سفر ہے اور غربت کا سفر ہے
دوسری طرف کچرے کے ڈھیر میں پھینکا گیا کھانا شہر کی بہت بڑی آبادی کا پیٹ بھرتا ہے.
کانٹے چننے اور راہ کے پتھر ہٹانے کے باوجود بھی منزل سہل نہ ہوسکے تو اس سفر کو کون سا نام دیجیے گا؟ اس زندہ معاشرے میں مردہ خواہشیں کسی عفریت کی طرح سر اٹھاتی ہیں اور قحط و فاقوں کی آغوش میں سو جاتی ہیں، سچ تو یہ ہے کہ اس معزز و مذہب سوسائٹی میں عزت انہی کی ہوتی ہے جن کے پاس پیسہ ہے، دنیا میں بہت کم خوش نصیب ایسے ہیں جو نیک نامی، دیانتداری اور ایمانداری سے عزت، شہرت اور دولت حاصل کرلیتے ہیں مگر اس شہر کے بلند و بالا ایوانوں، اور محلات نما مکانوں میں رہنے والوں کے دل بہت چھوٹے ہیں، یہ صدقات و خیرات اور زکوٰۃ بھی مجبوراً دیتے ہیں، ایک طرف ایلیٹ کلاس ہے جہاں کے بچے فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں، جن کے پالتو کتے غیر ملکی شیمپو سے نہاتے ہیں۔
دوسری طرف کچرے کے ڈھیر میں پھینکا گیا کھانا شہر کی بہت بڑی آبادی کا پیٹ بھرتا ہے، یہ کورنیٹو اور چاک بار نہیں کھاتے، صرف دوسروں کو کھاتے دیکھ کر حسرت سے خالی منہ چلاتے ہیں، ان کے چولہوں پر مرغ اور گوشت نہیں پکتے، ان کے بچے آیاؤں اور گورننس کی گود میں پرورش نہیں پاتے بلکہ محنت کش ماں باپ کے سائے میں ساری عمر اپنی کم مائیگی کی مالا جپتے ہیں، وہ اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اسی لیے مدرسوں میں چلے جاتے ہیں اور یہاں پر ان کو جو تعلیم دی جاتی ہے وہ ان کے لیے صرف اس صورت میں جنت کے دروازے کھول دیتی ہیں کہ وہ خودکش بمبار بن جائیں کیونکہ جتنی دیر میں وہ اپنے آپ کو بارود سے اڑائیں گے، اتنے ہی کم وقت میں ان سے مشروط ایک مقررہ رقم ان کے گھر والوں تک پہنچادی جائے گی تو پھر جب عدم مساوات کا حال یہ ہو تو معاشرہ تباہ نہ ہوگا تو کیا ہوگا۔
اگر آج ملک کا ہر سرمایہ دار، صنعت کار، تاجر اور مخیر انسان اپنی آمدنی کا ایک حصہ ان غربت کے مارے افراد کے نام کردے تو کیا ترقی و تبدیلی کی راہیں روشن نہ ہوجائیں گی، مگر ایسا کون سوچتا ہے بقول کسی کے :
وہ اپنے ہی افسون خدو خال میں گم ہے
کیوں آنے لگا وہ دل تنہا کی خبر کو
اب وہ زمانے لد گئے جب سب خاندان اکائی کی صورت رہتے تھے، وقت بدلا تو وقت کے تیور بھی بدل گئے۔ اقدار تبدیل ہوئیں تو نظریں بھی بدل گئیں، ایک گھر میں روشنیوں کے پھول جگمگاتے ہیں تو ایک گھر میں بیوی کی ساڑھی سے بھی زیادہ تاریک اندھیرا منڈلاتا ہے، اس گھر میں نہ اے سی ہے نہ پنکھا، نہ موم کے گدے ہیں، نہ مخملیں فرش، سو انقلاب کب آئے گا، کون لائے گا اور کس کو اتنی فرصت ہے کہ دوسروں کے دکھ سمیٹ سکے؟ خودداری اور عزت نفس کے سہارے میرے ملک کے بے شمار لوگ ہونٹوں پر قفل لگائے غربت اور بھوک کے پنجرے میں قید ہیں، نہ وہ سیلانی کے دسترخوان پر پیٹ کا جہنم بھرنے جاتے ہیں نہ چھیپا کے دسترخوان پر صدقے کا قورمہ کھاتے ہیں، ہاں گلی کوچوں میں ضائع کیا ہوا کھانا کبھی کبھی ان کا شکم پال لیتا ہے، ننھے ننھے بچے جبری مشقت سے نڈھال ہوکر جب درودیوار، فٹ پاتھ پر ہاتھ کا تکیہ بناکر سوتے ہیں تو ان کی آنکھیں خواب سے بھی محروم ہوجاتی ہیں، ورنہ یہ خواب کبھی کبھار انسان کو اندر سے توانا بھی بنادیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جن چراغوں میں تیل ہی نہ ہو وہاں روشنی کیسے دمکے گی ؟ وہاں تو بے شمار آنکھوں میں ستارے ہی دمکتے ہیں۔
ہر سال بجٹ آتا ہے اربوں اور کھربوں کا حساب کتاب ہوتا ہے، بڑے بڑے دعوے اونچے اونچے وعدے، مگر عوام کی حالت وہی رہتی ہے۔ بوڑھے پنشنرز ہوں اور روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والا مزدور دونوں ہی سرگراں ہیں، سرگرداں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ غربت کے صحرا میں خوشحالی کے گلاب کون کھلائے گا، بنجر اور بانجھ زمینوں پر سبزی کون اگائے گا؟ اس کا جواب کون دے گا، یہ سوال کون کرے گا؟
دوسری طرف کچرے کے ڈھیر میں پھینکا گیا کھانا شہر کی بہت بڑی آبادی کا پیٹ بھرتا ہے، یہ کورنیٹو اور چاک بار نہیں کھاتے، صرف دوسروں کو کھاتے دیکھ کر حسرت سے خالی منہ چلاتے ہیں، ان کے چولہوں پر مرغ اور گوشت نہیں پکتے، ان کے بچے آیاؤں اور گورننس کی گود میں پرورش نہیں پاتے بلکہ محنت کش ماں باپ کے سائے میں ساری عمر اپنی کم مائیگی کی مالا جپتے ہیں، وہ اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اسی لیے مدرسوں میں چلے جاتے ہیں اور یہاں پر ان کو جو تعلیم دی جاتی ہے وہ ان کے لیے صرف اس صورت میں جنت کے دروازے کھول دیتی ہیں کہ وہ خودکش بمبار بن جائیں کیونکہ جتنی دیر میں وہ اپنے آپ کو بارود سے اڑائیں گے، اتنے ہی کم وقت میں ان سے مشروط ایک مقررہ رقم ان کے گھر والوں تک پہنچادی جائے گی تو پھر جب عدم مساوات کا حال یہ ہو تو معاشرہ تباہ نہ ہوگا تو کیا ہوگا۔
اگر آج ملک کا ہر سرمایہ دار، صنعت کار، تاجر اور مخیر انسان اپنی آمدنی کا ایک حصہ ان غربت کے مارے افراد کے نام کردے تو کیا ترقی و تبدیلی کی راہیں روشن نہ ہوجائیں گی، مگر ایسا کون سوچتا ہے بقول کسی کے :
وہ اپنے ہی افسون خدو خال میں گم ہے
کیوں آنے لگا وہ دل تنہا کی خبر کو
اب وہ زمانے لد گئے جب سب خاندان اکائی کی صورت رہتے تھے، وقت بدلا تو وقت کے تیور بھی بدل گئے۔ اقدار تبدیل ہوئیں تو نظریں بھی بدل گئیں، ایک گھر میں روشنیوں کے پھول جگمگاتے ہیں تو ایک گھر میں بیوی کی ساڑھی سے بھی زیادہ تاریک اندھیرا منڈلاتا ہے، اس گھر میں نہ اے سی ہے نہ پنکھا، نہ موم کے گدے ہیں، نہ مخملیں فرش، سو انقلاب کب آئے گا، کون لائے گا اور کس کو اتنی فرصت ہے کہ دوسروں کے دکھ سمیٹ سکے؟ خودداری اور عزت نفس کے سہارے میرے ملک کے بے شمار لوگ ہونٹوں پر قفل لگائے غربت اور بھوک کے پنجرے میں قید ہیں، نہ وہ سیلانی کے دسترخوان پر پیٹ کا جہنم بھرنے جاتے ہیں نہ چھیپا کے دسترخوان پر صدقے کا قورمہ کھاتے ہیں، ہاں گلی کوچوں میں ضائع کیا ہوا کھانا کبھی کبھی ان کا شکم پال لیتا ہے، ننھے ننھے بچے جبری مشقت سے نڈھال ہوکر جب درودیوار، فٹ پاتھ پر ہاتھ کا تکیہ بناکر سوتے ہیں تو ان کی آنکھیں خواب سے بھی محروم ہوجاتی ہیں، ورنہ یہ خواب کبھی کبھار انسان کو اندر سے توانا بھی بنادیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جن چراغوں میں تیل ہی نہ ہو وہاں روشنی کیسے دمکے گی ؟ وہاں تو بے شمار آنکھوں میں ستارے ہی دمکتے ہیں۔
ہر سال بجٹ آتا ہے اربوں اور کھربوں کا حساب کتاب ہوتا ہے، بڑے بڑے دعوے اونچے اونچے وعدے، مگر عوام کی حالت وہی رہتی ہے۔ بوڑھے پنشنرز ہوں اور روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والا مزدور دونوں ہی سرگراں ہیں، سرگرداں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ غربت کے صحرا میں خوشحالی کے گلاب کون کھلائے گا، بنجر اور بانجھ زمینوں پر سبزی کون اگائے گا؟ اس کا جواب کون دے گا، یہ سوال کون کرے گا؟