کیا انھیں مسیحا کہا جاسکتا ہے
ڈاکٹر حضرات اپنے مطالبات منوانے کے لیے آئے دن ہڑتال کرتے ہیں، چند ماہ قبل لاہور میں ڈاکٹروں نے ۔۔۔
ڈاکٹر حضرات اپنے مطالبات منوانے کے لیے آئے دن ہڑتال کرتے ہیں، چند ماہ قبل لاہور میں ڈاکٹروں نے مریضوں کو بے سہارا اور لاوارث چھوڑ دیا اور خود ہڑتال کرنے، دھرنا دینے اور ریلیاں نکالنے میں مصروف ہوگئے، اب ان دنوں کراچی میں بھی اسی قسم کے حالات پیدا کردیے گئے ہیں، ہڑتال کرنے کی وجہ سے 100 آپریشن وقت پر نہ ہوسکے اور 6 مریض ڈاکٹروں کی بے حسی کی وجہ سے اپنی جان سے گئے صوبائی سیکریٹری صحت سریش کمار نے کہا کہ ہڑتال کی ذمے داری جناح اسپتال کی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔
لیکن ڈاکٹروں کا یہ رویہ بے حد افسوس ناک ہے، اس کی وجہ سے بے شمار مریض سرکاری اسپتالوں میں دور دور سے علاج کرانے آتے ہیں، ان اسپتالوں میں فیس تو نہیں لی جاتی ہے لیکن دواؤں کی خریداری مریضوں کے لواحقین کو خود کرنی پڑتی ہے۔ وہ بے چارے علاج و معالجے کے سلسلے میں مقروض ہوجاتے ہیں، ایک طرف مریض کا خاطر خواہ علاج نہیں ہوتا تو دوسری طرف قرض مزید مشکلات میں ڈال دیتا ہے، سرمایہ کار اصل رقم پر سود وصول کرتا ہے اور جوں جوں وقت گزرتا ہے سود کی رقم میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہاری، کسان، مزدور، محنت کش کے لیے زندگی گزارنا اجیرن ہوجاتی ہے، اس بات کا کسی کو احساس نہیں، ایک طرف حکومت کی بے توجہی تو دوسری طرف ڈاکٹروں کا ظالمانہ سلوک۔
ڈاکٹر حضرات اپنے مطالبات منوانے کے لیے دوسرے طریقے بھی آزما سکتے ہیں، بے چارے غریب و بے بس مریضوں کو بے آسرا چھوڑنا زیادتی کے سوا کچھ نہیں، مریض کی حالت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود اس کا علاج کرنا ترک کردیتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ جاں بہ لب مریض ہیں اور ان کا حال چراغ سحری کی طرح ہے تو ان حالات میں آپریشن نہ کرنا، بروقت ان کی دیکھ بھال نہ کرنا، اس بات کا غماز ہے کہ آج کے مسیحاؤں کو اپنے مقدس پیشے سے نہ محبت رہی ہے اور نہ انسانیت کا درد ہے۔ انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ مرنے والوں کی موت کے ذمے دار وہ خود ہیں، وہ اپنے جارحانہ سلوک کی وجہ سے انھیں موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں، ان گھروں میں ویرانی چھا جاتی ہے جن کے لواحقین اس دنیا سے منہ موڑ جاتے ہیں، والدین کو اولاد سے اور اولاد کو والدین سے، بہن بھائیوں اور قریبی عزیزوں سے بے حد پیار ہوتا ہے، ان کی جدائی انھیں ماہ و سال رلاتی ہے۔
اگر انھیں اپنے مطالبات ہی منوانا ہیں تو کم وقت کی ہڑتال کریں تاکہ مریضوں کے آپریشن ملتوی نہ ہوں اور ان کا علاج چلتا رہے، وہ علامتی ہڑتال بھی کرسکتے ہیں۔
قواعد و ضوابط کے مطابق اپنے مسائل کے حل کے لیے ارباب اقتدار کو مطلع کیا جاسکتا ہے۔ انسانی جانوں سے کھیلنا، انسانیت کی توہین ہے۔ صاحب حیثیت لوگ سرکاری اسپتالوں کا رخ ہی نہیں کرتے بلکہ وہ پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کرواتے ہیں۔ بدلے میں پرائیویٹ اسپتال کی انتظامیہ ہزاروں اور لاکھوں میں بل بناتی ہے لیکن اس بڑی رقم کے عوض وہ آرام دہ کمرے اور اچھی سروسز بھی مہیا کرتی ہے۔ اے سی، چمکتے دمکتے واش روم اور تیمارداری کے لیے آنے والے کے لیے دیدہ زیب صوفہ سیٹ۔ پرائیویٹ اداروں میں ایک بات دیکھنے میں آئی ہے کہ کچھ اسپتالوں میں غیر ضروری ٹیسٹ بھی کروائے جاتے ہیں اور مریض کو زیادہ سے زیادہ اسپتال میں ٹھہرنے کے مواقع میسر کیے جاتے ہیں، جو لوگ پینل پر علاج کراتے ہیں ان کی فیس وغیرہ کمپنی اور دفاتر ادا کرتے ہیں تو وہ اس قسم کی صورت حال سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
پرائیویٹ اسپتالوں کی سب سے بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ نازک حالت میں مبتلا مریض کو بھی اس وقت تک داخل نہیں کرتے ہیں جب تک کہ ایک معقول رقم جمع نہ کرادی جائے، یہ بھی ایک المیہ ہے، ہم نے ایسے کئی کیس دیکھے لواحقین فیس جمع کرانے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، مریض تڑپ رہا ہے لیکن بنا فیس کے کوئی دیکھنے کو تیار نہیں۔ ایسے معالجوں کو مسیحا نہیں کہا جاتا ہے۔
مسیحا تو ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے عظیم لوگ ہیں۔ اداکارہ تمنا مرحوم گردوں کی تکلیف میں مبتلا تھیں اور قطار میں بیٹھی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے انھیں دیکھا اور پوچھا آپ تو اداکارہ تمنا ہیں ناں؟ مثبت جواب سن کر انھیں فوراً کمرے میں علاج کے لیے منتقل کردیا گیا۔ قدردان معالج انسانیت کے خدمت گار ایسے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے ہزاروں مریضوں کا مفت علاج کیا اور ہر طرح کی سہولت بغیر کسی فیس کے مہیا کی۔ اصل معنوں میں ڈاکٹر ایسے ہی اعلیٰ حضرات کو کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹروں نے طمع اور لالچ میں گرفتار ہوکر بے شمار مریضوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔کبھی گردوں کی فروخت کی کہانی سامنے آتی ہے تو کبھی جعلی دواؤں اور انجکشن کا استعمال موت کو صدائیں لگاتا ہے۔ آپریشن سیدھے ہاتھ کا کرنا ہوتا ہے، کر دیتے ہیں الٹے ہاتھ کا، کبھی آپریشن کے دوران پیٹ سے اپنے اوزار نکالنا بھول جاتے ہیں، اب لوگ ڈاکٹروں کے پاس جاتے اور علاج کراتے ہوئے خوفزدہ رہتے ہیں۔
آئے دن یہ خبریں بھی سننے آتی ہیں کہ نوزائیدہ بچہ غائب ہوگیا، نرس یا کوئی اور عورت بچے کو انجکشن لگانے کے بہانے لے گئی، بچے کو کس قدر آسانی سے اغوا کرلیا جاتا ہے، اسپتالوں میں معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کے کیس سامنے آتے ہیں۔ آج کل تو سپر اسٹور اور میڈیکل اسٹور تک میں کیمرے نصب کروادیے گئے ہیں جس کے ذریعے آسانی سے پتہ چل سکتا ہے کہ کون کس نیت سے داخل ہوا اور واردات کس طرح کی جارہی ہے۔ لیکن شاید اسپتال والے اپنی ذمے داری نہیں سمجھتے ہیں اور کچھ تو خود بھی ملوث ہوتے ہیں۔ اکثر مڈوائف، ڈاکٹر بنی بیٹھی ہیں جو مریض کا آپریشن تک کر ڈالتی ہیں اب مریضہ جیے یا مرے یہ ان کا مسئلہ نہیں، مسئلہ ہے تو بڑی بڑی فیسوں کا، جعلی دواؤں اور جعلی ڈاکٹروں نے مریضوں کو بے حد نقصان پہنچایا ہے اور جو اصلی ڈاکٹر ہیں وہ اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ انسانیت کے خدمت گار انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔
لیکن ڈاکٹروں کا یہ رویہ بے حد افسوس ناک ہے، اس کی وجہ سے بے شمار مریض سرکاری اسپتالوں میں دور دور سے علاج کرانے آتے ہیں، ان اسپتالوں میں فیس تو نہیں لی جاتی ہے لیکن دواؤں کی خریداری مریضوں کے لواحقین کو خود کرنی پڑتی ہے۔ وہ بے چارے علاج و معالجے کے سلسلے میں مقروض ہوجاتے ہیں، ایک طرف مریض کا خاطر خواہ علاج نہیں ہوتا تو دوسری طرف قرض مزید مشکلات میں ڈال دیتا ہے، سرمایہ کار اصل رقم پر سود وصول کرتا ہے اور جوں جوں وقت گزرتا ہے سود کی رقم میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہاری، کسان، مزدور، محنت کش کے لیے زندگی گزارنا اجیرن ہوجاتی ہے، اس بات کا کسی کو احساس نہیں، ایک طرف حکومت کی بے توجہی تو دوسری طرف ڈاکٹروں کا ظالمانہ سلوک۔
ڈاکٹر حضرات اپنے مطالبات منوانے کے لیے دوسرے طریقے بھی آزما سکتے ہیں، بے چارے غریب و بے بس مریضوں کو بے آسرا چھوڑنا زیادتی کے سوا کچھ نہیں، مریض کی حالت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود اس کا علاج کرنا ترک کردیتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ جاں بہ لب مریض ہیں اور ان کا حال چراغ سحری کی طرح ہے تو ان حالات میں آپریشن نہ کرنا، بروقت ان کی دیکھ بھال نہ کرنا، اس بات کا غماز ہے کہ آج کے مسیحاؤں کو اپنے مقدس پیشے سے نہ محبت رہی ہے اور نہ انسانیت کا درد ہے۔ انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ مرنے والوں کی موت کے ذمے دار وہ خود ہیں، وہ اپنے جارحانہ سلوک کی وجہ سے انھیں موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں، ان گھروں میں ویرانی چھا جاتی ہے جن کے لواحقین اس دنیا سے منہ موڑ جاتے ہیں، والدین کو اولاد سے اور اولاد کو والدین سے، بہن بھائیوں اور قریبی عزیزوں سے بے حد پیار ہوتا ہے، ان کی جدائی انھیں ماہ و سال رلاتی ہے۔
اگر انھیں اپنے مطالبات ہی منوانا ہیں تو کم وقت کی ہڑتال کریں تاکہ مریضوں کے آپریشن ملتوی نہ ہوں اور ان کا علاج چلتا رہے، وہ علامتی ہڑتال بھی کرسکتے ہیں۔
قواعد و ضوابط کے مطابق اپنے مسائل کے حل کے لیے ارباب اقتدار کو مطلع کیا جاسکتا ہے۔ انسانی جانوں سے کھیلنا، انسانیت کی توہین ہے۔ صاحب حیثیت لوگ سرکاری اسپتالوں کا رخ ہی نہیں کرتے بلکہ وہ پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کرواتے ہیں۔ بدلے میں پرائیویٹ اسپتال کی انتظامیہ ہزاروں اور لاکھوں میں بل بناتی ہے لیکن اس بڑی رقم کے عوض وہ آرام دہ کمرے اور اچھی سروسز بھی مہیا کرتی ہے۔ اے سی، چمکتے دمکتے واش روم اور تیمارداری کے لیے آنے والے کے لیے دیدہ زیب صوفہ سیٹ۔ پرائیویٹ اداروں میں ایک بات دیکھنے میں آئی ہے کہ کچھ اسپتالوں میں غیر ضروری ٹیسٹ بھی کروائے جاتے ہیں اور مریض کو زیادہ سے زیادہ اسپتال میں ٹھہرنے کے مواقع میسر کیے جاتے ہیں، جو لوگ پینل پر علاج کراتے ہیں ان کی فیس وغیرہ کمپنی اور دفاتر ادا کرتے ہیں تو وہ اس قسم کی صورت حال سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
پرائیویٹ اسپتالوں کی سب سے بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ نازک حالت میں مبتلا مریض کو بھی اس وقت تک داخل نہیں کرتے ہیں جب تک کہ ایک معقول رقم جمع نہ کرادی جائے، یہ بھی ایک المیہ ہے، ہم نے ایسے کئی کیس دیکھے لواحقین فیس جمع کرانے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، مریض تڑپ رہا ہے لیکن بنا فیس کے کوئی دیکھنے کو تیار نہیں۔ ایسے معالجوں کو مسیحا نہیں کہا جاتا ہے۔
مسیحا تو ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے عظیم لوگ ہیں۔ اداکارہ تمنا مرحوم گردوں کی تکلیف میں مبتلا تھیں اور قطار میں بیٹھی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے انھیں دیکھا اور پوچھا آپ تو اداکارہ تمنا ہیں ناں؟ مثبت جواب سن کر انھیں فوراً کمرے میں علاج کے لیے منتقل کردیا گیا۔ قدردان معالج انسانیت کے خدمت گار ایسے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے ہزاروں مریضوں کا مفت علاج کیا اور ہر طرح کی سہولت بغیر کسی فیس کے مہیا کی۔ اصل معنوں میں ڈاکٹر ایسے ہی اعلیٰ حضرات کو کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹروں نے طمع اور لالچ میں گرفتار ہوکر بے شمار مریضوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔کبھی گردوں کی فروخت کی کہانی سامنے آتی ہے تو کبھی جعلی دواؤں اور انجکشن کا استعمال موت کو صدائیں لگاتا ہے۔ آپریشن سیدھے ہاتھ کا کرنا ہوتا ہے، کر دیتے ہیں الٹے ہاتھ کا، کبھی آپریشن کے دوران پیٹ سے اپنے اوزار نکالنا بھول جاتے ہیں، اب لوگ ڈاکٹروں کے پاس جاتے اور علاج کراتے ہوئے خوفزدہ رہتے ہیں۔
آئے دن یہ خبریں بھی سننے آتی ہیں کہ نوزائیدہ بچہ غائب ہوگیا، نرس یا کوئی اور عورت بچے کو انجکشن لگانے کے بہانے لے گئی، بچے کو کس قدر آسانی سے اغوا کرلیا جاتا ہے، اسپتالوں میں معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کے کیس سامنے آتے ہیں۔ آج کل تو سپر اسٹور اور میڈیکل اسٹور تک میں کیمرے نصب کروادیے گئے ہیں جس کے ذریعے آسانی سے پتہ چل سکتا ہے کہ کون کس نیت سے داخل ہوا اور واردات کس طرح کی جارہی ہے۔ لیکن شاید اسپتال والے اپنی ذمے داری نہیں سمجھتے ہیں اور کچھ تو خود بھی ملوث ہوتے ہیں۔ اکثر مڈوائف، ڈاکٹر بنی بیٹھی ہیں جو مریض کا آپریشن تک کر ڈالتی ہیں اب مریضہ جیے یا مرے یہ ان کا مسئلہ نہیں، مسئلہ ہے تو بڑی بڑی فیسوں کا، جعلی دواؤں اور جعلی ڈاکٹروں نے مریضوں کو بے حد نقصان پہنچایا ہے اور جو اصلی ڈاکٹر ہیں وہ اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ انسانیت کے خدمت گار انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔