بلوچستان کی آگ
11 مئی 2013 ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن بلوچستان اسمبلی کی صرف 8 سیٹیں جیت سکی تھی۔
CHAKWAL:
نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بلوچستان کے وزیر ِاعلیٰ بن گئے۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے محمد خان اچکزئی گورنر بن چکے۔ مسلم لیگ ن کے تاج محمد جمالی اسپیکر اور مسلم لیگ ق کے عبدالقدوس بزنجو ڈپٹی اسپیکر کی کُرسیوں پر تشریف فرما ہیں۔ یہ اعلیٰ ترین سرکاری عہدے ''بلا مقابلہ طریق ِانتخاب'' سے پُر کیے گئے ہیں۔ چند دنوں تک، بلوچستان کی نئی کابینہ بھی مکمل ہو جائے گی۔ بلوچستان میں اپوزیشن کی روایت دم توڑ چکی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام ( ف ) نے اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کیا ہے۔
لُطف یہ ہے کہ یہ ''اپوزیشن'' وفاق میں مسلم لیگ ن کے پہلو میں حکومتی بنچوں پر بیٹھے گی۔ کہتے ہیں، بلوچستان کی اس ''بلامقابلہ حکومت'' کو مینگلوں، بگٹیوں اور زہریوں کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہو گا؛ یعنی، بلوچستان کی نئی حکومت میں سب پارٹیوں کی چاروں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں۔ یہ ہے بلوچستان کا وہ ''خوش کن منظر نامہ'' جس کے پیش ِنظر ''عبدالمالک حکومت'' سے یہ توقعات باندھی جا رہی ہیں کہ بلوچستان میں اب سب اچھا ہو جائے گا۔ اس ''سب اچھا ہے'' کی ایک جھلک پچھلے ہفتے صوبائی دارالحکومت میں نظر آ گئی تھی۔ 'زیارت' میں صوبائی حکومت کی عین ناک کے نیچے وہ سانحۂ عظیم رونما ہوا کہ کسی کے سان گمان میں نہیں تھا۔ بانی ِ پاکستان، بابائے قوم کی آخری قیام گاہ ''قائد اعظم ریذیڈنسی'' کو نذر ِآتش کر دیا گیا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
11 مئی 2013 ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن بلوچستان اسمبلی کی صرف 8 سیٹیں جیت سکی تھی۔ آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد مسلم لیگ ن کی پوزیشن بہتر ہو گئی۔ اب مسلم لیگ ن بلوچستان میں ''زہری حکومت'' بنا تو سکتی تھی، جس طرح کہ 18 فروری 2008 ء کے بعد پیپلز پارٹی نے صرف 6 سیٹوں سے ''رئیسانی حکومت'' بنا لی تھی، لیکن یہ مستحکم بہرحال نہیں ہو سکتی تھی۔ حقیقتاً، پختون خوا ملی عوامی پارٹی، جس نے 11 سیٹیں لی تھیں اور نیشنل پارٹی، جس نے 7سیٹیں لی تھیں، کی ''عبدالمالک حکومت'' 11مئی کے انتخابات کا منطقی نتیجہ ہے۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں اس نئی، متفقہ اور بلا مقابلہ حکومت کے قیام سے بلوچستان کا بحران ختم ہو جائے گا، تو اُن کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ بلوچستان کا بحران اگر صرف سیاسی ہوتا، یا تنہا احساس ِمحرومی کا شاخسانہ ہوتا، تو یقیناً بلوچستان کے نئے سیٹ اپ سے بہتری کی اُمید لگائی جاسکتی تھی۔
مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان واحد صوبہ ہے، جس میں غیر ملکی مداخلت کے شواہد ہی نہیں، ٹھوس ثبوت بھی موجود ہیں۔ حکومت ِ پاکستان اس پر متعدد مرتبہ ہمسایہ ملکوں سے احتجاج کر چکی ہے۔ بلوچستان کے بحران کو محض سیاسی اور احساس ِمحرومی کا نتیجہ سمجھنا سراسر سطحی انداز ِ فکر ہے۔ یہ اس طرز ِفکر کا نتیجہ تھا کہ2002ء میں چوہدری شجاعت حسین بضد ہو گئے کہ وزیر ِاعظم بہر صورت بلوچستان کا ہو گا۔ چوہدری شجاعت حسین کا خیال تھا کہ اپنی وزارت ِعظمیٰ قربان کر کے وہ بلوچستان کا احساس ِمحرومی ختم کر سکتے ہیں۔ یہ سوچ درست ثابت نہ ہو سکی، اور اُن کی قربانی رائیگاں گئی۔ صر ف یہ ہوا کہ میر ظفراللہ جمالی کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج سج گیا۔ بلوچستان کا بحران جہاں تھا، وہیں کا وہیں رہا، زمیں جُنبد نہ جُنبد گل محمد۔
اگر بلوچستان کا بحران ''مفاہمتی سیاست'' کے نسخۂ کیمیا سے دور ہونا ہوتا، تو 2002ء سے 2007ء تک کا زمانہ، اس کے لیے مثالی زمانہ تھا۔ جام محمد یوسف وزیر ِاعلیٰ بلوچستان، میر ظفراللہ جمالی وزیر ِاعظم پاکستان، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان تقرر، تاج محمد جمالی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، پھر حکمران پارٹی کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے اکبر بگٹی اور عطا اللہ مینگل جیسے بلوچ قوم پرستوں سے ذاتی اور خاندانی تعلقات۔ جتنے اعلیٰ حکومتی عہدے 2002ء سے 2008ء تک بلوچستان کے پاس رہے، بلوچستان کی پوری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہی نہیں، بلوچستان میں اس عرصہ میں معلوم ہوتا تھا، تعمیر و ترقی کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ لیکن مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی۔
بلوچستان سلگتا، جلتا اور بھڑکتا ہی رہا تھا۔ اس اثنا میں، مسلم لیگ ق کی حکومت ختم ہو گئی، پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی، بلوچ سردار مسلم لیگ ق کی گاڑی سے اُتر کر پیپلز پارٹی کی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ ہوا، مسلم لیگ ن کی حکومت آ گئی۔ بلوچ سردار مسلم لیگ ن کی میٹرو بس میں سوار ہو گئے۔ طُرفہ تماشا یہ ہے کہ میر ظفراللہ جمالی اور میر تاج محمد جمالی بھی مسلم لیگ ن کو شرف ِشمولیت بخش چکے ہیں۔ جام محمد یوسف 11 مئی سے پہلے انتقال فرما گئے، ورنہ مسلم لیگ ن میں اُنکی شمولیت یقینی تھی۔ ''مٹی پاؤ فارمولہ'' کی روشنی میں بلوچ سردار آگے نکل گئے، اور چوہدری شجاعت حسین کا ایثار دھرے کا دھرا رہ گیا۔ آج کل نوازشریف کے ایثار کے چرچے ہیں۔ دیکھتے ہیں، اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
جیسا کہ میں نے شروع میں کہا، بلوچستان کا بحران صرف سیاسی اور سماجی نہیں اور جو لوگ اس بحران کو سرکاری عہدوں کی ریوڑھیاں بانٹ کر کے حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، حقیقتاً اُن کو بھی معلوم ہے کہ یہ کوئی حل نہیں۔ بلوچستان جس آگ میں جل رہا ہے، اس آگ کا منبع کہیں اور ہے، یہ آگ پانی کی چند بالٹیاں پھینک کر نہیں بجھائی جا سکتی ہے، اس کے لیے پورا فائر بریگیڈ درکار ہے۔ جب تک بلوچستان کو مداخلت کاروں سے پاک نہیں کر دیا جاتا، اندرون بلوچستان اُن کے ایجنٹوں کو نمونۂ عبرت نہیں بنا دیا جاتا، بلوچستان کا بحران ختم ہو سکتا ہے، نہ بلوچستان کی آگ کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں، جنگ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے، اسے صرف جنرلوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا، بعینہ 'بلوچستان بحران' کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے، اسے صرف بلوچ سرداروں اور قوم پرستوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ معمولی سانحہ نہیں۔ قائد اعظم ریذیڈنسی صرف ایک زیارت گاہ نہیں تھی، بلکہ بلوچستان کے طوفانِ بلا خیز میں امن و سلامتی کا ایک جزیرہ تھی۔ امن و سلامتی کا یہ جزیرہ پردۂ اسکرین پر جھُلستا ہوا نظر آیا، تو دل دہل گیا۔ قوم کے بابا کا کمرہ، جس میں انھوں نے آرام کیا تھا۔ قوم کی ماں کا کمرہ، جس میں وہ تھک ہار کے محوِ استراحت ہوا کرتی تھیں، ڈرائنگ روم، ڈائننگ روم، میز، کُرسیاں، کپڑے، کتابیں، قلم، سب کچھ جل گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ زیارت ریذیڈنسی کی وہ اندرونی فضا دھواں دھواں ہو گئی، جس میں آخری ایام میں بابائے قوم کا یہ کلمۂ شکر گونجا تھا کہ ''خدا کا شکر ہے، پاکستان میری زندگی میں بن گیا۔ میں نے اپنا فرض پورا کر دیا۔
اب مجھ کو پرواہ نہیں، میں زندہ رہوں گا یا نہیں۔'' چند سال پہلے رشکِ فردوس جزیرہ صقلیہ (جزیرہ سسلی) کا نظارہ کیا تھا۔ پردۂ اسکرین پر تباہ شدہ زیارت ریذیڈنسی کے مناظر دیکھے، تو یک بیک پردئہ ذہن پر بحیرئہ روم میں ایستادہ جنت نظیر جزیرہ صقلیہ طلوع ہوا۔ صقلیہ، جو کبھی مسلمانوں کے زیر ِنگین تھا۔ عروج کی انتہا، ڈھائی سو سال کی بلا شرکت ِغیر ے حکمرانی، تہذیب و تمدن کا جہان ِ نو، اور پھر زوال کی بھی انتہا، مسلمان فرماں رواوں کی بے حمیتی اور مسلسل خانہ جنگی کے باعث ایک وقت آیا کہ امن و سلامتی کا یہ جزیرہ مسلمانوں کے لیے سر زمین ِ بے اماں قرار پا گیا۔ جہانِ نو، جہانِ کُہنہ قرار پایا اور حرف ِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ علامہ اقبال اندلس کے سفر پر گئے۔ صقلیہ کو دیکھ کر جذبات پر قابو نہ رکھ سکے، آنکھیں بے اختیار چھلک گئیں۔ وہ مرثیہ کہا کہ سینہ چیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ؎
رو لے اب دل کھول کے اے دیدۂ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب ِحجازی کا مزار
کبھی سوچتا ہوں کہ اتنا بڑا سانحہ ہو گیا، بابائے قوم کا گھر جل گیا، لیکن چند بینروں کے سوا، جن پر لکھا تھا ''قائد ہم شرمندہ ہیں'' اور چند بیانات کے سوا، جن کا لب ِ لباب تھا کہ ''واقعہ قابل ِافسوس ہے'' کوئی آہ و فغاں، کوئی نالہ و فریاد سنائی نہیں دیا۔ مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ف، مسلم لیگ ض، مسلم لیگ ج، عوامی مسلم لیگ اور آل پاکستان مسلم لیگ، مسلم لیگوں کا ڈھیر، لیکن صرف چند سطری اظہار ِافسوس، افسوس ہے اس افسوس پر۔ قومی اسمبلی میں سانحہ زیر ِبحث آیا ہی تھا کہ صوبائی معاملہ قرار پا کے داخل دفتر کر دیا گیا۔ گورنر بلوچستان، وزیرِ اعلیٰ بلوچستان اور محمود خان اچکزئی کے سرکاری پریس ریلیز تلاش کیے، مل گئے، پڑھنے پر معلوم ہوا کہ ان صاحبان ِ بلوچستان کا یہ جذباتی مسئلہ ہی نہیں۔ چند لکھنے والے آنسو بہا رہے ہیں، لیکن تا بہ کے؟ یوں بھی اب یہ سب بے کار ہے۔ غرناطہ کا آخری فرماں روا ابو عبداللہ سقوط ِ غرناطہ پر رو رہا تھا۔ ابوعبداللہ کی ماں نے کہا، ''ابو عبداللہ، جس کو تم جوانمردوں کی تلواریں نہ بچا سکیں، اب اس کے لیے عورتوں کی طرح آنسو مت بہائو''۔ لیکن آنسو کوئی پوچھ کر تھوڑا آتے ہیں۔ صقلیہ کے مرثیہ نگار نے کہا تھا ؎
غم نصیب اقبالؔ کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بلوچستان کے وزیر ِاعلیٰ بن گئے۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے محمد خان اچکزئی گورنر بن چکے۔ مسلم لیگ ن کے تاج محمد جمالی اسپیکر اور مسلم لیگ ق کے عبدالقدوس بزنجو ڈپٹی اسپیکر کی کُرسیوں پر تشریف فرما ہیں۔ یہ اعلیٰ ترین سرکاری عہدے ''بلا مقابلہ طریق ِانتخاب'' سے پُر کیے گئے ہیں۔ چند دنوں تک، بلوچستان کی نئی کابینہ بھی مکمل ہو جائے گی۔ بلوچستان میں اپوزیشن کی روایت دم توڑ چکی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام ( ف ) نے اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کیا ہے۔
لُطف یہ ہے کہ یہ ''اپوزیشن'' وفاق میں مسلم لیگ ن کے پہلو میں حکومتی بنچوں پر بیٹھے گی۔ کہتے ہیں، بلوچستان کی اس ''بلامقابلہ حکومت'' کو مینگلوں، بگٹیوں اور زہریوں کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہو گا؛ یعنی، بلوچستان کی نئی حکومت میں سب پارٹیوں کی چاروں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں۔ یہ ہے بلوچستان کا وہ ''خوش کن منظر نامہ'' جس کے پیش ِنظر ''عبدالمالک حکومت'' سے یہ توقعات باندھی جا رہی ہیں کہ بلوچستان میں اب سب اچھا ہو جائے گا۔ اس ''سب اچھا ہے'' کی ایک جھلک پچھلے ہفتے صوبائی دارالحکومت میں نظر آ گئی تھی۔ 'زیارت' میں صوبائی حکومت کی عین ناک کے نیچے وہ سانحۂ عظیم رونما ہوا کہ کسی کے سان گمان میں نہیں تھا۔ بانی ِ پاکستان، بابائے قوم کی آخری قیام گاہ ''قائد اعظم ریذیڈنسی'' کو نذر ِآتش کر دیا گیا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
11 مئی 2013 ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن بلوچستان اسمبلی کی صرف 8 سیٹیں جیت سکی تھی۔ آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد مسلم لیگ ن کی پوزیشن بہتر ہو گئی۔ اب مسلم لیگ ن بلوچستان میں ''زہری حکومت'' بنا تو سکتی تھی، جس طرح کہ 18 فروری 2008 ء کے بعد پیپلز پارٹی نے صرف 6 سیٹوں سے ''رئیسانی حکومت'' بنا لی تھی، لیکن یہ مستحکم بہرحال نہیں ہو سکتی تھی۔ حقیقتاً، پختون خوا ملی عوامی پارٹی، جس نے 11 سیٹیں لی تھیں اور نیشنل پارٹی، جس نے 7سیٹیں لی تھیں، کی ''عبدالمالک حکومت'' 11مئی کے انتخابات کا منطقی نتیجہ ہے۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں اس نئی، متفقہ اور بلا مقابلہ حکومت کے قیام سے بلوچستان کا بحران ختم ہو جائے گا، تو اُن کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ بلوچستان کا بحران اگر صرف سیاسی ہوتا، یا تنہا احساس ِمحرومی کا شاخسانہ ہوتا، تو یقیناً بلوچستان کے نئے سیٹ اپ سے بہتری کی اُمید لگائی جاسکتی تھی۔
مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان واحد صوبہ ہے، جس میں غیر ملکی مداخلت کے شواہد ہی نہیں، ٹھوس ثبوت بھی موجود ہیں۔ حکومت ِ پاکستان اس پر متعدد مرتبہ ہمسایہ ملکوں سے احتجاج کر چکی ہے۔ بلوچستان کے بحران کو محض سیاسی اور احساس ِمحرومی کا نتیجہ سمجھنا سراسر سطحی انداز ِ فکر ہے۔ یہ اس طرز ِفکر کا نتیجہ تھا کہ2002ء میں چوہدری شجاعت حسین بضد ہو گئے کہ وزیر ِاعظم بہر صورت بلوچستان کا ہو گا۔ چوہدری شجاعت حسین کا خیال تھا کہ اپنی وزارت ِعظمیٰ قربان کر کے وہ بلوچستان کا احساس ِمحرومی ختم کر سکتے ہیں۔ یہ سوچ درست ثابت نہ ہو سکی، اور اُن کی قربانی رائیگاں گئی۔ صر ف یہ ہوا کہ میر ظفراللہ جمالی کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج سج گیا۔ بلوچستان کا بحران جہاں تھا، وہیں کا وہیں رہا، زمیں جُنبد نہ جُنبد گل محمد۔
اگر بلوچستان کا بحران ''مفاہمتی سیاست'' کے نسخۂ کیمیا سے دور ہونا ہوتا، تو 2002ء سے 2007ء تک کا زمانہ، اس کے لیے مثالی زمانہ تھا۔ جام محمد یوسف وزیر ِاعلیٰ بلوچستان، میر ظفراللہ جمالی وزیر ِاعظم پاکستان، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان تقرر، تاج محمد جمالی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، پھر حکمران پارٹی کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے اکبر بگٹی اور عطا اللہ مینگل جیسے بلوچ قوم پرستوں سے ذاتی اور خاندانی تعلقات۔ جتنے اعلیٰ حکومتی عہدے 2002ء سے 2008ء تک بلوچستان کے پاس رہے، بلوچستان کی پوری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہی نہیں، بلوچستان میں اس عرصہ میں معلوم ہوتا تھا، تعمیر و ترقی کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ لیکن مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی۔
بلوچستان سلگتا، جلتا اور بھڑکتا ہی رہا تھا۔ اس اثنا میں، مسلم لیگ ق کی حکومت ختم ہو گئی، پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی، بلوچ سردار مسلم لیگ ق کی گاڑی سے اُتر کر پیپلز پارٹی کی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ ہوا، مسلم لیگ ن کی حکومت آ گئی۔ بلوچ سردار مسلم لیگ ن کی میٹرو بس میں سوار ہو گئے۔ طُرفہ تماشا یہ ہے کہ میر ظفراللہ جمالی اور میر تاج محمد جمالی بھی مسلم لیگ ن کو شرف ِشمولیت بخش چکے ہیں۔ جام محمد یوسف 11 مئی سے پہلے انتقال فرما گئے، ورنہ مسلم لیگ ن میں اُنکی شمولیت یقینی تھی۔ ''مٹی پاؤ فارمولہ'' کی روشنی میں بلوچ سردار آگے نکل گئے، اور چوہدری شجاعت حسین کا ایثار دھرے کا دھرا رہ گیا۔ آج کل نوازشریف کے ایثار کے چرچے ہیں۔ دیکھتے ہیں، اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
جیسا کہ میں نے شروع میں کہا، بلوچستان کا بحران صرف سیاسی اور سماجی نہیں اور جو لوگ اس بحران کو سرکاری عہدوں کی ریوڑھیاں بانٹ کر کے حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، حقیقتاً اُن کو بھی معلوم ہے کہ یہ کوئی حل نہیں۔ بلوچستان جس آگ میں جل رہا ہے، اس آگ کا منبع کہیں اور ہے، یہ آگ پانی کی چند بالٹیاں پھینک کر نہیں بجھائی جا سکتی ہے، اس کے لیے پورا فائر بریگیڈ درکار ہے۔ جب تک بلوچستان کو مداخلت کاروں سے پاک نہیں کر دیا جاتا، اندرون بلوچستان اُن کے ایجنٹوں کو نمونۂ عبرت نہیں بنا دیا جاتا، بلوچستان کا بحران ختم ہو سکتا ہے، نہ بلوچستان کی آگ کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں، جنگ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے، اسے صرف جنرلوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا، بعینہ 'بلوچستان بحران' کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے، اسے صرف بلوچ سرداروں اور قوم پرستوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ معمولی سانحہ نہیں۔ قائد اعظم ریذیڈنسی صرف ایک زیارت گاہ نہیں تھی، بلکہ بلوچستان کے طوفانِ بلا خیز میں امن و سلامتی کا ایک جزیرہ تھی۔ امن و سلامتی کا یہ جزیرہ پردۂ اسکرین پر جھُلستا ہوا نظر آیا، تو دل دہل گیا۔ قوم کے بابا کا کمرہ، جس میں انھوں نے آرام کیا تھا۔ قوم کی ماں کا کمرہ، جس میں وہ تھک ہار کے محوِ استراحت ہوا کرتی تھیں، ڈرائنگ روم، ڈائننگ روم، میز، کُرسیاں، کپڑے، کتابیں، قلم، سب کچھ جل گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ زیارت ریذیڈنسی کی وہ اندرونی فضا دھواں دھواں ہو گئی، جس میں آخری ایام میں بابائے قوم کا یہ کلمۂ شکر گونجا تھا کہ ''خدا کا شکر ہے، پاکستان میری زندگی میں بن گیا۔ میں نے اپنا فرض پورا کر دیا۔
اب مجھ کو پرواہ نہیں، میں زندہ رہوں گا یا نہیں۔'' چند سال پہلے رشکِ فردوس جزیرہ صقلیہ (جزیرہ سسلی) کا نظارہ کیا تھا۔ پردۂ اسکرین پر تباہ شدہ زیارت ریذیڈنسی کے مناظر دیکھے، تو یک بیک پردئہ ذہن پر بحیرئہ روم میں ایستادہ جنت نظیر جزیرہ صقلیہ طلوع ہوا۔ صقلیہ، جو کبھی مسلمانوں کے زیر ِنگین تھا۔ عروج کی انتہا، ڈھائی سو سال کی بلا شرکت ِغیر ے حکمرانی، تہذیب و تمدن کا جہان ِ نو، اور پھر زوال کی بھی انتہا، مسلمان فرماں رواوں کی بے حمیتی اور مسلسل خانہ جنگی کے باعث ایک وقت آیا کہ امن و سلامتی کا یہ جزیرہ مسلمانوں کے لیے سر زمین ِ بے اماں قرار پا گیا۔ جہانِ نو، جہانِ کُہنہ قرار پایا اور حرف ِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ علامہ اقبال اندلس کے سفر پر گئے۔ صقلیہ کو دیکھ کر جذبات پر قابو نہ رکھ سکے، آنکھیں بے اختیار چھلک گئیں۔ وہ مرثیہ کہا کہ سینہ چیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ؎
رو لے اب دل کھول کے اے دیدۂ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب ِحجازی کا مزار
کبھی سوچتا ہوں کہ اتنا بڑا سانحہ ہو گیا، بابائے قوم کا گھر جل گیا، لیکن چند بینروں کے سوا، جن پر لکھا تھا ''قائد ہم شرمندہ ہیں'' اور چند بیانات کے سوا، جن کا لب ِ لباب تھا کہ ''واقعہ قابل ِافسوس ہے'' کوئی آہ و فغاں، کوئی نالہ و فریاد سنائی نہیں دیا۔ مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ف، مسلم لیگ ض، مسلم لیگ ج، عوامی مسلم لیگ اور آل پاکستان مسلم لیگ، مسلم لیگوں کا ڈھیر، لیکن صرف چند سطری اظہار ِافسوس، افسوس ہے اس افسوس پر۔ قومی اسمبلی میں سانحہ زیر ِبحث آیا ہی تھا کہ صوبائی معاملہ قرار پا کے داخل دفتر کر دیا گیا۔ گورنر بلوچستان، وزیرِ اعلیٰ بلوچستان اور محمود خان اچکزئی کے سرکاری پریس ریلیز تلاش کیے، مل گئے، پڑھنے پر معلوم ہوا کہ ان صاحبان ِ بلوچستان کا یہ جذباتی مسئلہ ہی نہیں۔ چند لکھنے والے آنسو بہا رہے ہیں، لیکن تا بہ کے؟ یوں بھی اب یہ سب بے کار ہے۔ غرناطہ کا آخری فرماں روا ابو عبداللہ سقوط ِ غرناطہ پر رو رہا تھا۔ ابوعبداللہ کی ماں نے کہا، ''ابو عبداللہ، جس کو تم جوانمردوں کی تلواریں نہ بچا سکیں، اب اس کے لیے عورتوں کی طرح آنسو مت بہائو''۔ لیکن آنسو کوئی پوچھ کر تھوڑا آتے ہیں۔ صقلیہ کے مرثیہ نگار نے کہا تھا ؎
غم نصیب اقبالؔ کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا