اسلام پُرامن اور خوبصورت دین
دین اسلام ہے ہی سراسر خیرخواہی کا دین۔ آپؐ نے فرمایا ’’دین خلوص و خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔
اسلام عالمی مساوات کا مذہب ہے۔ اسلام میں سب لوگ برابر ہیں خواہ ان کا تعلق کسی رنگ، نسل اور ملک سے ہو، اس نے زبان اور رنگ و نسل کی تمام مصنوعی دیواریں ڈھا دیں اور پوری انسانیت کو اللہ کا کنبہ قرار دیا۔
اسلام کا نقطہ نظر آفاقی اور اس کی اپروچ بین الاقوامی ہے، آج کی دنیا جو نسلی فسادات اور قومی رقابتوں میں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہے، یہ نظریہ ان کے لیے امید اور روشنی کی ایک نئی کرن ہے۔ اب جب کہ یہ دنیا ایک بستی (Global Village)کی شکل اختیار کرچکی ہے اس کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایسا ہی جامع اور ہمہ گیر نظریہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔
جارج برنارڈ شاہ اپنی کتاب The Genuine Islam میں حضورؐ کو انسانیت کا نجات دہندہ قرار دیتا ہے، اس کے کہنے کے مطابق کہ اگر آج آپؐ موجود ہوتے اور دنیا کی قیادت آپؐ کے ہاتھ میں ہوتی تو آپؐ اس کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے اور اس دنیا کو امن و خوشحالی کا گہوارہ بنا دیتے۔ اس نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ محمدؐ کا اسلام جس طرح آج کے یورپ کے لیے قابل قبول ہے، اسی طرح کل کا یورپ اس کو بخوشی قبول کرنے لگے گا۔
پروفیسر آرنلڈ نے مسلم دور حکومت میں فکر و خیال کی آزادی کی بہت سی مثالیں پیش کی ہیں، اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ رومی سلطنت کے وہ صوبے جن کو مسلمانوں نے تیز رفتاری کے ساتھ فتح کیا تھا، انھوں نے اچانک اپنے آپ کو ایسی رواداری کے ماحول میں پایا جو کئی صدیوں سے ان کے لیے نامعلوم بنی ہوئی تھی، اس قسم کی رواداری ساتویں صدی کی تاریخ میں کسی قدر حیرت ناک تھی۔
ٹی ڈبیلو اے آرنلڈ اپنی کتاب اشاعتِ اسلام (The Preaching of Islam) میں لکھتا ہے کہ عباسی خلیفہ المامون (813-833) نے سنا کہ اسلام کے مخالفین یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام اپنی دلیل کی طاقت سے کامیاب نہیں ہوا ہے بلکہ اپنی تلوار کی طاقت سے کامیاب ہوا ہے۔ اس نے دور دور کے ملکوں میں پیغام بھیج کر ہر مذہب کے اہل علم کو بغداد میں جمع کیا اور پھر مسلم علما کو بلا کر دونوں کو ایک عظیم الشان اجتماع میں بحث و مناظرہ کی دعوت دی، اس علمی مقابلے میں علما اسلام کامیاب ہوئے اور غیر مسلم اہل علم نے برسرِ عام اسلام کی استدلالی عظمت کا اعتراف کیا۔
آرنلڈ نے لکھا ہے کہ خلیفہ المامون اسلام کی اشاعت کے معاملے میں بہت زیادہ پرجوش تھا، اس کے باوجود اس نے کبھی اپنی سیاسی طاقت کو تبلیغ اسلام کے لیے استعمال نہیں کیا اور نہ کبھی کسی کو جبراً مسلمان بنایا۔ بغداد کے مذکورہ بین المذاہب اجتماع میں دوسرے مذاہب کے جو اہل علم شریک ہوئے، ان میں ایک یزداں بخت تھا، وہ مالی فرقہ (Manichean) سے تعلق رکھتا تھا اور ایران سے آیا تھا، یزداں بخت نے مسلم علما کی باتیں سنیں تو وہ اسلام کی استدلالی طاقت سے مرعوب ہوگیا، اس نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کرلی۔
اجتماع کے بعد المامون نے اس کو دربار میں بلایا اور اس سے کہا کہ اب تم کو اسلام قبول کرلینا چاہیے، یزداں بخت نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا ''امیرالمومنین! میں نے آپ کی بات سنی اور آپ کے مشورے کو جانا، مگر آپ تو وہ شخص ہیں جو کسی کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتے اور جبراً کسی کو مسلمان نہیں بناتے، یزداں بخت کے انکار کے بعد المامون نے اپنی بات واپس لے لی، اور جب یزداں بخت بغداد سے اپنے وطن واپس جانے لگا تو اس نے مسلح محافظ یزداں بخت کے ساتھ کردیے تاکہ جذبات سے بھرے ہوئے مسلمانوں کی کوئی جماعت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے۔دور جدید کے انقلاب میں اسلام کا اہم حصہ ہے، اسلام میں ہر فکری آزادی ہے اور اس کے ساتھ ہر فکر والے کا احترام بھی۔
موجودہ زمانے میں آزادیٔ فکر کو خیر اعلیٰ سمجھا جاتا ہے عام خیال یہ ہے کہ یہ آزادی مغرب کے سائنسی انقلاب کا نتیجہ ہے، یہ صحیح ہے کہ اس کا فوری اور قریبی سبب جدید سائنسی انقلاب ہے مگر خود یہ سائنسی انقلاب، اسلام کے مواحدانہ انقلاب کا نتیجہ تھا۔فرانسیسی مفکر روسو (1712-78) جدید جمہوریت کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی کتاب معاہدہ عمرانی (Social Contract) ان الفاظ کے ساتھ شروع کی تھی، انسان آزاد پیدا ہوا تھا، مگر میں اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پاتا ہوں، یہ فقرہ حقیقتاً روسو کا عطیہ نہیں، یہ دراصل اسلامی خلیفہ عمرؓ (586-644) کے اس شاندار ترین فقرہ کی بازگشت ہے جو انھوں نے اپنے ماتحت گورنر عمرو بن العاص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''اے عمرو! تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا، حالانکہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا۔''
موجودہ زمانے میں یورپ اور اس کے بعد ساری دنیا میں آزادی اور جمہوریت کا جو انقلاب آیا ہے، وہ اس انقلابی عمل کا اگلا مرحلہ ہے جو اسلام کے ذریعے ساتویں صدی میں شروع ہوا تھا۔ اقوام متحدہ نے 1948 میں چارٹر منظور کیا جس کو یونیورسل ڈکلیئریشن آف ہیومن رائٹس کہا جاتا ہے، اس کے آرٹیکل 18 میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر آدمی خیال، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق رکھتا ہے، اس حق میں یہ آزادی بھی شامل ہے کہ آدمی اپنے مذہب کو تبدیل کرسکے اور اپنے مذہب کا خفیہ یا اعلانیہ اظہار کرسکے یا دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔
اقوام متحدہ کا یہ چارٹر بھی حقیقتاً اقوام متحدہ کا کارنامہ نہیں بلکہ وہ بھی اسی اسلامی انقلاب کی ایک دین ہے جو اقوام متحدہ سے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پہلے ظہور میں آیا تھا۔اسلام نے تاریخ میں پہلی بار شرک کے اس نظام کو ختم کیا جس نے انسانوں کے درمیان فرق و امتیاز کا ذہن پیدا کر رکھا تھا، اس غیر حقیقی تقسیم کا نتیجہ اونچ نیچ کا وہ سماج تھا جو تمام قدیم زمانوں میں مسلسل پایا جاتا رہا ہے۔
اسلام نے ایک طرف اس معاملے میں انسانی ذہن کو بدلا، دوسری طرف اس نے وسیع پیمانے پر عملی انقلاب برپا کرکے انسانی آزادی اور انسانی احترام کا ایک نیا دور شروع کیا، یہ دور تاریخ میں مسلسل سفر کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ یورپ میں داخل ہوگیا، اور بڑھتے بڑھتے آخرکار آزادی اور جمہوریت کے جدید انقلاب کا سبب بنا، جدید یورپ کا جمہوری انقلاب اسی اسلامی انقلاب کا سیکولر ایڈیشن ہے جو بہت پہلے ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں برپا ہوا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام دور جدید کا خالق ہے، سائنسی اعتبار سے بھی اور سماجی و معاشرتی اعتبار سے بھی۔ہم سمجھتے ہیں کہ آج نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ اور ارشادات مقدسہ کو پیش کرتے ہوئے زمانے کی اس ضرورت کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو فکر فلسفہ اور تہذیب ثقافت کے جدید چیلنج سے نمٹنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں ہے، لیکن اس کے لیے ارباب عزم و ہمت اور اصحاب فہم و ادراک کی ضرورت ہے جو آگے بڑھیں اور جدید تہذیب و فلسفہ کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے وقت کے فطری دھارے کا رخ موڑیں۔ ایسا دعوتی کام کی وسعت اور جدید اسلوب اختیار کرنے سے ممکن ہوگا، بالخصوص مکالمہ کی روایت کو زندہ کرکے۔ اسلام تمام انسانوں سے خیر خواہی اور بھلائی کا درس دیتا ہے۔ انبیا کرام انسانوں کے سب سے بڑے خیر خواہ تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''میں تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں ایسا خیرخواہ ہوں کہ جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔''
دین اسلام ہے ہی سراسر خیرخواہی کا دین۔ آپؐ نے فرمایا ''دین خلوص و خیرخواہی کا نام ہے''۔ یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ فرمائی، صحابہؓ نے پوچھا کہ کس کے لیے خیر خواہی؟ تو آپؐ نے فرمایا ''اللہ کے لیے، اللہ کے رسول کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمان سربراہوں کے لیے اور عام لوگوں کے لیے''۔
اسلام کا نقطہ نظر آفاقی اور اس کی اپروچ بین الاقوامی ہے، آج کی دنیا جو نسلی فسادات اور قومی رقابتوں میں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہے، یہ نظریہ ان کے لیے امید اور روشنی کی ایک نئی کرن ہے۔ اب جب کہ یہ دنیا ایک بستی (Global Village)کی شکل اختیار کرچکی ہے اس کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایسا ہی جامع اور ہمہ گیر نظریہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔
جارج برنارڈ شاہ اپنی کتاب The Genuine Islam میں حضورؐ کو انسانیت کا نجات دہندہ قرار دیتا ہے، اس کے کہنے کے مطابق کہ اگر آج آپؐ موجود ہوتے اور دنیا کی قیادت آپؐ کے ہاتھ میں ہوتی تو آپؐ اس کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے اور اس دنیا کو امن و خوشحالی کا گہوارہ بنا دیتے۔ اس نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ محمدؐ کا اسلام جس طرح آج کے یورپ کے لیے قابل قبول ہے، اسی طرح کل کا یورپ اس کو بخوشی قبول کرنے لگے گا۔
پروفیسر آرنلڈ نے مسلم دور حکومت میں فکر و خیال کی آزادی کی بہت سی مثالیں پیش کی ہیں، اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ رومی سلطنت کے وہ صوبے جن کو مسلمانوں نے تیز رفتاری کے ساتھ فتح کیا تھا، انھوں نے اچانک اپنے آپ کو ایسی رواداری کے ماحول میں پایا جو کئی صدیوں سے ان کے لیے نامعلوم بنی ہوئی تھی، اس قسم کی رواداری ساتویں صدی کی تاریخ میں کسی قدر حیرت ناک تھی۔
ٹی ڈبیلو اے آرنلڈ اپنی کتاب اشاعتِ اسلام (The Preaching of Islam) میں لکھتا ہے کہ عباسی خلیفہ المامون (813-833) نے سنا کہ اسلام کے مخالفین یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام اپنی دلیل کی طاقت سے کامیاب نہیں ہوا ہے بلکہ اپنی تلوار کی طاقت سے کامیاب ہوا ہے۔ اس نے دور دور کے ملکوں میں پیغام بھیج کر ہر مذہب کے اہل علم کو بغداد میں جمع کیا اور پھر مسلم علما کو بلا کر دونوں کو ایک عظیم الشان اجتماع میں بحث و مناظرہ کی دعوت دی، اس علمی مقابلے میں علما اسلام کامیاب ہوئے اور غیر مسلم اہل علم نے برسرِ عام اسلام کی استدلالی عظمت کا اعتراف کیا۔
آرنلڈ نے لکھا ہے کہ خلیفہ المامون اسلام کی اشاعت کے معاملے میں بہت زیادہ پرجوش تھا، اس کے باوجود اس نے کبھی اپنی سیاسی طاقت کو تبلیغ اسلام کے لیے استعمال نہیں کیا اور نہ کبھی کسی کو جبراً مسلمان بنایا۔ بغداد کے مذکورہ بین المذاہب اجتماع میں دوسرے مذاہب کے جو اہل علم شریک ہوئے، ان میں ایک یزداں بخت تھا، وہ مالی فرقہ (Manichean) سے تعلق رکھتا تھا اور ایران سے آیا تھا، یزداں بخت نے مسلم علما کی باتیں سنیں تو وہ اسلام کی استدلالی طاقت سے مرعوب ہوگیا، اس نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کرلی۔
اجتماع کے بعد المامون نے اس کو دربار میں بلایا اور اس سے کہا کہ اب تم کو اسلام قبول کرلینا چاہیے، یزداں بخت نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا ''امیرالمومنین! میں نے آپ کی بات سنی اور آپ کے مشورے کو جانا، مگر آپ تو وہ شخص ہیں جو کسی کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتے اور جبراً کسی کو مسلمان نہیں بناتے، یزداں بخت کے انکار کے بعد المامون نے اپنی بات واپس لے لی، اور جب یزداں بخت بغداد سے اپنے وطن واپس جانے لگا تو اس نے مسلح محافظ یزداں بخت کے ساتھ کردیے تاکہ جذبات سے بھرے ہوئے مسلمانوں کی کوئی جماعت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے۔دور جدید کے انقلاب میں اسلام کا اہم حصہ ہے، اسلام میں ہر فکری آزادی ہے اور اس کے ساتھ ہر فکر والے کا احترام بھی۔
موجودہ زمانے میں آزادیٔ فکر کو خیر اعلیٰ سمجھا جاتا ہے عام خیال یہ ہے کہ یہ آزادی مغرب کے سائنسی انقلاب کا نتیجہ ہے، یہ صحیح ہے کہ اس کا فوری اور قریبی سبب جدید سائنسی انقلاب ہے مگر خود یہ سائنسی انقلاب، اسلام کے مواحدانہ انقلاب کا نتیجہ تھا۔فرانسیسی مفکر روسو (1712-78) جدید جمہوریت کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی کتاب معاہدہ عمرانی (Social Contract) ان الفاظ کے ساتھ شروع کی تھی، انسان آزاد پیدا ہوا تھا، مگر میں اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پاتا ہوں، یہ فقرہ حقیقتاً روسو کا عطیہ نہیں، یہ دراصل اسلامی خلیفہ عمرؓ (586-644) کے اس شاندار ترین فقرہ کی بازگشت ہے جو انھوں نے اپنے ماتحت گورنر عمرو بن العاص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''اے عمرو! تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا، حالانکہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا۔''
موجودہ زمانے میں یورپ اور اس کے بعد ساری دنیا میں آزادی اور جمہوریت کا جو انقلاب آیا ہے، وہ اس انقلابی عمل کا اگلا مرحلہ ہے جو اسلام کے ذریعے ساتویں صدی میں شروع ہوا تھا۔ اقوام متحدہ نے 1948 میں چارٹر منظور کیا جس کو یونیورسل ڈکلیئریشن آف ہیومن رائٹس کہا جاتا ہے، اس کے آرٹیکل 18 میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر آدمی خیال، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق رکھتا ہے، اس حق میں یہ آزادی بھی شامل ہے کہ آدمی اپنے مذہب کو تبدیل کرسکے اور اپنے مذہب کا خفیہ یا اعلانیہ اظہار کرسکے یا دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔
اقوام متحدہ کا یہ چارٹر بھی حقیقتاً اقوام متحدہ کا کارنامہ نہیں بلکہ وہ بھی اسی اسلامی انقلاب کی ایک دین ہے جو اقوام متحدہ سے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پہلے ظہور میں آیا تھا۔اسلام نے تاریخ میں پہلی بار شرک کے اس نظام کو ختم کیا جس نے انسانوں کے درمیان فرق و امتیاز کا ذہن پیدا کر رکھا تھا، اس غیر حقیقی تقسیم کا نتیجہ اونچ نیچ کا وہ سماج تھا جو تمام قدیم زمانوں میں مسلسل پایا جاتا رہا ہے۔
اسلام نے ایک طرف اس معاملے میں انسانی ذہن کو بدلا، دوسری طرف اس نے وسیع پیمانے پر عملی انقلاب برپا کرکے انسانی آزادی اور انسانی احترام کا ایک نیا دور شروع کیا، یہ دور تاریخ میں مسلسل سفر کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ یورپ میں داخل ہوگیا، اور بڑھتے بڑھتے آخرکار آزادی اور جمہوریت کے جدید انقلاب کا سبب بنا، جدید یورپ کا جمہوری انقلاب اسی اسلامی انقلاب کا سیکولر ایڈیشن ہے جو بہت پہلے ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں برپا ہوا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام دور جدید کا خالق ہے، سائنسی اعتبار سے بھی اور سماجی و معاشرتی اعتبار سے بھی۔ہم سمجھتے ہیں کہ آج نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ اور ارشادات مقدسہ کو پیش کرتے ہوئے زمانے کی اس ضرورت کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو فکر فلسفہ اور تہذیب ثقافت کے جدید چیلنج سے نمٹنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں ہے، لیکن اس کے لیے ارباب عزم و ہمت اور اصحاب فہم و ادراک کی ضرورت ہے جو آگے بڑھیں اور جدید تہذیب و فلسفہ کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے وقت کے فطری دھارے کا رخ موڑیں۔ ایسا دعوتی کام کی وسعت اور جدید اسلوب اختیار کرنے سے ممکن ہوگا، بالخصوص مکالمہ کی روایت کو زندہ کرکے۔ اسلام تمام انسانوں سے خیر خواہی اور بھلائی کا درس دیتا ہے۔ انبیا کرام انسانوں کے سب سے بڑے خیر خواہ تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''میں تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں ایسا خیرخواہ ہوں کہ جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔''
دین اسلام ہے ہی سراسر خیرخواہی کا دین۔ آپؐ نے فرمایا ''دین خلوص و خیرخواہی کا نام ہے''۔ یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ فرمائی، صحابہؓ نے پوچھا کہ کس کے لیے خیر خواہی؟ تو آپؐ نے فرمایا ''اللہ کے لیے، اللہ کے رسول کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمان سربراہوں کے لیے اور عام لوگوں کے لیے''۔