ڈرون حملے اور خوف کا عنصر
یوں سوویت یونین کا تو شیرازہ بکھر گیا لیکن اس جذباتی کامیابی سے خود امریکا کے ہاتھ کیا آیا
HYDERABAD:
ستائیس سالہ امریکی نوجوان برینڈن برائنٹ 2011 میں امریکی فضائیہ کی نوکری سے فارغ ہوا تو وہ جسمانی طور پر تو دیکھنے میں فٹ نظر آتا تھا لیکن اس کی ذہنی حالت درست نہ تھی، وہ کم خوابی کا شکار تھا، ڈپریشن، فرسٹریشن میں گھرا برائنٹ ہرگز نارمل نہ تھا۔ وہ انیس برس کی عمر میں 2006 میں امریکی فضائیہ میں داخل ہوا تھا، بے باک جوشیلا اور زندگی سے بھرپور تھا، اس وقت انٹرویو دینے والے افسر نے اسے بہت سراہا تھا، وہ خود بھی بہت خوش تھا لیکن اس وقت اسے اندازہ ہی نہ تھا کہ وہ پانچ ساڑھے پانچ برس کے عرصے میں 1624 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دے گا۔
سالانہ تین سو چوبیس انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنانے والا برائنٹ اب بزدل ہوگیا تھا، اسے ان کئی سو انسانوں کی روحوں سے خوف آتا تھا، اس کا خیال ہے کہ وہ روحیں اب بھی اس کا پیچھا کرتی ہیں۔ 2011 میں نوکری سے فارغ ہونے کے بعد یہ احساس جو کبھی کبھی اسے الجھاتا تھا، گھیرتا ہی گیا، وہ باہر کی دنیا میں خود کو متعارف کرواتا کہ وہ امریکی فضائیہ میں ڈرون آپریٹر کی حیثیت سے 1624 انسانوں کو جہنم رسید کرچکا ہے تو لوگ اس سے کترا کر نکل جاتے اور ایسے اسے دیکھتے جیسے وہ کوئی انسان نہ ہو بلکہ کوئی اور ہی مخلوق ہو جس کا تعلق انسانوں کی اس بستی سے نہ ہو، جس پہلے مشن کو اس نے آپریٹ کرنے والی ٹیم کے ساتھ مکمل کیا وہ افغانستان کی حدود میں ایک ڈرون حملہ تھا، تین انسان باتیں کرتے جارہے تھے، سڑک سنسان تھی۔
ان تینوں کے کندھوں پر بندوق جھول رہی تھی جوکہ عام طور پر وہاں کے قبائلی لیتے ہیں، یہ ان کے طرز زندگی کا ایک حصہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہ تھا کہ وہ دہشت گرد طالبان تھے، امریکی فورسز سے وہ تینوں پانچ میل کے فاصلے پر تھے لہٰذا ان سے کسی قسم کی کارروائی کی بھی امید نہ تھی لیکن ڈرون طیارے نے ان کا نشانہ لیا وہ ڈرون طیارہ جسے کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا تھا اور پھر ان تینوں کی زندگی کے تار کھل گئے۔ ڈرون طیارے نے انھیں بخشا نہ تھا، گرم گرم خون ان کے جسموں سے نکل کر زمین کو تر کررہا تھا، وہ محسوس کرسکتا تھا اس کی حدت کو اور پھر یہ حدت کم ہوتی گئی، زمین پر جما شدہ خون کا رنگ بدل گیا، ان کے جسم ٹھنڈے پڑگئے اور وہ تینوں انسان اس کی یادداشت میں ایک ڈراؤنا خواب بن کر محفوظ ہوگئے۔
این بی سی نیوز کو انٹرویو دینے کے بعد برائنٹ کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا ہوگا، لیکن اس حقیقت سے عوام بھی آشنا ہوگئی کہ ڈرون حملے مہذب ترین قوم کی جانب سے مظلوم قوم پر کھلی دہشت گردی کے سوا اور کچھ نہیں۔ برائنٹ نے عراق اور افغانستان میں ڈرون حملوں میں اپنا کردار ادا کیا تھا جب کہ پاکستان میں وزیرستان پر ہونے والے ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والی مظلوم عوام کی داستان کی کہانی بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ پاکستان ہو، افغانستان ، یمن ہو یا عراق، جس طرح آنکھوں پر کالی دہشت گردی کی گرد لیے ڈرون حملوں سے نوازا جارہا ہے اس میں سے ظالم اور مظلوم کی شناخت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ دشوار بھی ہے، اگر واقعی ڈرون حملے صرف دہشت گرد طالبان یا دیگر انتہا پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تو پھر ان معصوم اسکول کے بچوں کا کیا قصور تھا جنھیں کچھ برس پہلے ان حملوں میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
جس طرح طالبان کو ہلاک کرنے کے لیے بڑی طاقتیں اپنی افواج کو ایک طویل عرصے تک افغانستان میں قابض رکھنے کے باوجود اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکیں بالکل اسی طرح پاکستانی حدود میں ڈرون حملوں سے اب تک کتنے مفید مقاصد حاصل ہوسکے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کے مقاصد بکھر سے گئے ہیں، اسے لاحاصل جنگ بھی کہا جاسکتا ہے جس کا اولین مقصد صرف (سابقہ) سوویت یونین کو اس کی سپر پاور ہونے کا مزہ چکھانے کے سوا کچھ نہ تھا، یوں سوویت یونین کا تو شیرازہ بکھر گیا لیکن اس جذباتی کامیابی سے خود امریکا کے ہاتھ کیا آیا؟ بے پناہ مالی نقصان اور امریکی افواج کے زمینی و نفسیاتی مسائل تو دوسری جانب آسمان سے نمودار ہونے والی اس ڈرون حملوں کی شیطانی آفت سے ہلاک ہونے والے ہزاروں بے گناہ افراد کے لواحقین سوالیہ نشان بن کر پوری دنیا کے سامنے آنا چاہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو وہ صرف آنسو بہاکر خاموش ہوجاتے تھے ان کے حق میں بولنے والا کون تھا لیکن اب پاکستانی عدلیہ کی شفاف کارروائیوں کے بعد انھیں بھی حوصلہ مل گیا ہے۔
2006 میں اس خوفناک کارروائی کا نشانہ بننے والوں کے لواحقین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوگئے، جس پر عدالت نے حکومت اور سیکیورٹی فورسز کو حکم دیا ہے کہ وہ باضابطہ طور پر یونائیٹڈ اسٹیٹ سے اس معاملے کو طے کریں اور انھیں وارننگ دیں کہ مستقبل میں ڈرون حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اس سلسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر حکومت اقوام متحدہ کے ذریعے ان حملوں کو روکنے میں ناکام رہتی ہے تو ان ڈرون طیاروں کو مار گرایا جائے۔
نواز شریف نے جب سے وزارت کی کرسی سنبھالی ہے، مشکلات کا ایک ریلہ ہے جو مستقل ان کی جانب بہتا آرہا ہے، اس مشکل جاب کو نبھانے میں خود ان کو کیا مسائل درپیش ہیں اس کا اندازہ مخالف جماعتوں کو بھی ہے لیکن حالات کو سدھارنے میں اس کٹھن صورت حال کو کس طرح سے سلجھانا ہوگا یہ کڑوا گھونٹ خود وزیراعظم صاحب کو ہی پینا ہوگا۔ اپنی وزارت کی کرسی سنبھالتے ہی پہلی تقریر میں ہی انھوں نے امریکا پر زور دیا تھا کہ وہ ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کردے، دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے خود پاکستان اسٹرٹیجی ترتیب دے گا لیکن دوسری جانب جب امریکا کے ایک کانگریس کے رکن سے ڈرون حملوں کے سلسلے میں سوال پوچھا گیا تو اس نے حیرانگی سے جواب دیا کہ کبھی کسی پاکستان حکومت نے امریکا سے ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے نہیں کہا بلکہ پاکستانی حکومتیں تو ان سے ڈرون ٹیکنالوجی کو ٹرانسفر کرنے کا مطالبہ کرتی رہی تاکہ وہ خود یہ حملے کرسکیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ ڈرون حملے صرف گناہ گار کو شناخت کرکے مارنے میں کارگر ثابت نہیں ہوئے ہیں بلکہ پاکستانی بے گناہ عوام بھی اس کا نشانہ بن رہے ہیں اور کسی بھی ملک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کی حدود میں داخل ہوکر اس کے عوام کو اپنی بربریت کا نشانہ بنائے، لہٰذا ضروری یہ ہے کہ صرف ایک بار نہیں بلکہ بار بار متعلقہ ملک کو اس گھناؤنے گناہ سے روکنے کے لیے سختی سے نمٹا جائے کیونکہ مظلوموں کی آہیں اور خون کی پکار عرش کو بھی ہلا دیتی ہے۔ جو ڈر گیا وہ مر گیا اور اگر ہم ایسے ہی ڈرتے رہے تو پھر۔۔۔۔؟؟
ستائیس سالہ امریکی نوجوان برینڈن برائنٹ 2011 میں امریکی فضائیہ کی نوکری سے فارغ ہوا تو وہ جسمانی طور پر تو دیکھنے میں فٹ نظر آتا تھا لیکن اس کی ذہنی حالت درست نہ تھی، وہ کم خوابی کا شکار تھا، ڈپریشن، فرسٹریشن میں گھرا برائنٹ ہرگز نارمل نہ تھا۔ وہ انیس برس کی عمر میں 2006 میں امریکی فضائیہ میں داخل ہوا تھا، بے باک جوشیلا اور زندگی سے بھرپور تھا، اس وقت انٹرویو دینے والے افسر نے اسے بہت سراہا تھا، وہ خود بھی بہت خوش تھا لیکن اس وقت اسے اندازہ ہی نہ تھا کہ وہ پانچ ساڑھے پانچ برس کے عرصے میں 1624 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دے گا۔
سالانہ تین سو چوبیس انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنانے والا برائنٹ اب بزدل ہوگیا تھا، اسے ان کئی سو انسانوں کی روحوں سے خوف آتا تھا، اس کا خیال ہے کہ وہ روحیں اب بھی اس کا پیچھا کرتی ہیں۔ 2011 میں نوکری سے فارغ ہونے کے بعد یہ احساس جو کبھی کبھی اسے الجھاتا تھا، گھیرتا ہی گیا، وہ باہر کی دنیا میں خود کو متعارف کرواتا کہ وہ امریکی فضائیہ میں ڈرون آپریٹر کی حیثیت سے 1624 انسانوں کو جہنم رسید کرچکا ہے تو لوگ اس سے کترا کر نکل جاتے اور ایسے اسے دیکھتے جیسے وہ کوئی انسان نہ ہو بلکہ کوئی اور ہی مخلوق ہو جس کا تعلق انسانوں کی اس بستی سے نہ ہو، جس پہلے مشن کو اس نے آپریٹ کرنے والی ٹیم کے ساتھ مکمل کیا وہ افغانستان کی حدود میں ایک ڈرون حملہ تھا، تین انسان باتیں کرتے جارہے تھے، سڑک سنسان تھی۔
ان تینوں کے کندھوں پر بندوق جھول رہی تھی جوکہ عام طور پر وہاں کے قبائلی لیتے ہیں، یہ ان کے طرز زندگی کا ایک حصہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہ تھا کہ وہ دہشت گرد طالبان تھے، امریکی فورسز سے وہ تینوں پانچ میل کے فاصلے پر تھے لہٰذا ان سے کسی قسم کی کارروائی کی بھی امید نہ تھی لیکن ڈرون طیارے نے ان کا نشانہ لیا وہ ڈرون طیارہ جسے کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا تھا اور پھر ان تینوں کی زندگی کے تار کھل گئے۔ ڈرون طیارے نے انھیں بخشا نہ تھا، گرم گرم خون ان کے جسموں سے نکل کر زمین کو تر کررہا تھا، وہ محسوس کرسکتا تھا اس کی حدت کو اور پھر یہ حدت کم ہوتی گئی، زمین پر جما شدہ خون کا رنگ بدل گیا، ان کے جسم ٹھنڈے پڑگئے اور وہ تینوں انسان اس کی یادداشت میں ایک ڈراؤنا خواب بن کر محفوظ ہوگئے۔
این بی سی نیوز کو انٹرویو دینے کے بعد برائنٹ کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا ہوگا، لیکن اس حقیقت سے عوام بھی آشنا ہوگئی کہ ڈرون حملے مہذب ترین قوم کی جانب سے مظلوم قوم پر کھلی دہشت گردی کے سوا اور کچھ نہیں۔ برائنٹ نے عراق اور افغانستان میں ڈرون حملوں میں اپنا کردار ادا کیا تھا جب کہ پاکستان میں وزیرستان پر ہونے والے ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والی مظلوم عوام کی داستان کی کہانی بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ پاکستان ہو، افغانستان ، یمن ہو یا عراق، جس طرح آنکھوں پر کالی دہشت گردی کی گرد لیے ڈرون حملوں سے نوازا جارہا ہے اس میں سے ظالم اور مظلوم کی شناخت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ دشوار بھی ہے، اگر واقعی ڈرون حملے صرف دہشت گرد طالبان یا دیگر انتہا پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تو پھر ان معصوم اسکول کے بچوں کا کیا قصور تھا جنھیں کچھ برس پہلے ان حملوں میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
جس طرح طالبان کو ہلاک کرنے کے لیے بڑی طاقتیں اپنی افواج کو ایک طویل عرصے تک افغانستان میں قابض رکھنے کے باوجود اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکیں بالکل اسی طرح پاکستانی حدود میں ڈرون حملوں سے اب تک کتنے مفید مقاصد حاصل ہوسکے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کے مقاصد بکھر سے گئے ہیں، اسے لاحاصل جنگ بھی کہا جاسکتا ہے جس کا اولین مقصد صرف (سابقہ) سوویت یونین کو اس کی سپر پاور ہونے کا مزہ چکھانے کے سوا کچھ نہ تھا، یوں سوویت یونین کا تو شیرازہ بکھر گیا لیکن اس جذباتی کامیابی سے خود امریکا کے ہاتھ کیا آیا؟ بے پناہ مالی نقصان اور امریکی افواج کے زمینی و نفسیاتی مسائل تو دوسری جانب آسمان سے نمودار ہونے والی اس ڈرون حملوں کی شیطانی آفت سے ہلاک ہونے والے ہزاروں بے گناہ افراد کے لواحقین سوالیہ نشان بن کر پوری دنیا کے سامنے آنا چاہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو وہ صرف آنسو بہاکر خاموش ہوجاتے تھے ان کے حق میں بولنے والا کون تھا لیکن اب پاکستانی عدلیہ کی شفاف کارروائیوں کے بعد انھیں بھی حوصلہ مل گیا ہے۔
2006 میں اس خوفناک کارروائی کا نشانہ بننے والوں کے لواحقین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوگئے، جس پر عدالت نے حکومت اور سیکیورٹی فورسز کو حکم دیا ہے کہ وہ باضابطہ طور پر یونائیٹڈ اسٹیٹ سے اس معاملے کو طے کریں اور انھیں وارننگ دیں کہ مستقبل میں ڈرون حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اس سلسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر حکومت اقوام متحدہ کے ذریعے ان حملوں کو روکنے میں ناکام رہتی ہے تو ان ڈرون طیاروں کو مار گرایا جائے۔
نواز شریف نے جب سے وزارت کی کرسی سنبھالی ہے، مشکلات کا ایک ریلہ ہے جو مستقل ان کی جانب بہتا آرہا ہے، اس مشکل جاب کو نبھانے میں خود ان کو کیا مسائل درپیش ہیں اس کا اندازہ مخالف جماعتوں کو بھی ہے لیکن حالات کو سدھارنے میں اس کٹھن صورت حال کو کس طرح سے سلجھانا ہوگا یہ کڑوا گھونٹ خود وزیراعظم صاحب کو ہی پینا ہوگا۔ اپنی وزارت کی کرسی سنبھالتے ہی پہلی تقریر میں ہی انھوں نے امریکا پر زور دیا تھا کہ وہ ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کردے، دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے خود پاکستان اسٹرٹیجی ترتیب دے گا لیکن دوسری جانب جب امریکا کے ایک کانگریس کے رکن سے ڈرون حملوں کے سلسلے میں سوال پوچھا گیا تو اس نے حیرانگی سے جواب دیا کہ کبھی کسی پاکستان حکومت نے امریکا سے ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے نہیں کہا بلکہ پاکستانی حکومتیں تو ان سے ڈرون ٹیکنالوجی کو ٹرانسفر کرنے کا مطالبہ کرتی رہی تاکہ وہ خود یہ حملے کرسکیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ ڈرون حملے صرف گناہ گار کو شناخت کرکے مارنے میں کارگر ثابت نہیں ہوئے ہیں بلکہ پاکستانی بے گناہ عوام بھی اس کا نشانہ بن رہے ہیں اور کسی بھی ملک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کی حدود میں داخل ہوکر اس کے عوام کو اپنی بربریت کا نشانہ بنائے، لہٰذا ضروری یہ ہے کہ صرف ایک بار نہیں بلکہ بار بار متعلقہ ملک کو اس گھناؤنے گناہ سے روکنے کے لیے سختی سے نمٹا جائے کیونکہ مظلوموں کی آہیں اور خون کی پکار عرش کو بھی ہلا دیتی ہے۔ جو ڈر گیا وہ مر گیا اور اگر ہم ایسے ہی ڈرتے رہے تو پھر۔۔۔۔؟؟