جنگ دہشت گردوں پر مسلط ہونی چاہیے
شہر قائد لہو لہان ہے، ہزاروں بیگناہ افراد قتل کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، رینجرزاورپولیس ہیڈکوارٹرز خود بنکروں میں محصور ہیں
کراچی کے علاقہ نارتھ ناظم آباد میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی ساجد قریشی اپنے بیٹے وقاص قریشی سمیت جاں بحق جب کہ 2 افراد زخمی ہو گئے، دیگر واقعات میں 16 افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ قومی اسمبلی میں ملک میں حالیہ دہشت گردی کے خلاف اپوزیشن کا شدید احتجاج ہوا، ساجد قریشی کے قتل کے خلاف ایم کیو ایم نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔
اسپیکر ایاز صادق نے کہا ہے کہ دہشت گردی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت ایوان میں وضاحت پیش کرے کہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان کے حوالے بتایا گیا کہ انھوں نے ساجد قریشی کے قتل کی ذمے داری قبول کر لی ہے تاہم ترجمان نے کہا کہ پشاور کی مسجد میں دھماکے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ملک میں ہونے والی تباہ کن دہشت گردی کے ہولناک اور ہلاکت خیز تسلسل کے پیش نظر اب کالعدم تحریک طالبان کی جاری کردہ وضاحت یا اس سے ملتی جلتی تاویلیں کہ فلاں واردات کی ذمے داری قبول کر لی اور کسی سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا درحقیقت یہ حکومتِ پاکستان اور عوام کے ساتھ ایک دردناک مذاق اور شرم ناک کھیل ہے۔
ان داخلی مذہبی اور مسلکی قوتوں کی قتل وغارت ایک ایجنڈے سے منسلک ہے، ان کے نیٹ ورک سے وابستہ گروپوں کی وحشیانہ وارداتوں کا ایک مشترکہ مقصد ہے اور وہ پاکستان کی ریاستی رٹ، خود مختاری اور جمہوری اور فکری نظام کو منہدم کر کے اپنی خود ساختہ شریعت اور القاعدہ کی سلطنت کے قیام کی خواہش ناتمام ہے جس کے لیے ان عناصر نے پاکستان کو میدان کارزار بنا لیا ہے اور بلوچستان، خیبر پختونخوا سمیت کراچی اور پنجاب کے سیاسی و سماجی شیرازے کو بکھیرنے کے لیے انسانیت کا خون بہایا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان قوتوں نے اپنے اسلحہ، نیٹ ورکنگ اور دہشت انگیز کارروائیوں کو منظم شکل دے رکھی ہے، ان کے خود کش بمبار، اور بم دھماکوں کی وارداتیں ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہیں۔ ہلاکتیں اب بند ہونی چاہییں، ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رکنا چاہیے۔ وفاق اور صوبائی حکومتیں خواب غفلت سے جاگیں، قوم حالت جنگ میں ہے۔ اہل وطن دہشت گردی کے باعث ایک غیر معمولی اور اندوہ ناک ہیجان میں مبتلا ہیں، ملک کا سب سے بڑا تجارتی شہر گینگ وار، بھتہ خوروں، طالبان، لشکر جھنگوی اور ہر قسم کی مافیاؤں کے نرغے میں ہے۔
کراچی میں پی ایس 103 سے منتخب رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی، ان کے بیٹے وقاص قریشی ہلاک اور 2 محافظ دن دہاڑے شدید زخمی کر دیئے گئے، پولیس کے مطابق ساجد قریشی کو 14 گولیاں لگیں۔ پولیس نے15 مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا جب کہ واقعہ کی تحقیقات کے لیے 4 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ اس تحقیقات کا نتیجہ قاتلوں کی گرفتاری کی شکل میں نکلنا چاہیے۔
شہر قائد لہو لہان ہے، ہزاروں بیگناہ افراد قتل کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ رینجرز اور پولیس ہیڈ کوارٹرز خود بنکروں میں محصور ہیں۔ منی پاکستان قانون سے نا آشنا ایک کنکریٹ جنگل میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ادھر پشاور کے علاقے فیصل کالونی جی ٹی روڈ پر واقع مدرسہ عارف حسین الحسینی سے متصل مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش حملے میں پولیس اہلکار سمیت15 افراد شہید جب کہ 30 زائد زخمی ہو گئے، زخمیوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ ایس پی رول شفیع اللہ خان کے مطابق نماز جمعہ سے کچھ لمحہ پہلے 3 شرپسندوں نے، جن میں ایک خودکش حملہ آور بھی تھا، مدرسے میں داخل ہونے کی کوشش کی اور گیٹ پر موجود پولیس اہلکار سید علمدار کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا جو بعد ازاں چل بسا جس کے بعد ایک حملہ آور نے ہال کے اندر داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا جب کہ اس کے 2 ساتھی فرار ہو گئے۔
دھماکا سے مسجد کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ ذرائع کے مطابق گیٹ پر موجود ایک دوسرے سکیورٹی اہلکار نے حملہ آوروں پر جوابی فائرنگ کی جس سے ایک زخمی ہو گیا جسے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں سے پولیس نے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا، زخمی شخص کا تعلق خیبر ایجنسی سے بتایا جاتا ہے۔ ایک انٹیلی جنس ادارے کے اہلکار نے دعویٰ کیا کہ حملہ آور کے دوسرے ساتھی کو بھی گرفتار کر کے تفتیش کے لیے نامعلوم جگہ پر منتقل کیا گیا ہے جب کہ قلعہ سیف اﷲ میں خودکش حملہ آور دھماکا خیز مواد پھٹنے سے خود ہی اڑ گیا جو افغان علاقے سے داخل ہوا تھا اور موٹر سائیکل پر کوئٹہ آ رہا تھا جب کہ زہری سے گولیوں سے چھلنی دو نعشیں برآمد کر لی گئیں۔
دریں اثنا متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے ساجد قریشی اور ان کے جواں سال بیٹے وقاص قریشی کے بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سانحہ پر ملک بھر میں 3 روزہ پرامن سوگ منا یا جا رہا ہے۔ حیدرآباد، میر پور خاص اور سندھ کے دیگر شہروں میں بھی سخت کشیدگی ہے۔
سندھ بھر کے تاجروں، صنعتکاروں، دکانداروں، ٹرانسپورٹرز اور زندگی کے دیگر شعبوں میں ہفتہ کو کاروباری سر گر میاں معطل اور ٹرانسپورٹ بند رہا۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے نائن زیرو میں رابطہ کمیٹی اور مختلف شعبہ جات کے ارکان سے ٹیلی فون پر گفتگو میں ساجد قریشی کے قتل کی مذمت کی۔ رکن قومی اسمبلی اور ان کے بیٹے کے قتل کے الزام میں پولیس نے15 مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا، ایڈیشنل آئی جی کراچی نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی ویسٹ کی سربراہی میں4 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی۔
وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی کا جلد اعلان کیا جائے، سیاسی و عسکری قیادت دہشت گردی کے خلاف پالیسی بنائے تا کہ دہشت گردی کے عفریت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ تاہم یہ تلخ حقیقت ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جس غیر متزلزل، غیر مصلحت آمیز اور سوات و جنوبی وزیرستان جیسے سخت اور فیصلہ کن آپریشن کی ان مذہبی عفریتوں کے خلاف ضرورت تھی اس سمت میں قومی سلامتی اور عوام کے تحفظ اور ملک گیر بدامنی کے خاتمہ کے ضمن میں کوئی بھی مشترکہ حکمت عملی وضع نہ کی جا سکی اور دہشت گردی مخالف قوت قاہرہ و نافذہ کا کوئی ایسا امید افزا عندیہ نہیں ملا جس سے قوم کو یقین ہو کہ صورتحال اب دہشت گردوں کے ہاتھ سے نکلتی ہوئی نظر آرہی ہو اور ان کی کمر توڑ دی گئی ہو۔ مگر اس کے برعکس دہشت بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
اب پانسہ بہر حال پلٹنا چاہیے۔ نئی حکومت نئی حکمت عملی لے کر سامنے آئے۔ جنگ دہشت گردوں پر مسلط ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی قوم کو یہ ڈھارس خوش آئند ہے کہ دہشت گردی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، پاکستان کو بدلیں گے، مگر اس کے لیے جہادی فکر اور ایجنڈے کی سفاکی کو اب مزید ظلم و ستم کی چھوٹ نہ دی جائے، حکمران ادراک کریں کہ ایک متوازی عفریتی قوت ریاستی حاکمیت کے خلاف علم بغاوت بلند کیے ہوئے ہے اور ملک کو تاراج کرنے پر کمربستہ ہے۔ اس سے مذاکرات اور مفاہمت میں بھی آنکھیں کھلی رکھی جائیں۔
اسپیکر ایاز صادق نے کہا ہے کہ دہشت گردی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت ایوان میں وضاحت پیش کرے کہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان کے حوالے بتایا گیا کہ انھوں نے ساجد قریشی کے قتل کی ذمے داری قبول کر لی ہے تاہم ترجمان نے کہا کہ پشاور کی مسجد میں دھماکے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ملک میں ہونے والی تباہ کن دہشت گردی کے ہولناک اور ہلاکت خیز تسلسل کے پیش نظر اب کالعدم تحریک طالبان کی جاری کردہ وضاحت یا اس سے ملتی جلتی تاویلیں کہ فلاں واردات کی ذمے داری قبول کر لی اور کسی سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا درحقیقت یہ حکومتِ پاکستان اور عوام کے ساتھ ایک دردناک مذاق اور شرم ناک کھیل ہے۔
ان داخلی مذہبی اور مسلکی قوتوں کی قتل وغارت ایک ایجنڈے سے منسلک ہے، ان کے نیٹ ورک سے وابستہ گروپوں کی وحشیانہ وارداتوں کا ایک مشترکہ مقصد ہے اور وہ پاکستان کی ریاستی رٹ، خود مختاری اور جمہوری اور فکری نظام کو منہدم کر کے اپنی خود ساختہ شریعت اور القاعدہ کی سلطنت کے قیام کی خواہش ناتمام ہے جس کے لیے ان عناصر نے پاکستان کو میدان کارزار بنا لیا ہے اور بلوچستان، خیبر پختونخوا سمیت کراچی اور پنجاب کے سیاسی و سماجی شیرازے کو بکھیرنے کے لیے انسانیت کا خون بہایا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان قوتوں نے اپنے اسلحہ، نیٹ ورکنگ اور دہشت انگیز کارروائیوں کو منظم شکل دے رکھی ہے، ان کے خود کش بمبار، اور بم دھماکوں کی وارداتیں ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہیں۔ ہلاکتیں اب بند ہونی چاہییں، ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رکنا چاہیے۔ وفاق اور صوبائی حکومتیں خواب غفلت سے جاگیں، قوم حالت جنگ میں ہے۔ اہل وطن دہشت گردی کے باعث ایک غیر معمولی اور اندوہ ناک ہیجان میں مبتلا ہیں، ملک کا سب سے بڑا تجارتی شہر گینگ وار، بھتہ خوروں، طالبان، لشکر جھنگوی اور ہر قسم کی مافیاؤں کے نرغے میں ہے۔
کراچی میں پی ایس 103 سے منتخب رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی، ان کے بیٹے وقاص قریشی ہلاک اور 2 محافظ دن دہاڑے شدید زخمی کر دیئے گئے، پولیس کے مطابق ساجد قریشی کو 14 گولیاں لگیں۔ پولیس نے15 مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا جب کہ واقعہ کی تحقیقات کے لیے 4 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ اس تحقیقات کا نتیجہ قاتلوں کی گرفتاری کی شکل میں نکلنا چاہیے۔
شہر قائد لہو لہان ہے، ہزاروں بیگناہ افراد قتل کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ رینجرز اور پولیس ہیڈ کوارٹرز خود بنکروں میں محصور ہیں۔ منی پاکستان قانون سے نا آشنا ایک کنکریٹ جنگل میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ادھر پشاور کے علاقے فیصل کالونی جی ٹی روڈ پر واقع مدرسہ عارف حسین الحسینی سے متصل مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش حملے میں پولیس اہلکار سمیت15 افراد شہید جب کہ 30 زائد زخمی ہو گئے، زخمیوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ ایس پی رول شفیع اللہ خان کے مطابق نماز جمعہ سے کچھ لمحہ پہلے 3 شرپسندوں نے، جن میں ایک خودکش حملہ آور بھی تھا، مدرسے میں داخل ہونے کی کوشش کی اور گیٹ پر موجود پولیس اہلکار سید علمدار کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا جو بعد ازاں چل بسا جس کے بعد ایک حملہ آور نے ہال کے اندر داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا جب کہ اس کے 2 ساتھی فرار ہو گئے۔
دھماکا سے مسجد کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ ذرائع کے مطابق گیٹ پر موجود ایک دوسرے سکیورٹی اہلکار نے حملہ آوروں پر جوابی فائرنگ کی جس سے ایک زخمی ہو گیا جسے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں سے پولیس نے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا، زخمی شخص کا تعلق خیبر ایجنسی سے بتایا جاتا ہے۔ ایک انٹیلی جنس ادارے کے اہلکار نے دعویٰ کیا کہ حملہ آور کے دوسرے ساتھی کو بھی گرفتار کر کے تفتیش کے لیے نامعلوم جگہ پر منتقل کیا گیا ہے جب کہ قلعہ سیف اﷲ میں خودکش حملہ آور دھماکا خیز مواد پھٹنے سے خود ہی اڑ گیا جو افغان علاقے سے داخل ہوا تھا اور موٹر سائیکل پر کوئٹہ آ رہا تھا جب کہ زہری سے گولیوں سے چھلنی دو نعشیں برآمد کر لی گئیں۔
دریں اثنا متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے ساجد قریشی اور ان کے جواں سال بیٹے وقاص قریشی کے بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سانحہ پر ملک بھر میں 3 روزہ پرامن سوگ منا یا جا رہا ہے۔ حیدرآباد، میر پور خاص اور سندھ کے دیگر شہروں میں بھی سخت کشیدگی ہے۔
سندھ بھر کے تاجروں، صنعتکاروں، دکانداروں، ٹرانسپورٹرز اور زندگی کے دیگر شعبوں میں ہفتہ کو کاروباری سر گر میاں معطل اور ٹرانسپورٹ بند رہا۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے نائن زیرو میں رابطہ کمیٹی اور مختلف شعبہ جات کے ارکان سے ٹیلی فون پر گفتگو میں ساجد قریشی کے قتل کی مذمت کی۔ رکن قومی اسمبلی اور ان کے بیٹے کے قتل کے الزام میں پولیس نے15 مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا، ایڈیشنل آئی جی کراچی نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی ویسٹ کی سربراہی میں4 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی۔
وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی کا جلد اعلان کیا جائے، سیاسی و عسکری قیادت دہشت گردی کے خلاف پالیسی بنائے تا کہ دہشت گردی کے عفریت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ تاہم یہ تلخ حقیقت ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جس غیر متزلزل، غیر مصلحت آمیز اور سوات و جنوبی وزیرستان جیسے سخت اور فیصلہ کن آپریشن کی ان مذہبی عفریتوں کے خلاف ضرورت تھی اس سمت میں قومی سلامتی اور عوام کے تحفظ اور ملک گیر بدامنی کے خاتمہ کے ضمن میں کوئی بھی مشترکہ حکمت عملی وضع نہ کی جا سکی اور دہشت گردی مخالف قوت قاہرہ و نافذہ کا کوئی ایسا امید افزا عندیہ نہیں ملا جس سے قوم کو یقین ہو کہ صورتحال اب دہشت گردوں کے ہاتھ سے نکلتی ہوئی نظر آرہی ہو اور ان کی کمر توڑ دی گئی ہو۔ مگر اس کے برعکس دہشت بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
اب پانسہ بہر حال پلٹنا چاہیے۔ نئی حکومت نئی حکمت عملی لے کر سامنے آئے۔ جنگ دہشت گردوں پر مسلط ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی قوم کو یہ ڈھارس خوش آئند ہے کہ دہشت گردی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، پاکستان کو بدلیں گے، مگر اس کے لیے جہادی فکر اور ایجنڈے کی سفاکی کو اب مزید ظلم و ستم کی چھوٹ نہ دی جائے، حکمران ادراک کریں کہ ایک متوازی عفریتی قوت ریاستی حاکمیت کے خلاف علم بغاوت بلند کیے ہوئے ہے اور ملک کو تاراج کرنے پر کمربستہ ہے۔ اس سے مذاکرات اور مفاہمت میں بھی آنکھیں کھلی رکھی جائیں۔