اسٹیٹ بینک نے آئندہ 2 ماہ کے لئے شرح سودمیں 05 فیصد کمی کردی
2013-14 میں اوسط گرانی رواں سال کے 8 فیصد کے اعلان کردہ ہدف سے تجاوز کرسکتی ہے، اسٹیٹ بینک
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بنیادی شرح سود50 بیسس پوائنٹس کم کرکے 9 فیصد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ بجلی کی قلت اور امن و امان کے حالات ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں، اگرچہ نئی حکومت کے قیام سے معاشی حالات اور مہنگائی میں کمی کی توقعات میں اضافہ ہوا ہے تاہم سیلز ٹیکس اور بجلی کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بدستور دبائو کا شکار ہیں، بیرون ملک سے رقوم کی آمد کی عدم موجودگی اور بینکاری نظام سے بلند ترین مالیاتی قرضے زری پالیسی کیلیے سخت معاشی چیلنج بنے ہوئے ہیں، پچھلے تخمیوںکے برعکس مالی سال 2012-13 کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 8.8 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ بینکاری نظام سے بجٹ سپورٹ کیلیے7جون تک 1230 ارب روپے کا قرض لیا گیا جس میں اسٹیٹ بینک سے لیے گئے413 ارب روپے شامل ہیں۔
ملکی و بیرونی سرمایہ کاروں کی ترغیب کیلیے اصلاحات پر مبنی اور معتبر وسط مدتی مالیاتی منصوبے کا نفاذ لازمی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے توازن ادائیگی کی صورتحال کو درپیش خطرات کے مقابلے میں گرتی ہوئی گرانی اور نجی شعبے کے پست قرضوں کو زیادہ اہمیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد سیاسی فضا واضح ہونے کی وجہ سے احساسات میں مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی دو مثالیں حکومتی تمسکات کی نیلامی میں بینکوں کا رویہ اور سٹاک مارکیٹ کا ردعمل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے کیے گئے سرویز میں صارفین کے اعتماد، متوقع معاشی حالات اور گرانی کی توقعات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ گذشتہ سال کے دوران گرانی میں کمی کا زری پالیسی کے فیصلوں میں مثبت اثر پڑا۔ مالی سال 13ء کیلیے اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت 9.5 فیصد کے ہدف سے کم از کم دو فیصدی درجے نیچے رہنے کی توقع ہے۔
بجلی کے نرخوں میں مرحلہ وار اضافہ سے خطرہ ہے کہ مالی سال14ء میں اوسط گرانی اس سال کے 8 فیصد کے اعلان کردہ ہدف سے تجاوز کرسکتی ہے تاہم معیشت میں مجموعی طلب معتدل رہنے کی توقع ہے جو گرانی کو کسی قدر کم کرسکتا ہے۔ جی ڈی پی کی نمو توانائی کی قلت اور امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے پچھلے چند برسوں سے مشکلات کا شکار ہے اور یہ سال بھی مستثنیٰ نہیں۔ مالی سال13ء کیلیے جی ڈی پی نمو کا عبوری تخمینہ3.6 فیصد ہے جو سال کے ہدف 4.3 فیصد سے کم ہے۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر اشیا سازی کے شعبے میں کچھ حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہے، یعنی اپریل 2013ء میں 4.8 فیصد، تاہم اسے ابھرتا ہوا رجحان قرار دینا قبل از وقت ہوگا۔ بلند حقیقی شرح سود معیشت میں نجی سرمایہ کاری کیلئے مددگار نہیں ہوتی۔
پچھلے زری پالیسی فیصلے کے بعد سے اب تک توازن ادائیگی کی صورتحال کے جائزے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی۔ بیرونی جاری کھاتے کا خسارہ قابو میں رہنے کی توقع ہے یعنی مالی سال 13ء کیلیے جی ڈی پی کے ایک فیصد کے لگ بھگ، جس سے بیرونی کھاتوں میں اس ذریعے سے بہت کم خطرہ ظاہر ہوتا ہے۔ حقیقی چیلنج بیرون ملک سے آنے والی رقوم کا فقدان ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم نہیں ہوا۔ 14 جون 2013ء تک اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر6.2 ارب ڈالر ہیں۔ مالی سال 13ء میں تقریباً صفر بیرونی مالکاری کے باعث 8.8 فیصد کے خاصے بڑے خسارے کو پورا کرنے کا بوجھ غیرمتناسب طور پر ملکی وسائل پر پڑا ہے خصوصاً بینکاری نظام پر۔
یکم جولائی تا 7 جون مالی سال 13ء کے دوران اعانت میزانیہ کیلئے بینکاری نظام سے مالیاتی قرض 1230 ارب روپے تھا جس میں سٹیٹ بنک سے لیے گئے 413 ارب روپے شامل تھے۔ اتنے زیادہ قرضوں کی وجہ سے قلیل مدتی شرح سود پر دباؤ رہا اور نجی شعبے کے قرضے کی نمو گھٹ رہی ہے۔ اگر معیشت کو ابھرتے ہوئے مثبت احساسات سے فائدہ اٹھانا ہے اور ملکی و بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دینی ہے تو اصلاحات پر مبنی اور معتبر وسط مدتی مالیاتی منصوبے کا نفاذ لازمی ہے چنانچہ ا سٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے توازن ادائیگی کی صورتحال کو درپیش خطرات کے مقابلے میں گرتی ہوئی گرانی اور نجی شعبے کے پست قرضوں کو زیادہ اہمیت دی ہے اور پالیسی ریٹ 24 جون 2013ء سے 50 بیسس پوائنٹس کم کر کے 9 فیصد کیا جارہا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ بجلی کی قلت اور امن و امان کے حالات ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں، اگرچہ نئی حکومت کے قیام سے معاشی حالات اور مہنگائی میں کمی کی توقعات میں اضافہ ہوا ہے تاہم سیلز ٹیکس اور بجلی کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بدستور دبائو کا شکار ہیں، بیرون ملک سے رقوم کی آمد کی عدم موجودگی اور بینکاری نظام سے بلند ترین مالیاتی قرضے زری پالیسی کیلیے سخت معاشی چیلنج بنے ہوئے ہیں، پچھلے تخمیوںکے برعکس مالی سال 2012-13 کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 8.8 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ بینکاری نظام سے بجٹ سپورٹ کیلیے7جون تک 1230 ارب روپے کا قرض لیا گیا جس میں اسٹیٹ بینک سے لیے گئے413 ارب روپے شامل ہیں۔
ملکی و بیرونی سرمایہ کاروں کی ترغیب کیلیے اصلاحات پر مبنی اور معتبر وسط مدتی مالیاتی منصوبے کا نفاذ لازمی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے توازن ادائیگی کی صورتحال کو درپیش خطرات کے مقابلے میں گرتی ہوئی گرانی اور نجی شعبے کے پست قرضوں کو زیادہ اہمیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد سیاسی فضا واضح ہونے کی وجہ سے احساسات میں مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی دو مثالیں حکومتی تمسکات کی نیلامی میں بینکوں کا رویہ اور سٹاک مارکیٹ کا ردعمل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے کیے گئے سرویز میں صارفین کے اعتماد، متوقع معاشی حالات اور گرانی کی توقعات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ گذشتہ سال کے دوران گرانی میں کمی کا زری پالیسی کے فیصلوں میں مثبت اثر پڑا۔ مالی سال 13ء کیلیے اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت 9.5 فیصد کے ہدف سے کم از کم دو فیصدی درجے نیچے رہنے کی توقع ہے۔
بجلی کے نرخوں میں مرحلہ وار اضافہ سے خطرہ ہے کہ مالی سال14ء میں اوسط گرانی اس سال کے 8 فیصد کے اعلان کردہ ہدف سے تجاوز کرسکتی ہے تاہم معیشت میں مجموعی طلب معتدل رہنے کی توقع ہے جو گرانی کو کسی قدر کم کرسکتا ہے۔ جی ڈی پی کی نمو توانائی کی قلت اور امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے پچھلے چند برسوں سے مشکلات کا شکار ہے اور یہ سال بھی مستثنیٰ نہیں۔ مالی سال13ء کیلیے جی ڈی پی نمو کا عبوری تخمینہ3.6 فیصد ہے جو سال کے ہدف 4.3 فیصد سے کم ہے۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر اشیا سازی کے شعبے میں کچھ حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہے، یعنی اپریل 2013ء میں 4.8 فیصد، تاہم اسے ابھرتا ہوا رجحان قرار دینا قبل از وقت ہوگا۔ بلند حقیقی شرح سود معیشت میں نجی سرمایہ کاری کیلئے مددگار نہیں ہوتی۔
پچھلے زری پالیسی فیصلے کے بعد سے اب تک توازن ادائیگی کی صورتحال کے جائزے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی۔ بیرونی جاری کھاتے کا خسارہ قابو میں رہنے کی توقع ہے یعنی مالی سال 13ء کیلیے جی ڈی پی کے ایک فیصد کے لگ بھگ، جس سے بیرونی کھاتوں میں اس ذریعے سے بہت کم خطرہ ظاہر ہوتا ہے۔ حقیقی چیلنج بیرون ملک سے آنے والی رقوم کا فقدان ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم نہیں ہوا۔ 14 جون 2013ء تک اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر6.2 ارب ڈالر ہیں۔ مالی سال 13ء میں تقریباً صفر بیرونی مالکاری کے باعث 8.8 فیصد کے خاصے بڑے خسارے کو پورا کرنے کا بوجھ غیرمتناسب طور پر ملکی وسائل پر پڑا ہے خصوصاً بینکاری نظام پر۔
یکم جولائی تا 7 جون مالی سال 13ء کے دوران اعانت میزانیہ کیلئے بینکاری نظام سے مالیاتی قرض 1230 ارب روپے تھا جس میں سٹیٹ بنک سے لیے گئے 413 ارب روپے شامل تھے۔ اتنے زیادہ قرضوں کی وجہ سے قلیل مدتی شرح سود پر دباؤ رہا اور نجی شعبے کے قرضے کی نمو گھٹ رہی ہے۔ اگر معیشت کو ابھرتے ہوئے مثبت احساسات سے فائدہ اٹھانا ہے اور ملکی و بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دینی ہے تو اصلاحات پر مبنی اور معتبر وسط مدتی مالیاتی منصوبے کا نفاذ لازمی ہے چنانچہ ا سٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے توازن ادائیگی کی صورتحال کو درپیش خطرات کے مقابلے میں گرتی ہوئی گرانی اور نجی شعبے کے پست قرضوں کو زیادہ اہمیت دی ہے اور پالیسی ریٹ 24 جون 2013ء سے 50 بیسس پوائنٹس کم کر کے 9 فیصد کیا جارہا ہے۔