلی نہ کریں' کوئی بڑی بات نہ کریں'دونوں ملک ہماری مثال پر عمل کریں گے لیکن یہ طریقہ کار بالواسطہ ہونا چاہیے بات چیت جاری رکھیں اور یہ نہ کہیں کہ آخر میں آپ کو کیا کرنا چاہیے 'جب بات تنازعہ طے کرنے کی آئے تو اسے انقلابی عمل ہونا پڑے گااور سب کو یہ روایتی عقلمندی کی بات یاد رکھنی ہوگی کہ ہمیشہ آپ کو جو چاہیے وہ نہیں ملتا'جو آپ کو مل سکتا ہے اتنا ہی لے لیں۔
آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ختم چھٹی' جتنا مل رہا ہے اتنا لے لیں صورتحال بہتر کریں اور اس کے بعد پانچ'آٹھ یا دس سال کے مناسب عرصہ کے بعد میز پر واپس آئیں اور سوال اٹھائیں کہ پناہ گزینوں کی واپسی کا کیا ہوگا؟کشمیر کے معاملے میں یہ طریقہ کار مسئلے کے حل پر بات چیت کا طریقہ ہو سکتا ہے۔
بھارتی ایجنسی'' را''کے سابق چیف اے ایس دلت نے مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کہانی یہ ہے کہ جب شیخ عبداللہ 1975میں افضل بیگ کے ساتھ معاہدے پر آگے بڑھے تو انھوں نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو پاکستان بھیجا۔
ڈاکٹر فاروق نے بھٹو صاحب سے ملاقات کی جنہوں نے مبینہ طور پر فاروق کو بتایا کہ ''اس موقع پر ہم آپ کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر سکتے 'لہذا جتنا آپ لے سکتے ہیں لے لیں اگر آپ کو کشمیر میں امن اور اقتدار کی پیشکش کی جا رہی ہے تو یہ قبول کرلیں''دلت نے مزید کہا ہے کہ کشمیر میں ایک اور کہانی یہ بھی تھی کہ یاسین ملک کو امریکیوں نے مشورہ دیا کہ دلی کے ساتھ تجارت کریں'جب یاسین نے کہا کہ دلی ناموزوں ہے تو انھیں بتایا گیا کہ جو آپ کو مل رہا ہے آپ کو وہ لینا چاہیے 'یاسین کو بتایا گیا کہ یہ حتمی انتظام نہیں ہے لیکن اگر کوئی پیشکش آتی ہے تو اسے قبول کرنا چاہیے' اسے آپ سیمی فائنل کہیں یا کوارٹر فائنل ؟کون جانتا ہے کہ کیا ہو جائے 'یہی وہ بات ہے کہ جس کا پرچار ڈاکٹر فاروق عبداللہ متعدد بار کر چکے ہیں'کشمیر میں آپ کوئی چیز تبدیل نہیں کر سکتے۔
سابق را چیف نے کہا کہ جو ان کا ہے وہ ان کا ہی ہے 'جو ہمارا ہے وہ ہمارا رہے گا'کوئی بات فرض نہیں کی جاسکتی 'ہمیں کنٹرول لائن کا معاملہ طے کرنا ہے 'یہ کام کئی طریقوں سے کیا جا سکتا ہے اور ممکن ہے کہ اتنے بے ڈھنگے انداز سے نہیں جتنا فاروق بتاتے ہیں لیکن یہ جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے کا جوہر تھا'' ایل او سی پلس''۔ایل او سی کو اس انداز سے بنایا گیا تھا کہ کہ دونوں فریق جیت جائیں کوئی نہیں ہارا'یہی وہ بات ہے جہاں آگے بڑھنے کا طریقہ موجود ہے۔
پاکستان ایسی جگہ جہاں کشمیر انھیں موزوں لگتا ہے'دلی بظاہر سمجھتا ہے کہ ہم سب درست ہیں'کشمیر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مودی کے الیکشن کے حوالے سے سابق آئی ایس آئی سربراہ لکھتے ہیں کہ مودی کے الیکشن پر پاکستان میں ردعمل یہ تھا کہ یہ بھارت کے لیے درست ہے 'مودی کو بھارت کا خیال رکھنے دیں'اس کا امیج خراب کریں اور ممکنہ طور پر ملک کا اندرونی توازن بھی خراب ہو میں ان کی چالوں سے متاثر نہیں ہوں۔
پاکستان کو افغانستان میں مشکل صورت حال سے دو چار کرکے اسے کیا ملا ؟وہ رائیونڈ آکر نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کرتے ہیں اور ان کے اس ڈرامے اور تماشے نے شاندار ہیجانی کیفیت پیدا کی 'لوگ حیران و پریشان رہ گئے اور وہیں کھڑے رہ گئے 'میں واجپائی جیسی شخصیت کو ترجیح دوں گا'جس نے کچھ حاصل تو نہیں کیا لیکن اس کا طریقہ درست تھا۔
پاکستان کا بھارت میں ترجیحی رہنما کون ہو سکتا ہے کے سوال پر بات کرتے ہوئے جنرل درانی کا کہنا ہے کہ سخت گیر لوگ ہی سخت فیصلے کر سکتے ہیں'یہ بات مجھے 1997کے آخر میں 1998کے الیکشن میں بی جے پی کی جیت سے قبل ایک واقعے کی یاد آگئی 'میں نے ایک اخبار میں ایک آرٹیکل شایع کیا تھا کہ انڈیانہ بھیڑیے سے کون خوفزدہ ہے؟۔
یہ آرٹیکل اس بارے میں تھا کہ ہمیں بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے خوفزدہ نہیں ہونا چائیے کیونکہ یہ ہمارے لیے اچھا ثابت ہو سکتا ہے اگر زیادہ نہیں تو ہندوستان کے سیکولر ملک ہونے کی شبیہ خراب ہو جائے گی 'چند ہفتوں بعد اس جگہ دھماکا ہوا جہاں ایڈوانی کو خطاب کرنا تھا 'اس سے بی جے پی کی حمایت میں اضافہ ہوا'یہ جنوبی بھارت میں زیادہ نہیں تھی 'دھماکے کے بعد سوئٹزر لینڈ کے ایک اخبار نے میرا آرٹیکل شایع کیا اور اسے مذکورہ واقع سے جوڑ دیا اور اپنی رپورٹ میں بتایا کہ درانی کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی کامیابی ان کے لیے اچھی ہو سکتی ہے۔وہ لوگ منتخب ہوگئے اور میں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ وہ جوہری دھماکے کریںکیونکہ اس سے پاکستان کو بھی ایسا کرنے کا موقع ملے گا'یہ پارٹی ایسے فیصلے کر سکتی ہے جو شاید کانگریس نہ کر سکے۔