دیہی علاقوں میں بڑھتی ہوئی غربت
یہ اعداد و شمار 2014ء کی رپورٹ سے لیے گئے ہیں جن میں ابھی تک کوئی بہتری پیدا نہیں ہو سکی
پاکستان میں غربت کے بارے میں ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقے شہری علاقوں کی نسبت بہت زیادہ غربت و ناداری کا شکار ہیں اگرچہ ملک کے ارباب اختیار غربت اور امیری کے درمیان فرق کو کم کرنے کی اپنی سی کوشش اور دعوے ضرور کرتے ہیں مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ غربت اور امارت میں قطعاً فرق کم نہیں ہوا۔
ورلڈ بینک نے ''پاکستان میں حفظان صحت' غربت اور پانی کی فراہمی کے عنوان سے جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں غربت کی شرح دیگر علاقوں کی نسبت 62 فیصد زیادہ ہے اور وہاں لوگ خط غربت کی حد سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سندھ میں بھی امارت اور غربت میںتفاوت پنجاب کے مقابلے میں 30 فیصد زائد ہے البتہ خیبرپختونخوا میں یہ فرق 13 اور 15فیصد تک کا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک کی35 فیصد آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی 80 فیصد غریب آبادی دیہی علاقوں میں مقیم ہے۔
یہ اعداد و شمار 2014ء کی رپورٹ سے لیے گئے ہیں جن میں ابھی تک کوئی بہتری پیدا نہیں ہو سکی۔ دیہی علاقوں میں بنیادی سہولتوں کا بے حد فقدان ہے یہاں پرائمری اسکول اور مڈل اسکول کے طلبہ کی تعداد بھی مقابلتاً بہت کم ہے۔ یہی بچوں کو حفظان صحت کے وہ ٹیکے بھی نہیں لگائے جاتے جو شہروں میں رہنے والے بچوں کے لیے لازمی ہیں نیز بچوں کی پیدائش کے لیے دیہی علاقوں میں اسپتالوں کی بھی اشد قلت ہے۔ جس کی وجہ سے ان نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کے مختلف صوبوں میں سہولتوں کے حوالے سے تفاوت بہت زیادہ ہے۔
ورلڈ بینک نے ''پاکستان میں حفظان صحت' غربت اور پانی کی فراہمی کے عنوان سے جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں غربت کی شرح دیگر علاقوں کی نسبت 62 فیصد زیادہ ہے اور وہاں لوگ خط غربت کی حد سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سندھ میں بھی امارت اور غربت میںتفاوت پنجاب کے مقابلے میں 30 فیصد زائد ہے البتہ خیبرپختونخوا میں یہ فرق 13 اور 15فیصد تک کا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک کی35 فیصد آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی 80 فیصد غریب آبادی دیہی علاقوں میں مقیم ہے۔
یہ اعداد و شمار 2014ء کی رپورٹ سے لیے گئے ہیں جن میں ابھی تک کوئی بہتری پیدا نہیں ہو سکی۔ دیہی علاقوں میں بنیادی سہولتوں کا بے حد فقدان ہے یہاں پرائمری اسکول اور مڈل اسکول کے طلبہ کی تعداد بھی مقابلتاً بہت کم ہے۔ یہی بچوں کو حفظان صحت کے وہ ٹیکے بھی نہیں لگائے جاتے جو شہروں میں رہنے والے بچوں کے لیے لازمی ہیں نیز بچوں کی پیدائش کے لیے دیہی علاقوں میں اسپتالوں کی بھی اشد قلت ہے۔ جس کی وجہ سے ان نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کے مختلف صوبوں میں سہولتوں کے حوالے سے تفاوت بہت زیادہ ہے۔