قومی کرکٹ کو درکار نیا ٹیلنٹ آئے گا کہاں سے
شیر دل کھلاڑیوں کی ضرورت ہے، ٹیم میں جگہ بچانے کے لئے کوشاں خودغرضوں کی نہیں
''جیسے ہی شعیب ملک کو جڈیجا نے ایل بی ڈبلیو کیا میں نے غصے سے اپنا لیپ ٹاپ بیگ میں رکھا اور واپس جانے کی تیاری کرنے لگا،ایسے میں دماغ نے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو تم کوئی عام شائق نہیں صحافی ہو اور پورا میچ کور کرنا تمہارا فرض ہے، اس پر دوبارہ لیپ ٹاپ نکال کر کام کرنے لگا''۔
مگر اسٹیڈیم میں موجود شائقین کے ساتھ ایسی کوئی مجبوری نہ تھی، اسی لیے پہلی اننگز کے بعد ہی ان میں سے کئی ٹیم کو لعن طعن کرتے واپس جانے لگے، یقینا وہ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ مضبوط ترین بھارتی بیٹنگ لائن کے لئے 166رنز کا ہدف پاناآسان ہو گا،اسٹیڈیم میں رہ کر بھارتیوں کے نعرے اور فقرے بازی سن کر خون جلانے سے بہتر گھر جا کر دیگر کام کاج کرنا ہے۔
15جون کو ایجبسٹن برمنگھم میں بھارت کے خلاف گرین شرٹس کی مایوس کن کارکردگی سے کروڑوں پاکستانی بیحد مایوس ہوئے، وہ ٹیم جو بڑے سے بڑے حریف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فائٹ کرتی دکھائی دیتی تھی اب اسے کیا ہو گیا ہے، بھونیشور کمار اور ایشانت شرما جیسے اوسط درجے کے پیسرز کا سامنا کرتے ہوئے ہمارے بیٹسمینوں کی ٹانگیں کانپ رہی ہوتی ہیں۔ ماضی میں روایتی حریف کا سامنا کرتے ہوئے جو جوش و جذبہ آ جاتا تھا وہ اب کہاں گیا؟ توصیف احمد جیسا ٹیل اینڈر بھارتی بولرز کے سامنے ڈٹ جاتا اب کئی نام نہاد سپراسٹارز بھی وکٹ پر نہیں ٹک پاتے، ہماری کرکٹ کس ڈگر پر جا رہی ہے؟ یہ تمام سوالات اس وقت تمام شائقین کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں مگر جواب دینے کے لئے کوئی موجود نہیں، چیئرمین ذکا اشرف کو عدالت نے معطل کیا ہوا ہے جبکہ دیگر عہدیدار اپنی کرسیاں بچانے کے لئے سہارا تلاش کرنے کی کوشش میں سیاسی کندھوں کے منتظر ہیں۔
ویسٹ انڈیز سے پہلے میچ میں ناکامی کے بعد جب میں نے انہی سطور میں پاکستانی بیٹنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا تو چند ناقدانہ ای میلز موصول ہوئیں جن میں لکھا گیا تھا کہ ''ٹیم اگلے دونوں میچز جیت جائے گی، آپ نے جلد بازی میں کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کر دیا''۔ ایسے میں زیرلب مسکرانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور وقت نے ثابت کر دکھایا کہ پلیئرز اس تنقیدکے حقدار تھے۔
سب سے پہلے بات سلیکشن کی ہو جائے، ذرا کوئی بتائے گا کہ اس ٹیم میں کون سا سپراسٹار موجود تھا،یقین مانیے جتنے موقع عمران فرحت کو ملے اگر کسی عام کلب کرکٹر کو بھی ملتے تو وہ ان سے زیادہ رنز بنا لیتا۔ بورڈ حکام کو خدشہ تھا کہ اگر اوپنر کو منتخب نہ کیا تو تنقید کے نشتر چلانے میں ماہر ان کے سسر محمد الیاس میڈیا میں آ کرروز بیانات داغنے لگیں گے،اسی لیے ایک محاذ بند کرنے کے لئے ٹیم کو مشکل میں ڈال دیا گیا،جس طرح عمران پروٹیز سے میچ میں بولڈ ہوئے اس کی توقع کسی تجربہ کار کھلاڑی سے نہیں کی جا سکتی تھی،سال میں ایک بڑی اننگز کھیل کر خود پر چپساں سفارشی کا لوگو اتارنے کی ناکام کوشش کرنے والے عمران کے لئے بھی اب تبصرے کرنا مناسب رہے گا۔ اسی طرح شعیب ملک اچھے پلیئر رہے ہیں مگر اب انھیں فیلڈ میں اتنی زیادہ جدوجہد کرتے دیکھنا اچھا نہیں لگتا، مناسب ہو گا کہ وہ خود ہی کھیل سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ محمد حفیظ ایشین وکٹوں اور کمزور بولنگ اٹیک کے سامنے تو خوب کامیاب مگر مشکل کنڈیشنز میں ان کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔
ناصر جمشید نجی طور پر کہتے پھرتے ہیں کہ ٹیم مینجمنٹ نے انھیں احتیاط سے کھیلنے کا کہا ہے جس سے بیٹنگ متاثر ہونے لگی، ذرا وہ یہ تو بتائیں کہ اگر مشوروں پر اتنا عمل کر رہے ہیں تو ویسٹ انڈیز سے میچ میں ففٹی مکمل کرتے ہی کیچ کیوں دے دیا تھا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اچھے بیٹسمین ہیں مگر اوپنر کا کام صرف 50رنز بنانا نہیں، اس کے پاس تو پورے 50 اوورز بیٹنگ کر کے ڈبل سنچری کا موقع بھی موجود ہوتا ہے مگر اس کے لئے دماغ کا استعمال بھی کرنا پڑتا ہے،ناصر کو بھی اپنے ٹیلنٹ سے انصاف کرنا چاہیے۔ یونس خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اسد شفیق جیسے نوجوانوں کا راستہ روک رہے ہیں مگر جب انھیں ڈراپ کر کے اسد کو موقع دیا گیا تو انھوں نے کیسا پرفارم کیا؟ ابھی کھاتہ بھی نہ کھولا تھا کہ ویسٹ انڈیز سے میچ میں تھرڈمین کی جانب کیچ اچھال دیا، بھارت کے خلاف گوکہ انھوں نے 41رنز بنائے مگر سیٹ ہو کر وکٹ گنوانا بھی کسی جرم سے کم نہیں ہے۔
یہی وجوہات ہیں کہ اب شائقین کو ایک بار پھر عمر رسیدہ یونس خان کی یاد ستانے لگی ہے، عمر امین کو آل رائونڈر شاہد آفریدی کا نعم البدل قرار دیا گیا مگر پرفارمنس سب کے سامنے ہے، ان پلیئرز میں وہ خاصیت نظر نہیں آئی جو کسی انٹرنیشنل کرکٹر میں ہونا ضروری ہے، بھارت میں سہواگ گیا دھون آ گیا، ڈریوڈ گیا کوہلی آ گیا، اسی طرح ہر پلیئر کا اس سے بڑھ کر متبادل آتا رہا ہمارے ملک میں اچھے کھلاڑی کہاں کھو گئے؟ سابق کرکٹرز ٹیلنٹ کی فراوانی کا کہتے ہیں، ذرا بتائیں تو کہ آخر یہ گوہر نایاب چھپے کہاں ہیں؟ ہمیں اب اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ ملک سے اچھے کھلاڑی منظرعام پر آنا بیحد کم ہو گئے ہیں، بیٹنگ میں خداداد صلاحیتوں کا حامل جو آخری نوجوان عمر اکمل سامنے آیا اس کا اعتماد بھی ٹیم سے''ان اور آئوٹ'' کر کے ختم کر دیا گیا، اگر اسے اپنا قدرتی کھیل کھیلنے دیا جاتا تو پاکستان کے خاصا کام آتا مگر کپتان سمیت بعض اعلیٰ حکام کو وہ پسند نہیں یہی بات اس کے لئے جرم بن گئی۔
چیمپئنز ٹرافی میں بدترین شکست نے پاکستان کرکٹ کو بہتری کے لئے اقدامات کا موقع فراہم کر دیا ہے، ہار تو ہم رہے ہی ہیں کیوں نہ اب اصل باصلاحیت نوجوانوں کو آزما کر دیکھ لیا جائے،اس کے لئے ڈومیسٹک میچز کے اعدادو شمار دیکھنا کافی نہیں سلیکٹرز کو خود میدان میں جا کر پلیئرز کی صلاحیتوں کو پرکھنا ہو گا، شائد انھیں کوئی اچھا کھلاڑی مل ہی جائے، اس وقت المیہ یہ ہے کہ کامران اکمل کا متبادل تلاش نہیں کیا جا سکا، بڑے بڑے الزامات اور ناقص کارکردگی بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی، ہر بار سینا چوڑا کیے وہ ٹیم میں واپس آ جاتے ہیں۔ ٹیلنٹ ڈھونڈنے کاکام راشد لطیف اور معین خان کو سونپنا چاہیے، دونوں ملک کے ساتھ مخلص ہیں اور کرکٹ اکیڈمیز چلانے کی وجہ سے ان کی ٹیلنٹ پر نظر بھی ہے، راشد اور معین کی خدمات حاصل کرنے کے لئے بورڈ کو کسی موبائل فون کمپنی سے اسپانسر شپ لینے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ہم پاکستانیوں خاص طور پر میڈیا کی یہ خامی ہے کہ پلیئرز کو بہت جلدی آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیتے ہیں، چیمپئنز ٹرافی سے قبل پیس اٹیک کی تعریفوں میں بھی زمین آسمان کی قلابیں ملائی گئیں مگر نتیجہ صفر رہا، وہاب ریاض، محمد عرفان اور جنید خان نے 3 میچز میں مشترکہ طور پر 5 وکٹیں لیں، خصوصاً جنید نے زیادہ مایوس کیا جنھیں واحد وکٹ جنوبی افریقہ کیخلاف ملی، ماضی میں حریف بیٹسمینوں پر پاکستانی پیسرز کی دہشت سوار ہوتی تھی مگر اب وہ اطمینان سے جب چاہیں گیند کو بائونڈری کی سیر کرا دیتے ہیں، ہمارے پیسرز سے اچھے تو بھارت کے ایشانت اور بھونیشور رہے جنھوں نے ٹیم کے لئے میچ وننگ کارکردگی دکھائی، عرفان کو بہت زیادہ شہرت مل چکی ، اب انھیں بھی کچھ کر دکھانا ہو گا، لمبا قد نہیں اچھی پرفارمنس ہی یاد رکھی جاتی ہے، اسی طرح کہنے سے کوئی وسیم اکرم نہیں بن جاتا، جنید کو یہ سوچنا چاہیے۔ اسپنر سعید اجمل نے اپنے طور پر ٹیم کے کام آنے کی کوشش تو کی مگر ناکام رہے، اگر پیسرز ابتدا میں کچھ وکٹیں لیتے تو ان کا کام آسان ہو جاتا مگر ایسا نہیں ہو سکا، اب وہ تمام10 پلیئرزکو تو ٹھکانے نہیں لگا سکتے۔
ٹیم کا سب سے بڑا مسئلہ آل رائونڈرز کا نظر آیا، نمبر 6،7کے بعد کوئی ایسا پلیئر نہیں تھا جو اعتماد سے20رنز بھی بنا سکتا، ماضی میں تو 11ویں نمبر کا کھلاڑی بھی کچھ اسکور کر لیتا تھا اب جب اوپنرز کے ہی پسینے چھوٹ رہے ہوں تو ان بیچاروں سے کیا توقع کریں۔ گرین شرٹس کو اس وقت شاہد آفریدی، عبدالرزاق اور اظہر محمود جیسے آل رائونڈرز کی ضرورت ہے، یہ کچھ وکٹیں لینے کے ساتھ وقت پڑنے پر جارحانہ بیٹنگ بھی کر لیتے تھے جس سے ٹیم کو مدد ملتی، موجودہ آل رائونڈرز کو تو اپنے نام کے سامنے یہ لکھا دیکھ کر خود بھی شرم محسوس ہوتی ہو گی۔
پاکستانی ٹیم کا واحد مثبت پہلو مصباح الحق ہیں،ان کی عمرزیادہ مگر پرفارمنس نوجوانوں سے بھی بڑھ کر ہے، بیٹنگ اور فیلڈنگ دونوں شعبوں میں کوئی موجودہ کھلاڑی ان کے معیارکو نہیں پہنچ سکتا، ایسے میں جب تک وہ کھیلنا چاہیں ٹیم میں رکھنا چاہیے، صلاحیتوں سے عاری کسی نوجوان کو لایا گیا تو پھر ٹیم کے لئے 100 رنز بنانا بھی مشکل ہو جائے گا، وہ بطور بیٹسمین ناگزیر ہیں البتہ اس وقت ٹیم کے لیے کسی جارح مزاج قائد کی ضرورت ہے۔ ون ڈے اور 20 ٹوئنٹی کے لیے شاہد آفریدی کو کپتان بنانے سے یہ خلاء پُر ہو سکتے ہیں۔ آل رائونڈر نے 2011ء کے ورلڈکپ میں ٹیم کو سیمی فائنل تک پہنچایا تھا لیکن بعدازاں اعجاز بٹ نے انھیں اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اب مصباح اور آفریدی دونوں مل کر ٹیم کو بہتری کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔
پاکستانی ٹیم کا کوچنگ اسٹاف بھی مکمل ناکام نظر آیا ہے، وہ کیا نام تھا بیٹنگ کوچ کا ہاں یاد آیا ٹرینٹ ووڈہل، ان کی تقرری بھی گھاٹے کا سودا رہی، نجانے انتخاب عالم اینڈ کمپنی نے کیا سوچ کر سابق آسٹریلوی گریڈ کوچ کی سفارش کی تھی، بولنگ کوچ محمد اکرم بولر اوسط درجے کے رہے کوچنگ میں تو زیادہ ناکام ثابت ہوئے، ایک سابق اعلیٰ شخصیت کی سفارش نے انھیں ٹیم میں ذمے داری تو دلا دی مگر نتیجہ کیا سامنے آیا؟ دورئہ جنوبی افریقہ کے بعد چیمپئنزٹرافی میں بھی پیس اٹیک بے دانت کا شیر لگا، اکرم کو اب اپنے سابق کام کمنٹری پر ہی توجہ دینی چاہیے، پاکستانی ٹیم کا پیچھا چھوڑنا ان کے لئے مناسب ہوگا۔
پی سی بی چیئرمین ذکا اشرف کو''مفید مشوروں'' سے نوازنے والے انتخاب عالم سمیت دیگر اعلیٰ افسران ان کی معطلی کے بعد منظرعام سے غائب ہیں، جو بھی عبوری سربراہ آئے اسے سب سے پہلے انتخاب عالم کو آرام کا موقع دینا ہوگا، اس عمر میں ان پر زیادہ بوجھ ڈالنا مناسب نہیں،اس سے شائد ملکی کرکٹ کا بھی کچھ بھلا ہو جائے، اسی طرح ذاکر خان کی جگہ بھی کسی اہل افسر کا تقرر کرنا مناسب رہے گا، ٹیم کے ساتھ بورڈ میں بھی تبدیلیاں ہونی چاہئیں کیونکہ یہی لوگ تمام فیصلے کرتے ہیں۔
دورئہ انگلینڈ کے دوران پاکستانی شائقین کو بھی ٹیم کی پرفارمنس پر خاصا مایوس پایا، انھیں وہاں کئی محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے، جیسے بھارت سے شکست کے بعد بھارتیوں نے خوب ہوٹنگ کی اور وہ سر جھکائے خاموش کھڑے رہے، سب کے لبوں پر بس یہی سوال ہے کہ آخر کب پاکستانی ٹیم ہمیں خوشیاں منانے کا موقع فراہم کرے گی، ہارنا کوئی بُری بات نہیں مگر فائٹ تو کرو، بغیر لڑنے ہتھیار ڈالنے والے کو بزدل کہا جاتا ہے،ہمیں شیر دل کھلاڑیوں کی ضرورت ہے ٹیم میں جگہ بچانے کے لئے کوشاں خود غرض لوگوں کی نہیں۔
پاکستان میں بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں مگر کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی، کبھی ایسی مثال سامنے نہیں آئی کہ کوئی المیہ ہوا تو کسی نے ذمے داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دیا ہو، کرکٹرز بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، کروڑوں شائقین کرکٹ کے لئے چیمپئنز ٹرافی میں بدترین ناکامی کسی المیے سے کم نہیں مگر ارباب اختیار میں سے کوئی اٹھ کر سامنے نہ آیا کہ ''ہاں غلط ہوا میں عہدہ چھوڑ دیتا ہوں'' نہ مسلسل ناکامیوں کے شکار کسی کھلاڑی نے ریٹائر ہونے کی اخلاقی جرأت دکھائی، سلیکشن کمیٹی پر بھی کوئی اثر نہ پڑا، ایسے میں شائقین یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ''شائد ہم ہی ان شکستوں کے ذمے دار ہیں جو تمام کام کاجھ چھوڑ کر اپنا قیمتی وقت میچز دیکھنے پر ضایع کرتے ہیں، جتنی دعائیں کرکٹرز کے لئے کیں کاش اپنے لیے کرتے تو آج ملک کی حالت بدل جاتی، ہم ہی ٹیم کو سپورٹ کرنے سے استعفیٰ دیتے ہیں، جب تک بہتری نہیں آتی کرکٹ نہیں دیکھیں گے''۔n
چیمپئنز ٹرافی کے فاتح کا آج فیصلہ
چیمپئنز ٹرافی کے آخری ایڈیشن کی فاتح ٹیم کا فیصلہ آج ہوگا، بلند حوصلہ میزبان ٹیم کے پاس اولین ون ڈے کرکٹ ٹائٹل جیتنے کا سنہری موقع ہے جبکہ عالمی چیمپئن بھارت 8 ملکی ٹورنامنٹ میں بھی اپنی دھاک بٹھانے کے لیے کوشاں ہوگا۔ گروپ بی میں شامل بلو شرٹس نے ایونٹ میں ناقابل شکست ٹیم کی حیثیت سے سیمی فائنل میں جگہ بنانے کے بعد سری لنکا کو باآسانی زیر کرکے فیصلہ کن معرکے تک رسائی حاصل کی۔پول اے کی ٹیم انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز میں شکست کے بعد چیمپئنز ٹرافی میںسری لنکا کے ہاتھوں مات کے باوجود پیش قدمی جاری رکھی، پھر سیمی فائنل میں پروٹیز کو آئوٹ کلاس کرنے کے بعد ٹائٹل کی امیدیں برقرار رکھیں۔اسپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد بھارتی کپتان مہندرا سنگھ دھونی کے پاس میڈیا کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا، خود ان کی اپنی دیانتداری کے حوالے سے بھی شکوک موجودتھے، اس صورتحال میں کرکٹ اوربھارت کی ساکھ بحال کرنے کا واحد راستہ ٹیم کی پرفارمنس ہی ہوسکتی تھی، توقعات کے عین مطابق بلو شرٹس کو انگلینڈ میں بھی ہوم گرائونڈ اور کرائوڈ جیسا ماحول فراہم کیا گیا۔
ایونٹ کی سب سے مستحکم بیٹنگ لائن نے کسی حریف کو بھی حاوی ہونے کا موقع فراہم نہیںکیا، شیکھر دھون ابھی تک 110.67 کی اوسط سے رنز اسکور کرتے ہوئے فتوحات کا راستہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، آج بھی امیدوں کا مرکز ہوں گے، روہت شرما اور ویرت کوہی کو قابو کرنا بھی انگلش بولرز کے لئے چیلنج ہوگا، ٹوئنٹی20 چیمپئن انگلش ٹیم کے اہم بیٹسمین جوناتھن ٹروٹ نے 69.67 کی اوسط سے رنز بنائے ہیں، بیل اور باصلاحیت جوئے روٹ کے ساتھ کپتان الیسٹرکک بھی بڑا مجموعہ تشکیل دینے میں مدد دے سکتے ہیں، میزبان ٹیم کے جیمز اینڈرسن اور بھارتی رویندرا جڈیجہ 10،10 وکٹیں حاصل کرچکے، بیٹسمین ان کا سامنا کرتے ہوئے فکر مند ہوں گے، بارش نے مداخلت نہ کی تو شاندار فائنل میچ شائقین کی تفریح کا بھرپور سامان فراہم کرے گا۔
skhaliq@express.com.pk
مگر اسٹیڈیم میں موجود شائقین کے ساتھ ایسی کوئی مجبوری نہ تھی، اسی لیے پہلی اننگز کے بعد ہی ان میں سے کئی ٹیم کو لعن طعن کرتے واپس جانے لگے، یقینا وہ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ مضبوط ترین بھارتی بیٹنگ لائن کے لئے 166رنز کا ہدف پاناآسان ہو گا،اسٹیڈیم میں رہ کر بھارتیوں کے نعرے اور فقرے بازی سن کر خون جلانے سے بہتر گھر جا کر دیگر کام کاج کرنا ہے۔
15جون کو ایجبسٹن برمنگھم میں بھارت کے خلاف گرین شرٹس کی مایوس کن کارکردگی سے کروڑوں پاکستانی بیحد مایوس ہوئے، وہ ٹیم جو بڑے سے بڑے حریف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فائٹ کرتی دکھائی دیتی تھی اب اسے کیا ہو گیا ہے، بھونیشور کمار اور ایشانت شرما جیسے اوسط درجے کے پیسرز کا سامنا کرتے ہوئے ہمارے بیٹسمینوں کی ٹانگیں کانپ رہی ہوتی ہیں۔ ماضی میں روایتی حریف کا سامنا کرتے ہوئے جو جوش و جذبہ آ جاتا تھا وہ اب کہاں گیا؟ توصیف احمد جیسا ٹیل اینڈر بھارتی بولرز کے سامنے ڈٹ جاتا اب کئی نام نہاد سپراسٹارز بھی وکٹ پر نہیں ٹک پاتے، ہماری کرکٹ کس ڈگر پر جا رہی ہے؟ یہ تمام سوالات اس وقت تمام شائقین کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں مگر جواب دینے کے لئے کوئی موجود نہیں، چیئرمین ذکا اشرف کو عدالت نے معطل کیا ہوا ہے جبکہ دیگر عہدیدار اپنی کرسیاں بچانے کے لئے سہارا تلاش کرنے کی کوشش میں سیاسی کندھوں کے منتظر ہیں۔
ویسٹ انڈیز سے پہلے میچ میں ناکامی کے بعد جب میں نے انہی سطور میں پاکستانی بیٹنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا تو چند ناقدانہ ای میلز موصول ہوئیں جن میں لکھا گیا تھا کہ ''ٹیم اگلے دونوں میچز جیت جائے گی، آپ نے جلد بازی میں کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کر دیا''۔ ایسے میں زیرلب مسکرانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور وقت نے ثابت کر دکھایا کہ پلیئرز اس تنقیدکے حقدار تھے۔
سب سے پہلے بات سلیکشن کی ہو جائے، ذرا کوئی بتائے گا کہ اس ٹیم میں کون سا سپراسٹار موجود تھا،یقین مانیے جتنے موقع عمران فرحت کو ملے اگر کسی عام کلب کرکٹر کو بھی ملتے تو وہ ان سے زیادہ رنز بنا لیتا۔ بورڈ حکام کو خدشہ تھا کہ اگر اوپنر کو منتخب نہ کیا تو تنقید کے نشتر چلانے میں ماہر ان کے سسر محمد الیاس میڈیا میں آ کرروز بیانات داغنے لگیں گے،اسی لیے ایک محاذ بند کرنے کے لئے ٹیم کو مشکل میں ڈال دیا گیا،جس طرح عمران پروٹیز سے میچ میں بولڈ ہوئے اس کی توقع کسی تجربہ کار کھلاڑی سے نہیں کی جا سکتی تھی،سال میں ایک بڑی اننگز کھیل کر خود پر چپساں سفارشی کا لوگو اتارنے کی ناکام کوشش کرنے والے عمران کے لئے بھی اب تبصرے کرنا مناسب رہے گا۔ اسی طرح شعیب ملک اچھے پلیئر رہے ہیں مگر اب انھیں فیلڈ میں اتنی زیادہ جدوجہد کرتے دیکھنا اچھا نہیں لگتا، مناسب ہو گا کہ وہ خود ہی کھیل سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ محمد حفیظ ایشین وکٹوں اور کمزور بولنگ اٹیک کے سامنے تو خوب کامیاب مگر مشکل کنڈیشنز میں ان کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔
ناصر جمشید نجی طور پر کہتے پھرتے ہیں کہ ٹیم مینجمنٹ نے انھیں احتیاط سے کھیلنے کا کہا ہے جس سے بیٹنگ متاثر ہونے لگی، ذرا وہ یہ تو بتائیں کہ اگر مشوروں پر اتنا عمل کر رہے ہیں تو ویسٹ انڈیز سے میچ میں ففٹی مکمل کرتے ہی کیچ کیوں دے دیا تھا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اچھے بیٹسمین ہیں مگر اوپنر کا کام صرف 50رنز بنانا نہیں، اس کے پاس تو پورے 50 اوورز بیٹنگ کر کے ڈبل سنچری کا موقع بھی موجود ہوتا ہے مگر اس کے لئے دماغ کا استعمال بھی کرنا پڑتا ہے،ناصر کو بھی اپنے ٹیلنٹ سے انصاف کرنا چاہیے۔ یونس خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اسد شفیق جیسے نوجوانوں کا راستہ روک رہے ہیں مگر جب انھیں ڈراپ کر کے اسد کو موقع دیا گیا تو انھوں نے کیسا پرفارم کیا؟ ابھی کھاتہ بھی نہ کھولا تھا کہ ویسٹ انڈیز سے میچ میں تھرڈمین کی جانب کیچ اچھال دیا، بھارت کے خلاف گوکہ انھوں نے 41رنز بنائے مگر سیٹ ہو کر وکٹ گنوانا بھی کسی جرم سے کم نہیں ہے۔
یہی وجوہات ہیں کہ اب شائقین کو ایک بار پھر عمر رسیدہ یونس خان کی یاد ستانے لگی ہے، عمر امین کو آل رائونڈر شاہد آفریدی کا نعم البدل قرار دیا گیا مگر پرفارمنس سب کے سامنے ہے، ان پلیئرز میں وہ خاصیت نظر نہیں آئی جو کسی انٹرنیشنل کرکٹر میں ہونا ضروری ہے، بھارت میں سہواگ گیا دھون آ گیا، ڈریوڈ گیا کوہلی آ گیا، اسی طرح ہر پلیئر کا اس سے بڑھ کر متبادل آتا رہا ہمارے ملک میں اچھے کھلاڑی کہاں کھو گئے؟ سابق کرکٹرز ٹیلنٹ کی فراوانی کا کہتے ہیں، ذرا بتائیں تو کہ آخر یہ گوہر نایاب چھپے کہاں ہیں؟ ہمیں اب اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ ملک سے اچھے کھلاڑی منظرعام پر آنا بیحد کم ہو گئے ہیں، بیٹنگ میں خداداد صلاحیتوں کا حامل جو آخری نوجوان عمر اکمل سامنے آیا اس کا اعتماد بھی ٹیم سے''ان اور آئوٹ'' کر کے ختم کر دیا گیا، اگر اسے اپنا قدرتی کھیل کھیلنے دیا جاتا تو پاکستان کے خاصا کام آتا مگر کپتان سمیت بعض اعلیٰ حکام کو وہ پسند نہیں یہی بات اس کے لئے جرم بن گئی۔
چیمپئنز ٹرافی میں بدترین شکست نے پاکستان کرکٹ کو بہتری کے لئے اقدامات کا موقع فراہم کر دیا ہے، ہار تو ہم رہے ہی ہیں کیوں نہ اب اصل باصلاحیت نوجوانوں کو آزما کر دیکھ لیا جائے،اس کے لئے ڈومیسٹک میچز کے اعدادو شمار دیکھنا کافی نہیں سلیکٹرز کو خود میدان میں جا کر پلیئرز کی صلاحیتوں کو پرکھنا ہو گا، شائد انھیں کوئی اچھا کھلاڑی مل ہی جائے، اس وقت المیہ یہ ہے کہ کامران اکمل کا متبادل تلاش نہیں کیا جا سکا، بڑے بڑے الزامات اور ناقص کارکردگی بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی، ہر بار سینا چوڑا کیے وہ ٹیم میں واپس آ جاتے ہیں۔ ٹیلنٹ ڈھونڈنے کاکام راشد لطیف اور معین خان کو سونپنا چاہیے، دونوں ملک کے ساتھ مخلص ہیں اور کرکٹ اکیڈمیز چلانے کی وجہ سے ان کی ٹیلنٹ پر نظر بھی ہے، راشد اور معین کی خدمات حاصل کرنے کے لئے بورڈ کو کسی موبائل فون کمپنی سے اسپانسر شپ لینے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ہم پاکستانیوں خاص طور پر میڈیا کی یہ خامی ہے کہ پلیئرز کو بہت جلدی آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیتے ہیں، چیمپئنز ٹرافی سے قبل پیس اٹیک کی تعریفوں میں بھی زمین آسمان کی قلابیں ملائی گئیں مگر نتیجہ صفر رہا، وہاب ریاض، محمد عرفان اور جنید خان نے 3 میچز میں مشترکہ طور پر 5 وکٹیں لیں، خصوصاً جنید نے زیادہ مایوس کیا جنھیں واحد وکٹ جنوبی افریقہ کیخلاف ملی، ماضی میں حریف بیٹسمینوں پر پاکستانی پیسرز کی دہشت سوار ہوتی تھی مگر اب وہ اطمینان سے جب چاہیں گیند کو بائونڈری کی سیر کرا دیتے ہیں، ہمارے پیسرز سے اچھے تو بھارت کے ایشانت اور بھونیشور رہے جنھوں نے ٹیم کے لئے میچ وننگ کارکردگی دکھائی، عرفان کو بہت زیادہ شہرت مل چکی ، اب انھیں بھی کچھ کر دکھانا ہو گا، لمبا قد نہیں اچھی پرفارمنس ہی یاد رکھی جاتی ہے، اسی طرح کہنے سے کوئی وسیم اکرم نہیں بن جاتا، جنید کو یہ سوچنا چاہیے۔ اسپنر سعید اجمل نے اپنے طور پر ٹیم کے کام آنے کی کوشش تو کی مگر ناکام رہے، اگر پیسرز ابتدا میں کچھ وکٹیں لیتے تو ان کا کام آسان ہو جاتا مگر ایسا نہیں ہو سکا، اب وہ تمام10 پلیئرزکو تو ٹھکانے نہیں لگا سکتے۔
ٹیم کا سب سے بڑا مسئلہ آل رائونڈرز کا نظر آیا، نمبر 6،7کے بعد کوئی ایسا پلیئر نہیں تھا جو اعتماد سے20رنز بھی بنا سکتا، ماضی میں تو 11ویں نمبر کا کھلاڑی بھی کچھ اسکور کر لیتا تھا اب جب اوپنرز کے ہی پسینے چھوٹ رہے ہوں تو ان بیچاروں سے کیا توقع کریں۔ گرین شرٹس کو اس وقت شاہد آفریدی، عبدالرزاق اور اظہر محمود جیسے آل رائونڈرز کی ضرورت ہے، یہ کچھ وکٹیں لینے کے ساتھ وقت پڑنے پر جارحانہ بیٹنگ بھی کر لیتے تھے جس سے ٹیم کو مدد ملتی، موجودہ آل رائونڈرز کو تو اپنے نام کے سامنے یہ لکھا دیکھ کر خود بھی شرم محسوس ہوتی ہو گی۔
پاکستانی ٹیم کا واحد مثبت پہلو مصباح الحق ہیں،ان کی عمرزیادہ مگر پرفارمنس نوجوانوں سے بھی بڑھ کر ہے، بیٹنگ اور فیلڈنگ دونوں شعبوں میں کوئی موجودہ کھلاڑی ان کے معیارکو نہیں پہنچ سکتا، ایسے میں جب تک وہ کھیلنا چاہیں ٹیم میں رکھنا چاہیے، صلاحیتوں سے عاری کسی نوجوان کو لایا گیا تو پھر ٹیم کے لئے 100 رنز بنانا بھی مشکل ہو جائے گا، وہ بطور بیٹسمین ناگزیر ہیں البتہ اس وقت ٹیم کے لیے کسی جارح مزاج قائد کی ضرورت ہے۔ ون ڈے اور 20 ٹوئنٹی کے لیے شاہد آفریدی کو کپتان بنانے سے یہ خلاء پُر ہو سکتے ہیں۔ آل رائونڈر نے 2011ء کے ورلڈکپ میں ٹیم کو سیمی فائنل تک پہنچایا تھا لیکن بعدازاں اعجاز بٹ نے انھیں اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اب مصباح اور آفریدی دونوں مل کر ٹیم کو بہتری کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔
پاکستانی ٹیم کا کوچنگ اسٹاف بھی مکمل ناکام نظر آیا ہے، وہ کیا نام تھا بیٹنگ کوچ کا ہاں یاد آیا ٹرینٹ ووڈہل، ان کی تقرری بھی گھاٹے کا سودا رہی، نجانے انتخاب عالم اینڈ کمپنی نے کیا سوچ کر سابق آسٹریلوی گریڈ کوچ کی سفارش کی تھی، بولنگ کوچ محمد اکرم بولر اوسط درجے کے رہے کوچنگ میں تو زیادہ ناکام ثابت ہوئے، ایک سابق اعلیٰ شخصیت کی سفارش نے انھیں ٹیم میں ذمے داری تو دلا دی مگر نتیجہ کیا سامنے آیا؟ دورئہ جنوبی افریقہ کے بعد چیمپئنزٹرافی میں بھی پیس اٹیک بے دانت کا شیر لگا، اکرم کو اب اپنے سابق کام کمنٹری پر ہی توجہ دینی چاہیے، پاکستانی ٹیم کا پیچھا چھوڑنا ان کے لئے مناسب ہوگا۔
پی سی بی چیئرمین ذکا اشرف کو''مفید مشوروں'' سے نوازنے والے انتخاب عالم سمیت دیگر اعلیٰ افسران ان کی معطلی کے بعد منظرعام سے غائب ہیں، جو بھی عبوری سربراہ آئے اسے سب سے پہلے انتخاب عالم کو آرام کا موقع دینا ہوگا، اس عمر میں ان پر زیادہ بوجھ ڈالنا مناسب نہیں،اس سے شائد ملکی کرکٹ کا بھی کچھ بھلا ہو جائے، اسی طرح ذاکر خان کی جگہ بھی کسی اہل افسر کا تقرر کرنا مناسب رہے گا، ٹیم کے ساتھ بورڈ میں بھی تبدیلیاں ہونی چاہئیں کیونکہ یہی لوگ تمام فیصلے کرتے ہیں۔
دورئہ انگلینڈ کے دوران پاکستانی شائقین کو بھی ٹیم کی پرفارمنس پر خاصا مایوس پایا، انھیں وہاں کئی محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے، جیسے بھارت سے شکست کے بعد بھارتیوں نے خوب ہوٹنگ کی اور وہ سر جھکائے خاموش کھڑے رہے، سب کے لبوں پر بس یہی سوال ہے کہ آخر کب پاکستانی ٹیم ہمیں خوشیاں منانے کا موقع فراہم کرے گی، ہارنا کوئی بُری بات نہیں مگر فائٹ تو کرو، بغیر لڑنے ہتھیار ڈالنے والے کو بزدل کہا جاتا ہے،ہمیں شیر دل کھلاڑیوں کی ضرورت ہے ٹیم میں جگہ بچانے کے لئے کوشاں خود غرض لوگوں کی نہیں۔
پاکستان میں بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں مگر کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی، کبھی ایسی مثال سامنے نہیں آئی کہ کوئی المیہ ہوا تو کسی نے ذمے داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دیا ہو، کرکٹرز بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، کروڑوں شائقین کرکٹ کے لئے چیمپئنز ٹرافی میں بدترین ناکامی کسی المیے سے کم نہیں مگر ارباب اختیار میں سے کوئی اٹھ کر سامنے نہ آیا کہ ''ہاں غلط ہوا میں عہدہ چھوڑ دیتا ہوں'' نہ مسلسل ناکامیوں کے شکار کسی کھلاڑی نے ریٹائر ہونے کی اخلاقی جرأت دکھائی، سلیکشن کمیٹی پر بھی کوئی اثر نہ پڑا، ایسے میں شائقین یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ''شائد ہم ہی ان شکستوں کے ذمے دار ہیں جو تمام کام کاجھ چھوڑ کر اپنا قیمتی وقت میچز دیکھنے پر ضایع کرتے ہیں، جتنی دعائیں کرکٹرز کے لئے کیں کاش اپنے لیے کرتے تو آج ملک کی حالت بدل جاتی، ہم ہی ٹیم کو سپورٹ کرنے سے استعفیٰ دیتے ہیں، جب تک بہتری نہیں آتی کرکٹ نہیں دیکھیں گے''۔n
چیمپئنز ٹرافی کے فاتح کا آج فیصلہ
چیمپئنز ٹرافی کے آخری ایڈیشن کی فاتح ٹیم کا فیصلہ آج ہوگا، بلند حوصلہ میزبان ٹیم کے پاس اولین ون ڈے کرکٹ ٹائٹل جیتنے کا سنہری موقع ہے جبکہ عالمی چیمپئن بھارت 8 ملکی ٹورنامنٹ میں بھی اپنی دھاک بٹھانے کے لیے کوشاں ہوگا۔ گروپ بی میں شامل بلو شرٹس نے ایونٹ میں ناقابل شکست ٹیم کی حیثیت سے سیمی فائنل میں جگہ بنانے کے بعد سری لنکا کو باآسانی زیر کرکے فیصلہ کن معرکے تک رسائی حاصل کی۔پول اے کی ٹیم انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز میں شکست کے بعد چیمپئنز ٹرافی میںسری لنکا کے ہاتھوں مات کے باوجود پیش قدمی جاری رکھی، پھر سیمی فائنل میں پروٹیز کو آئوٹ کلاس کرنے کے بعد ٹائٹل کی امیدیں برقرار رکھیں۔اسپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد بھارتی کپتان مہندرا سنگھ دھونی کے پاس میڈیا کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا، خود ان کی اپنی دیانتداری کے حوالے سے بھی شکوک موجودتھے، اس صورتحال میں کرکٹ اوربھارت کی ساکھ بحال کرنے کا واحد راستہ ٹیم کی پرفارمنس ہی ہوسکتی تھی، توقعات کے عین مطابق بلو شرٹس کو انگلینڈ میں بھی ہوم گرائونڈ اور کرائوڈ جیسا ماحول فراہم کیا گیا۔
ایونٹ کی سب سے مستحکم بیٹنگ لائن نے کسی حریف کو بھی حاوی ہونے کا موقع فراہم نہیںکیا، شیکھر دھون ابھی تک 110.67 کی اوسط سے رنز اسکور کرتے ہوئے فتوحات کا راستہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، آج بھی امیدوں کا مرکز ہوں گے، روہت شرما اور ویرت کوہی کو قابو کرنا بھی انگلش بولرز کے لئے چیلنج ہوگا، ٹوئنٹی20 چیمپئن انگلش ٹیم کے اہم بیٹسمین جوناتھن ٹروٹ نے 69.67 کی اوسط سے رنز بنائے ہیں، بیل اور باصلاحیت جوئے روٹ کے ساتھ کپتان الیسٹرکک بھی بڑا مجموعہ تشکیل دینے میں مدد دے سکتے ہیں، میزبان ٹیم کے جیمز اینڈرسن اور بھارتی رویندرا جڈیجہ 10،10 وکٹیں حاصل کرچکے، بیٹسمین ان کا سامنا کرتے ہوئے فکر مند ہوں گے، بارش نے مداخلت نہ کی تو شاندار فائنل میچ شائقین کی تفریح کا بھرپور سامان فراہم کرے گا۔
skhaliq@express.com.pk