اکھڑا اکھڑا جاوید ہاشمی
جاوید ہاشمی کی معذرت خواہانہ پریس کانفرنس کے بعد یہ معاملہ ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔
KARACHI:
جاوید ہاشمی کو میں 1972ء کے ان ابتدائی دنوں سے جانتا ہوں جب وہ ''ایک بہادر آدمی'' کہلاتے ہوئے گورنر ہاؤس لاہور پر چڑھ دوڑے تھے۔ غلام مصطفیٰ کھر ان دنوں وہاں کے بڑے جابر مکین مانے جاتے تھے اور شہر میں کہانی یہ گردش کر رہی تھی کہ سمن آباد لاہور سے کچھ بچیوں کو اغواء کر کے وہاں چھپا دیا گیا ہے۔ جاوید ہاشمی مبینہ طور پر اغواء شدہ وہ بچیاں تو برآمد نہ کر پائے مگر اپنی بہادری کی وجہ سے شہرت بہت کمائی جو ''بنگلہ دیش نامنظور'' تحریک کے دنوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔ میں بدنصیب اپنی جوانی میں سوشلزم کو زیادہ پسند کرتا تھا، اس لیے جاوید ہاشمی کے ارادت مندوں میں شامل نہ ہو سکا۔ پھر وہ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد اس آمر کے نوجوانوں کی وزارت کے مدارالمہام بن گئے تو ان کے قریب جانے کی خواہش دل سے جاتی رہی۔
1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد جو اسمبلی بنی جاوید ہاشمی اس کے رکن منتخب ہوئے اور اس اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ان دنوں نئی نئی پارلیمانی رپورٹنگ شروع کی تھی اور رپورٹر کو خبروں کے حصول کے لیے حکومتی اراکین سے کہیں زیادہ اپوزیشن والوں سے تعلقات بنانا پڑتے ہیں۔ سیدہ عابدہ حسین اور سید فخر امام کا اسلام آباد کے سیکٹر F-7/3 کی آٹھ نمبر گلی والا گھر ان دنوں ضیاء الحق کے ''باغیوں'' کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ جاوید ہاشمی بھی اپنا زیادہ تر وقت وہیں گزارا کرتے تھے، اس لیے ان سے قربت کچھ زیادہ نصیب ہو گئی۔ بعد ازاں وہ اپوزیشن میں بھی رہے اور دو مرتبہ نواز شریف حکومت میں وزیر بھی۔ ہمارے بہت سارے مشترکہ دوست تھے اور اکثر کسی نہ کسی کے ہاں طویل ملاقاتوں کے مواقع ملتے رہے۔
جاوید ہاشمی سے اتنے پرانے تعلق کی وجہ سے میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میں قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھ کر ان کی بدن بولی سے اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہوں کہ وہ ان دنوں سیاسی طور پر کس موڈ میں ہیں۔ اپنے اس دعوے کے اظہار کے بعد میں یہ بھی لکھنے پر مجبور ہوں کہ وہ اپنے ٹیلی وژن انٹرویوز میں جو بھی کہتے رہیں، ان کا دل آج کل تحریک انصاف سے اُکھڑا اُکھڑا ہے۔ نظر بظاہر تو اس کی وجہ وہ خواہ مخواہ کی لعن طعن ہو سکتی ہے جو عمران خان کے انٹرنیٹ جیالوں نے اس باغی پر نواز شریف کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد جاوید ہاشمی کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کے بارے میں برپا کی تھی۔ جاوید ہاشمی کے چند قریبی کالم نگاروں کا دعویٰ ہے کہ مخدوم رشید سے آئے اس باغی کو انٹرنیٹ جیالوں کے طعنے اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے تھے۔ جاوید ہاشمی کو نواز شریف کے بارے میں ادا کیے مثبت الفاظ کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے واپس لینا پڑے تو اس کی وجہ ان کا پیارا نواسہ قاسم تھا جو عمران خان کا دیوانہ ہے۔ جاوید ہاشمی کی معذرت خواہانہ پریس کانفرنس کے بعد یہ معاملہ ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔
طالب بلوچ کے بنائے اور اسحاق ڈار کے پڑھے قومی بجٹ پر جب عام بحث کا آغاز ہوا تو ابتدائی دنوں میں جاوید ہاشمی قومی اسمبلی میں نظر نہیں آئے۔ اپوزیشن اراکین کے لیے مخصوص نشستوں پر پہلی قطار میں موجود ان کی سیٹ اب ملتان ہی کے ایک اور مخدوم شاہ محمود قریشی کو مل چکی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ انھیں تحریک انصاف کا ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بنایا گیا ہے۔ بہت سارے لوگوں نے اس شبے کا اظہار کیا کہ جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی کے انتخاب سے ناراض ہو گئے ہیں اور احتجاجاََ قومی اسمبلی میں نہیں آ رہے۔ گزرے منگل کی شام جس کے دوسرے روز عمران خان نے قومی اسمبلی میں آکر حلف لینا تھا، جاوید ہاشمی لیکن ایکسپریس ٹی وی کے شاہ زیب کے پروگرام میں گئے۔ وہاں انھوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان کو انھوں نے شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف کا ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بنانے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ وہ خود پہلے ہی اس جماعت کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔
آپ سے کیا پردہ۔1975ء سے صرف صحافت کرتے ہوئے میں آپ کو بڑے خلوص سے یہ بتا سکتا ہوں کہ ایک رپورٹر اپنی خصلت میں کوئی زیادہ مثبت نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ''انسان نے کتے کو کاٹا'' جیسی انہونیاں ڈھونڈتا اور انھیں نمک مرچ لگا کر بیان کرنے کی لگن میں مبتلا رہتا ہے۔ بدھ کی صبح جب ایچی سن کالج لاہور کے دو پرانے اور اکٹھے کرکٹ کھیلنے والے یاروں، عمران خان اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان جب قومی اسمبلی کے فلورپر قدیم رفاقتوں کی گرم جوشیاں عود کرتی نظر آرہی تھیں تو قومی اسمبلی میں بیٹھے میں نے اپنی نگاہیں جاوید ہاشمی کے چہرے پر لگائے رکھیں۔ وہاں ''یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے'' لکھا ہوا صاف نظر آ رہا تھا۔
جاوید ہاشمی جمعرات کو بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے اور بجائے شاہ محمود قریشی کے پچھلی والی نشست میں بیٹھنے کے بہت دور ایک کونے میں رکھے بنچ پر براجمان رہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری، جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کے درمیان بڑی سرگرم ''بیک ڈور ڈپلومیسی'' کرتی نظر آئیں۔ پھر کچھ دیر بعد اچانک ڈپٹی اسپیکر جاوید مرتضیٰ نے جاوید ہاشمی کو تقریر کی دعوت دے ڈالی۔ ہاشمی حیران و پریشان ہو گئے۔ اپنے لیے مخصوص نشست کے سامنے والا مائیک دبایا اور واضح اعلان کردیا کہ انھوں نے اپنی جماعت کو واضح الفاظ میں بتادیا تھا کہ ان کا بجٹ پر تقریر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ مگر ان کا نام دے دیا گیا ہے لہذا وہ تقریر کر ہی لیتے ہیں۔ یہ الفاظ کہنے کے بعد انھوں نے طویل خطاب فرمایا مگر اس میں ''باغی''کی روایتی میاں مدن والی بات نہیں تھی۔ سارا عرصہ وہ اُکھڑے اُکھڑے نظر آئے۔ اس سب کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے اسے معلوم کرنا ہو گا۔
جاوید ہاشمی کو میں 1972ء کے ان ابتدائی دنوں سے جانتا ہوں جب وہ ''ایک بہادر آدمی'' کہلاتے ہوئے گورنر ہاؤس لاہور پر چڑھ دوڑے تھے۔ غلام مصطفیٰ کھر ان دنوں وہاں کے بڑے جابر مکین مانے جاتے تھے اور شہر میں کہانی یہ گردش کر رہی تھی کہ سمن آباد لاہور سے کچھ بچیوں کو اغواء کر کے وہاں چھپا دیا گیا ہے۔ جاوید ہاشمی مبینہ طور پر اغواء شدہ وہ بچیاں تو برآمد نہ کر پائے مگر اپنی بہادری کی وجہ سے شہرت بہت کمائی جو ''بنگلہ دیش نامنظور'' تحریک کے دنوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔ میں بدنصیب اپنی جوانی میں سوشلزم کو زیادہ پسند کرتا تھا، اس لیے جاوید ہاشمی کے ارادت مندوں میں شامل نہ ہو سکا۔ پھر وہ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد اس آمر کے نوجوانوں کی وزارت کے مدارالمہام بن گئے تو ان کے قریب جانے کی خواہش دل سے جاتی رہی۔
1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد جو اسمبلی بنی جاوید ہاشمی اس کے رکن منتخب ہوئے اور اس اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ان دنوں نئی نئی پارلیمانی رپورٹنگ شروع کی تھی اور رپورٹر کو خبروں کے حصول کے لیے حکومتی اراکین سے کہیں زیادہ اپوزیشن والوں سے تعلقات بنانا پڑتے ہیں۔ سیدہ عابدہ حسین اور سید فخر امام کا اسلام آباد کے سیکٹر F-7/3 کی آٹھ نمبر گلی والا گھر ان دنوں ضیاء الحق کے ''باغیوں'' کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ جاوید ہاشمی بھی اپنا زیادہ تر وقت وہیں گزارا کرتے تھے، اس لیے ان سے قربت کچھ زیادہ نصیب ہو گئی۔ بعد ازاں وہ اپوزیشن میں بھی رہے اور دو مرتبہ نواز شریف حکومت میں وزیر بھی۔ ہمارے بہت سارے مشترکہ دوست تھے اور اکثر کسی نہ کسی کے ہاں طویل ملاقاتوں کے مواقع ملتے رہے۔
جاوید ہاشمی سے اتنے پرانے تعلق کی وجہ سے میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میں قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھ کر ان کی بدن بولی سے اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہوں کہ وہ ان دنوں سیاسی طور پر کس موڈ میں ہیں۔ اپنے اس دعوے کے اظہار کے بعد میں یہ بھی لکھنے پر مجبور ہوں کہ وہ اپنے ٹیلی وژن انٹرویوز میں جو بھی کہتے رہیں، ان کا دل آج کل تحریک انصاف سے اُکھڑا اُکھڑا ہے۔ نظر بظاہر تو اس کی وجہ وہ خواہ مخواہ کی لعن طعن ہو سکتی ہے جو عمران خان کے انٹرنیٹ جیالوں نے اس باغی پر نواز شریف کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد جاوید ہاشمی کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کے بارے میں برپا کی تھی۔ جاوید ہاشمی کے چند قریبی کالم نگاروں کا دعویٰ ہے کہ مخدوم رشید سے آئے اس باغی کو انٹرنیٹ جیالوں کے طعنے اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے تھے۔ جاوید ہاشمی کو نواز شریف کے بارے میں ادا کیے مثبت الفاظ کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے واپس لینا پڑے تو اس کی وجہ ان کا پیارا نواسہ قاسم تھا جو عمران خان کا دیوانہ ہے۔ جاوید ہاشمی کی معذرت خواہانہ پریس کانفرنس کے بعد یہ معاملہ ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔
طالب بلوچ کے بنائے اور اسحاق ڈار کے پڑھے قومی بجٹ پر جب عام بحث کا آغاز ہوا تو ابتدائی دنوں میں جاوید ہاشمی قومی اسمبلی میں نظر نہیں آئے۔ اپوزیشن اراکین کے لیے مخصوص نشستوں پر پہلی قطار میں موجود ان کی سیٹ اب ملتان ہی کے ایک اور مخدوم شاہ محمود قریشی کو مل چکی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ انھیں تحریک انصاف کا ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بنایا گیا ہے۔ بہت سارے لوگوں نے اس شبے کا اظہار کیا کہ جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی کے انتخاب سے ناراض ہو گئے ہیں اور احتجاجاََ قومی اسمبلی میں نہیں آ رہے۔ گزرے منگل کی شام جس کے دوسرے روز عمران خان نے قومی اسمبلی میں آکر حلف لینا تھا، جاوید ہاشمی لیکن ایکسپریس ٹی وی کے شاہ زیب کے پروگرام میں گئے۔ وہاں انھوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان کو انھوں نے شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف کا ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بنانے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ وہ خود پہلے ہی اس جماعت کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔
آپ سے کیا پردہ۔1975ء سے صرف صحافت کرتے ہوئے میں آپ کو بڑے خلوص سے یہ بتا سکتا ہوں کہ ایک رپورٹر اپنی خصلت میں کوئی زیادہ مثبت نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ''انسان نے کتے کو کاٹا'' جیسی انہونیاں ڈھونڈتا اور انھیں نمک مرچ لگا کر بیان کرنے کی لگن میں مبتلا رہتا ہے۔ بدھ کی صبح جب ایچی سن کالج لاہور کے دو پرانے اور اکٹھے کرکٹ کھیلنے والے یاروں، عمران خان اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان جب قومی اسمبلی کے فلورپر قدیم رفاقتوں کی گرم جوشیاں عود کرتی نظر آرہی تھیں تو قومی اسمبلی میں بیٹھے میں نے اپنی نگاہیں جاوید ہاشمی کے چہرے پر لگائے رکھیں۔ وہاں ''یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے'' لکھا ہوا صاف نظر آ رہا تھا۔
جاوید ہاشمی جمعرات کو بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے اور بجائے شاہ محمود قریشی کے پچھلی والی نشست میں بیٹھنے کے بہت دور ایک کونے میں رکھے بنچ پر براجمان رہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری، جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کے درمیان بڑی سرگرم ''بیک ڈور ڈپلومیسی'' کرتی نظر آئیں۔ پھر کچھ دیر بعد اچانک ڈپٹی اسپیکر جاوید مرتضیٰ نے جاوید ہاشمی کو تقریر کی دعوت دے ڈالی۔ ہاشمی حیران و پریشان ہو گئے۔ اپنے لیے مخصوص نشست کے سامنے والا مائیک دبایا اور واضح اعلان کردیا کہ انھوں نے اپنی جماعت کو واضح الفاظ میں بتادیا تھا کہ ان کا بجٹ پر تقریر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ مگر ان کا نام دے دیا گیا ہے لہذا وہ تقریر کر ہی لیتے ہیں۔ یہ الفاظ کہنے کے بعد انھوں نے طویل خطاب فرمایا مگر اس میں ''باغی''کی روایتی میاں مدن والی بات نہیں تھی۔ سارا عرصہ وہ اُکھڑے اُکھڑے نظر آئے۔ اس سب کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے اسے معلوم کرنا ہو گا۔