دھرتی ماں

’’ماں‘‘ تو ہماری بھی ہے اور ایسی کوئی ’’ماں‘‘ دنیا میں ہو ہی نہیں سکتی جو اپنے بچوں کو دودھ نہ پلا سکے۔

barq@email.com

آپ چاہے کتنا ہی قرض ادھار لے لیں، یہاں وہاں سے ''نیکو کار'' لوگوں کی خیر خیرات سے اپنا کشکول بھر لیں، اس کے باوجود ایک نہ ایک دن یا تو آپ کو بھوکا مرنا پڑے گا یا کسی کے ہاں مزدوری کرنا ہو گی کیونکہ مانگے تانگے کی روٹیوں سے ایک وقت دووقت تو گزر سکتے ہیں، پوری زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ زندگی کے لیے اور پھر باعزت زندگی کے لیے آپ کو اپنی جھگی میں اصلی کمائی ہوئی روٹی لانا ہو گی۔

سعودی عرب اور شاہ شاہان کے خاندان کو خدا نیک اجر دے کہ اپنے دستر خوان سے کچھ روٹیاں اٹھا کر ہمیں باعزت طریقے سے لللّٰہ فی سبیل اللہ مرحمت فرما دیتے ہیں

لیکن کسی نے کبھی یہ سوچا کہ اس لق و دق صحرا اور دشت و بیابان والوں کے پاس یہ جو دولت آتی ہے کہاں سے آتی ہے۔ ذرایع کچھ اور بھی ہیں لیکن اصل چیز وہ تیل ہے جو انھوں نے اپنی زمین، مٹی یا اپنی دھرتی ماں سے حاصل کیا ہوا ہے ؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری ''دھرتی ماں'' نہیں ہے۔ ''ماں'' تو ہماری بھی ہے اور ایسی کوئی ''ماں'' دنیا میں ہو ہی نہیں سکتی جو اپنے بچوں کو دودھ نہ پلا سکے۔تو کیا ہماری ماں، ہماری مادر وطن، ہماری دھرتی ماتا ظالم ہے جو ہمیں اپنا دودھ نہیں دیتی اور ہمیں در بہ در ایک ایک بوند کے لیے بھٹکنا پڑتا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا۔ یہ قدرت کا بے داغ اصول اور قانون ہے کہ جب ماں اولاد جنتی ہے تو اس کے لیے ''دودھ'' بھی ماں کی چھاتیوں میں بھر دیتی ہے۔ اب اگر یہ دودھ بچے تک نہیں پہنچتا ہے تو اس میں ماں کا تو قصور کوئی نہیں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ''بچہ'' اس دودھ کو منہ نہ لگائے۔

پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ

چہ ماشوم اوجاڑی نو مور تے ورکوئی

بچہ روئے گا، ادھر ادھر تلاش کرے گا، اگرماں سوئی ہوئی بھی ہو تو اسے جگا دے گا یا بغیر جگائے ہی اپنا پیٹ بھر لے گا۔


یہ لمبی تمہید ہم نے اس لیے باندھی ہے کہ ہماری ''ماں'' بھی ماں ہے اور اس کی چھاتیوں میں دودھ بھی بہت ہے لیکن ''پینا'' تو بچے کو ہو گا۔ ایک اور کہاوت ہے کہ اگر تم نہیں چلو گے تو پیٹھ پر اٹھا لوں گا لیکن اگر نہیں کھاتے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔

ہماری دھرتی کے اندر تیل گیس اور نہ جانے کیا کیا خزانے ہیں، کہیں سے اگر ''گیس'' نکل سکتی ہے تو وہیں پر تیل بھی ہونا چاہیے اور ہوتا ہے کیونکہ ''گیس'' در اصل تیل ہی کے بخارات پر مشتمل ہے جہاں ایک چھوٹی پہاڑی میں ''زمرد''ہے تو باقی پہاڑوںمیں کچھ بھی ہو سکتا ہے، اگر سنگ مرمر، یورنیم، سونا ایک جگہ ہو سکتا ہے تو دوسری جگہ بھی ہو سکتاہے کیونکہ طبقات الارض کے مطابق زمین اور پہاڑوں میں اس قسم کی طبیعاتی تبدیلیاں یا چیزیں کسی ایک جگہ تک محدود نہیں تھیں۔

اس سلسلے میں پرویز خٹک کا تشکر نہ کرنا نہایت ہی ناشکری ہوگی کہ انھوں صوبے میں ''زیر زمین'' دولت کے لیے ایک ادارہ یا کمپنی بنائی K.P.O.G.C.L خیبرپختون خوا آئیل اینڈ گیس کمپنی لمیٹڈ بنوائی ۔ تاکہ کرک وغیرہ میں تیل و گیس کے مزید ذخائر تلاش کیے جائیں۔ ظاہر ہے کہ صوبے میں کچھ نکلے گا، مادر زمین سے کچھ حاصل ہوگا تو سارے پاکستان کو فائدہ ہوگا لیکن ہمارے ہاں کی طرز سیاست پہلے ہی کچھ کم نہیں تھی کہ اب تو اس کے پیروں میں ایک اور قسم کے گھنگرو باندھ دیے گئے ہیں۔

لوگ آج کل یہ بحث کررہے ہیں کہ جناب عمران خان نے جو راگنیاں گائی ہوئی ہیں اورگارہے ہیں کیا وہ ان کو پورا کر پائیں گے؟ جس نے پہلے ہی مرحلے پر ثابت کر دیا کہ نہیں ہر گز نہیں۔ جس شخص یا پارٹی یا حکومت کو آدمیوں اور ٹیلنٹ کی پہچان نہ ہو، جس میں صحیح ٹیم منتخب کرنے کی استعداد نہ ہو، دنیا کے بڑے بڑے عظیم فاتحین، مصلحین اور تاریخ میں ''اعظم'' کہلانے والے لوگ نہ تو ہزار ہزار ہاتھ رکھتے ہیں نہ سو سو سر۔ بلکہ ان کے سروں میں ''مردم شناسی'' کی صلاحیت ہوتی تھی، وہ صحیح لوگوں کو صحیح مقام پر رکھ دیتے تھے اورسب کچھ خود بخود ہوتا چلا جاتا۔

لیکن یہاں اس بات کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں بلکہ ذاتی پسند و ناپسند اور اکیلے اکیلے مشاعرہ لوٹنے کا ماحول ہے ورنہ یہ تو ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ اس شخص پرویز خٹک نے کس طرح اس صوبے کو پی ٹی آئی کی طاقت کو سرچشمہ فراہم کیا لیکن غیر مردم شناسی اور ٹیلنٹ نا شناسی کی انتہا ہے، اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا، اس کی انصاف کی تلوار کا وار اسی شخص اور اسی صوبے پر ہوا ہے۔ مجھے پرویز خٹک اور پی ٹی آئی کی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن اس صوبے سے ضرور ہے جس میں ایسے منصوبے شروع کیے گئے جو اس صوبے کے عوام کی تمام شکایات دور کر سکتے تھے، اگر جاری رہتے ۔

جس ادارے کا ہم ذکر کر رہے ہیں K.P.O.G.C خوش قسمتی سے اس کا سربراہ بھی نہایت قابل اور ٹیلنٹڈ آدمی کو بنایا گیا تھا اور اگر اس کے ہاتھ پیر نہ باندھے جاتے تو اب تک کچھ اچھا نتیجہ سامنے آ بھی چکا ہوتا جو پاکستان کو بھیک اور کشکول سے چھٹکارا دلانے کا آغاز ہوتا ۔لیکن اس ادارے کو تقریباً ختم ہی سمجھ لیجیے، فنڈ نہیں دیے جا رہے۔ اور کام کے لوگوں کو عضو معطل بنانے والے عالمی شہرت یافتہ اداروں نیب وریب نے بھی اس پر اپنا ''بابرکت'' سا یہ ڈال دیا ہے،گویا ٹائیں ٹائیں فش۔ جب فنڈ ہی نہ ہو اور کام کے آدمیوں کے ہاتھ پیر بھی باندھ دییے جائیں تو انجام معلوم ہے۔

جہاں تک صوبے کی نئی انتظامیہ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ نہایت ہی چن چن کر ایسے دانے اکٹھے کیے گئے ہیں کہ پانی پینے کے لیے بھی اسلام آباد کی اجازت کے منتظر رہتے ہیں ۔

آخر یہ کہ دھرتی ماں کی چھاتیاں بھری ہوئی ہونے کے باوجود بچہ بھوک سے تڑپتا رہے گا۔
Load Next Story