نظام میں پیوند کاری لا حاصل

کیا وزیراعظم جہازوں کو چھوڑ کر بسوں میں سفر کریں گے؟

zb0322-2284142@gmail.com

عوام کا اتحاد اور یلغار کو دیکھ کر لیڈران اور جماعتیں بوکھلاہٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ جب پاکستان کوارٹرز کراچی کے مکین پولیس سے جارحانہ انداز میں الجھ رہے تھے تو کسی جماعت کے کارکن ان کے ساتھ نہیں کھڑے تھے، جب انھوں نے پولیس کو مار بھگایا تو لیڈران اپنا بیانیہ سنانے آگئے۔

یہ عوامی اتحاد ہی دراصل مسائل کی بنیاد پر انسانوں کا جتھا بناتا ہے۔ ان میں کون ہندو یا مسلم یا عیسائی ہے یا پھر پٹھان، سندھی یا مہاجر کی کوئی پہچان نہیں بلکہ سب مکین ہیں جو اپنی بے دخلی کے خلاف متحد ہو کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز کی زمین سندھ کی ہے اور تعمیرات وفاقی حکومت نے 1945 کے ابتدائی دور میں بمبئی پریزیڈنسی کے ماتحت کی تھی، جو ایک کمرہ، آنگن، واش روم، باورچی خانہ اور اﷲ اﷲ خیر صلا۔

محنت کش جہاں بھی متحدہ لڑائی لڑتے ہیں، اپنے مطالبات منواتے ہیں۔انھوں نے منوایا بھی ہے اور آئندہ بھی منواتے رہیں گے۔ جماعتیں اور لیڈران بغاوتوں اور حقوق کی لڑائی میں رخنہ اندازی کرکے جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ ہمیشہ ہلہ بول عوام کی جیت ہوئی ہے۔ منظم وردی یا بے وردی گروہوں کو شکست ہی ہوتی آئی ہے۔ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، انقلاب روس، چین، ویتنام، کمبوڈیا اور جنوبی افریقہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مارٹن کوارٹرز کے مکینوں کی لڑائی میں ایک خاتون اور بچہ شہید بھی ہوا۔ وہی درحقیقت عوام کے ہیرو ہیں، جو میدان جنگ میں اپنے حقوق اور سچائی کے لیے لڑتے ہیں اور اس پر جان کی بازی لگاتے ہیں، وہی عظیم لوگ ہوتے ہیں۔

ملک کی صورتحال یہ ہے کہ رکشہ والے کی خود سوزی اور ایک دوسرے رکشہ والے کی خودکشی کی کوشش۔ یہ سب سماجی اور معاشی استحصال کا نتیجہ ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ طبقاتی نظام ہے۔ اگر ہوا سے پانی حاصل کیا جاسکتا ہے اور آسمان سے بارش برسائی جا سکتی ہے تو پھر ریگستان کو نخلستان کیوں نہیں بنایا جاسکتا ہے؟

کہا جاتا ہے کہ اس پر اخراجات زیادہ ہوں گے مگر ہر سطح پر کرپشن کو ختم کرکے، جاگیرداری کا خاتمہ کر کے، یہ رقوم تھرپارکر، چولستان، ننگر پارکر، اسلام کوٹ، چھاچھرو، مٹھی اور بلوچستان میں بارش برسائی جائے، ہوا سے پانی اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، تو پھر ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس لیے کہ پھر تیل کے کاروباری، اسلحہ کے تاجر کیونکر ارب پتی سے کھرب پتی بنیں گے۔

اس عالمی سرمایہ داری میں پیداوار، ترقی، سہولتیں اور آسائشیں صرف دس فیصد لوگوں کے لیے ہیں، ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو اس دنیا میں روزانہ صرف بھوک سے (ایک لاکھ) مر رہے ہیں۔ بیماری، ٹارگٹ کلنگ اور جنگ میں جو مارے جارہے ہیں ان کے اعداد و شمار الگ ہیں۔ اس نظام میں اصلاحات کے ذریعے جتنا ہی پیوندکاری کی کوشش کی جارہی ہے، اتنا ہی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔


2017-18 میں یو این او کے ذیلی ادارے نے کھربوں ڈالر عوام کی خدمات کے لیے این جی اوز کو دیے، جن میں پاکستان کو بھی اربوں ڈالر بڑی نامی گرامی اور عوام کے نظروں میں بظاہر ایماندار این جی اوز کو فراہم کیے گئے ہیں، لیکن ان این جی اوز کے رہنمائوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی محنت کش بستیوں میں نہیں رہتا، ان کے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی بسوں میں سفر نہیں کرتا، آئے روز یورپ، امریکا، آسٹریلیا، ہالینڈ اور پولینڈ کے دورے پر رہ کر غریبوں کی خدمت کرتے ہیں۔ ان کے تو کروڑوں روپے صرف ہوائی جہاز کے کرایوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں سیمیناروں پر خرچ ہوجاتے ہیں۔ اگر سو روپے خیراتی فنڈ ملتے ہیں تو دس روپے بمشکل لوگوں پر خرچ کرتے ہیں اور نوے روپے اپنے ذاتی اور نام نہاد سیمیناروں پر ہی خرچ ہوجاتے ہیں۔

ادھر سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کے ڈاکٹروں کو تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں، وہ بھی کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا ڈالے بیٹھے ہیں۔ ان کے مطالبات بھی مانے نہیں جارہے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ جو مسیحا لوگوں کی جان بچاتے ہیں انھیں تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں،دراصل ہمیں اسلحہ سے زیادہ دوا کی ضرورت ہے۔

ذرا غور تو کریں کہ تھرپارکر میں 2016 میں 46 لوگوں نے قرض ادا نہ کرپانے کی وجہ سے خودکشی کی، 2017 میں 75 افراد نے خودکشی کی، جب کہ 2018 میں اب تک 50 افراد نے خودکشی کی ہے۔ وہاں کے لوگوں کی زندگی کا انحصار مویشیوں کی پیداوار پر ہے، جب کہ اس وقت مویشیوں کو انفیکشن لگنے کے خوف سے مقامی آبادی اپنے مویشیوں کو لے کر بدین، ٹھٹھہ اور حیدرآباد نقل مکانی پر مجبور ہیں۔

ہم کھربوں روپے ترقیاتی منصوبوں، تحقتقات، اسلحہ سازی اور اس کی تجارت، ہوائی جہازوں کی خریداری، جدید اسلحہ کی خریداری، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سود پر خرچ کررہے ہیں، مگر تھرپارکر میں پانی دے پا رہے ہیں اور نہ بچوں کی اموات اور عوام کے قرضے نہ لوٹانے کی وجہ سے خودکشیوں کو روک پا رہے ہیں۔ مرتے ہوئے انسانوں کو پہلے بچانا ہے یا گھر کی تعمیر اور روزگار دینا ہے؟ گھر کی تعمیر ہی کرنی ہے تو سب سے پہلے تھرپارکر میں گھر کی تعمیر کی جائے اور روزگار کے لیے اس علاقے میں مل، کارخانوں کا جال بچھایا جائے۔ سرحد پاس کے علاقے میں چونکہ افلاس زیادہ ہے، اس لیے وہاں تک سڑکیں تعمیر کرکے اس کے آس پاس مل اور کارخانے قائم کیے جائیں۔

ابھی حال ہی میں مختلف ملکوں سے مختلف شرائط پر قرض لیے جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں اشیائے خوردنی، مشروبات، ٹرانسپورٹ کا کرایہ، طلبا کی فیسیں، کتابوں کی قیمتیں، گیس، بجلی، کھاد، بیکری کے سامان یعنی ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ہما رے حکمران ملک کی ترقی کے لیے باہر سے پیسے لاکر کرپشن کے خاتمے پر پرجوش تقاریر کرتے ہیں، مختلف ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں، مگر وہ کیا بتا سکتے ہیں کہ جرمنی میں 60 لاکھ، چین میں 27 کروڑ، امریکا میں 3 کروڑ اور جاپان میں 65 لاکھ لوگ کیوں بے روزگار ہیں؟ جب وزیراعظم بنی گالہ میں ہوں گے تو محنت کش مچھر کالونی اور گیدڑ کالونی میں ہی رہ سکتے ہیں۔

کیا وزیراعظم جہازوں کو چھوڑ کر بسوں میں سفر کریں گے؟ مائوژے تنگ، ہوچی منہ، جیولس فیوچک بسوں میں کیونکر سفر کرتے تھے۔ انھیں تو کوئی جان کا خطرہ نہیں ہوتا تھا۔ یہاں دودھ کی دکانوں، ہوٹلوں پر کام کرنے والوں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کے منشیوں کو 8 سے 10 ہزار روپے تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ ایسی تنظیمیں ہیں جن کے منشوروں میں مزدوروں کی کم از کم تنخواہ 30 ہزار روپے دینے کا درج ہے جب کہ اپنے دفتر میں کام کرنے والے مزدوروں کو 8 سے 10 ہزار روپے تنخواہ دیتے ہیں۔ کرپشن ہر سطح، ہر جگہ اور ہر صورت میں موجود ہے، اسے ختم کرنے کے لیے اس طبقاتی نظام کو ختم کرکے ایک امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہمارے سماج کو بدلنا ہوگا، پھر جاکر مسائل کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ اس کے لیے پاکستان کوارٹرز کے مزدوروں کی طرح بے جگری سے لڑنا ہوگا۔
Load Next Story