آئی ایم ایف کا قرض اتارنے کیلئے دوبارہ آئی ایم ایف سے ہی قرض لینا پڑے گا وزیر خزانہ
گزشتہ حکومت نے ہمیں 14 ہزار 500 ارب روپے کے قرض کا تحفہ دیا اس کے علاوہ 503 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ الگ ہے، اسحاق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے لئے گئے قرض میں سے 3 ارب ڈالر واپس کرنے کے لئے ہمیں آئی ایم ایف سے دوبارہ قرض لینا پڑے گا۔
قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے لئے پیش کردہ بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ نئی حکومت کو گزشتہ حکومت نے 14 ہزار 50 ارب روپے کا قرض تحفے میں دیا اور 503 ارب کا سرکولر ڈیٹ اس کے علاوہ ہے،سابق حکومت نے قرض لے کر اور نوٹ چھاپ کر 5 برس میں 2ہزار ارب روپے کی سبسڈی دی جو کہ کسی بھی طرح حقیقت پسندانہ نہیں، موجودہ حکومت نے وی آئی پی کلچر اور حکومت کی شاہ خرچیوں کو ختم کیا، حکومت اپنے اخراجات میں 30 فیصد کمی کررہی ہے تاکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالا جائے، ترقیاتی بجٹ کو بڑھا گیا تاکہ ملک ترقی کرے، جی ایس ٹی میں اضافے پر تو بات کی جارہی ہے لیکن اس کے بدلے کوئی راستہ نہیں بتایا جارہا، ارکان اسمبلی 50 ارب کے ریونیو کے حصول کا راستہ دکھادیں تو نیا ٹیکس نہیں نکالیں گے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ یہ وقت الزامات لگانے کا نہیں، مل کر ملک کو مسائل سے نکالنے کا ہے گزشتہ حکومت کی جانب سے لئے گئے قرضوں کی واپسی اخلاقی طور پر ہم پرعائد نہیں ہوتی اورنہ ہی ہم اس کے ذمہ دار ہیں لیکن پاکستان کو عالمی سطح پر نادہندہ ہونے سے بچانے کے لئے ہمیں روانں برس آئی ایم ایف کو 3 ارب دالر کا قرض واپس کرنا ہے جس کے لئے ہمیں ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا،لیکن ملک کے خلاف کسی بھی شرط کو نہیں مانا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت حاجیوں پر ٹیکس عائد کرنے کا سوچ بھی سکتی، حکومت نے حاجیوں پر نہیں ٹور آپریٹرز پر عائد ٹیکس کو 2ہزار سے بڑھا کر3 ہزار 500 کیا ہے کیونکہ ٹور آپریٹرز ایک ایک حاجی سے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں، اس کے علاوہ موبائل فون استعمال کرنے والوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کیا جارہا ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ نئے انکم ٹیکس سلیبس کا مقصد کم آمدنی والے افراد پر بوجھ کم کرنا ہے،انکم ٹیکس کی تمام سلیبس کو ایڈجسٹ کیا گیا ہے،وفاق کی جانب سے کم سے کم تنخواہ کو 8ہزار سے بڑھا کر 10ہزار کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 40سے بڑھاکر75 ارب روپے رکھے گئے ہیں، آئندہ بجٹ میں دودھ اور ڈیری پروڈکٹس اور اسٹیشنری پر زیرو ریٹنگ کو بحال کر دیا ہے اب ان مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑہنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھا جائے گا اور اس کے تحت اب ضرورت مند گھرانوں کو ماہانہ ایک ہزار روپے کے بجائے 12 سو روپے دیئے جائیں گے،کھاد پر 30 ارب روپے کی سبڈی دی جائے گی، حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حکومت کی جانب سے بلوچستان ، فاٹا اور گلگت بلتستان طلبا کی فیس کی ادائیگی کے پروگرام میں اندرون سندھ، جنوبی پنجاب، مالاکنڈ،کوہستان اور ڈیرہ اسماعیل کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے خفیہ فنڈز 11 جون سے ہی ختم کردیئے ہیں اب انہیں قومی سیکیورٹی اداروں کے علاوہ کوئی بھی وزارت استعمال نہیں کرسکتی ، ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت سے کسی بھی طرح غافل نہیں اس کے لئے عالمی معیار کے مطابق انتظامات کئے گئے ہیں، نیوکلیئر پروگرام نیشنل کمانڈ کے ماتحت ہے جس کے سربراہ وزیراعظم ہیں، قومی اثاثوں کی سیکیورٹی کے لئے 25 ہزار اہل کاروں پر مشتمل فورس تشکیل دی گئی ہے جو اس پروگرام کی حفاظت کی ذمےداری پر مامور ہیں۔
قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے لئے پیش کردہ بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ نئی حکومت کو گزشتہ حکومت نے 14 ہزار 50 ارب روپے کا قرض تحفے میں دیا اور 503 ارب کا سرکولر ڈیٹ اس کے علاوہ ہے،سابق حکومت نے قرض لے کر اور نوٹ چھاپ کر 5 برس میں 2ہزار ارب روپے کی سبسڈی دی جو کہ کسی بھی طرح حقیقت پسندانہ نہیں، موجودہ حکومت نے وی آئی پی کلچر اور حکومت کی شاہ خرچیوں کو ختم کیا، حکومت اپنے اخراجات میں 30 فیصد کمی کررہی ہے تاکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالا جائے، ترقیاتی بجٹ کو بڑھا گیا تاکہ ملک ترقی کرے، جی ایس ٹی میں اضافے پر تو بات کی جارہی ہے لیکن اس کے بدلے کوئی راستہ نہیں بتایا جارہا، ارکان اسمبلی 50 ارب کے ریونیو کے حصول کا راستہ دکھادیں تو نیا ٹیکس نہیں نکالیں گے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ یہ وقت الزامات لگانے کا نہیں، مل کر ملک کو مسائل سے نکالنے کا ہے گزشتہ حکومت کی جانب سے لئے گئے قرضوں کی واپسی اخلاقی طور پر ہم پرعائد نہیں ہوتی اورنہ ہی ہم اس کے ذمہ دار ہیں لیکن پاکستان کو عالمی سطح پر نادہندہ ہونے سے بچانے کے لئے ہمیں روانں برس آئی ایم ایف کو 3 ارب دالر کا قرض واپس کرنا ہے جس کے لئے ہمیں ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا،لیکن ملک کے خلاف کسی بھی شرط کو نہیں مانا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت حاجیوں پر ٹیکس عائد کرنے کا سوچ بھی سکتی، حکومت نے حاجیوں پر نہیں ٹور آپریٹرز پر عائد ٹیکس کو 2ہزار سے بڑھا کر3 ہزار 500 کیا ہے کیونکہ ٹور آپریٹرز ایک ایک حاجی سے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں، اس کے علاوہ موبائل فون استعمال کرنے والوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کیا جارہا ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ نئے انکم ٹیکس سلیبس کا مقصد کم آمدنی والے افراد پر بوجھ کم کرنا ہے،انکم ٹیکس کی تمام سلیبس کو ایڈجسٹ کیا گیا ہے،وفاق کی جانب سے کم سے کم تنخواہ کو 8ہزار سے بڑھا کر 10ہزار کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 40سے بڑھاکر75 ارب روپے رکھے گئے ہیں، آئندہ بجٹ میں دودھ اور ڈیری پروڈکٹس اور اسٹیشنری پر زیرو ریٹنگ کو بحال کر دیا ہے اب ان مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑہنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھا جائے گا اور اس کے تحت اب ضرورت مند گھرانوں کو ماہانہ ایک ہزار روپے کے بجائے 12 سو روپے دیئے جائیں گے،کھاد پر 30 ارب روپے کی سبڈی دی جائے گی، حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حکومت کی جانب سے بلوچستان ، فاٹا اور گلگت بلتستان طلبا کی فیس کی ادائیگی کے پروگرام میں اندرون سندھ، جنوبی پنجاب، مالاکنڈ،کوہستان اور ڈیرہ اسماعیل کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے خفیہ فنڈز 11 جون سے ہی ختم کردیئے ہیں اب انہیں قومی سیکیورٹی اداروں کے علاوہ کوئی بھی وزارت استعمال نہیں کرسکتی ، ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت سے کسی بھی طرح غافل نہیں اس کے لئے عالمی معیار کے مطابق انتظامات کئے گئے ہیں، نیوکلیئر پروگرام نیشنل کمانڈ کے ماتحت ہے جس کے سربراہ وزیراعظم ہیں، قومی اثاثوں کی سیکیورٹی کے لئے 25 ہزار اہل کاروں پر مشتمل فورس تشکیل دی گئی ہے جو اس پروگرام کی حفاظت کی ذمےداری پر مامور ہیں۔