فوڈ اسٹریٹ کلچر کی چکناہٹ
ٹرانس چکنائی کی زیادہ مقدار استعمال کرنا مضر صحت ہے لیکن ہمارے یہاں اس بات پر زیادہ توجہ نہی دی جاتی۔
ہم مشرقی فطرتاً مرغن اور چٹپٹے کھانوں کے شوقین ہیں۔ ہمارے یہاں اگر سبزی بھی پکائی جاتی ہے تو اسے اس وقت تک اچھا نہیں سمجھا جاتا جب تک اس میں ہمیں گھی یا تیل نظر نہ آئے، دال اور سالن میں تو کھڑا گھی یا تیل ہی اچھا اور مزیدار ہونے کی ضمانت دے سکتا ہے، ورنہ کنجوسی کا طعنہ سن لیں۔ کیا تیل اور گھی ہماری غذاؤں میں اسی قدر اہم ہیں کہ ان کے بنا ہمارا گزارا ہی نہیں یا یہ ذائقے کی علامت ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہے لیکن ہماری صحت کے لیے یہ کس قدر خطرناک ہیں اس کا اندازہ تو اس وقت ہی ہوتا ہے جب بیماریاں شکنجے میں کس لیتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں فی کس سالانہ تیل یا گھی کا استعمال اٹھارہ کلو گرام ہے جب کہ یورپ میں صرف تین کلو گرام ہے۔ اس فرق سے احساس بڑھتا ہے کہ ہم کتنی رغبت سے گھی اور تیل کا استعمال اپنی روزمرہ کی غذاؤں میں کرتے ہیں۔
پرانے زمانے میںدیسی طریقوں سے نکالے ہوئے گھی اور مکھن کو ہی کھانا پکانے میں استعمال کیا جاتا رہا تھا لیکن آبادی بڑھتی رہی اور ایسی چیزوں کی ضرورت محسوس ہونا شروع ہوگئی کہ جسے کھانوں میں ان اشیا کے ساتھ یا متبادل استعمال کیا جائے، جو ایسے ہی ہوں لیکن انھیں قدرتی ذریعوں کے علاوہ بھی بنایا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں پہلا اقدام ایک فرانسیسی کیمیادان پال بناٹائیہ نے اٹھایا اور ایسا طریقہ دریافت کیا کہ جس سے کیٹالک پائیہ دار و جنبش کی کیمسٹرہی بدل گئی۔ اس تحقیق کے صلے میں سے 1890ء میں نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا، اس کے بعد جرمن سائنسدان نے اس پر مزید تحقیق کی۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والا ول ہیلم نارمن نے ہائیڈروجن گیس کو مایع تیل سے گزار کر اس میں ایسی خاصیت پیدا کی کہ جس سے وہ جما ہوا یا نیم پگھلایا ہوا سا ہوتا ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ نقل و حمل کے لیے تیز رفتار موٹریں استعمال نہ کیا کرتے تھے، پیدل سفر کیا کرتے تھے، محنت مشقت بھی کافی ہوا کرتی تھی، لہٰذ یہ ایجاد کارگر ثابت ہوئی اور 1900ء میں اس کا باقاعدہ استعمال شروع ہوا اور بڑے پیمانے پر اس کی تیاری کی گئی۔ 1930ء تک برصغیر میں اس کی درآمد ہوتی رہی اور یہ ہمارے کھانوں کی ضرورت بنتا گیا۔
آج ہم کسی بھی ہوٹل، ریسٹورنٹ یا فوڈ اسٹریٹ پر دیکھ لیں مزیدار خوشبودار کھانے اپنی جانب کھینچتے ہیں اور ہم اس سے بخوبی مستفیض ہوتے ہیں، لیکن ہم نے اس بات کو خاصی تاخیر سے پہچانا کہ اس کا زیادہ استعمال ہماری صحت کے لیے کس قدر مضر ہے۔ عام درجہ حرارت پر جمنے والے گھی میں صرف قدرتی چکنائی شامل نہیں ہوتی بلکہ وہ چکنائی شامل ہوتی ہے جو گھی بننے کے عمل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس چکنائی کو ''ٹرانس چکنائی'' کہتے ہیں۔
ایک ایسی چکنائی ہے آج انسانی صحت کے لیے خطرے سے خالی نہیں، جو دل کی بیماریوں، اعصابی بیماریوں، موٹاپا، ذیابیطس اور کینسر جیسے موذی امراض کا موجب ثابت ہوسکتی ہیں۔ ہمارے یہاں تیزی سے پھیلنے والے امراض یہی ہیں، جن میں دل کے امراض سرفہرست ہیں۔ پاکستان کی تمام صوبوں میں دل کے امراض کی شرح سب سے زیادہ پنجاب میں پائی جاتی ہے، جس کی وجہ مرغن غذاؤں کا استعمال ہے۔ در اصل ٹرانس چکنائی ہمارے جسم کے درجہ حرارت سے باآسانی پگھل کر ہمارے خون میں شامل نہیں ہوتی۔
جس طرح کسی بھی گاڑی کے چلنے میں پٹرول یا گیس بہت اہم ہے لیکن اس کے علاوہ گاڑی میں آئل کا خیال رکھا جاتا ہے، آئل تبدیل نہ کرنے کی صورت میں وہ گندا یا گاڑھا ہوکر گاڑی کی رفتار اور انجن پر اثر انداز ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جسم کو چلانے اور کام کرنے کے لیے توانائی کی ضرورت پڑتی ہے اور اس توانائی کے لیے ہمارے جسم میں جتنی چکنائی (پٹرول) کی ضرورت ہوتی ہے یہ چکنائی ہمارا جگر خود غذا سے تیار کرتا ہے۔ انسانی جگر ہماری غذا میں شامل چکنائیوں سے ہمارے لیے دو چکنائی بناتا ہے، ایک ایل ڈی ایل، دوسری ایچ ڈی ایل۔
اول والی چکنائی یعنی مضر صحت چکنائی بنانے کی رفتار کم کرلیتا ہے تاکہ جسم میں چکنائی کی مقدار صحیح سے بڑھے، دوسری مضر صحت چکنائی یعنی ایچ ڈی ایل جو خون میں موجود فاضل چکنائی کے مالیکیولز کو توڑ کر ان کے اجزا جسم سے خارج کرنا شروع کردیتا ہے، لیکن جب ہم اپنی غذا میں احتیاط نہیں برتتے تو ہمارے جسم میں خراب کولیسٹرول دل کی شریانوں کی دیواروں پر چپکنے لگتی ہیں۔ یوں وہ خون گزرنے کے راستے کو تنگ کرتی چلی جاتی ہیں اور بند ہونے کی صورت میں دل کے دورے کا سبب بنتی ہیں۔
ٹرانس چکنائی کی زیادہ مقدار استعمال کرنا مضر صحت ہے لیکن ہمارے یہاں اس بات پر زیادہ توجہ نہی دی جاتی۔ حالانکہ اب ایسے طریقے بھی دریافت ہوچکے ہیں جن سے اس کی مقدار کو کم سے کم کیا جاسکتا۔ ویسے تو 50 فیصد ٹرانس چکنائی بہتر ہے، اسے ڈی ٹی ایف معیار کہا جاتا ہے جس کے مطابق ایک فیصد سے کم ٹرانس چکنائی کو صحت کے معیار کے مطابق جانچا گیا ہے۔
گھریلو بجلی کے اہم آلات نے جہاں زندگی کو سہل بنادیا ہے، وہیں کاہلی اور سستی نے ہمیں گھر بیٹھے بازار سے مزے مزے کے پکوان سے آشنا کردیا ہے جو بنا محنت کے خریدا جاسکتا ہے، لیکن ایسے کھانے ہماری صحت پر کس قدر بری طرح اثر انداز ہورہے ہیں ہم اس سے اس وقت تک نابلد ہی رہے ہیں جب تک اس میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ چہل قدمی اور ہاتھ سے کام کرنے کے انداز کو ہم نے اپنی روزمرہ کی عادات میں سے ترک کردیا ہے۔
ابھی چند دنوں پہلے کی ہی بات ہے جب ایک شادی ہال میں کئی افراد باسی کھانا کھانے سے بے ہوش ہوگئے، یہ تو محض باسی کھانا کھانے کا مزہ تھا جس نے ان افراد کو اسپتال پہنچادیا تھا، ذرا سوچیے تیل و گھی میں ترتراتے ان کھانوں کے بارے میں جو رفتہ رفتہ ہمارے خون میں شامل ہوکر ہمیں بیماریوں کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ہم ان سے بالکل منہ پھیر لیں، کھائیے، ضرور کھائیے، لیکن احتیاط کے ساتھ کہ یہ زندگی اللہ کی نعمت ہے، اسے محض کھانے پینے کے مزے کے لیے ضایع نہ کریں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں فی کس سالانہ تیل یا گھی کا استعمال اٹھارہ کلو گرام ہے جب کہ یورپ میں صرف تین کلو گرام ہے۔ اس فرق سے احساس بڑھتا ہے کہ ہم کتنی رغبت سے گھی اور تیل کا استعمال اپنی روزمرہ کی غذاؤں میں کرتے ہیں۔
پرانے زمانے میںدیسی طریقوں سے نکالے ہوئے گھی اور مکھن کو ہی کھانا پکانے میں استعمال کیا جاتا رہا تھا لیکن آبادی بڑھتی رہی اور ایسی چیزوں کی ضرورت محسوس ہونا شروع ہوگئی کہ جسے کھانوں میں ان اشیا کے ساتھ یا متبادل استعمال کیا جائے، جو ایسے ہی ہوں لیکن انھیں قدرتی ذریعوں کے علاوہ بھی بنایا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں پہلا اقدام ایک فرانسیسی کیمیادان پال بناٹائیہ نے اٹھایا اور ایسا طریقہ دریافت کیا کہ جس سے کیٹالک پائیہ دار و جنبش کی کیمسٹرہی بدل گئی۔ اس تحقیق کے صلے میں سے 1890ء میں نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا، اس کے بعد جرمن سائنسدان نے اس پر مزید تحقیق کی۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والا ول ہیلم نارمن نے ہائیڈروجن گیس کو مایع تیل سے گزار کر اس میں ایسی خاصیت پیدا کی کہ جس سے وہ جما ہوا یا نیم پگھلایا ہوا سا ہوتا ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ نقل و حمل کے لیے تیز رفتار موٹریں استعمال نہ کیا کرتے تھے، پیدل سفر کیا کرتے تھے، محنت مشقت بھی کافی ہوا کرتی تھی، لہٰذ یہ ایجاد کارگر ثابت ہوئی اور 1900ء میں اس کا باقاعدہ استعمال شروع ہوا اور بڑے پیمانے پر اس کی تیاری کی گئی۔ 1930ء تک برصغیر میں اس کی درآمد ہوتی رہی اور یہ ہمارے کھانوں کی ضرورت بنتا گیا۔
آج ہم کسی بھی ہوٹل، ریسٹورنٹ یا فوڈ اسٹریٹ پر دیکھ لیں مزیدار خوشبودار کھانے اپنی جانب کھینچتے ہیں اور ہم اس سے بخوبی مستفیض ہوتے ہیں، لیکن ہم نے اس بات کو خاصی تاخیر سے پہچانا کہ اس کا زیادہ استعمال ہماری صحت کے لیے کس قدر مضر ہے۔ عام درجہ حرارت پر جمنے والے گھی میں صرف قدرتی چکنائی شامل نہیں ہوتی بلکہ وہ چکنائی شامل ہوتی ہے جو گھی بننے کے عمل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس چکنائی کو ''ٹرانس چکنائی'' کہتے ہیں۔
ایک ایسی چکنائی ہے آج انسانی صحت کے لیے خطرے سے خالی نہیں، جو دل کی بیماریوں، اعصابی بیماریوں، موٹاپا، ذیابیطس اور کینسر جیسے موذی امراض کا موجب ثابت ہوسکتی ہیں۔ ہمارے یہاں تیزی سے پھیلنے والے امراض یہی ہیں، جن میں دل کے امراض سرفہرست ہیں۔ پاکستان کی تمام صوبوں میں دل کے امراض کی شرح سب سے زیادہ پنجاب میں پائی جاتی ہے، جس کی وجہ مرغن غذاؤں کا استعمال ہے۔ در اصل ٹرانس چکنائی ہمارے جسم کے درجہ حرارت سے باآسانی پگھل کر ہمارے خون میں شامل نہیں ہوتی۔
جس طرح کسی بھی گاڑی کے چلنے میں پٹرول یا گیس بہت اہم ہے لیکن اس کے علاوہ گاڑی میں آئل کا خیال رکھا جاتا ہے، آئل تبدیل نہ کرنے کی صورت میں وہ گندا یا گاڑھا ہوکر گاڑی کی رفتار اور انجن پر اثر انداز ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جسم کو چلانے اور کام کرنے کے لیے توانائی کی ضرورت پڑتی ہے اور اس توانائی کے لیے ہمارے جسم میں جتنی چکنائی (پٹرول) کی ضرورت ہوتی ہے یہ چکنائی ہمارا جگر خود غذا سے تیار کرتا ہے۔ انسانی جگر ہماری غذا میں شامل چکنائیوں سے ہمارے لیے دو چکنائی بناتا ہے، ایک ایل ڈی ایل، دوسری ایچ ڈی ایل۔
اول والی چکنائی یعنی مضر صحت چکنائی بنانے کی رفتار کم کرلیتا ہے تاکہ جسم میں چکنائی کی مقدار صحیح سے بڑھے، دوسری مضر صحت چکنائی یعنی ایچ ڈی ایل جو خون میں موجود فاضل چکنائی کے مالیکیولز کو توڑ کر ان کے اجزا جسم سے خارج کرنا شروع کردیتا ہے، لیکن جب ہم اپنی غذا میں احتیاط نہیں برتتے تو ہمارے جسم میں خراب کولیسٹرول دل کی شریانوں کی دیواروں پر چپکنے لگتی ہیں۔ یوں وہ خون گزرنے کے راستے کو تنگ کرتی چلی جاتی ہیں اور بند ہونے کی صورت میں دل کے دورے کا سبب بنتی ہیں۔
ٹرانس چکنائی کی زیادہ مقدار استعمال کرنا مضر صحت ہے لیکن ہمارے یہاں اس بات پر زیادہ توجہ نہی دی جاتی۔ حالانکہ اب ایسے طریقے بھی دریافت ہوچکے ہیں جن سے اس کی مقدار کو کم سے کم کیا جاسکتا۔ ویسے تو 50 فیصد ٹرانس چکنائی بہتر ہے، اسے ڈی ٹی ایف معیار کہا جاتا ہے جس کے مطابق ایک فیصد سے کم ٹرانس چکنائی کو صحت کے معیار کے مطابق جانچا گیا ہے۔
گھریلو بجلی کے اہم آلات نے جہاں زندگی کو سہل بنادیا ہے، وہیں کاہلی اور سستی نے ہمیں گھر بیٹھے بازار سے مزے مزے کے پکوان سے آشنا کردیا ہے جو بنا محنت کے خریدا جاسکتا ہے، لیکن ایسے کھانے ہماری صحت پر کس قدر بری طرح اثر انداز ہورہے ہیں ہم اس سے اس وقت تک نابلد ہی رہے ہیں جب تک اس میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ چہل قدمی اور ہاتھ سے کام کرنے کے انداز کو ہم نے اپنی روزمرہ کی عادات میں سے ترک کردیا ہے۔
ابھی چند دنوں پہلے کی ہی بات ہے جب ایک شادی ہال میں کئی افراد باسی کھانا کھانے سے بے ہوش ہوگئے، یہ تو محض باسی کھانا کھانے کا مزہ تھا جس نے ان افراد کو اسپتال پہنچادیا تھا، ذرا سوچیے تیل و گھی میں ترتراتے ان کھانوں کے بارے میں جو رفتہ رفتہ ہمارے خون میں شامل ہوکر ہمیں بیماریوں کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ہم ان سے بالکل منہ پھیر لیں، کھائیے، ضرور کھائیے، لیکن احتیاط کے ساتھ کہ یہ زندگی اللہ کی نعمت ہے، اسے محض کھانے پینے کے مزے کے لیے ضایع نہ کریں۔