شاید اب کی بار سروں کے مینار زیادہ بلند ہوں
چنگیز اور ہلاکو نے مسلمانوں کا قتل عام کرکے ان کے سروں کے مینار بنا دیئے تھے؛ آج بھی ہمیں ویسے ہی حالات درپیش ہیں
میں نے چنگیزخان اور ہلاکو خان کا دور دیکھا تو نہیں مگر سنا ضرور ہے کہ چنگیز خان اور ہلاکو خان نے مسلمانوں کا قتل عام کرکے ان کے سروں کے مینار بنادیئے تھے اور کسی مسلمان ملک کے بادشاہ میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ ان کا راستہ روک سکے۔ اس دور میں بھی مسلمان علم و عقل اور دانش و حکمت میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔ مگر آج کے دور کی طرح اس وقت کے مسلمان بھی ایک دوسرے کے ساتھ فرقہ واریت میں مصروف عمل تھے؛ اور ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے کےلیے اپنے تمام علم و عقل کا زور لگا دیتے تھے۔ ہر طرف حلال و حرام کے فتوے دیئے جارہے تھے۔ ایک عالم دین اپنی بات کی نفی کرنے پر دوسرے عالم دین کا دشمن بن جاتا تھا۔ اخوت و بھائی چارے کا درس ختم ہوچکا تھا، صلہ رحمی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ درس قرآن پر دسترس ہونے کے باوجود، درس قرآن کا ان کے دلوں پر کوئی اثر نہ تھا۔
باقی جو چنگیز خان اور ہلاکو خان نے اس وقت کے مسلمانوں کے ساتھ کیا، وہ تاریخ کے اوراق میں آج بھی محفوظ ہے۔ تاریخ کی طرف میں اب زیادہ نہیں جاتا کیونکہ اب ہمارا مسئلہ ہے آج کا دور، آج کا زمانہ اور آج کے مسلمان؛ اور آج کے چنگیز خان اور ہلاکو خان۔ اس وقت دنیا میں مسلمان ممالک کی تعداد تقریباً 50 سے زیادہ (56 یا 57) ہے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 1.5 ارب بنتی ہے جو دنیاکی آبادی کا تقریباً 23 فیصد ہے۔ اب اگر باقی مذاہب پر نظر ڈالی جائے تو ان میں عیسائی مذہب ہے جو مسلمانوں کے قریب ترین ہے۔ عیسائیوں کی آبادی پوری دنیا میں اس وقت تقریباً 1.6 ارب ہے۔ اب اگر دیکھا جائے تو عیسائیوں کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب نہیں جو عددی اعتبار سے مسلمانوں کا مقابلہ کرسکے۔
اب نظر ڈالتے ہیں مسلمانوں پر۔
مسلمان اس وقت پوری دنیا میں ذلیل و خوار کیوں ہو رہے ہیں؟ اس کی ایک ہی وجہ ہے؛ وہ ہے اسلام میں فرقہ پرستی کا فروغ۔ مسلمان اس وقت بہت سارے فرقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کے دلوں میں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی محبت پر دنیا کی محبت غالب آچکی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس وقت تک کوئی مسلمان مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کی اولاد، مال و جان، ماں باپ یہاں تک کہ ہر چیز سے زیادہ عزیز نہ ہوں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا ہے:
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
سنن ابی داؤد کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا: ''قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔'' کسی نے عرض کیا: ''اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟'' آپﷺ نے فرمایا: '' نہیں، بلکہ اس روز تم زیادہ ہوگے لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہوگے۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔'' کسی نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ ''وہن کیا ہے؟'' آپﷺ نے فرمایا: ''دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔''
اگر آج دیکھا جائے تو مسلمانوں پر ایسا ہی وقت گزر رہا ہے۔ کون ہے جو مسلمانوں کو اپنی مرضی سے شہید نہیں کررہا۔ برما کے بدھوں کو دیکھاجائے تو انہوں نے مسلمانوں کو زندہ جلا کر شہید کیا اور تمام مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دیا۔ کسی بھی مسلمان سربراہِ مملکت نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ تم لوگ ایسا کیوں کررہے ہو؟ ہندوستان پر نظر ڈالی جائے تو ہندو، مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر قتل کر رہے ہیں جس پر مسلم دنیا کے علاوہ تمام عالمی طاقتیں بھی خاموش ہیں۔
فلسطین، شام، لبنان، عراق، چین اور افغانستان کے حالات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس وقت مسلمان پوری دنیا میں بے یار و مددگار ہیں کیونکہ مسلمان اس وقت فرقہ واریت کے پرفتن دور سے گزررہے جس کا فائدہ غیر مسلم مکمل طور پر اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت دنیا میں دو ہی مذاہب پائے جاتے ہیں: ایک مسلمان اور دوسرا غیرمسلم۔ مسلمانوں کے علاوہ تمام غیرمسلم اس وقت مسلمانوں کے خلاف ایک مذہب کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ مسلمان ہیں کہ ایک مذہب ہونے کے باوجود بہت سارے فرقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ اس سے بڑا لمحہ فکریہ کبھی بھی مسلم امہ پر نہیں آیا۔
امریکا اور اسرائیل نے مل کر ایسا جال بچھایا ہوا ہے کہ مسلمان اگر نکلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو اس جال سے نکل نہیں پاتے۔ دنیا کی تمام معیشت پر اس وقت امریکا قابض ہے اور امریکہ کے پیچھے جو ہاتھ کام کر رہے ہیں وہ ہے اسرائیل۔ بھارت اور اسرائیل کا ایک ہی مقصد ہے کہ اسلامی ممالک کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کو کسی بھی صورت دہشت گرد ملک قرار دلوایا جائے۔ اس کوشش کو کامیاب کرنے کےلیے یہ تینوں ممالک مل کر سازشیں کر رہے ہیں جن میں سے ایک سازش یہ بھی ہے کہ پاکستان کی مالی مدد دنیا کا کوئی بھی ملک نہ کرے؛ کیونکہ اس وقت پاکستان کی مالی حالت بہت زیادہ خراب ہوچکی ہے۔
امریکا کے اشارے پر اسلامی اور دوسرے دوست ممالک نے بھی پاکستان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان ہر صورت میں آئی ایم ایف سے قرضہ لے اور اس کی تمام شرائط قبول کرے۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے تو پھر پاکستانی عوام میں اتنی سکت نہیں کہ وہ یہ ظلم برداشت کرسکیں کیونکہ پاکستان کے عوام پہلے ہی بنیادی ضروریات سے محروم ہوچکے ہیں۔ پانی، بجلی، گیس، پیٹرول، زراعت اور صنعت کاری، پاکستان کے جسم کے یہ تمام اعضاء پہلے مفلوج ہوچکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ ان تمام اعضاء کو مردہ کر دے گا، جو پاکستانی عوام کےلیے کسی ظلم سے کم نہیں ہوگا۔
اگر دوسرے ممالک، بشمول مسلم ممالک، اگر پاکستان کی مدد نہیں کرتے تو پھر گھر کو چلانے کےلیے قرضہ تو لینا ہی ہوگا ورنہ پہلے سے لیے ہوئے قرضے کا سود ہر دن ہم پر مکڑی کے جالے کی طرح پھیلتا ہی چلاجائے گا۔ بحیثیت قوم ہم نے کبھی اپنے سابقہ حکمرانوں سے نہیں پوچھا کہ پاکستان اتنا مقروض کیوں ہوگیا ہے؟ پاکستان ہر لحاظ سے قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے، پھر پاکستان کا زرمبادلہ کہاں گیا؟ اور ملک دن بدن مقروض کیوں ہوتا گیا؟ آج ہم جس مقام پر ہیں، اسے دیکھ کر پاکستان کے وجود پر ترس آتا ہے کہ ہم نے اس ملک کو صرف کھایا ہی ہے، اسے دیا کچھ نہیں۔ ہمارے عوام خاموشی سے ظلم برداشت کرتے رہے اور اپنا وجود خطرے میں ڈالتے رہے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں جو ظلم توبرداشت کرے مگر زبان سے کچھ نہ کہے۔ ہماری اس خاموشی اور تنگ دستی کا فائدہ آج کے چنگیز خان اور ہلاکو خان خوب اٹھا رہے ہیں۔ ہم کسی کو راہ حق پر ماننے کو تیار نہیں اور خود بھی حق پر چلنا نہیں چاہتے۔ اگر آج نہ سوچا تو کل سوچنے کا موقع بھی نہیں ملے گا؛ اور ہو سکتا ہے پچھلے میناروں سے زیادہ اونچے مینار اس بار ہوں۔ اللہ تعالی ہم مسلمانوں کی مدد فرمائے، آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
باقی جو چنگیز خان اور ہلاکو خان نے اس وقت کے مسلمانوں کے ساتھ کیا، وہ تاریخ کے اوراق میں آج بھی محفوظ ہے۔ تاریخ کی طرف میں اب زیادہ نہیں جاتا کیونکہ اب ہمارا مسئلہ ہے آج کا دور، آج کا زمانہ اور آج کے مسلمان؛ اور آج کے چنگیز خان اور ہلاکو خان۔ اس وقت دنیا میں مسلمان ممالک کی تعداد تقریباً 50 سے زیادہ (56 یا 57) ہے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 1.5 ارب بنتی ہے جو دنیاکی آبادی کا تقریباً 23 فیصد ہے۔ اب اگر باقی مذاہب پر نظر ڈالی جائے تو ان میں عیسائی مذہب ہے جو مسلمانوں کے قریب ترین ہے۔ عیسائیوں کی آبادی پوری دنیا میں اس وقت تقریباً 1.6 ارب ہے۔ اب اگر دیکھا جائے تو عیسائیوں کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب نہیں جو عددی اعتبار سے مسلمانوں کا مقابلہ کرسکے۔
اب نظر ڈالتے ہیں مسلمانوں پر۔
مسلمان اس وقت پوری دنیا میں ذلیل و خوار کیوں ہو رہے ہیں؟ اس کی ایک ہی وجہ ہے؛ وہ ہے اسلام میں فرقہ پرستی کا فروغ۔ مسلمان اس وقت بہت سارے فرقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کے دلوں میں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی محبت پر دنیا کی محبت غالب آچکی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس وقت تک کوئی مسلمان مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کی اولاد، مال و جان، ماں باپ یہاں تک کہ ہر چیز سے زیادہ عزیز نہ ہوں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا ہے:
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
سنن ابی داؤد کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا: ''قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔'' کسی نے عرض کیا: ''اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟'' آپﷺ نے فرمایا: '' نہیں، بلکہ اس روز تم زیادہ ہوگے لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہوگے۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔'' کسی نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ ''وہن کیا ہے؟'' آپﷺ نے فرمایا: ''دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔''
اگر آج دیکھا جائے تو مسلمانوں پر ایسا ہی وقت گزر رہا ہے۔ کون ہے جو مسلمانوں کو اپنی مرضی سے شہید نہیں کررہا۔ برما کے بدھوں کو دیکھاجائے تو انہوں نے مسلمانوں کو زندہ جلا کر شہید کیا اور تمام مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دیا۔ کسی بھی مسلمان سربراہِ مملکت نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ تم لوگ ایسا کیوں کررہے ہو؟ ہندوستان پر نظر ڈالی جائے تو ہندو، مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر قتل کر رہے ہیں جس پر مسلم دنیا کے علاوہ تمام عالمی طاقتیں بھی خاموش ہیں۔
فلسطین، شام، لبنان، عراق، چین اور افغانستان کے حالات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس وقت مسلمان پوری دنیا میں بے یار و مددگار ہیں کیونکہ مسلمان اس وقت فرقہ واریت کے پرفتن دور سے گزررہے جس کا فائدہ غیر مسلم مکمل طور پر اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت دنیا میں دو ہی مذاہب پائے جاتے ہیں: ایک مسلمان اور دوسرا غیرمسلم۔ مسلمانوں کے علاوہ تمام غیرمسلم اس وقت مسلمانوں کے خلاف ایک مذہب کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ مسلمان ہیں کہ ایک مذہب ہونے کے باوجود بہت سارے فرقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ اس سے بڑا لمحہ فکریہ کبھی بھی مسلم امہ پر نہیں آیا۔
امریکا اور اسرائیل نے مل کر ایسا جال بچھایا ہوا ہے کہ مسلمان اگر نکلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو اس جال سے نکل نہیں پاتے۔ دنیا کی تمام معیشت پر اس وقت امریکا قابض ہے اور امریکہ کے پیچھے جو ہاتھ کام کر رہے ہیں وہ ہے اسرائیل۔ بھارت اور اسرائیل کا ایک ہی مقصد ہے کہ اسلامی ممالک کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کو کسی بھی صورت دہشت گرد ملک قرار دلوایا جائے۔ اس کوشش کو کامیاب کرنے کےلیے یہ تینوں ممالک مل کر سازشیں کر رہے ہیں جن میں سے ایک سازش یہ بھی ہے کہ پاکستان کی مالی مدد دنیا کا کوئی بھی ملک نہ کرے؛ کیونکہ اس وقت پاکستان کی مالی حالت بہت زیادہ خراب ہوچکی ہے۔
امریکا کے اشارے پر اسلامی اور دوسرے دوست ممالک نے بھی پاکستان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان ہر صورت میں آئی ایم ایف سے قرضہ لے اور اس کی تمام شرائط قبول کرے۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے تو پھر پاکستانی عوام میں اتنی سکت نہیں کہ وہ یہ ظلم برداشت کرسکیں کیونکہ پاکستان کے عوام پہلے ہی بنیادی ضروریات سے محروم ہوچکے ہیں۔ پانی، بجلی، گیس، پیٹرول، زراعت اور صنعت کاری، پاکستان کے جسم کے یہ تمام اعضاء پہلے مفلوج ہوچکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ ان تمام اعضاء کو مردہ کر دے گا، جو پاکستانی عوام کےلیے کسی ظلم سے کم نہیں ہوگا۔
اگر دوسرے ممالک، بشمول مسلم ممالک، اگر پاکستان کی مدد نہیں کرتے تو پھر گھر کو چلانے کےلیے قرضہ تو لینا ہی ہوگا ورنہ پہلے سے لیے ہوئے قرضے کا سود ہر دن ہم پر مکڑی کے جالے کی طرح پھیلتا ہی چلاجائے گا۔ بحیثیت قوم ہم نے کبھی اپنے سابقہ حکمرانوں سے نہیں پوچھا کہ پاکستان اتنا مقروض کیوں ہوگیا ہے؟ پاکستان ہر لحاظ سے قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے، پھر پاکستان کا زرمبادلہ کہاں گیا؟ اور ملک دن بدن مقروض کیوں ہوتا گیا؟ آج ہم جس مقام پر ہیں، اسے دیکھ کر پاکستان کے وجود پر ترس آتا ہے کہ ہم نے اس ملک کو صرف کھایا ہی ہے، اسے دیا کچھ نہیں۔ ہمارے عوام خاموشی سے ظلم برداشت کرتے رہے اور اپنا وجود خطرے میں ڈالتے رہے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں جو ظلم توبرداشت کرے مگر زبان سے کچھ نہ کہے۔ ہماری اس خاموشی اور تنگ دستی کا فائدہ آج کے چنگیز خان اور ہلاکو خان خوب اٹھا رہے ہیں۔ ہم کسی کو راہ حق پر ماننے کو تیار نہیں اور خود بھی حق پر چلنا نہیں چاہتے۔ اگر آج نہ سوچا تو کل سوچنے کا موقع بھی نہیں ملے گا؛ اور ہو سکتا ہے پچھلے میناروں سے زیادہ اونچے مینار اس بار ہوں۔ اللہ تعالی ہم مسلمانوں کی مدد فرمائے، آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔