عائشہ فاروق … پاکستان کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ
پاک وفضائیہ کی شاندار روایات میں ایک اور سنہری باب کا اضافہ
لاہور:
ادارے ُپر شکوہ عمارتوں' جدید سہولیات اور سازو سامان کے بجائے ان روایات پر استوار ہوتے ہیں' جو کہ اس ادارے سے وابستہ لوگ ابتدا میں قائم کر جاتے ہیں۔
پاکستان ایئرفورس کی تاریخ بہت سی قابل فخر اور قابل رشک روایات اور کارناموں کی امین ہے' جس نے اپنے دستیاب وسائل میں اسے ایک ایسی قوت میں ڈھالاہے' جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ پاک فضائیہ نے 14 اگست 1947ء کو اپنے سفر کا آغاز' رائل پاکستان ایئرفورس کے نام سے، تقسیم کے بعد ملنے والے 16 خستہ حال (Tempest II) طیاروں' 220 افسروں ا ور 2112 افراد کے عملے سے کیا' اور آج اپنے موجودہ حجم کے اعتبار سے' اسے سب سے زیادہ سخت جان (Hardest Hitting) ایئرفورس ہونے کا درجہ حاصل ہے۔
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے پاکستان ایئرفورس اکیڈمی رسالپور میں' ہوا بازی کے پہلے تربیتی سکول(PAF Flying School) کے سنگ بنیاد کے موقع پر جانباز ہوا بازوں کے ایک مختصر گروہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
''ایک ایسا ملک جس کی فضائی طاقت کمزور ہو' کسی بھی جارح کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ پاکستان کو جتنا جلدی ممکن ہو سکے' ایک ایسی مؤثر فضائیہ کی تعمیر کرنی چاہئے' جس کا کوئی ثانی نہ ہو۔''
پاک فضائیہ نے قائداعظم ؒ کے اس دو ٹوک اور واضح پیغام کو اپنی روایات کا جزو بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا' جس کی بنیادوں پر بتدریج ایک باوقار اور مستحکم ادارے کی عمارت کھڑی کی گئی اور تعمیر و ترقی کا یہ سفر جاری ہے۔
پاک فضائیہ کے جانباز شاہینوں کی بہادری اور حوصلے کی روایات کو آگے بڑھانے اور اس باب میں عزم و ہمت کی نئی داستانیں رقم کرنے کے لئے اب قوم کی بیٹیاں بھی اس قافلے میں شامل ہو کر وہ مقام حاصل کر چکی ہیں کہ آزمائش کے وقت فضاء کی وسعتوں میں پاک فضائیہ کے علم کو اونچا رکھتے ہوئے وطن عزیز کا دفاع کر سکیں۔ بہاولپور سے تعلق رکھنے والی' 26 سالہ عائشہ فاروق کو پاکستان ایئرفورس کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاک فضائیہ کی 25 خاتون پائلٹوں کے گروپ میں 5دوسری فائٹر پائلٹ بھی شامل ہیں، جنہوںنے ابھی آخری آزمائشی مراحل طے کرنے ہیں۔ یاد رہے کہ ہندوستان کی فضائیہ میں ابھی تک کوئی خاتون فائٹر پائلٹ نہیں ہے۔ پاکستان ایئرفورس کی جری خواتین پائلٹوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پڑوسی ملک پر اپنی برتری قائم کر دی ہے۔
ترکی کی صبیحہ گو کسن کو دنیا کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نے 1937ء میں ایک فضائی معرکے میں حصہ لیا۔ استنبول میں ایک ایئرپورٹ کا نام بھی اس کے نام پر صبیحہ گوکسن انٹرنیشنل ایئرپورٹ رکھا گیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے دنیا بھر میں خواتین فائٹر پائلٹ لڑائیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ روسی خواتین پائلٹوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران فضائی معرکوں میں حصہ لیا تھا۔
لگتا ہے کہ اب وہ دن لد گئے ہیں، جب پاکستان کی مسلح افواج میں خواتین صرف میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبوں تک محدود ہوتی تھیں۔ اب پاک آرمی میں خواتین کو سنپر، ہوائی بمباری اور انفنٹری جنگ کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔ سات برس قبل جب عائشہ فاروق نے اپنی بیوہ والدہ کو بتایا کہ وہ پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کرنا چاہتی ہیں، تو وہ اس کے لیے رضا مند نہ تھیں اور انہیں بڑی مشکل سے اپنی والدہ کو قائل کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے: ''ہمارے معاشرے میں تو بہت سی لڑکیاں ہوائی جہاز اڑانے جیسے پیشوں کا سوچتی بھی نہیں۔'' وہ کہتی ہیں کہ وہ خود کو اپنے دوسرے ساتھی مرد ہوا بازوں سے مختلف نہیں سمجھتیں، کیونکہ ان سب کے کام اور ذمہ داریوں کی نوعیت ایک جیسی ہے۔ دہشت گردی اور ملک کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے یہ بہت ضروی ہے کہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہوں۔ فائٹر ہوا باز بننے کے تربیتی دور کے متعلق وہ بتاتی ہیں کہ وہ ٹریننگ کے دوران ہوائی جہاز سے بمباری کرتے ہوئے سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتی ہیں۔ جیسے ہی بم زمین کی حدود کو چھوتا ہے، طیارے میں محسوس ہونے والا یہ لمحہ بہت ولولہ انگیز ہوتا ہے۔
پاک فضائیہ کی خواتین پائلٹوں کے حوصلے آسمان سے بھی بلند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب آپ فائٹر جیٹ طیارے اڑا رہے ہوں، جتنا اوپر آپ جاتے ہیں، اتنی ہی نئی بلندیاں آپ دریافت کرتے ہیں۔ جب آپ اپنے طیارے کو ان بلندیوں پر لے جاتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کیا کر سکتے ہیں۔ تاہم ان پرعزم خواتین کے اس مقام تک پہنچنے کے پیچھے دن رات کی انتھک محنت اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر مادر وطن کے دفاع کاجذبہ کار فرما ہے۔ پاکستان ایئر فورس میں دوسری خواتین جو کہ مختلف حیثیتوں میں زمین پر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں، ان کے کام کی نوعیت بھی اتنی ہی سخت اور پرمشقت ہے۔
کئی خواتین نے بیوی اور ماں کی حیثیت سے اپنی دوسری ذمہ داریوں کو بھی نبھانا ہوتا ہے، لیکن اپنے کام کے دوران وہ دوسری تمام چیزوں کو اپنے ذہن سے نکال کر صرف اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں، تاکہ اپنے ہم وطنوں کو پورے اعتماد سے کہہ سکیں، ''اطمینان سے سوئیں، پاک فضائیہ جاگ رہی ہے!'' عائشہ فاروق کہتی ہیں کہ اس شعبے میں خواتین کے لئے بہت سکوپ ہے۔ اگرچہ اس کے کچھ تقاضے بھی ہیں لیکن یہ اسی اعتبار سے آپ کو بہت کچھ دیتا بھی ہے۔ ذاتی حوالے سے ان کا کہنا ہے: ''میری والدہ ایک بہت باہمت خاتون ہیں اور میں ان کی زندگی کو دیکھ کر طاقت حاصل کرتی ہوں۔ اوائل عمری میں ہی والد کے وفات پا جانے کے بعد میں اب خود کو خاندان کے ایک مرد کی طرح محسوس کرتی ہوں اور میں سمجھتی ہوں کہ ایئر فورس نے مجھے اور زیادہ مضبوط بنادیا ہے۔''
پاک فضائیہ میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار
پاکستان کی مسلح افواج میں پہلے پہل خواتین کا کردار غیر جنگی کاموں (مثلاً میڈیکل وغیرہ) تک محدود تھا اور پاکستان ایئرفورس میں بھی ایسا ہی تھا۔ تاہم 2003ء سے خواتین کو فائٹر پائلٹ تربیتی پروگرام سمیت' ایئروسپیس انجینئرنگ اور پاکستان ایئرفورس اکیڈمی رسالپور کے دوسرے پروگراموں میں داخلے کی اجازت دی گئی۔ تاہم پاکستان ایئرفورس میں خواتین کی مختلف ذمہ داریوں کے لئے مخصوص عہدوں پر تعیناتی کے لئے، اس عہدے کے طے شدہ پیشہ ورانہ معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ جو خواتین اپنے مرد ساتھیوں کی طرح مطلوبہ معیار پر پورا اترتے ہوئے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں' انہیں اس کورس سے ڈراپ کر دیا جاتا ہے۔ تاہم مذہبی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے اس صنفی امتیاز کی وجہ سے ان کی روٹین اور تربیتی عمل میں فرق ضرور روا رکھا جاتا ہے۔ خواتین کیڈٹس کے پہلے گروپ کی آفیسر انچارج اور ماہر نفسیات سکواڈرن لیڈر شازیہ احمد کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اس فرق کی وجہ سے خواتین کے اعتماد میں اضافہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
2005ء میں پاکستان ایئرفورس اکیڈمی کے فلائنگ ونگ میں' انجینئرنگ اور ایئروسپیس کے شعبوں کے علاوہ' دس خواتین بھی شامل تھیں۔ مارچ 2006ء میں' پاکستان ایئرفورس کے 34 فائٹر پائلٹس میں ادارے کی پہلی چار خواتین پائلٹ بھی شامل تھیں' جنہوں نے ایک تقریب میں اس وقت کے وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل احسن سلیم حیات سے اپنی اسناد فضیلت (Certificate of Honour) حاصل کیں۔ ستمبر2006ء کے دوسرے بیج میں بھی تین خواتین پائلٹ شامل تھیں' جن میں سے ا یک ایوی ایشن کیڈٹ سائرہ امین کو بہترین آل راؤنڈ پر فارمنس پر شمشیر فضیلت(Sword of Honour) عطا کی گئی۔ ستمبر 2009ء میں سات خواتین نے چینی ساختہ F-7 (ChengduF-7) پر آپریشنل فائٹر پائلٹ کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے آزمائشی مراحل کامیابی سے طے کئے۔
پاکستان کی مسلح افواج میں 4000 خواتین شامل ہیں جو کہ زیادہ تر ڈیسک جاب اور طبی خدمات تک محدود ہیں۔ لیکن گزشتہ دہائی کے دوران پاک فضائیہ میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور کچھ خواتین ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورس میں بھی کام کر رہی ہیں۔ اب پاکستان ایئرفورس میں 316 خواتین کام کر رہی ہیں' جبکہ پانچ سال پہلے یہ تعداد سو کے قریب تھی۔ لیکن دنیا کے مختلف ممالک کی خواتین سپاہیوں کی طرح' پاکستانی خواتین پر بھی زمینی لڑائی میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے۔
ادارے ُپر شکوہ عمارتوں' جدید سہولیات اور سازو سامان کے بجائے ان روایات پر استوار ہوتے ہیں' جو کہ اس ادارے سے وابستہ لوگ ابتدا میں قائم کر جاتے ہیں۔
پاکستان ایئرفورس کی تاریخ بہت سی قابل فخر اور قابل رشک روایات اور کارناموں کی امین ہے' جس نے اپنے دستیاب وسائل میں اسے ایک ایسی قوت میں ڈھالاہے' جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ پاک فضائیہ نے 14 اگست 1947ء کو اپنے سفر کا آغاز' رائل پاکستان ایئرفورس کے نام سے، تقسیم کے بعد ملنے والے 16 خستہ حال (Tempest II) طیاروں' 220 افسروں ا ور 2112 افراد کے عملے سے کیا' اور آج اپنے موجودہ حجم کے اعتبار سے' اسے سب سے زیادہ سخت جان (Hardest Hitting) ایئرفورس ہونے کا درجہ حاصل ہے۔
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے پاکستان ایئرفورس اکیڈمی رسالپور میں' ہوا بازی کے پہلے تربیتی سکول(PAF Flying School) کے سنگ بنیاد کے موقع پر جانباز ہوا بازوں کے ایک مختصر گروہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
''ایک ایسا ملک جس کی فضائی طاقت کمزور ہو' کسی بھی جارح کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ پاکستان کو جتنا جلدی ممکن ہو سکے' ایک ایسی مؤثر فضائیہ کی تعمیر کرنی چاہئے' جس کا کوئی ثانی نہ ہو۔''
پاک فضائیہ نے قائداعظم ؒ کے اس دو ٹوک اور واضح پیغام کو اپنی روایات کا جزو بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا' جس کی بنیادوں پر بتدریج ایک باوقار اور مستحکم ادارے کی عمارت کھڑی کی گئی اور تعمیر و ترقی کا یہ سفر جاری ہے۔
پاک فضائیہ کے جانباز شاہینوں کی بہادری اور حوصلے کی روایات کو آگے بڑھانے اور اس باب میں عزم و ہمت کی نئی داستانیں رقم کرنے کے لئے اب قوم کی بیٹیاں بھی اس قافلے میں شامل ہو کر وہ مقام حاصل کر چکی ہیں کہ آزمائش کے وقت فضاء کی وسعتوں میں پاک فضائیہ کے علم کو اونچا رکھتے ہوئے وطن عزیز کا دفاع کر سکیں۔ بہاولپور سے تعلق رکھنے والی' 26 سالہ عائشہ فاروق کو پاکستان ایئرفورس کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاک فضائیہ کی 25 خاتون پائلٹوں کے گروپ میں 5دوسری فائٹر پائلٹ بھی شامل ہیں، جنہوںنے ابھی آخری آزمائشی مراحل طے کرنے ہیں۔ یاد رہے کہ ہندوستان کی فضائیہ میں ابھی تک کوئی خاتون فائٹر پائلٹ نہیں ہے۔ پاکستان ایئرفورس کی جری خواتین پائلٹوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پڑوسی ملک پر اپنی برتری قائم کر دی ہے۔
ترکی کی صبیحہ گو کسن کو دنیا کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نے 1937ء میں ایک فضائی معرکے میں حصہ لیا۔ استنبول میں ایک ایئرپورٹ کا نام بھی اس کے نام پر صبیحہ گوکسن انٹرنیشنل ایئرپورٹ رکھا گیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے دنیا بھر میں خواتین فائٹر پائلٹ لڑائیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ روسی خواتین پائلٹوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران فضائی معرکوں میں حصہ لیا تھا۔
لگتا ہے کہ اب وہ دن لد گئے ہیں، جب پاکستان کی مسلح افواج میں خواتین صرف میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبوں تک محدود ہوتی تھیں۔ اب پاک آرمی میں خواتین کو سنپر، ہوائی بمباری اور انفنٹری جنگ کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔ سات برس قبل جب عائشہ فاروق نے اپنی بیوہ والدہ کو بتایا کہ وہ پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کرنا چاہتی ہیں، تو وہ اس کے لیے رضا مند نہ تھیں اور انہیں بڑی مشکل سے اپنی والدہ کو قائل کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے: ''ہمارے معاشرے میں تو بہت سی لڑکیاں ہوائی جہاز اڑانے جیسے پیشوں کا سوچتی بھی نہیں۔'' وہ کہتی ہیں کہ وہ خود کو اپنے دوسرے ساتھی مرد ہوا بازوں سے مختلف نہیں سمجھتیں، کیونکہ ان سب کے کام اور ذمہ داریوں کی نوعیت ایک جیسی ہے۔ دہشت گردی اور ملک کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے یہ بہت ضروی ہے کہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہوں۔ فائٹر ہوا باز بننے کے تربیتی دور کے متعلق وہ بتاتی ہیں کہ وہ ٹریننگ کے دوران ہوائی جہاز سے بمباری کرتے ہوئے سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتی ہیں۔ جیسے ہی بم زمین کی حدود کو چھوتا ہے، طیارے میں محسوس ہونے والا یہ لمحہ بہت ولولہ انگیز ہوتا ہے۔
پاک فضائیہ کی خواتین پائلٹوں کے حوصلے آسمان سے بھی بلند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب آپ فائٹر جیٹ طیارے اڑا رہے ہوں، جتنا اوپر آپ جاتے ہیں، اتنی ہی نئی بلندیاں آپ دریافت کرتے ہیں۔ جب آپ اپنے طیارے کو ان بلندیوں پر لے جاتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کیا کر سکتے ہیں۔ تاہم ان پرعزم خواتین کے اس مقام تک پہنچنے کے پیچھے دن رات کی انتھک محنت اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر مادر وطن کے دفاع کاجذبہ کار فرما ہے۔ پاکستان ایئر فورس میں دوسری خواتین جو کہ مختلف حیثیتوں میں زمین پر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں، ان کے کام کی نوعیت بھی اتنی ہی سخت اور پرمشقت ہے۔
کئی خواتین نے بیوی اور ماں کی حیثیت سے اپنی دوسری ذمہ داریوں کو بھی نبھانا ہوتا ہے، لیکن اپنے کام کے دوران وہ دوسری تمام چیزوں کو اپنے ذہن سے نکال کر صرف اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں، تاکہ اپنے ہم وطنوں کو پورے اعتماد سے کہہ سکیں، ''اطمینان سے سوئیں، پاک فضائیہ جاگ رہی ہے!'' عائشہ فاروق کہتی ہیں کہ اس شعبے میں خواتین کے لئے بہت سکوپ ہے۔ اگرچہ اس کے کچھ تقاضے بھی ہیں لیکن یہ اسی اعتبار سے آپ کو بہت کچھ دیتا بھی ہے۔ ذاتی حوالے سے ان کا کہنا ہے: ''میری والدہ ایک بہت باہمت خاتون ہیں اور میں ان کی زندگی کو دیکھ کر طاقت حاصل کرتی ہوں۔ اوائل عمری میں ہی والد کے وفات پا جانے کے بعد میں اب خود کو خاندان کے ایک مرد کی طرح محسوس کرتی ہوں اور میں سمجھتی ہوں کہ ایئر فورس نے مجھے اور زیادہ مضبوط بنادیا ہے۔''
پاک فضائیہ میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار
پاکستان کی مسلح افواج میں پہلے پہل خواتین کا کردار غیر جنگی کاموں (مثلاً میڈیکل وغیرہ) تک محدود تھا اور پاکستان ایئرفورس میں بھی ایسا ہی تھا۔ تاہم 2003ء سے خواتین کو فائٹر پائلٹ تربیتی پروگرام سمیت' ایئروسپیس انجینئرنگ اور پاکستان ایئرفورس اکیڈمی رسالپور کے دوسرے پروگراموں میں داخلے کی اجازت دی گئی۔ تاہم پاکستان ایئرفورس میں خواتین کی مختلف ذمہ داریوں کے لئے مخصوص عہدوں پر تعیناتی کے لئے، اس عہدے کے طے شدہ پیشہ ورانہ معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ جو خواتین اپنے مرد ساتھیوں کی طرح مطلوبہ معیار پر پورا اترتے ہوئے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں' انہیں اس کورس سے ڈراپ کر دیا جاتا ہے۔ تاہم مذہبی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے اس صنفی امتیاز کی وجہ سے ان کی روٹین اور تربیتی عمل میں فرق ضرور روا رکھا جاتا ہے۔ خواتین کیڈٹس کے پہلے گروپ کی آفیسر انچارج اور ماہر نفسیات سکواڈرن لیڈر شازیہ احمد کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اس فرق کی وجہ سے خواتین کے اعتماد میں اضافہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
2005ء میں پاکستان ایئرفورس اکیڈمی کے فلائنگ ونگ میں' انجینئرنگ اور ایئروسپیس کے شعبوں کے علاوہ' دس خواتین بھی شامل تھیں۔ مارچ 2006ء میں' پاکستان ایئرفورس کے 34 فائٹر پائلٹس میں ادارے کی پہلی چار خواتین پائلٹ بھی شامل تھیں' جنہوں نے ایک تقریب میں اس وقت کے وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل احسن سلیم حیات سے اپنی اسناد فضیلت (Certificate of Honour) حاصل کیں۔ ستمبر2006ء کے دوسرے بیج میں بھی تین خواتین پائلٹ شامل تھیں' جن میں سے ا یک ایوی ایشن کیڈٹ سائرہ امین کو بہترین آل راؤنڈ پر فارمنس پر شمشیر فضیلت(Sword of Honour) عطا کی گئی۔ ستمبر 2009ء میں سات خواتین نے چینی ساختہ F-7 (ChengduF-7) پر آپریشنل فائٹر پائلٹ کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے آزمائشی مراحل کامیابی سے طے کئے۔
پاکستان کی مسلح افواج میں 4000 خواتین شامل ہیں جو کہ زیادہ تر ڈیسک جاب اور طبی خدمات تک محدود ہیں۔ لیکن گزشتہ دہائی کے دوران پاک فضائیہ میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور کچھ خواتین ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورس میں بھی کام کر رہی ہیں۔ اب پاکستان ایئرفورس میں 316 خواتین کام کر رہی ہیں' جبکہ پانچ سال پہلے یہ تعداد سو کے قریب تھی۔ لیکن دنیا کے مختلف ممالک کی خواتین سپاہیوں کی طرح' پاکستانی خواتین پر بھی زمینی لڑائی میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے۔