قیام امن سندھ حکومت وزیرداخلہ کیساتھ کام کرنے پرتیارنہیں
چوہدری نثار کراچی کی خراب صورتحال کے ذمے داروں کے بارے میں جاننے کیلیے صرف انٹیلی جنس رپورٹس پر انحصارکرتے ہیں
اگر وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کراچی میں امن وامان کی خراب صورتحال کے ذمے داروں کے بارے میں جاننے کیلیے صرف انٹیلی جنس رپورٹس پر انحصارکرتے ہیں تو وہ اس بارے میں حقیقت کبھی بھی نہیں جان سکیں گے۔
یہ رپورٹس عام طور پرگمراہ کن ثابت ہوئی ہیں اور یہ بات چوہدری نثار یا مسلم لیگ ن سے زیادہ کون جان سکتا ہے جنھوں نے ماضی میں دو بار اقتدارمیں آنے کے بعدکراچی میں قیام امن کی کوشش کی اورہر بار ناکام رہے۔تو پھر اس بار وہ شہر میں امن کیلیے کون سا نیا طریقہ اختیار کریں گے یا حکومت سندھ کو اس کا حکم دیں گے جو پہلے ہی ان کے ساتھ کام کرنے کو اطمینان بخش نہیں سمجھ رہی۔ بدقسمتی سے انٹیلی جنس ایجنسیز اس مسئلے کا ایک حصہ ہیںکیونکہ یہاں انکے سیاسی مفادات بھی شامل ہیں۔اس بارے میں وزیر داخلہ سے زیادہ کون جان سکتا ہے جو 1992اور 1997میں یہاں ہونیوالے آپریشن کے وقت حکومت میں شامل تھے اور جانتے ہیں کہ کون ان آپریشنزکی ناکامی کا سبب بنا۔ہفتے کو چوہدری نثار نے ایک بیان میںکہا کہ وہ صرف اسلام آبادکے نہیں پورے ملک کے وزیر داخلہ ہیں،یہ کہہ کر انھوں نے یہ اشارہ دیا کہ وہ زیادہ دیرکراچی کے حالات پر خاموش نہیں رہیںگے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا سندھ حکومت مرکزکے ساتھ ان معاملات میں تعاون بڑھائے گی یا نہیں۔11مئی کے الیکشن کے بعد اگرچہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان تعلقات خوشگوار رہے ہیں جس سے اقتدار کی پرامن منتقلی اور صدر مملکت کے پارلیمنٹ سے خطاب کرنے میں مدد ملی،لیکن لگتا یہ ہے کہ سندھ حکومت مرکز کو قیام امن جیسے معاملات کا کریڈٹ دینا پسند نہیںکریگی۔تاہم سندھ حکومت کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے پر راضی نہیں کرسکی۔ حتی کہ سابق وزیرداخلہ رحمن ملک بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں، جب انھیں اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کہ ایم کیو ایم نے ان کی درخواست پرحکومت میں شامل ہونے کے بجائے عوامی ریفرنڈم کا اعلان کیا۔ ایم کیوایم جرائم پیشہ عناصرکیخلاف کارروائی چاہتی ہے اور اپنے ایم پی اے ساجد قریشی کی ہلاکت کے بعد ان کا یہ مطالبہ اور شدید ہوجائے گا۔اس سے پہلے ان کے 4کارکنوںکو اغوا کے بعد قتل کیا گیا۔
ایم کیو ایم کے 8 مزیدکارکنوںکا بھی کئی دنوں سے کوئی اتا پتا نہیں۔ سوگ کے اعلان پر کراچی میں کوئی دکان نہیں کھلی،سڑکوں پر بہت کم ٹریفک رہا،شہر میں ایک بھی پٹرول پمپ نہیں کھلا، تمام امتحانات ملتوی کردیے گئے۔چونکہ رینجرز اورانٹیلی جنس ایجنسیز براہ راست مرکز کے کنٹرول میں آتی ہیں، سندھ حکومت شاید رینجرز کو اب زیادہ اختیارات دینے کی مخالفت کرے تو پھر وفاقی حکومت ملکی معیشت پر اثر انداز ہونیوالے اس مسئلے کو حل کرنے کیلیے کیا کرے گی۔اب تک رینجرز کے پاس صرف گرفتاری کے اختیارات ہیں لیکن ملزمان سے تفتیش کی ذمے داری پولیس کی ہی ہے،وہ ہر روز وزیراعلی جن کے پاس وزارت داخلہ کا بھی قلمدان ہے،کو اپنے آپریشنز اور مشتبہ افرادکی گرفتاریوں بارے سمریاں بھجواتے ہیں اور انکا انٹیلی جنس ونگ بھی خاصا متحرک ہے لیکن وہ کسی بھی شخص کو عدالت میں پیش نہیں کرسکتی۔خفیہ آپریشنز بارے پولیس اور رینجرزکی ہمیشہ سے مختلف آرا ہوتی ہیں۔
اسی لیے اب چوہدری نثارکراچی آکر اورگورنراور وزیر اعلی سندھ،ڈی جی رینجرز،آئی جی پولیس،چیف سیکریٹری اور انٹیلی جنس چیفس سے ملاقات میں کیا کریں گے۔ شہر کی صورتحال بارے گورنر اور وزیراعلی سندھ کی رائے مختلف ہے اور یہ انتظار کرنا ہوگا کہ وفاقی وزیر داخلہ کوگورنر اور وزیراعلی سندھ اور دوسرے حکام کی جانب سے کس قسم کی بریفنگ دی جاتی ہے۔یہاں سب کیلیے قبول کارروائی کیلیے ایک طاقتور اور غیرجانبدار فورس کی ضرورت ہوگی۔کراچی کے مسئلے کو 5کیٹگریز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ان کے شارٹ ٹرم حل بھی دیے گئے ہیں اگر کوئی ان مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے۔1۔دہشت گردی 2۔ اسٹریٹ کرائمز 3 ۔ لینڈ مافیا 4 ۔آبادی، کیونکہ کوئی نہیں جاتا کہ کراچی کی کل آبادی کتنی ہے۔5۔سیاسی اختلافات اور ان کے خاتمے کی صلاحیت نہ ہونا۔
ایک بہت ہی گہرا معاملہ اسٹریٹ کرائمزکا ہے جس کی وجہ زیادہ آبادی ہے جس میں موبائل چھیننا، اغواء برائے تاوان اور شادی ہالوںِ اورکلبوں کے باہر ڈکیتی جیسے واقعات شامل ہیں۔ ان جرائم کا بڑا سبب ٹریفک جام ہے جو تجاوزات رکھنے والوںکی وجہ سے ہوتا ہے جس کیلیے باقاعدہ ادائیگیاںکی جاتی ہیں۔ اندازہ ہے کہ روزانہ 10سے 20 ملین روپے ان لوگوں کی جیب میں جاتے ہیں جو ان سڑکوںکوکلیئر رکھنے کے ذمے دار ہیں۔ فٹ پاتھ تک کوبیچ دیاگیا ہے، ہزاروں رکشے،گاڑیوں کو یہاں غیر قانونی پارکنگ کی اجازت دی گئی ہے کیوں کہ ان سے روزانہ 20سے 50 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال رمضان اور عید جیسے مواقع پر اور بھی خراب ہوجاتی ہے۔یہ صورتحال موبائل چھیننے والوں کیلیے اچھی ہوتی ہے جو اس دوران اپنی کارروائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ٹریفک جام کے دوران درجنوںکاروں اور موٹر سائیکلوں کو بھی چھین لیا جاتا ہے۔
اگر حکومت ان مسائل سے چھٹکارا چاہتی ہے تو وہ ایک ماہ یا زیادہ سے زیادہ دو ماہ میں شہر کو صاف کر سکتی ہے۔ اس کیلیے ضلع یا ٹائون وائز مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔بہت سی خفیہ رپورٹس میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ اگر شہرکو صاف کردیا جائے توٹریفک کے بہائوکی بحالی اور ٹارگٹڈ آپریشن کیساتھ شہر سے دہشت گردی بھی ختم کی جاسکتی ہے۔دوسرے مرحلے میں شہر سے تمام تجاوزات اور قبضہ گروپوںکا خاتمہ کیا جائے۔1986میں ایک آپریشن کے دوران سہراب گوٹھ کا علاقہ منشیات فروشوں سے آزادکرایاگیا لیکن اس کے بعد اس منصوبے پر عمل آمد نہیںکیا گیا۔سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن یہ کہنے میں حق بجانب ہو سکتے ہیںکہ انہیں یہ مسئلہ وراثت میں ملا لیکن وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اسکا ایک حصہ بن گئے۔مکمل طاقت کیساتھ سندھ میں 5سالہ حکومت کرکے پیپلزپارٹی نے کیا کیا۔ دہشت گردی، اسٹریٹ کرائمز، زمینوں پرقبضے کرنے میں اضافہ ہوا۔ منی پاکستان کہلانے والا کراچی آج ایک منی قبرستان بن چکا ہے جہاں اب تک 6ہزار افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوچکے ہیں۔
یہ رپورٹس عام طور پرگمراہ کن ثابت ہوئی ہیں اور یہ بات چوہدری نثار یا مسلم لیگ ن سے زیادہ کون جان سکتا ہے جنھوں نے ماضی میں دو بار اقتدارمیں آنے کے بعدکراچی میں قیام امن کی کوشش کی اورہر بار ناکام رہے۔تو پھر اس بار وہ شہر میں امن کیلیے کون سا نیا طریقہ اختیار کریں گے یا حکومت سندھ کو اس کا حکم دیں گے جو پہلے ہی ان کے ساتھ کام کرنے کو اطمینان بخش نہیں سمجھ رہی۔ بدقسمتی سے انٹیلی جنس ایجنسیز اس مسئلے کا ایک حصہ ہیںکیونکہ یہاں انکے سیاسی مفادات بھی شامل ہیں۔اس بارے میں وزیر داخلہ سے زیادہ کون جان سکتا ہے جو 1992اور 1997میں یہاں ہونیوالے آپریشن کے وقت حکومت میں شامل تھے اور جانتے ہیں کہ کون ان آپریشنزکی ناکامی کا سبب بنا۔ہفتے کو چوہدری نثار نے ایک بیان میںکہا کہ وہ صرف اسلام آبادکے نہیں پورے ملک کے وزیر داخلہ ہیں،یہ کہہ کر انھوں نے یہ اشارہ دیا کہ وہ زیادہ دیرکراچی کے حالات پر خاموش نہیں رہیںگے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا سندھ حکومت مرکزکے ساتھ ان معاملات میں تعاون بڑھائے گی یا نہیں۔11مئی کے الیکشن کے بعد اگرچہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان تعلقات خوشگوار رہے ہیں جس سے اقتدار کی پرامن منتقلی اور صدر مملکت کے پارلیمنٹ سے خطاب کرنے میں مدد ملی،لیکن لگتا یہ ہے کہ سندھ حکومت مرکز کو قیام امن جیسے معاملات کا کریڈٹ دینا پسند نہیںکریگی۔تاہم سندھ حکومت کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے پر راضی نہیں کرسکی۔ حتی کہ سابق وزیرداخلہ رحمن ملک بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں، جب انھیں اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کہ ایم کیو ایم نے ان کی درخواست پرحکومت میں شامل ہونے کے بجائے عوامی ریفرنڈم کا اعلان کیا۔ ایم کیوایم جرائم پیشہ عناصرکیخلاف کارروائی چاہتی ہے اور اپنے ایم پی اے ساجد قریشی کی ہلاکت کے بعد ان کا یہ مطالبہ اور شدید ہوجائے گا۔اس سے پہلے ان کے 4کارکنوںکو اغوا کے بعد قتل کیا گیا۔
ایم کیو ایم کے 8 مزیدکارکنوںکا بھی کئی دنوں سے کوئی اتا پتا نہیں۔ سوگ کے اعلان پر کراچی میں کوئی دکان نہیں کھلی،سڑکوں پر بہت کم ٹریفک رہا،شہر میں ایک بھی پٹرول پمپ نہیں کھلا، تمام امتحانات ملتوی کردیے گئے۔چونکہ رینجرز اورانٹیلی جنس ایجنسیز براہ راست مرکز کے کنٹرول میں آتی ہیں، سندھ حکومت شاید رینجرز کو اب زیادہ اختیارات دینے کی مخالفت کرے تو پھر وفاقی حکومت ملکی معیشت پر اثر انداز ہونیوالے اس مسئلے کو حل کرنے کیلیے کیا کرے گی۔اب تک رینجرز کے پاس صرف گرفتاری کے اختیارات ہیں لیکن ملزمان سے تفتیش کی ذمے داری پولیس کی ہی ہے،وہ ہر روز وزیراعلی جن کے پاس وزارت داخلہ کا بھی قلمدان ہے،کو اپنے آپریشنز اور مشتبہ افرادکی گرفتاریوں بارے سمریاں بھجواتے ہیں اور انکا انٹیلی جنس ونگ بھی خاصا متحرک ہے لیکن وہ کسی بھی شخص کو عدالت میں پیش نہیں کرسکتی۔خفیہ آپریشنز بارے پولیس اور رینجرزکی ہمیشہ سے مختلف آرا ہوتی ہیں۔
اسی لیے اب چوہدری نثارکراچی آکر اورگورنراور وزیر اعلی سندھ،ڈی جی رینجرز،آئی جی پولیس،چیف سیکریٹری اور انٹیلی جنس چیفس سے ملاقات میں کیا کریں گے۔ شہر کی صورتحال بارے گورنر اور وزیراعلی سندھ کی رائے مختلف ہے اور یہ انتظار کرنا ہوگا کہ وفاقی وزیر داخلہ کوگورنر اور وزیراعلی سندھ اور دوسرے حکام کی جانب سے کس قسم کی بریفنگ دی جاتی ہے۔یہاں سب کیلیے قبول کارروائی کیلیے ایک طاقتور اور غیرجانبدار فورس کی ضرورت ہوگی۔کراچی کے مسئلے کو 5کیٹگریز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ان کے شارٹ ٹرم حل بھی دیے گئے ہیں اگر کوئی ان مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے۔1۔دہشت گردی 2۔ اسٹریٹ کرائمز 3 ۔ لینڈ مافیا 4 ۔آبادی، کیونکہ کوئی نہیں جاتا کہ کراچی کی کل آبادی کتنی ہے۔5۔سیاسی اختلافات اور ان کے خاتمے کی صلاحیت نہ ہونا۔
ایک بہت ہی گہرا معاملہ اسٹریٹ کرائمزکا ہے جس کی وجہ زیادہ آبادی ہے جس میں موبائل چھیننا، اغواء برائے تاوان اور شادی ہالوںِ اورکلبوں کے باہر ڈکیتی جیسے واقعات شامل ہیں۔ ان جرائم کا بڑا سبب ٹریفک جام ہے جو تجاوزات رکھنے والوںکی وجہ سے ہوتا ہے جس کیلیے باقاعدہ ادائیگیاںکی جاتی ہیں۔ اندازہ ہے کہ روزانہ 10سے 20 ملین روپے ان لوگوں کی جیب میں جاتے ہیں جو ان سڑکوںکوکلیئر رکھنے کے ذمے دار ہیں۔ فٹ پاتھ تک کوبیچ دیاگیا ہے، ہزاروں رکشے،گاڑیوں کو یہاں غیر قانونی پارکنگ کی اجازت دی گئی ہے کیوں کہ ان سے روزانہ 20سے 50 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال رمضان اور عید جیسے مواقع پر اور بھی خراب ہوجاتی ہے۔یہ صورتحال موبائل چھیننے والوں کیلیے اچھی ہوتی ہے جو اس دوران اپنی کارروائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ٹریفک جام کے دوران درجنوںکاروں اور موٹر سائیکلوں کو بھی چھین لیا جاتا ہے۔
اگر حکومت ان مسائل سے چھٹکارا چاہتی ہے تو وہ ایک ماہ یا زیادہ سے زیادہ دو ماہ میں شہر کو صاف کر سکتی ہے۔ اس کیلیے ضلع یا ٹائون وائز مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔بہت سی خفیہ رپورٹس میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ اگر شہرکو صاف کردیا جائے توٹریفک کے بہائوکی بحالی اور ٹارگٹڈ آپریشن کیساتھ شہر سے دہشت گردی بھی ختم کی جاسکتی ہے۔دوسرے مرحلے میں شہر سے تمام تجاوزات اور قبضہ گروپوںکا خاتمہ کیا جائے۔1986میں ایک آپریشن کے دوران سہراب گوٹھ کا علاقہ منشیات فروشوں سے آزادکرایاگیا لیکن اس کے بعد اس منصوبے پر عمل آمد نہیںکیا گیا۔سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن یہ کہنے میں حق بجانب ہو سکتے ہیںکہ انہیں یہ مسئلہ وراثت میں ملا لیکن وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اسکا ایک حصہ بن گئے۔مکمل طاقت کیساتھ سندھ میں 5سالہ حکومت کرکے پیپلزپارٹی نے کیا کیا۔ دہشت گردی، اسٹریٹ کرائمز، زمینوں پرقبضے کرنے میں اضافہ ہوا۔ منی پاکستان کہلانے والا کراچی آج ایک منی قبرستان بن چکا ہے جہاں اب تک 6ہزار افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوچکے ہیں۔