خوں ریز حملے
زیارت بنیادی طور پر پشتونوں کا علاقہ ہے جہاں پر زیادہ تر پشتون قبیلہ ’’کاکڑ‘‘ آباد ہے۔
ISLAMABAD:
پوری پاکستانی قوم سوگوار ہے کہ گزشتہ دنوں انسانیت کے دشمن دہشتگردوں نے زیارت میں قائداعظم محمد علی جناح کی ریذیڈنسی پر راکٹ حملے کرکے ایسا شرم ناک فعل کیا ہے کہ انھیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس حملے میں جناح ریذیڈنسی مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ اس میں رکھا گیا قائداعظم کا یادگار سامان بھی جل کر خاکستر ہوگیا۔ آدھی رات کے وقت کیے جانے والے اس حملے کو ابھی چند ہی گھنٹے گزرے تھے کہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں 15 جون کی دوپہر بروری روڈ پر واقع سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی بس کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ بم بس میں نصب تھا جسے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑایا گیا، بس مکمل طور پر جل گئی جب کہ 14طالبات جاں بحق اور 22 زخمی ہوئیں۔ زخمی طالبات کو بولان میڈیکل اسپتال منتقل کیا گیا، جھلسی ہوئی طالبات میں سے کئی کی حالت انتہائی تشویشناک تھی۔
ابھی اسپتال کی ایمرجنسی میں دھماکے کے زخمیوں کو طبی امداد دی جارہی تھی اور مرنے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کے رشتے دار شدید پریشانی کی حالت میں تھے کہ اچانک ایک خودکش حملہ آور نے اﷲ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے دھماکا کیا جس کے بعد 5 سے 6 مسلح افراد داخل ہوگئے اور فائرنگ شروع کردی۔ اس خون ریز حملے نے مزید قیامت برپا کردی، اس دھماکے اور فائرنگ جس کے نتیجے میں مزید متعدد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق 7 سے 8 مسلح افراد نے اسپتال کی پہلی اور دوسری منزل پر قبضہ کر لیا اور وہ فائرنگ کرنے کے ساتھ ساتھ دستی بم بھی پھینکتے رہے ایف سی اور پولیس نے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا۔ خصوصی دستوں نے اسپتال کو گھیرے میں لے لیا، ہیلی کاپٹرز کی مدد سے علاقے کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی، سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 10 افراد جاں بحق ہوگئے۔ 4 دہشتگرد بھی مارے گئے جب کہ ایک حملہ آور گرفتار کرلیا گیا اور درجنوں یرغمالی بازیاب کرائے گئے، لشکر جھنگوی نے ذمے داری قبول کرلی۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم نواز شریف نے مذکورہ بالا واقعات کی مذمت کی اور بلوچستان میں سوگ کا اعلان کیا گیا۔
بلوچستان کی صورتحال پر 14 جون کو پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ''بلوچستان دہشت گردی کا شکار ہے، ہمیں ایک سخت جنگ کا سامنا ہے، دہشت گرد تشدد کو فروغ دے رہے ہیں، جو انتہاپسندی میں پاگل پن اور دہشت کا مظاہرہ کررہے ہیں، قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں لیکن ہم ان کے سامنے جھک نہیں سکتے، دہشت گرد بزدل ہیں اور ان میں حوصلہ نہیں کیونکہ وہ بندوق کی نوک پر اپنی بات منوانا چاہتے ہیں لیکن آپ قوم کا مستقبل اور امید ہیں کیونکہ آپ قانون اور انصاف ہیں اور یہی چیزیں قوموں کو مضبوط بناتی ہیں۔ہم آج ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور ہم نے قوم کو آگے لے جانا ہے۔'' زیارت اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات پر جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان واقعات کو دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ حملے پاکستانی قوم کے عزم کو کمزور نہیں کرسکتے۔
بانی پاکستان محمد علی جناح کی رہائش گاہ ''زیارت ریذیڈنسی'' صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے شمال مشرق میں ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر صحت افزا مقام زیارت میں واقع ہے، یہ ایک پرفضا سیاحتی مقام ہے۔ بانی پاکستان اور پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح اپنی وفات سے قبل یہاں زیارت ریذیڈنسی میں مقیم تھے، یہ خوبصورت رہائش گاہ 1892 کے اوائل میں لکڑی سے تعمیر کی گئی تھی۔ اس دور میں برطانوی حکومت کے افسران وادی زیارت کے دورے کے دوران اسے اپنی رہائش کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1948 میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ناساز طبیعت کے باعث یہاں آئے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کے آخری نو ماہ اس رہائش گاہ میں قیام کیا۔ ان کے انتقال کے بعد اس رہائش گاہ کو قائداعظم ریذیڈنسی کے نام سے قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا۔
زیارت ریذیڈنسی کے قریب گورنر ہائوس اور وزیراعلیٰ ہائوس واقع ہیں جب کہ اس کے گرد و نواح میں سرکار کی دفتری اور رہائشی عمارتیں ہیں۔ پرفضا سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے ملک کے بیشتر حصوں سے لوگ گرمیوں کے موسم میں زیارت کا رخ کرتے ہیں۔ جرائم کی تعداد کم ہونے کے باعث یہاں سیکیورٹی عملہ بھی معمول سے کم ہوتا ہے۔
زیارت بنیادی طور پر پشتونوں کا علاقہ ہے جہاں پر زیادہ تر پشتون قبیلہ ''کاکڑ'' آباد ہے۔ یہاں پر اکثر لوگ زراعت اور سیاحت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ زیارت کا شمار بلوچستان کے سرسبز ترین علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں صنوبر کے جنگلات ہیں، دوسرے پھلوں کے ساتھ زیارت کی چیری بھی پورے ملک میں مشہور ہے۔ زیارت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کا اثر و رسوخ ہے اور اکثر نمایندے ان ہی کے منتخب ہوکر پارلیمان میں آتے ہیں۔ یہاں پر دوسری بڑی سیاسی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی ہے۔ جمعہ اور ہفتہ 14 اور 15 جون 2013 کی درمیانی شب زیارت ٹائون میں قریبی پہاڑیوں سے مسلح حملہ آور قائداعظم ریذیڈنسی میں داخل ہوئے اور یہاں بم نصب کیے۔
نصب کیے جانیوالے چار بم پھٹنے سے زیارت ریذیڈنسی میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں نہ صرف عمارت تباہ ہوگئی بلکہ بانی پاکستان کے زیر استعمال جن اشیاء کو قومی ورثے کے طور پر محفوظ کیا گیا تھا وہ بھی جل کر خاکستر ہوگئیں۔ کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اس دھماکے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ یاد رہے کہ ریذیڈنسی کی عمارت 2008 کے زلزلے میں متاثر ہوگئی تھی جسے فوجی حکام نے مرمت کرایا تھا حکومت بلوچستان نے قائداعظم ریذیڈنسی زیارت کی تعمیر نو کا اعلان کرتے ہوئے اس تاریخی قومی ورثے کی فوری بحالی کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس قومی یادگار کی تباہی میں ملوث ذمے داران کو صوبائی حکومت کب کیفر کردار تک پہنچانے میں کامیاب ہوتی ہے؟
پوری پاکستانی قوم سوگوار ہے کہ گزشتہ دنوں انسانیت کے دشمن دہشتگردوں نے زیارت میں قائداعظم محمد علی جناح کی ریذیڈنسی پر راکٹ حملے کرکے ایسا شرم ناک فعل کیا ہے کہ انھیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس حملے میں جناح ریذیڈنسی مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ اس میں رکھا گیا قائداعظم کا یادگار سامان بھی جل کر خاکستر ہوگیا۔ آدھی رات کے وقت کیے جانے والے اس حملے کو ابھی چند ہی گھنٹے گزرے تھے کہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں 15 جون کی دوپہر بروری روڈ پر واقع سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی بس کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ بم بس میں نصب تھا جسے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑایا گیا، بس مکمل طور پر جل گئی جب کہ 14طالبات جاں بحق اور 22 زخمی ہوئیں۔ زخمی طالبات کو بولان میڈیکل اسپتال منتقل کیا گیا، جھلسی ہوئی طالبات میں سے کئی کی حالت انتہائی تشویشناک تھی۔
ابھی اسپتال کی ایمرجنسی میں دھماکے کے زخمیوں کو طبی امداد دی جارہی تھی اور مرنے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کے رشتے دار شدید پریشانی کی حالت میں تھے کہ اچانک ایک خودکش حملہ آور نے اﷲ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے دھماکا کیا جس کے بعد 5 سے 6 مسلح افراد داخل ہوگئے اور فائرنگ شروع کردی۔ اس خون ریز حملے نے مزید قیامت برپا کردی، اس دھماکے اور فائرنگ جس کے نتیجے میں مزید متعدد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق 7 سے 8 مسلح افراد نے اسپتال کی پہلی اور دوسری منزل پر قبضہ کر لیا اور وہ فائرنگ کرنے کے ساتھ ساتھ دستی بم بھی پھینکتے رہے ایف سی اور پولیس نے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا۔ خصوصی دستوں نے اسپتال کو گھیرے میں لے لیا، ہیلی کاپٹرز کی مدد سے علاقے کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی، سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 10 افراد جاں بحق ہوگئے۔ 4 دہشتگرد بھی مارے گئے جب کہ ایک حملہ آور گرفتار کرلیا گیا اور درجنوں یرغمالی بازیاب کرائے گئے، لشکر جھنگوی نے ذمے داری قبول کرلی۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم نواز شریف نے مذکورہ بالا واقعات کی مذمت کی اور بلوچستان میں سوگ کا اعلان کیا گیا۔
بلوچستان کی صورتحال پر 14 جون کو پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ''بلوچستان دہشت گردی کا شکار ہے، ہمیں ایک سخت جنگ کا سامنا ہے، دہشت گرد تشدد کو فروغ دے رہے ہیں، جو انتہاپسندی میں پاگل پن اور دہشت کا مظاہرہ کررہے ہیں، قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں لیکن ہم ان کے سامنے جھک نہیں سکتے، دہشت گرد بزدل ہیں اور ان میں حوصلہ نہیں کیونکہ وہ بندوق کی نوک پر اپنی بات منوانا چاہتے ہیں لیکن آپ قوم کا مستقبل اور امید ہیں کیونکہ آپ قانون اور انصاف ہیں اور یہی چیزیں قوموں کو مضبوط بناتی ہیں۔ہم آج ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور ہم نے قوم کو آگے لے جانا ہے۔'' زیارت اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات پر جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان واقعات کو دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ حملے پاکستانی قوم کے عزم کو کمزور نہیں کرسکتے۔
بانی پاکستان محمد علی جناح کی رہائش گاہ ''زیارت ریذیڈنسی'' صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے شمال مشرق میں ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر صحت افزا مقام زیارت میں واقع ہے، یہ ایک پرفضا سیاحتی مقام ہے۔ بانی پاکستان اور پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح اپنی وفات سے قبل یہاں زیارت ریذیڈنسی میں مقیم تھے، یہ خوبصورت رہائش گاہ 1892 کے اوائل میں لکڑی سے تعمیر کی گئی تھی۔ اس دور میں برطانوی حکومت کے افسران وادی زیارت کے دورے کے دوران اسے اپنی رہائش کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1948 میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ناساز طبیعت کے باعث یہاں آئے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کے آخری نو ماہ اس رہائش گاہ میں قیام کیا۔ ان کے انتقال کے بعد اس رہائش گاہ کو قائداعظم ریذیڈنسی کے نام سے قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا۔
زیارت ریذیڈنسی کے قریب گورنر ہائوس اور وزیراعلیٰ ہائوس واقع ہیں جب کہ اس کے گرد و نواح میں سرکار کی دفتری اور رہائشی عمارتیں ہیں۔ پرفضا سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے ملک کے بیشتر حصوں سے لوگ گرمیوں کے موسم میں زیارت کا رخ کرتے ہیں۔ جرائم کی تعداد کم ہونے کے باعث یہاں سیکیورٹی عملہ بھی معمول سے کم ہوتا ہے۔
زیارت بنیادی طور پر پشتونوں کا علاقہ ہے جہاں پر زیادہ تر پشتون قبیلہ ''کاکڑ'' آباد ہے۔ یہاں پر اکثر لوگ زراعت اور سیاحت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ زیارت کا شمار بلوچستان کے سرسبز ترین علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں صنوبر کے جنگلات ہیں، دوسرے پھلوں کے ساتھ زیارت کی چیری بھی پورے ملک میں مشہور ہے۔ زیارت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کا اثر و رسوخ ہے اور اکثر نمایندے ان ہی کے منتخب ہوکر پارلیمان میں آتے ہیں۔ یہاں پر دوسری بڑی سیاسی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی ہے۔ جمعہ اور ہفتہ 14 اور 15 جون 2013 کی درمیانی شب زیارت ٹائون میں قریبی پہاڑیوں سے مسلح حملہ آور قائداعظم ریذیڈنسی میں داخل ہوئے اور یہاں بم نصب کیے۔
نصب کیے جانیوالے چار بم پھٹنے سے زیارت ریذیڈنسی میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں نہ صرف عمارت تباہ ہوگئی بلکہ بانی پاکستان کے زیر استعمال جن اشیاء کو قومی ورثے کے طور پر محفوظ کیا گیا تھا وہ بھی جل کر خاکستر ہوگئیں۔ کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اس دھماکے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ یاد رہے کہ ریذیڈنسی کی عمارت 2008 کے زلزلے میں متاثر ہوگئی تھی جسے فوجی حکام نے مرمت کرایا تھا حکومت بلوچستان نے قائداعظم ریذیڈنسی زیارت کی تعمیر نو کا اعلان کرتے ہوئے اس تاریخی قومی ورثے کی فوری بحالی کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس قومی یادگار کی تباہی میں ملوث ذمے داران کو صوبائی حکومت کب کیفر کردار تک پہنچانے میں کامیاب ہوتی ہے؟