چوہدری پرویز الٰہی کی نئی سیاست
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی ہماری قومی سیاست کا ایک بڑا ستون ہیں
ایک نئی ویڈیو کیا لیک ہُوئی ہے پنجاب کی سیاست میں گویا بھونچال آگیا ہے۔ حالانکہ کوئی بھونچال اور زلزلہ نہیں آیا ہے۔ بس اتنا ہُوا ہے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے جہانگیر ترین کو اپنے سامنے محبت واحترام سے بٹھا کر مبینہ طور پر اپنی جماعت کے ایک رکنِ قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر (طارق بشیر چیمہ) کی چند ایک شکایات رکھی ہیں۔ ممکن ہے شکایات جینوئن ہوں مگر چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھا دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر قاف لیگ کے کسی رکن کو صوبائی یا مرکزی حکومت سے کوئی شکائت ہے تو اس کے ازالے کے لیے پی ٹی آئی قیادت کے سامنے چوہدری پرویز الٰہی ذکر نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟ اس میں مذائقہ بھی کیا ہے؟ یہ بہر حال زیادتی ہے کہ مبینہ شکائت کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کو بھی ہدف بنانے کی کوشش کی جائے۔
یہ بے جا بھی ہے اور بنے بنائے سیاسی فریم کی دھجیاں بکھیرنے کی نا مسعود جسارت بھی۔ کوئی بھی ایسی کوشش کی تحسین نہیں کرے گا۔یہ سیاسی فتویٰ جاری کرنا بھی انتہائی غیر مناسب ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کسی پولیٹیکل سَیٹ اَپ کو اَپ سَیٹ کرنے کے خواہاں ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں توازن کو درہم برہم کرنے کی طاقت تو یقینا ہے لیکن وہ بھلا ایسا کیوں کریں گے؟
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی ہماری قومی سیاست کا ایک بڑا ستون ہیں۔وہ سگے بھائی تو نہیں ہیں لیکن پچھلے چار عشروں کے دوران اُنہوں نے یگانگت، یک رنگی اور یکجہتی کا جو شاندار مظاہرہ کیاہے، سگے بھائیوں سے بڑھ کر ثابت ہُوئے ہیں۔ دونوں کی باہمی محبت اورہم فکر ہونے کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت ''سچ تو یہ ہے'' نامی کتاب بھی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے اسپیکر پنجاب اسمبلی بننے کے ساتھ ہی ایک بار پھر چوہدری صاحبان نمایاں اور نکھر کر سامنے آئے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی، دونوں ہی پرویز مشرف کے اقتدار میں وزیر اعظم بھی بنے اور وزیر اعلیٰ بھی۔ چوہدری پرویز الٰہی، جنرل پرویز مشرف کے دَور سے قبل وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے لیکن کوئی اُن کی راہ میں رکاوٹ بن گیا تھا۔
چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم کا حلف اُٹھانے سے پہلے ہمارے گھر تشریف لائے تھے اور ہم سے وعدہ کیا تھا کہ اِس بار چوہدری پرویز الٰہی پنجاب میں اُن کے وزیر اعلیٰ ہوں گے مگر بعد ازاں وعدوں سے پھِر گئے اورپرویز صاحب کی جگہ شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے تھوڑی تاخیر ہی سے سہی چوہدری پرویز الٰہی کووزیر اعلیٰ کے بلند منصب پر فائز تو کردیا لیکن شریف برادران پر چودھریوں کا اعتبار ختم ہو گیا۔ خاندان سے باہر اقتدار کو منتقل کرنا شریفوں کو برداشت نہیں۔اب بھی دیکھئے کہ صاحبزادہ صاحب پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور والدِ گرامی قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب میں دو طاقتور سیاسی حریف خاندان ایک دوسرے کے مقابل آ کھڑے ہُوئے ہیں۔ پلڑا مگر اِس بار چوہدری پرویز الٰہی کی طرف جھکا نظر آرہا ہے۔ قدرت ایک بار پھرگجرات کے چودھریوں پر مہربان ہے۔
پنجاب کے سابق حکمران، چوہدری پرویز الٰہی کی نئی طاقت اور نئی آن بان سے شائد خائف ہیں۔ یہ زمینی حقیقت ا ُن پر گراں گزر رہی ہے کہ عمران خان کی شکل میں پی ٹی آئی پنجاب کی حاکم بن چکی ہے۔اور یہ بھی کہ گجرات کے چوہدری، پرویز الٰہی کی صورت میں،ایک بار پھر کیوں پنجاب کے مطلعِ سیاست پر چھا گئے ہیں؛ چنانچہ سازشیں بھی جاری ہیں اور غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششیں بھی۔ ایک کوشش تو یہ ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی اور قاف لیگ کا اتحاد کسی طرح لخت لخت ہو جائے۔ ایسا ہونا فی الحال ممکن نہیں ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اِس اتحاد میں ایک بانڈ کی شکل میں موجود ہیں۔ یہ بانڈ بڑا ہی مضبوط ہے۔
پنجاب کے سابق حکمرانوں کو یہ بھی شبہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اپنی سیاسی طاقت میں اضافے کے لیے پاؤں ضرور پھیلائیں گے۔یہ بات بھی پھیلائی گئی کہ طاقت کے حصول کے لیے چوہدری صاحب نون لیگ میں پھوٹ ڈال کر فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کریں گے اور اپنے مفادات سمیٹیں گے۔ چوہدری پرویز الٰہی نہایت تجربہ کار اور سرد و گرم چشیدہ سیاستدان ہیں۔ سیاسی بساط پر اپنے مہرے چلاناجانتے ہیں۔ اُن کے لیے شائد نون لیگ میں فارورڈ بلاک بنانا اتنا دشوار بھی نہیںتھا لیکن اُنہوں نے دانستہ اس کام سے گریز کیا کہ اس میں بگاڑ کے امکانات زیادہ تھے۔
شائد پی ٹی آئی بھی باطنی طور پر ایسا نہیں چاہتی تھی۔ اِسی لیے تو چوہدری پرویز الٰہی نے اسپیکر کا منصب سنبھالنے کے دوسرے روز ہی کہہ دیا تھا: ''پنجاب میں ہم فارورڈ بلاک ہر گز نہیں بنائیں گے۔ جو لوگ یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی اور قاف لیگ کا اتحاد چند دنوں کی بات ہے، وہ یاد رکھیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہمارا اُٹھنا بیٹھنا اور اتحاد نیا نہیں ہے۔ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران بھی تو ہم پی ٹی آئی کے ساتھ ہی تھے۔ پی ٹی آئی اور قاف لیگ نے ایک دوسرے کی دستگیری کی ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کاہاتھ تھام کر 25جولائی کا انتخاب بھی لڑا ہے۔''ہمارا قوی خیال ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اِس اتحاد کو منتشر نہیں ہونے دیں گے۔ اُنہیں بڑے طویل عرصے بعد ایک بڑا سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع ملا ہے؛ چنانچہ خیال یہی ہے کہ وہ ابھی کوئی رسک نہیں لیں گے۔
مسئلہ مگر یہ ہے کہ اُن کی شخصیت ایسی ہے کہ پنجاب کے کئی نئے مقتدر لوگ اُن کے سامنے کم اثر محسوس ہو رہے ہیں۔ کہیں یہ تاثر کسی تصادم کو جنم دینے کا باعث نہ بن جائے۔ لاریب اُنہیں پنجاب کی سیاست میں وقار، عزت اور اثرورسوخ تو حاصل ہے۔ لوگ اُن کی بات مانتے بھی ہیں۔وہ دیرینہ دوستیاں نبھاتے اور تعلقات برقرار رکھتے ہیں۔اُن کے روئیے میں تحکّم اور تکبّر نہیں ہے۔یہ اوصاف شائد پچھلے حکمرانوں میں نہیں تھے۔ آج وہ مگر کہاں ہیں؟زندانوں اور احتسابوں کی نذر!!
چوہدری پرویز الٰہی دس سال قبل جب وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو اُنہوں نے پنجاب اسمبلی کی بڑھتی ضروریات اور مستقبل کے سیاسی و انتخابی نقشے کے پیشِ نظر پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کی اساس رکھی تھی۔ عمارت کا تقریباً 70فیصد حصہ مکمل ہو چکا تھا کہ پرویز الٰہی کی وزارتِ اعلیٰ کا دَور ختم ہو گیا۔ اُن کی رُخصتی کے بعد شہباز شریف متواتر اور مسلسل دو بارپنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہُوئے لیکن یہ عمارت نہ بن سکی۔ اِس تعصّب کا شکاروزیر آباد کا وہ جدید اسپتال بھی بنا جو دل کے مریضوں کی شفایابی کے لیے بنایا گیا تھا۔ اِسے بھی مکمل نہ ہونے دیا گیا۔
محض اسلیے کہ اِسے بھی پرویز الٰہی نے شروع کیا تھا۔ ایسا کرکے پنجاب میں دل کے مریضوں پر ظلم کیا گیا۔اگر وزیر آباد کے اس اسپتال کی تعمیر و تکمیل میںپچھلے صوبائی حکمران رکاوٹیں نہ ڈالتے تو راولپنڈی اور لاہور کے سرکاری کارڈیالوجی اسپتالوں پر پڑا ناقابلِ برداشت دباؤ خاصی حد تک کم ہو سکتا تھا۔ ایسا بدقسمتی سے نہ ہو سکا۔ چوہدری پرویز الٰہی کو اِس کا بھی بڑا رنج اور بجا طور پرقلق ہے کہ اُن کی شروع کردہ پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت بھی پچھلے وزیر اعلیٰ نے دانستہ نہ بننے دی۔ شائد اِسی لیے اُنہوں نے اسپیکر پنجاب اسمبلی بننے کے دودن بعد ہی، خاص طور پر پنجاب اسمبلی کی زیر تعمیر مگر نامکمل عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہا تھا:''دس سال قبل میری وزارتِ اعلیٰ کے دوران یہ عمارت 70فیصد مکمل ہو چکی تھی لیکن بعد میں آنے والوں نے دانستہ اِسے مکمل نہ ہونے دیا۔''اب چوہدری پرویزالٰہی پھر اقتدار کا حصہ ہیں۔عین ممکن ہے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے تعاون سے وہ اپنے سابقہ نامکمل منصوبوں کی تکمیل کر سکیں۔
یہ بے جا بھی ہے اور بنے بنائے سیاسی فریم کی دھجیاں بکھیرنے کی نا مسعود جسارت بھی۔ کوئی بھی ایسی کوشش کی تحسین نہیں کرے گا۔یہ سیاسی فتویٰ جاری کرنا بھی انتہائی غیر مناسب ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کسی پولیٹیکل سَیٹ اَپ کو اَپ سَیٹ کرنے کے خواہاں ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں توازن کو درہم برہم کرنے کی طاقت تو یقینا ہے لیکن وہ بھلا ایسا کیوں کریں گے؟
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی ہماری قومی سیاست کا ایک بڑا ستون ہیں۔وہ سگے بھائی تو نہیں ہیں لیکن پچھلے چار عشروں کے دوران اُنہوں نے یگانگت، یک رنگی اور یکجہتی کا جو شاندار مظاہرہ کیاہے، سگے بھائیوں سے بڑھ کر ثابت ہُوئے ہیں۔ دونوں کی باہمی محبت اورہم فکر ہونے کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت ''سچ تو یہ ہے'' نامی کتاب بھی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے اسپیکر پنجاب اسمبلی بننے کے ساتھ ہی ایک بار پھر چوہدری صاحبان نمایاں اور نکھر کر سامنے آئے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی، دونوں ہی پرویز مشرف کے اقتدار میں وزیر اعظم بھی بنے اور وزیر اعلیٰ بھی۔ چوہدری پرویز الٰہی، جنرل پرویز مشرف کے دَور سے قبل وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے لیکن کوئی اُن کی راہ میں رکاوٹ بن گیا تھا۔
چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم کا حلف اُٹھانے سے پہلے ہمارے گھر تشریف لائے تھے اور ہم سے وعدہ کیا تھا کہ اِس بار چوہدری پرویز الٰہی پنجاب میں اُن کے وزیر اعلیٰ ہوں گے مگر بعد ازاں وعدوں سے پھِر گئے اورپرویز صاحب کی جگہ شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے تھوڑی تاخیر ہی سے سہی چوہدری پرویز الٰہی کووزیر اعلیٰ کے بلند منصب پر فائز تو کردیا لیکن شریف برادران پر چودھریوں کا اعتبار ختم ہو گیا۔ خاندان سے باہر اقتدار کو منتقل کرنا شریفوں کو برداشت نہیں۔اب بھی دیکھئے کہ صاحبزادہ صاحب پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور والدِ گرامی قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب میں دو طاقتور سیاسی حریف خاندان ایک دوسرے کے مقابل آ کھڑے ہُوئے ہیں۔ پلڑا مگر اِس بار چوہدری پرویز الٰہی کی طرف جھکا نظر آرہا ہے۔ قدرت ایک بار پھرگجرات کے چودھریوں پر مہربان ہے۔
پنجاب کے سابق حکمران، چوہدری پرویز الٰہی کی نئی طاقت اور نئی آن بان سے شائد خائف ہیں۔ یہ زمینی حقیقت ا ُن پر گراں گزر رہی ہے کہ عمران خان کی شکل میں پی ٹی آئی پنجاب کی حاکم بن چکی ہے۔اور یہ بھی کہ گجرات کے چوہدری، پرویز الٰہی کی صورت میں،ایک بار پھر کیوں پنجاب کے مطلعِ سیاست پر چھا گئے ہیں؛ چنانچہ سازشیں بھی جاری ہیں اور غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششیں بھی۔ ایک کوشش تو یہ ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی اور قاف لیگ کا اتحاد کسی طرح لخت لخت ہو جائے۔ ایسا ہونا فی الحال ممکن نہیں ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اِس اتحاد میں ایک بانڈ کی شکل میں موجود ہیں۔ یہ بانڈ بڑا ہی مضبوط ہے۔
پنجاب کے سابق حکمرانوں کو یہ بھی شبہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اپنی سیاسی طاقت میں اضافے کے لیے پاؤں ضرور پھیلائیں گے۔یہ بات بھی پھیلائی گئی کہ طاقت کے حصول کے لیے چوہدری صاحب نون لیگ میں پھوٹ ڈال کر فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کریں گے اور اپنے مفادات سمیٹیں گے۔ چوہدری پرویز الٰہی نہایت تجربہ کار اور سرد و گرم چشیدہ سیاستدان ہیں۔ سیاسی بساط پر اپنے مہرے چلاناجانتے ہیں۔ اُن کے لیے شائد نون لیگ میں فارورڈ بلاک بنانا اتنا دشوار بھی نہیںتھا لیکن اُنہوں نے دانستہ اس کام سے گریز کیا کہ اس میں بگاڑ کے امکانات زیادہ تھے۔
شائد پی ٹی آئی بھی باطنی طور پر ایسا نہیں چاہتی تھی۔ اِسی لیے تو چوہدری پرویز الٰہی نے اسپیکر کا منصب سنبھالنے کے دوسرے روز ہی کہہ دیا تھا: ''پنجاب میں ہم فارورڈ بلاک ہر گز نہیں بنائیں گے۔ جو لوگ یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی اور قاف لیگ کا اتحاد چند دنوں کی بات ہے، وہ یاد رکھیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہمارا اُٹھنا بیٹھنا اور اتحاد نیا نہیں ہے۔ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران بھی تو ہم پی ٹی آئی کے ساتھ ہی تھے۔ پی ٹی آئی اور قاف لیگ نے ایک دوسرے کی دستگیری کی ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کاہاتھ تھام کر 25جولائی کا انتخاب بھی لڑا ہے۔''ہمارا قوی خیال ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اِس اتحاد کو منتشر نہیں ہونے دیں گے۔ اُنہیں بڑے طویل عرصے بعد ایک بڑا سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع ملا ہے؛ چنانچہ خیال یہی ہے کہ وہ ابھی کوئی رسک نہیں لیں گے۔
مسئلہ مگر یہ ہے کہ اُن کی شخصیت ایسی ہے کہ پنجاب کے کئی نئے مقتدر لوگ اُن کے سامنے کم اثر محسوس ہو رہے ہیں۔ کہیں یہ تاثر کسی تصادم کو جنم دینے کا باعث نہ بن جائے۔ لاریب اُنہیں پنجاب کی سیاست میں وقار، عزت اور اثرورسوخ تو حاصل ہے۔ لوگ اُن کی بات مانتے بھی ہیں۔وہ دیرینہ دوستیاں نبھاتے اور تعلقات برقرار رکھتے ہیں۔اُن کے روئیے میں تحکّم اور تکبّر نہیں ہے۔یہ اوصاف شائد پچھلے حکمرانوں میں نہیں تھے۔ آج وہ مگر کہاں ہیں؟زندانوں اور احتسابوں کی نذر!!
چوہدری پرویز الٰہی دس سال قبل جب وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو اُنہوں نے پنجاب اسمبلی کی بڑھتی ضروریات اور مستقبل کے سیاسی و انتخابی نقشے کے پیشِ نظر پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کی اساس رکھی تھی۔ عمارت کا تقریباً 70فیصد حصہ مکمل ہو چکا تھا کہ پرویز الٰہی کی وزارتِ اعلیٰ کا دَور ختم ہو گیا۔ اُن کی رُخصتی کے بعد شہباز شریف متواتر اور مسلسل دو بارپنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہُوئے لیکن یہ عمارت نہ بن سکی۔ اِس تعصّب کا شکاروزیر آباد کا وہ جدید اسپتال بھی بنا جو دل کے مریضوں کی شفایابی کے لیے بنایا گیا تھا۔ اِسے بھی مکمل نہ ہونے دیا گیا۔
محض اسلیے کہ اِسے بھی پرویز الٰہی نے شروع کیا تھا۔ ایسا کرکے پنجاب میں دل کے مریضوں پر ظلم کیا گیا۔اگر وزیر آباد کے اس اسپتال کی تعمیر و تکمیل میںپچھلے صوبائی حکمران رکاوٹیں نہ ڈالتے تو راولپنڈی اور لاہور کے سرکاری کارڈیالوجی اسپتالوں پر پڑا ناقابلِ برداشت دباؤ خاصی حد تک کم ہو سکتا تھا۔ ایسا بدقسمتی سے نہ ہو سکا۔ چوہدری پرویز الٰہی کو اِس کا بھی بڑا رنج اور بجا طور پرقلق ہے کہ اُن کی شروع کردہ پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت بھی پچھلے وزیر اعلیٰ نے دانستہ نہ بننے دی۔ شائد اِسی لیے اُنہوں نے اسپیکر پنجاب اسمبلی بننے کے دودن بعد ہی، خاص طور پر پنجاب اسمبلی کی زیر تعمیر مگر نامکمل عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہا تھا:''دس سال قبل میری وزارتِ اعلیٰ کے دوران یہ عمارت 70فیصد مکمل ہو چکی تھی لیکن بعد میں آنے والوں نے دانستہ اِسے مکمل نہ ہونے دیا۔''اب چوہدری پرویزالٰہی پھر اقتدار کا حصہ ہیں۔عین ممکن ہے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے تعاون سے وہ اپنے سابقہ نامکمل منصوبوں کی تکمیل کر سکیں۔