تعلیمی بجٹ میں اضافہ خوش آئند لیکن۔۔۔۔
پنجاب 26.5، سندھ 21.4، خیبرپختونخوا19.2 اور بلوچستان میں کل بجٹ کا 17.2 فیصد حصہ تعلیم پرخرچ کیا جائے گا
پاکستان میں برسوں سے تعلیم کا شعبہ سسک کر جی رہا ہے لیکن کوئی اس کا پُرسان حال نہیں۔
نت نئی قومی تعلیمی پالیسیاں، بین الاقوامی پروگرامز برائے تعلیم، ایجوکیشن کانفرنسز اور مذاکرے اس شعبہ کے لئے کبھی آب حیات نہ بن سکے۔ ملک میں 25 ملین یعنی اڑھائی کروڑ بچے سکول ہی نہیں جا پاتے اور جو جاتے ہیں ان میں سے تقریباً نصف پرائمری کے بعد ہی تعلیم کو خدا حافظ کہہ دیتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے ہاں شرح خواندگی کے اعداد و شمار کبھی تسلی بخش قرار نہیں پائے۔ حال ہی میں جاری ہونے والے اقتصادی سروے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 58 فیصد آبادی خواندہ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بچوں کو سکول میں داخل کروانے کی شرح 60 فیصد جبکہ بلوچستان میں یہ شرح صرف 39 فیصد ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں پانچویں جماعت کے تقریباً آدھے بچے دوسری جماعت میں پڑھائی جانے والی اردو تک نہیں پڑھ سکتے۔
قابل غور امر یہ ہے کہ سرکاری رپورٹ کے مطابق ہمارے شعبہ تعلیم کا یہ عالم ہے جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے اعدادوشمار تو کہیں نیچے ہیں اور یہاں ہر اس شخص کو خواندہ تسلیم کیا جاتا ہے جو کسی بھی زبان کا ایک اخبار پڑھ لے یا سادہ زبان میں خط لکھ سکے۔ پوری دنیا میں خواندگی کی شرح اگر دیکھی جائے تو یورپی ممالک سب سے آگے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں ہمارے پڑوسی بھارت میں خواندگی کی شرح 74 جبکہ چین کی شرح خواندگی 93 فیصد ہے جو پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا۔ بہرحال ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تنقید پر بالآخر پاکستانی حکمرانوں کو بھی تعلیم کی اہمیت کا کچھ ادراک ہوا ہے جس کی بناء پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے حالیہ بجٹ میں تعلیم کے لئے مختص رقم میں واضح اضافہ کیا ہے۔ آئیے اب تعلیمی بجٹ کی تفصیلات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
وفاق کا تعلیمی بجٹ
مسلم لیگ ن کی حکومت نے تعلیم کے فروغ کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ حالیہ وفاقی بجٹ میں57 ارب 4کروڑ روپے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لئے مختص کئے گئے ہیں جو کُل تعلیمی بجٹ کا 85 فیصد بنتا ہے، باقی 15 فیصد فیڈرل ایریا کے سکولز اور کالجز پر لگایا جائے گا۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے رواں مالی سال میں 18 ارب 4 کروڑ رکھے گئے جبکہ گزشتہ سال یہ رقم 15 ارب 8کروڑ تھے۔ ہائیر ایجوکیشن میں انرولمنٹ کی شرح 14فیصد تک بڑھانے کی غرض سے 39 ارب روپے رکھے گئے۔ 2 ہزار مزید طلبہ کو سکالر شپ دیئے جائیں گے جس سے سکالر شپ حاصل کرنیوالے 4249طلبہ کی تعداد6249پر پہنچ جائے گی۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کی ترقی کے لئے متعدد اقدامات بھی بجٹ میں تجویز کئے گئے ہیں جن میں نئے تعلیمی اداروں کا قیام، ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ترقی اور موجودہ سہولیات کی بہتری شامل ہیں۔
اسلام آباد، آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ میں ایچ ای سی سے منسلک تعلیمی اداروں میں یوتھ لیپ ٹاپ سکیم شروع کرنے کے لئے3 سو ملین مختص کئے گئے ہیں۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت ملتان میں خواتین یونیورسٹی بنانے کے لئے370 ملین جبکہ جلوزئی خیبر پختونخوا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے نئے کیمپس کی تعمیر کے لئے7 سو ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ فاٹا کے طلبہ کے لئے250 ملین روپے مختص کئے گئے۔ پلاننگ کمیشن نے یو ای ٹی لاہور کے لئے 650 ملین روپے کی منظوری دی ہے۔ وزیر اعظم یوتھ ٹریننگ پروگرام کے تحت بے روزگار نوجوانوں کو خاص طور پر تربیت فراہم کی جائے گی۔ 25 سال تک کے ماسٹر ڈگری ہولڈرز کو 10 ہزار روپے ماہانہ بھی دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اہل ثروت طبقے کو اخراجات کی بنیاد پر ٹیکس لگانے کیلئے کسی تعلیمی ادارے کو ادا کی جانیوالی 2 لاکھ روپے تک سالانہ فیس پر 5 فیصد تک ایڈجسٹ ایبل ود ہولڈنگ ٹیکس بھی لگایا گیا ہے۔
پنجاب میں تعلیم اولین ترجیح
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت نے897 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں سے مجموعی طور پر 238 ارب روپے شعبہ تعلیم کے لئے مختص کئے گئے جو کُل بجٹ کا26.5 فیصد بنتا ہے۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لئے مختص 290 ارب میں سے 25 ارب روپے شعبہ تعلیم کے ترقیاتی کاموں کے لئے ہوں گے جو پروگرام کے لئے مختص کُل رقم کا 9 فیصد ہے۔ سکول ایجوکیشن کے لئے مجموعی طور پر 15ارب5کروڑ مختص کئے گئے جس میں سے 71 کروڑ90 لاکھ روپے جاری جبکہ 14 ارب 78 کروڑ نئی سکیموں پر خرچ ہوں گے۔ 25 سو پرائمری سکولوں میں سہولیات کی فراہمی پر 7 ارب 5 کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے۔ فروغ تعلیم کیلئے 2 ارب، 6 نئے دانش سکولوں کی تعمیر کیلئے 3 ارب، مستحق طلباء کی امداد کیلئے 2 ارب، درسی کتب کی مفت فراہمی کیلئے 3 ارب 30 کروڑ، ہائی سکولز میں سائنس لیبارٹریز کیلئے 1 ارب پچاس کروڑ رکھے گئے۔
ہائر ایجوکیشن کیلئے 6 ارب 67 کروڑ روپے مختص کئے گئے جو یونیورسٹیز اور کالجز کے قیام، تعلیمی اداروں کی اپ گریڈیشن سمیت دیگر سہولیات پر خرچ کئے جائیں گے۔ پنجاب حکومت 2013-14ء کے دوران صوبہ بھر میں31 نئے کالجز، لاہور میں آئی ٹی اور تین شہروں (سیالکوٹ، ملتان اور بہاولپور) میں خواتین یونیورسٹیز کے قیام کی خواہاں ہے۔ سپیشل ایجوکیشن کے بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت63 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور رواں مالی سال اس شعبہ کیلئے ایک ارب40 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو گزشتہ سال70 کروڑ تھے۔ رواں مالی سال کے دوران 905 ملین نئی جبکہ 235ملین روپے جاری سکیموں پر لگائے جائیں گے۔
لٹریسی اور نان فارمل بنیادی تعلیم کے بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت 75 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور اس بار ایک ارب60 کروڑ روپے اس مقصد کے لئے رکھے گئے ہیں۔ صوبائی حکومت کا دعوی ہے کہ رواں مالی سال11 اضلاع میں ایک ہزار نان فارمل بنیادی تعلیم سکول اور 5 سو کمیونٹی سنٹرز قائم کئے جائیں گے۔ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کیلئے 7 ارب 50 کروڑ، چیف منسٹر اجالا سکیم کیلئے ایک ارب اور لیپ ٹاپ سکیم کیلئے 4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انٹرن شپ پروگرام کیلئے ایک ارب 50 کروڑ رکھے گئے۔ 5 ہزار سے زائد فیس وصول کرنے والے غیر سرکاری سکول 10 فیصد غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کریں گے اور اس کو عملی شکل دینے کے لئے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کی جائے گی۔
سندھ میں تعلیم تیسری ترجیح
سندھ کی صوبائی حکومت نے تعلیم کو تیسری ترجیح دیتے ہوئے اپنے بجٹ کے کُل حجم میں سے21.4 فیصد حصہ اس شعبہ کے لئے مختص کیا ہے جو گزشتہ سال کی نسبت 60 فیصد زیادہ ہے۔ 617 ارب کے بجٹ میں سے 132 ارب 2 کروڑ روپے شعبہ تعلیم کی بہتری پر خرچ کئے جائیں گے۔ حکومت نے داخلہ کی شرح میں اضافہ کے لئے سندھ ایجوکیشن ریفارمز پروگرام کا بھی اعلان کیا ہے جس کے لئے ورلڈ بنک 4 سال (جون 2017ء تک) کے لئے4 سو ملین ڈالر فراہم کرے گا۔ سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے لئے 2 ارب 2 کروڑ روپے رکھے گئے۔ حکومت کمپیوٹرائزڈ ایجوکیشن مینجمنٹ سسٹم پر 5 سو ملین خرچ کرے گی اور ہر ضلع میں ایک کمپری ہینسو سکول بھی قائم کیا جائے گا۔ خیرپور، لاڑکانہ اور ہالہ میں انجینئرنگ جبکہ دادو اور لیاری میں لاء کالج بنائے جائیںگے۔ نوڈیرو میں ویمن ڈگری کالج کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ شہید بے نظیر آباد میں لڑکیوں جبکہ دادو، مٹھی اور خیرپور میں لڑکوں کے لئے کیڈٹ کالجز بنائے جائیں گے۔
خیبرپختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار خیبرپختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ 344 ارب روپے کے ٹیکس فری بجٹ میں تقریباً 19.2 فیصد حصہ شعبہ تعلیم پر خرچ کیا جائے گا جو 66ارب4کروڑبنتا ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں گزشتہ مالی برس اے این پی کی حکومت نے تعلیم کے لئے صرف 6 ارب 7 کروڑ روپے مختص کئے تھے۔ صوبے میں شعبہ تعلیم کی بدحالی کی بڑی وجہ کمزور مانیٹرنگ سسٹم ہے۔ بجٹ میں سکولز و کالجز میں جدید مانیٹرنگ سسٹم بنانے کے لئے6 سو ملین روپے رکھے گئے۔ مزید برآں تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کے لئے5 سو غیرجانبدار مانیٹرز بھی بھرتی کئے جائیں گے۔
ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے۔ غیر مقامی خواتین معلمات کو ٹرانسپورٹ الائونس دینے کے لئے15 ملین رکھے گئے ہیں۔ صنعتوں کے رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے تیکنیکی تعلیم اور ٹیکنالوجیز کے حوالے سے طلباء کو تربیت دینے کے لئے ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن اینڈ سکل ڈیویلپمنٹ کمپنی قائم کی جائے گی جبکہ 10 کروڑ روپے سے فنڈ بھی قائم کیا جائے گا، جس میں 18 سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں کو تکنیکی تربیت کی فراہمی کے علاوہ ماہوار وظیفہ بھی دیاجائے گا۔
پشاور میں ٹیکنیکل یونیورسٹی اور بونیر میں ماربل سٹی قائم کیاجائے گا۔ اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں، ایکسی لینس مراکز اور جامعات کیاہم شعبہ جات میں مستحق طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے اضافی نشستیں اور وظائف مختص کیے جائیں گے، جس کیلئے 50 کروڑ روپے سے وزیراعلیٰ انڈومنٹ فنڈ قائم کیاجارہا ہے۔ ''اقراء فروغ تعلیم سکیم'' کے تحت غریبوں کے بچوں کو منتخب کردہ 100 نجی سکولوں میں پرائمری، مڈل و سیکنڈری سطح کی جماعتوں میں داخلے اور فیس کے لئے وائوچر جاری کیے جائیں گے جس کے لیے 5 سو ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ایجوکیشن فائونڈیشن کی طرز پر سکول فنڈ بھی قائم کیاجائے گا جس کیلئے 50 کروڑ روپے رکھے جارہے ہیں جس سے ایسے علاقے جہاں سرکاری سکولوں کا قیام مشکل ہے، وہاں پر نجی سیکٹر کو سکول قائم کرنے میں مدد دی جائے گی۔
بلوچستان کے تعلیمی بجٹ میں کثیر اضافہ
بلوچستان کی صوبائی حکومت نے مالی سال 2013-14ء کے لئے198 ارب 39 کروڑ 50 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں شعبہ تعلیم کیلئے گزشتہ مالی سال کی نسبت 42 فیصد اضافہ کے ساتھ 34 ارب روپے رکھے گئے جو کُل بجٹ کا تقریباً 17.20 فیصد بنتا ہے۔44 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں بھی سب سے زیادہ تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیئے جانے کے ساتھ صوبے میں3 مزید میڈیکل کالج بنائے جائیں گے۔ ذہین طلبہ کو سکالر شپ دینے کے لئے5 ارب روپے رکھے گئے جبکہ طالبات کی حوصلہ افزائی کے لئے صوبہ میں گرلز بورڈنگ سکولز بھی بنائے جائیں گے۔3 سو نئے پرائمری سکولز تعمیر کیے جائیں گے جس کیلئے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تین سو پرائمری سکولوں کو مِڈل کا درجہ دیا جائے گا اور اِس مد میں ڈیڑھ ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ150مِڈل سکولوں کو ہائی کا درجہ دینے کیلئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر تعلیمی بجٹ میں اضافہ خوش آئند ہے لیکن صرف پیسے سے کوئی بھی شعبہ یا ملک ترقی نہیں کر سکتا، اس مقصد کیلئے جذبہ، خلوص اور درست سمت میں سفر ضروری ہے۔ بجٹ میں تعلیمی اداروں کی تعمیر اور طلبہ کو وظائف دینے کے لئے اربوں روپے رکھے گئے اور ان کے گُن گائے جا رہے لیکن زبان، نصاب تعلیم، طلبہ کی رہنمائی اور پرائمری ایجوکیشن کو مطلوبہ اہمیت نہیں دی گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سے ممالک میں تعلیم اپنی زبان میں ہے۔ سب سے بڑی مثال جاپان کی ہے جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے سانحہ کے بعد امریکہ کا ہر مطالبہ تسلیم کیا لیکن جب بات زبان کی آئی تو انہوں نے امریکہ کے سارے مطالبات ایک طرف اور تعلیم اپنی زبان میں جاری رکھنے کا اپنا مطالبہ دوسری طرف رکھ دیا۔ آج جاپان کی شرح خواندگی، اقتصادی و معاشی ترقی دنیا کیلئے ایک روشن مثال ہے۔ قابل افسوس امر تو یہ ہے کہ ابھی تک ہم زبان پر بھی متفق نہیں ہو سکے۔
دوسرا اہم مسئلہ یکساں نصاب تعلیم ہے، ہمارے ملک میں 20 سے زائد مختلف نصاب پڑھائے جا رہے ہیں۔ پبلک سیکٹر، مدرسہ ایجوکیشن اور پرائیویٹ سکولوں کا اپنا اپنا نصاب ہے بلکہ پرائیویٹ اداروں میں تو مزید نصابوں کا ایک جال ہے۔ ایک سکول میں آکسفورڈ ہے تو دوسرے میں امریکن نصاب۔ اگرچہ ہر تعلیمی پالیسی میں یکساں نصاب کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا تاہم عملی طور پر ابھی تک اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بچوں کی تعلیمی رہنمائی سے متعلق تاحال کوئی مستند ادارہ معرض وجود میں نہیں آسکا جو ہمارے نظام تعلیم کی بہت بڑی خامی ہے۔ پرائمری تعلیم اور اساتذہ کی تربیت اس شعبہ کی بنیاد ہے جس کی مضبوطی کے بغیر یہ عمارت کبھی کھڑی ہی نہیں ہو پائے گی۔ وزیراعلیٰ اور گورنرہائوسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے کے وعدے اور دعوے تو پورے نہ کئے جا سکے تاہم خدارا!نظام تعلیم کی بہتری کے لئے نمائش سے ہی بچا جائے۔
نت نئی قومی تعلیمی پالیسیاں، بین الاقوامی پروگرامز برائے تعلیم، ایجوکیشن کانفرنسز اور مذاکرے اس شعبہ کے لئے کبھی آب حیات نہ بن سکے۔ ملک میں 25 ملین یعنی اڑھائی کروڑ بچے سکول ہی نہیں جا پاتے اور جو جاتے ہیں ان میں سے تقریباً نصف پرائمری کے بعد ہی تعلیم کو خدا حافظ کہہ دیتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے ہاں شرح خواندگی کے اعداد و شمار کبھی تسلی بخش قرار نہیں پائے۔ حال ہی میں جاری ہونے والے اقتصادی سروے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 58 فیصد آبادی خواندہ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بچوں کو سکول میں داخل کروانے کی شرح 60 فیصد جبکہ بلوچستان میں یہ شرح صرف 39 فیصد ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں پانچویں جماعت کے تقریباً آدھے بچے دوسری جماعت میں پڑھائی جانے والی اردو تک نہیں پڑھ سکتے۔
قابل غور امر یہ ہے کہ سرکاری رپورٹ کے مطابق ہمارے شعبہ تعلیم کا یہ عالم ہے جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے اعدادوشمار تو کہیں نیچے ہیں اور یہاں ہر اس شخص کو خواندہ تسلیم کیا جاتا ہے جو کسی بھی زبان کا ایک اخبار پڑھ لے یا سادہ زبان میں خط لکھ سکے۔ پوری دنیا میں خواندگی کی شرح اگر دیکھی جائے تو یورپی ممالک سب سے آگے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں ہمارے پڑوسی بھارت میں خواندگی کی شرح 74 جبکہ چین کی شرح خواندگی 93 فیصد ہے جو پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا۔ بہرحال ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تنقید پر بالآخر پاکستانی حکمرانوں کو بھی تعلیم کی اہمیت کا کچھ ادراک ہوا ہے جس کی بناء پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے حالیہ بجٹ میں تعلیم کے لئے مختص رقم میں واضح اضافہ کیا ہے۔ آئیے اب تعلیمی بجٹ کی تفصیلات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
وفاق کا تعلیمی بجٹ
مسلم لیگ ن کی حکومت نے تعلیم کے فروغ کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ حالیہ وفاقی بجٹ میں57 ارب 4کروڑ روپے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لئے مختص کئے گئے ہیں جو کُل تعلیمی بجٹ کا 85 فیصد بنتا ہے، باقی 15 فیصد فیڈرل ایریا کے سکولز اور کالجز پر لگایا جائے گا۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے رواں مالی سال میں 18 ارب 4 کروڑ رکھے گئے جبکہ گزشتہ سال یہ رقم 15 ارب 8کروڑ تھے۔ ہائیر ایجوکیشن میں انرولمنٹ کی شرح 14فیصد تک بڑھانے کی غرض سے 39 ارب روپے رکھے گئے۔ 2 ہزار مزید طلبہ کو سکالر شپ دیئے جائیں گے جس سے سکالر شپ حاصل کرنیوالے 4249طلبہ کی تعداد6249پر پہنچ جائے گی۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کی ترقی کے لئے متعدد اقدامات بھی بجٹ میں تجویز کئے گئے ہیں جن میں نئے تعلیمی اداروں کا قیام، ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ترقی اور موجودہ سہولیات کی بہتری شامل ہیں۔
اسلام آباد، آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ میں ایچ ای سی سے منسلک تعلیمی اداروں میں یوتھ لیپ ٹاپ سکیم شروع کرنے کے لئے3 سو ملین مختص کئے گئے ہیں۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت ملتان میں خواتین یونیورسٹی بنانے کے لئے370 ملین جبکہ جلوزئی خیبر پختونخوا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے نئے کیمپس کی تعمیر کے لئے7 سو ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ فاٹا کے طلبہ کے لئے250 ملین روپے مختص کئے گئے۔ پلاننگ کمیشن نے یو ای ٹی لاہور کے لئے 650 ملین روپے کی منظوری دی ہے۔ وزیر اعظم یوتھ ٹریننگ پروگرام کے تحت بے روزگار نوجوانوں کو خاص طور پر تربیت فراہم کی جائے گی۔ 25 سال تک کے ماسٹر ڈگری ہولڈرز کو 10 ہزار روپے ماہانہ بھی دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اہل ثروت طبقے کو اخراجات کی بنیاد پر ٹیکس لگانے کیلئے کسی تعلیمی ادارے کو ادا کی جانیوالی 2 لاکھ روپے تک سالانہ فیس پر 5 فیصد تک ایڈجسٹ ایبل ود ہولڈنگ ٹیکس بھی لگایا گیا ہے۔
پنجاب میں تعلیم اولین ترجیح
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت نے897 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں سے مجموعی طور پر 238 ارب روپے شعبہ تعلیم کے لئے مختص کئے گئے جو کُل بجٹ کا26.5 فیصد بنتا ہے۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لئے مختص 290 ارب میں سے 25 ارب روپے شعبہ تعلیم کے ترقیاتی کاموں کے لئے ہوں گے جو پروگرام کے لئے مختص کُل رقم کا 9 فیصد ہے۔ سکول ایجوکیشن کے لئے مجموعی طور پر 15ارب5کروڑ مختص کئے گئے جس میں سے 71 کروڑ90 لاکھ روپے جاری جبکہ 14 ارب 78 کروڑ نئی سکیموں پر خرچ ہوں گے۔ 25 سو پرائمری سکولوں میں سہولیات کی فراہمی پر 7 ارب 5 کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے۔ فروغ تعلیم کیلئے 2 ارب، 6 نئے دانش سکولوں کی تعمیر کیلئے 3 ارب، مستحق طلباء کی امداد کیلئے 2 ارب، درسی کتب کی مفت فراہمی کیلئے 3 ارب 30 کروڑ، ہائی سکولز میں سائنس لیبارٹریز کیلئے 1 ارب پچاس کروڑ رکھے گئے۔
ہائر ایجوکیشن کیلئے 6 ارب 67 کروڑ روپے مختص کئے گئے جو یونیورسٹیز اور کالجز کے قیام، تعلیمی اداروں کی اپ گریڈیشن سمیت دیگر سہولیات پر خرچ کئے جائیں گے۔ پنجاب حکومت 2013-14ء کے دوران صوبہ بھر میں31 نئے کالجز، لاہور میں آئی ٹی اور تین شہروں (سیالکوٹ، ملتان اور بہاولپور) میں خواتین یونیورسٹیز کے قیام کی خواہاں ہے۔ سپیشل ایجوکیشن کے بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت63 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور رواں مالی سال اس شعبہ کیلئے ایک ارب40 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو گزشتہ سال70 کروڑ تھے۔ رواں مالی سال کے دوران 905 ملین نئی جبکہ 235ملین روپے جاری سکیموں پر لگائے جائیں گے۔
لٹریسی اور نان فارمل بنیادی تعلیم کے بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت 75 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور اس بار ایک ارب60 کروڑ روپے اس مقصد کے لئے رکھے گئے ہیں۔ صوبائی حکومت کا دعوی ہے کہ رواں مالی سال11 اضلاع میں ایک ہزار نان فارمل بنیادی تعلیم سکول اور 5 سو کمیونٹی سنٹرز قائم کئے جائیں گے۔ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کیلئے 7 ارب 50 کروڑ، چیف منسٹر اجالا سکیم کیلئے ایک ارب اور لیپ ٹاپ سکیم کیلئے 4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انٹرن شپ پروگرام کیلئے ایک ارب 50 کروڑ رکھے گئے۔ 5 ہزار سے زائد فیس وصول کرنے والے غیر سرکاری سکول 10 فیصد غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کریں گے اور اس کو عملی شکل دینے کے لئے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کی جائے گی۔
سندھ میں تعلیم تیسری ترجیح
سندھ کی صوبائی حکومت نے تعلیم کو تیسری ترجیح دیتے ہوئے اپنے بجٹ کے کُل حجم میں سے21.4 فیصد حصہ اس شعبہ کے لئے مختص کیا ہے جو گزشتہ سال کی نسبت 60 فیصد زیادہ ہے۔ 617 ارب کے بجٹ میں سے 132 ارب 2 کروڑ روپے شعبہ تعلیم کی بہتری پر خرچ کئے جائیں گے۔ حکومت نے داخلہ کی شرح میں اضافہ کے لئے سندھ ایجوکیشن ریفارمز پروگرام کا بھی اعلان کیا ہے جس کے لئے ورلڈ بنک 4 سال (جون 2017ء تک) کے لئے4 سو ملین ڈالر فراہم کرے گا۔ سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے لئے 2 ارب 2 کروڑ روپے رکھے گئے۔ حکومت کمپیوٹرائزڈ ایجوکیشن مینجمنٹ سسٹم پر 5 سو ملین خرچ کرے گی اور ہر ضلع میں ایک کمپری ہینسو سکول بھی قائم کیا جائے گا۔ خیرپور، لاڑکانہ اور ہالہ میں انجینئرنگ جبکہ دادو اور لیاری میں لاء کالج بنائے جائیںگے۔ نوڈیرو میں ویمن ڈگری کالج کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ شہید بے نظیر آباد میں لڑکیوں جبکہ دادو، مٹھی اور خیرپور میں لڑکوں کے لئے کیڈٹ کالجز بنائے جائیں گے۔
خیبرپختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار خیبرپختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ 344 ارب روپے کے ٹیکس فری بجٹ میں تقریباً 19.2 فیصد حصہ شعبہ تعلیم پر خرچ کیا جائے گا جو 66ارب4کروڑبنتا ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں گزشتہ مالی برس اے این پی کی حکومت نے تعلیم کے لئے صرف 6 ارب 7 کروڑ روپے مختص کئے تھے۔ صوبے میں شعبہ تعلیم کی بدحالی کی بڑی وجہ کمزور مانیٹرنگ سسٹم ہے۔ بجٹ میں سکولز و کالجز میں جدید مانیٹرنگ سسٹم بنانے کے لئے6 سو ملین روپے رکھے گئے۔ مزید برآں تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کے لئے5 سو غیرجانبدار مانیٹرز بھی بھرتی کئے جائیں گے۔
ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے۔ غیر مقامی خواتین معلمات کو ٹرانسپورٹ الائونس دینے کے لئے15 ملین رکھے گئے ہیں۔ صنعتوں کے رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے تیکنیکی تعلیم اور ٹیکنالوجیز کے حوالے سے طلباء کو تربیت دینے کے لئے ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن اینڈ سکل ڈیویلپمنٹ کمپنی قائم کی جائے گی جبکہ 10 کروڑ روپے سے فنڈ بھی قائم کیا جائے گا، جس میں 18 سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں کو تکنیکی تربیت کی فراہمی کے علاوہ ماہوار وظیفہ بھی دیاجائے گا۔
پشاور میں ٹیکنیکل یونیورسٹی اور بونیر میں ماربل سٹی قائم کیاجائے گا۔ اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں، ایکسی لینس مراکز اور جامعات کیاہم شعبہ جات میں مستحق طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے اضافی نشستیں اور وظائف مختص کیے جائیں گے، جس کیلئے 50 کروڑ روپے سے وزیراعلیٰ انڈومنٹ فنڈ قائم کیاجارہا ہے۔ ''اقراء فروغ تعلیم سکیم'' کے تحت غریبوں کے بچوں کو منتخب کردہ 100 نجی سکولوں میں پرائمری، مڈل و سیکنڈری سطح کی جماعتوں میں داخلے اور فیس کے لئے وائوچر جاری کیے جائیں گے جس کے لیے 5 سو ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ایجوکیشن فائونڈیشن کی طرز پر سکول فنڈ بھی قائم کیاجائے گا جس کیلئے 50 کروڑ روپے رکھے جارہے ہیں جس سے ایسے علاقے جہاں سرکاری سکولوں کا قیام مشکل ہے، وہاں پر نجی سیکٹر کو سکول قائم کرنے میں مدد دی جائے گی۔
بلوچستان کے تعلیمی بجٹ میں کثیر اضافہ
بلوچستان کی صوبائی حکومت نے مالی سال 2013-14ء کے لئے198 ارب 39 کروڑ 50 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں شعبہ تعلیم کیلئے گزشتہ مالی سال کی نسبت 42 فیصد اضافہ کے ساتھ 34 ارب روپے رکھے گئے جو کُل بجٹ کا تقریباً 17.20 فیصد بنتا ہے۔44 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں بھی سب سے زیادہ تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیئے جانے کے ساتھ صوبے میں3 مزید میڈیکل کالج بنائے جائیں گے۔ ذہین طلبہ کو سکالر شپ دینے کے لئے5 ارب روپے رکھے گئے جبکہ طالبات کی حوصلہ افزائی کے لئے صوبہ میں گرلز بورڈنگ سکولز بھی بنائے جائیں گے۔3 سو نئے پرائمری سکولز تعمیر کیے جائیں گے جس کیلئے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تین سو پرائمری سکولوں کو مِڈل کا درجہ دیا جائے گا اور اِس مد میں ڈیڑھ ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ150مِڈل سکولوں کو ہائی کا درجہ دینے کیلئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر تعلیمی بجٹ میں اضافہ خوش آئند ہے لیکن صرف پیسے سے کوئی بھی شعبہ یا ملک ترقی نہیں کر سکتا، اس مقصد کیلئے جذبہ، خلوص اور درست سمت میں سفر ضروری ہے۔ بجٹ میں تعلیمی اداروں کی تعمیر اور طلبہ کو وظائف دینے کے لئے اربوں روپے رکھے گئے اور ان کے گُن گائے جا رہے لیکن زبان، نصاب تعلیم، طلبہ کی رہنمائی اور پرائمری ایجوکیشن کو مطلوبہ اہمیت نہیں دی گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سے ممالک میں تعلیم اپنی زبان میں ہے۔ سب سے بڑی مثال جاپان کی ہے جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے سانحہ کے بعد امریکہ کا ہر مطالبہ تسلیم کیا لیکن جب بات زبان کی آئی تو انہوں نے امریکہ کے سارے مطالبات ایک طرف اور تعلیم اپنی زبان میں جاری رکھنے کا اپنا مطالبہ دوسری طرف رکھ دیا۔ آج جاپان کی شرح خواندگی، اقتصادی و معاشی ترقی دنیا کیلئے ایک روشن مثال ہے۔ قابل افسوس امر تو یہ ہے کہ ابھی تک ہم زبان پر بھی متفق نہیں ہو سکے۔
دوسرا اہم مسئلہ یکساں نصاب تعلیم ہے، ہمارے ملک میں 20 سے زائد مختلف نصاب پڑھائے جا رہے ہیں۔ پبلک سیکٹر، مدرسہ ایجوکیشن اور پرائیویٹ سکولوں کا اپنا اپنا نصاب ہے بلکہ پرائیویٹ اداروں میں تو مزید نصابوں کا ایک جال ہے۔ ایک سکول میں آکسفورڈ ہے تو دوسرے میں امریکن نصاب۔ اگرچہ ہر تعلیمی پالیسی میں یکساں نصاب کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا تاہم عملی طور پر ابھی تک اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بچوں کی تعلیمی رہنمائی سے متعلق تاحال کوئی مستند ادارہ معرض وجود میں نہیں آسکا جو ہمارے نظام تعلیم کی بہت بڑی خامی ہے۔ پرائمری تعلیم اور اساتذہ کی تربیت اس شعبہ کی بنیاد ہے جس کی مضبوطی کے بغیر یہ عمارت کبھی کھڑی ہی نہیں ہو پائے گی۔ وزیراعلیٰ اور گورنرہائوسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے کے وعدے اور دعوے تو پورے نہ کئے جا سکے تاہم خدارا!نظام تعلیم کی بہتری کے لئے نمائش سے ہی بچا جائے۔