اکیلا پتا اگر رات بھر ہوا سے لڑے…
پاکستان ایک ملک ہے اور اس کی اساس، اس کی بنیاد صرف زمین، ریت، صحرا، سمندر اور دریا نہیں ہیں.
معروف شاعر ڈاکٹر بشیر بدر کا ایک مشہور شعر ہے:
یہ آب بڑھتا چلا آرہا ہے بہتا ہوا
کوئی تو آگے بڑھے سینہ سامنے کردے
میں جانتا ہوں کہ انجام کار کیا ہوگا
اکیلا پتا اگر رات بھر ہوا سے لڑے
پاکستان ایک ملک ہے اور اس کی اساس، اس کی بنیاد صرف زمین، ریت، صحرا، سمندر اور دریا نہیں ہیں، صرف کھیت اور کھلیان ہی اس کا احاطہ نہیں کرتے، پاکستان ایک تحریک کی، ایک انقلاب کی، ایک نظریے کی اور ایک ہجرت کی داستان بھی ہے اور بہت ٹھوس حقیقت پر مبنی و مشتمل ایک اسلامی ریاست بھی ہے، جس کے مالک وہ 18 کروڑ باشندے ہیں جو ہمہ وقت اپنے ملک کے لیے دعا گو ہیں، جو شدید محنت و مشقت کرتے، جو جان دینے کی حد تک پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور جان لینے کی حد تک اپنے ملک کا دفاع کرسکتے ہیں اور انھی 18 کروڑ باشندگان پاکستان میں افواج پاکستان بھی ہیں، جن کی بے مثال جرأت، شجاعت اور محافظت ایک سے زائد مرتبہ جنگوں سمیت کئی ایک مواقعوں پر ثابت ہوچکی ہے لیکن آج مختلف سمتوں سے پاکستان حملوں کی زد میں ہے اور بلاشبہ یہ حملے اندرونی اور بیرونی دونوں اطراف سے ہیں اور شدید تر ہیں۔ اگرچہ پاکستان کو توڑنے یا تقسیم کرنے کی سازش تو پاکستان کی تکمیل کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی لیکن بتدریج یہ اب اپنی انتہا پر ہے۔
چند روز قبل بلوچستان میں قائداعظمؒ کی رہائش گاہ پر حملہ، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی طالبات پر حملہ، بڑی تعداد میں ان معصوم طالبات کا شہید ہوجانا، بولان میڈیکل کمپلیکس پر خودکش حملہ اور دھماکے اور بعد ازاں پاکستان کے پرچم کی جگہ BLA کے فلیگ کو آویزاں کرنا۔ یہ سب محض حادثات نہیں ہیں، یا واقعات نہیں ہیں جنھیں وقت کے ساتھ فراموش کردیاجائے یا طالبان کی جانب سے لشکر جھنگوی کی جانب سے ان حادثات کی ذمے داری کو قبول کرلینا کوئی حل نہیں ہے۔ گویا معاملہ تو یہ ہے کہ:
ہلکا سا یہ اک فرق دلوں میں جو پڑا ہے
پچھتائوگے اس زخم کو گہرا نہ سمجھ کر
یہ حملے پاکستان کی اساس پر ہوئے اور اس نظریے پر ہوئے ہیں جسے لے کر تاقیامت اور پھر یوم حشر وہ تیس لاکھ مہاجرین جن میں مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے شامل تھے، شہید ہوگئے اور اب جن کی ارواح عالم برزخ میںسوچتی ہوںگی کہ کیا اسی ملک کے لیے انھوںنے اپنے آپ کو قربان کردیا تھا، اپنے جان و مال نچھاور کردیے تھے۔
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے
حالانکہ میں اپنی کم علمی اور کج فہمی کا ادراک رکھتا ہوں لیکن پھر بھی مجھ جیسا کم علم بھی یہ بات کبھی نہیں سمجھ سکا کہ مرحوم اکبر بگٹی صاحب کا قتل کیوں کیا گیا؟ اور انھیں مارنے کی اس قدر عجلت کیوں درپیش تھی کہ اس سے قبل ان سے کسی قسم کی گفتگو اور مذاکرات کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ اس قتل کی کوئی ناقابل بیان وجہ موجود تھی، تب بھی ایسا کوئی اختیار ملک کا آئین اور قانون کسی ادارے یا فرد کو نہیں دیتا۔ حتیٰ کہ اس حادثے کے مرکزی محرک پرویز مشرف کے خلاف دائر تمام کیسز عدالتوں میں ہی زیر سماعت ہیں اور پرویز مشرف صاحب کو اپنے دفاع کا مکمل حق دیا گیا ہے۔ جب کہ مذاکرات کے حوالے سے طالبان سمیت پڑوسی ملک ہندوستان سے بات چیت شروع کرنے پر کام جاری ہے۔
لہٰذا بہت افسوس اور دکھ کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ پاکستان کے بیرونی دشمن اور ان کی سازشیں، حملے پاکستان کے اندرونی دشمنوں کے حملوں سے کہیں کم خطرناک اور کم تر ہیں۔ لیکن یہ اندرونی دشمن کون ہیں؟ کم از کم میں ببانگ دہل اور اپنی بھرپور آواز کے ساتھ نتائج کی پرواہ کیے بغیر کہتا ہوں کہ یہ دشمن ایک نہایت ارزاں، فرسودہ، متعصب سوچ ہے اور اسی فرسودگی کا پروردہ ایک طبقہ ہے جو کبھی اسلام کا نام لے کر، کبھی وفاق اور ملک کی سالمیت کا ٹھیکیدار بن کر، کبھی مارشل لاء نما جمہوریت سے اور کبھی جمہوریت نما مارشل لاء سے پاکستان کو برباد کرتا رہا ہے اور کرتا جارہا ہے، جسے فکر ہے تو صرف اپنی قوم کی، ذات برادری کی، اپنے علاقے کی اور پھر اپنی ذات کی۔ یہ طبقہ بدترین کرپٹ، راشی، مفاد پرست افراد پر مشتمل ہے اور اس ملک دشمن طبقے کے لوگ ہر سیاسی، مذہبی، قوم پرست جماعتوں میں بڑی فراوانی سے پائے جاتے ہیں، حتیٰ کہ تمام اداروں میں موجود ہیں۔
لہٰذا ان سب اندرونی و بیرونی دشمنوں نے مل کر بلوچستان کو اپنی مکروہ سرگرمیوں کا مرکز بناتے ہوئے اول الذکر اسے تمام تر وسائل میں بھرپور شرکت کے باوجود محروم تر کردیا، دوئم بلوچستان کے عوام کو بے روزگاری، افلاس، مفلوک الحالی کے جہنم میں دھکیل دیا۔ مارشل لاء آتے رہے، جاتے رہے، جمہوریتیں آتی رہیں اور خوش کن وعدوں، خوابوں، پروگراموں کی وعید سناتی رہیں لیکن عملاً:
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
آخر اس بیماریٔ دل نے اپنا کام تمام کیا
بالآخر حد ہونی تھی اور وہ ہوگئی۔ بغاوت کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ بنیادی حقوق سے محروم مشتعل نوجوان ہتھیار بند ہوکر پہاڑوں پر جا بسے اور مورچے سنبھالتے ہوئے بغاوت کردیا۔ آخرکار مسلم لیگ ن کی نئی بننے والی حکومت کی جانب پوری قوم کی نظریں لگی ہیں۔ بلاشبہ جس کی ابتدا مثبت اور سمت درست دکھائی دیتی ہے اور جس کے چنیدہ بلوچستان کے قوم پرست وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ ایک فہمیدہ اور صائب الرائے شخصیت دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن بہت ضرورت ہے وسیع القلبی کی، وسیع النظری کی اور ٹھوس اقدامات کی، ورنہ کہاجائے گا:
اک ظالم کا مظلوموں نے ایسے استقبال کیا
کوئی مسیحا آنکلا ہو جیسے درد کے ماروں میں
یہ آب بڑھتا چلا آرہا ہے بہتا ہوا
کوئی تو آگے بڑھے سینہ سامنے کردے
میں جانتا ہوں کہ انجام کار کیا ہوگا
اکیلا پتا اگر رات بھر ہوا سے لڑے
پاکستان ایک ملک ہے اور اس کی اساس، اس کی بنیاد صرف زمین، ریت، صحرا، سمندر اور دریا نہیں ہیں، صرف کھیت اور کھلیان ہی اس کا احاطہ نہیں کرتے، پاکستان ایک تحریک کی، ایک انقلاب کی، ایک نظریے کی اور ایک ہجرت کی داستان بھی ہے اور بہت ٹھوس حقیقت پر مبنی و مشتمل ایک اسلامی ریاست بھی ہے، جس کے مالک وہ 18 کروڑ باشندے ہیں جو ہمہ وقت اپنے ملک کے لیے دعا گو ہیں، جو شدید محنت و مشقت کرتے، جو جان دینے کی حد تک پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور جان لینے کی حد تک اپنے ملک کا دفاع کرسکتے ہیں اور انھی 18 کروڑ باشندگان پاکستان میں افواج پاکستان بھی ہیں، جن کی بے مثال جرأت، شجاعت اور محافظت ایک سے زائد مرتبہ جنگوں سمیت کئی ایک مواقعوں پر ثابت ہوچکی ہے لیکن آج مختلف سمتوں سے پاکستان حملوں کی زد میں ہے اور بلاشبہ یہ حملے اندرونی اور بیرونی دونوں اطراف سے ہیں اور شدید تر ہیں۔ اگرچہ پاکستان کو توڑنے یا تقسیم کرنے کی سازش تو پاکستان کی تکمیل کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی لیکن بتدریج یہ اب اپنی انتہا پر ہے۔
چند روز قبل بلوچستان میں قائداعظمؒ کی رہائش گاہ پر حملہ، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی طالبات پر حملہ، بڑی تعداد میں ان معصوم طالبات کا شہید ہوجانا، بولان میڈیکل کمپلیکس پر خودکش حملہ اور دھماکے اور بعد ازاں پاکستان کے پرچم کی جگہ BLA کے فلیگ کو آویزاں کرنا۔ یہ سب محض حادثات نہیں ہیں، یا واقعات نہیں ہیں جنھیں وقت کے ساتھ فراموش کردیاجائے یا طالبان کی جانب سے لشکر جھنگوی کی جانب سے ان حادثات کی ذمے داری کو قبول کرلینا کوئی حل نہیں ہے۔ گویا معاملہ تو یہ ہے کہ:
ہلکا سا یہ اک فرق دلوں میں جو پڑا ہے
پچھتائوگے اس زخم کو گہرا نہ سمجھ کر
یہ حملے پاکستان کی اساس پر ہوئے اور اس نظریے پر ہوئے ہیں جسے لے کر تاقیامت اور پھر یوم حشر وہ تیس لاکھ مہاجرین جن میں مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے شامل تھے، شہید ہوگئے اور اب جن کی ارواح عالم برزخ میںسوچتی ہوںگی کہ کیا اسی ملک کے لیے انھوںنے اپنے آپ کو قربان کردیا تھا، اپنے جان و مال نچھاور کردیے تھے۔
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے
حالانکہ میں اپنی کم علمی اور کج فہمی کا ادراک رکھتا ہوں لیکن پھر بھی مجھ جیسا کم علم بھی یہ بات کبھی نہیں سمجھ سکا کہ مرحوم اکبر بگٹی صاحب کا قتل کیوں کیا گیا؟ اور انھیں مارنے کی اس قدر عجلت کیوں درپیش تھی کہ اس سے قبل ان سے کسی قسم کی گفتگو اور مذاکرات کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ اس قتل کی کوئی ناقابل بیان وجہ موجود تھی، تب بھی ایسا کوئی اختیار ملک کا آئین اور قانون کسی ادارے یا فرد کو نہیں دیتا۔ حتیٰ کہ اس حادثے کے مرکزی محرک پرویز مشرف کے خلاف دائر تمام کیسز عدالتوں میں ہی زیر سماعت ہیں اور پرویز مشرف صاحب کو اپنے دفاع کا مکمل حق دیا گیا ہے۔ جب کہ مذاکرات کے حوالے سے طالبان سمیت پڑوسی ملک ہندوستان سے بات چیت شروع کرنے پر کام جاری ہے۔
لہٰذا بہت افسوس اور دکھ کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ پاکستان کے بیرونی دشمن اور ان کی سازشیں، حملے پاکستان کے اندرونی دشمنوں کے حملوں سے کہیں کم خطرناک اور کم تر ہیں۔ لیکن یہ اندرونی دشمن کون ہیں؟ کم از کم میں ببانگ دہل اور اپنی بھرپور آواز کے ساتھ نتائج کی پرواہ کیے بغیر کہتا ہوں کہ یہ دشمن ایک نہایت ارزاں، فرسودہ، متعصب سوچ ہے اور اسی فرسودگی کا پروردہ ایک طبقہ ہے جو کبھی اسلام کا نام لے کر، کبھی وفاق اور ملک کی سالمیت کا ٹھیکیدار بن کر، کبھی مارشل لاء نما جمہوریت سے اور کبھی جمہوریت نما مارشل لاء سے پاکستان کو برباد کرتا رہا ہے اور کرتا جارہا ہے، جسے فکر ہے تو صرف اپنی قوم کی، ذات برادری کی، اپنے علاقے کی اور پھر اپنی ذات کی۔ یہ طبقہ بدترین کرپٹ، راشی، مفاد پرست افراد پر مشتمل ہے اور اس ملک دشمن طبقے کے لوگ ہر سیاسی، مذہبی، قوم پرست جماعتوں میں بڑی فراوانی سے پائے جاتے ہیں، حتیٰ کہ تمام اداروں میں موجود ہیں۔
لہٰذا ان سب اندرونی و بیرونی دشمنوں نے مل کر بلوچستان کو اپنی مکروہ سرگرمیوں کا مرکز بناتے ہوئے اول الذکر اسے تمام تر وسائل میں بھرپور شرکت کے باوجود محروم تر کردیا، دوئم بلوچستان کے عوام کو بے روزگاری، افلاس، مفلوک الحالی کے جہنم میں دھکیل دیا۔ مارشل لاء آتے رہے، جاتے رہے، جمہوریتیں آتی رہیں اور خوش کن وعدوں، خوابوں، پروگراموں کی وعید سناتی رہیں لیکن عملاً:
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
آخر اس بیماریٔ دل نے اپنا کام تمام کیا
بالآخر حد ہونی تھی اور وہ ہوگئی۔ بغاوت کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ بنیادی حقوق سے محروم مشتعل نوجوان ہتھیار بند ہوکر پہاڑوں پر جا بسے اور مورچے سنبھالتے ہوئے بغاوت کردیا۔ آخرکار مسلم لیگ ن کی نئی بننے والی حکومت کی جانب پوری قوم کی نظریں لگی ہیں۔ بلاشبہ جس کی ابتدا مثبت اور سمت درست دکھائی دیتی ہے اور جس کے چنیدہ بلوچستان کے قوم پرست وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ ایک فہمیدہ اور صائب الرائے شخصیت دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن بہت ضرورت ہے وسیع القلبی کی، وسیع النظری کی اور ٹھوس اقدامات کی، ورنہ کہاجائے گا:
اک ظالم کا مظلوموں نے ایسے استقبال کیا
کوئی مسیحا آنکلا ہو جیسے درد کے ماروں میں