گلگت بلتستان میں بدترین دہشت گردی

بے گناہ انسانوں کو سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے قتل کرنا بدترین جرم ہے۔

گلگت بلتستان میں دہشت گردی کی واردات کر کے پاکستان کا عالمی امیج تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

گلگت بلتستان میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا' دیامیر فیری میڈوز کے علاقے نانگا پربت بیس کیمپ میں ہفتے اور جمعہ کی درمیانی شب دہشت گردوں نے 9 غیر ملکی سیاحوں اور ایک پاکستانی کو قتل کر دیا اور فرار ہو گئے۔ قتل ہونے والے غیر ملکی سیاحوں کا تعلق عوامی جمہوریہ چین' روس اور یوکرائن سے بتایا گیا ہے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس دہشت گردی کی واردات کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کے حوالے سے میڈیا میں جو بیان آیا ہے' اس میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ تحریک سے منسلک جنود حفصہ نامی تنظیم نے کیا ہے اور ہم گلگت بلتستان میں غیر ملکی سیاحوں پر حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔

تحریک طالبان کے ترجمان نے جس تنظیم کا نام لیا ہے' یہ پہلے کبھی سننے میں نہیں آیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے زیر سایہ کئی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کی ایجنسیوں کے لیے یہ ایک نیا پہلو ہے۔ میڈیا کی تفصیلات کے مطابق 18 ملکوں کے 40 سیاح کوہ پیمائی کے لیے آئے ہوئے تھے' ان میں 11 سیاح بیس کیمپ میں موجود تھے جب کہ باقی ان سے اوپر موجود تھے۔ بیس کیمپ میں موجود 11 میں سے 10دہشت گردوں کا نشانہ بنے جب کہ ایک چینی سیاح محفوظ ر ہا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کو بیس کیمپ تک دو گائیڈز لے کر گئے' ان دو گائیڈز میں سے ایک سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا جب کہ ایک حراست میں ہے۔ اس زیر حراست گائیڈ سے خاصی معلومات مل سکتی ہیں۔

گلگت بلتستان میں جو دہشت گردی ہوئی ہے' اس کی صدر مملکت آصف علی زرداری' وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت سب نے مذمت کی ہے' قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک مذمتی قرار داد بھی منظور کی ہے' گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری اور آئی جی کو معطل کیا گیا ہے۔ دفتر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ سیاحوں پر حملے کا مقصد پاکستان کا بین الاقوامی تشخص خراب کرنا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں کہا کہ یہ پاکستان پر حملہ ہے۔ یہ ایسی باتیں اور اقدامات ہیں جو ہر دہشت گردی کی واردات کے بعد دیے جاتے ہیں لیکن دہشت گردی' دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے بارے میں کوئی پر عزم اور دو ٹوک پالیسی کہیں نظر نہیں آتی۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے لیے ایک سافٹ ٹارگٹ بن چکا ہے۔


وہ جہاں چاہتے ہیں واردات کر لیتے ہیں۔ اول تو کوئی دہشت گرد گرفتار ہی نہیں ہوتا ' اگر کسی کو گرفتار بھی کیا گیا ہے تو وہ عدم ثبوت کی بنا پر باعزت بری ہو گیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو دہشت گردوں کو حقیقی معنوں میں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ تحریک طالبان کو جو رہنما مارے گئے ہیں ' وہ بھی امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بنے۔ پاکستان کے کسی ادارے نے انھیں گرفتار کیا اور نہ ہی وہ ان کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سیاسی و مذہبی جماعتیں برملا دہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات کی باتیں کرتی ہیں اور ان سے روابط کا اعتراف کرتی ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے اندر ہی آپریٹ کر رہی ہیں اور وہ یہ واردات کے بعد اس کی ذمے داری بھی قبول کرتی ہیں' اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ملک کی بعض نامور شخصیات' سیاستدان اور مذہبی رہنما کالعدم تحریک طالبان اور دیگر تنظیموں سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں' اکثر دلیل دی جاتی ہے کہ امریکا طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے۔

ایسی بات کرنے والے حلقوں کو شاید یہ بات معلوم نہیں ہے کہ دوحہ میں جو مذاکرات ہونے جا رہے ہیں' ان کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ افغانستان کے موجودہ آئین کو تسلیم کریں گے۔ کیا کالعدم تحریک طالبان نے پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے کی کبھی بات کی ہے؟ اس میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دہشت گردی میں ملوث تنظیمیں پاکستان کی دشمن ہیں۔ گلگت بلتستان میں دہشت گردی کی واردات کر کے پاکستان کا عالمی امیج تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے' بے گناہ انسانوں کو سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے قتل کرنا بدترین جرم ہے اور اسلام کی رو سے ناقابل معافی گناہ ہے۔ایسا قبیح جرم کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔

پاکستان کی حکومت' اداروں' سیاستدانوں' مذہبی رہنمائوں' شاعروں' ادیبوں اور اہل علم کو اس معاملے میں چونکہ چنانچہ' اگر مگر کی روایت ترک کر کے دہشت گردی کے خلاف متفقہ موقف اپنانا چاہیے اور پوری قوم کو متحد ہوکر دہشت گردوں کے خلاف سینہ سپر ہوجانا چاہیے' اس طریقے سے ہی وطن عزیز کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔اگر دہشت گردی کے معاملے میں قوم کو ابہام میں رکھنے کی پالیسی برقرار رکھی گئی تو آنے والے دنوں میں وطن عزیز کو ناقابل بیان مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
Load Next Story