شب برأت میں معمولاتِ نبویﷺ
یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ شبِ برات کی اس قدر فضیلت و اہمیت اور برکت وسعادت کے باوجود ہم یہ مقدس رات بھی توہمات۔۔۔
امام ترمذی ''السنن'' میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں ایک رات میں نے حضور نبی اکرمؐ کو (بستر مبارک پر) موجود نہ پایا تو میں آپؐ کی تلاش میں نکلی۔
کیا دیکھتی ہوں کہ آپؐ (مدینہ منورہ کے قبرستان) جنت البقیع میں موجود ہیں۔ آپؐ نے (مجھے دیکھ کر) فرمایا: ''اے عائشہ! کیا تم اس با ت کا خوف رکھتی ہوکہ اللہ اور اس کے رسولؐ تمھارے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی نا انصافی کریں گے۔'' میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: '' شعبان کی پندرہویں شب اللہ تبارک وتعالیٰ آسمان دنیا کی طرف ایک خاص شان کے ساتھ نازل ہوتا ہے، اور (عرب میں سب سے زیادہ بکریاں رکھنے والے) قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کو بخشتا ہے۔
امام ابن ماجہ ''السنن'' میں حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: '' جب شعبان کی پندرہویں شب آئے، تو اس رات قیام کیا کرو اور دن میں روزہ رکھا کرو۔ اس رات غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان قدرت کے ساتھ) نزولِ اِجلال فرماتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے گناہوں کی معافی مانگنے والا سو میں اسے معاف کردوں، ہے کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کے رزق میں وسعت پیدا کر دوں، ہے کوئی مصائب و آلام میں مبتلا شخص کہ مجھ سے مانگے سو میں اسے عافیت عطا کر دوں، ہے کوئی ایسا شخص ، کوئی ایسا شخص ہے، کوئی ایسا شخص ہے (ساری رات اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا رہتا ہے اور اپنی عطا و سخا کے دامن کو پھیلائے رکھتا ہے) حتیٰ کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔
دوستو! آج کی رات جب رحمت الہٰی کا سمندر طغیانی پہ ہو تو ہمیں بھی خلوص دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے کیوں کہ اس وقت رحمت الہٰی پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی ہے بخشش مانگنے والا کہ اسے بخش دوں، کوئی ہے رزق کا طلب گار کہ میں اس کا دامن مراد بھردوں۔ امام ابن ماجہ ''السنن'' میں حدیث بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ سے بہترین دعا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا: ترجمہ: '' اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ پس اے بخشنے والے! ہمیں بھی بخش دے۔''
یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ شبِ برات کی اس قدر فضیلت و اہمیت اور برکت وسعادت کے باوجود ہم یہ مقدس رات بھی توہمات اور فضول رسومات کی نذر کر دیتے ہیں اور اس رات میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہو کر اسے کھیل کود اور آتش بازی میں گزار دیتے ہیں۔ من حیث القوم آج ہم جس ذلت و رسوائی، بے حسی، بدامنی، خوف و دہشت گردی اور بے برکتی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے چھٹکارے اور نجات کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ساری قوم اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت طلب کرے اور اس رات کو شبِ توبہ اور شبِ دعا کے طور پر منائے۔ آیئے اس غفار، رحمن اور رحیم ربّ کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو بہائیں اور خلوصِ دل سے توبہ کریں، حسبِ توفیق تلاوت کلام پاک کریں، نوافل پڑھیں۔
استغفار اور دیگر مسنون اَذکار کے ساتھ دلوں کی زمین میں بوئی جانے والی فصل تیار کریں اور پھر اسے آنسوؤں کی نہروں سے سیراب کریں تاکہ رمضان المبارک میں معرفت و محبت الہٰی کی کھیتی اچھی طرح نشوونما پاکر تیار ہو سکے۔ قیام اللیل اور روزوں کی کثرت ہی ہمارے دل کی زمین پر اْگی خود رَو جھاڑیوں کو (جو پورا سال دنیاوی معاملات میں غرق رہنے کی وجہ سے حسد، بغض، لالچ، نفرت، تکبر، خودغرضی، ناشکری اور بے صبری کی شکل میں موجود رہتی ہیں) اکھاڑ سکے گی اور ہمارے دل کے اندر ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے کے لیے قبولیت اور انجذاب کا مادہ پیدا ہو گا۔ سو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ماہ شعبان المعظم، عظیم ماہ رمضان المبارک کا ابتدائیہ اور مقدمہ ہے، جس میں ہم خود کو بہتر طور پر آنے والے مقدس مہینے کے لیے تیار کر سکتے ہیں۔
کیا دیکھتی ہوں کہ آپؐ (مدینہ منورہ کے قبرستان) جنت البقیع میں موجود ہیں۔ آپؐ نے (مجھے دیکھ کر) فرمایا: ''اے عائشہ! کیا تم اس با ت کا خوف رکھتی ہوکہ اللہ اور اس کے رسولؐ تمھارے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی نا انصافی کریں گے۔'' میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: '' شعبان کی پندرہویں شب اللہ تبارک وتعالیٰ آسمان دنیا کی طرف ایک خاص شان کے ساتھ نازل ہوتا ہے، اور (عرب میں سب سے زیادہ بکریاں رکھنے والے) قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کو بخشتا ہے۔
امام ابن ماجہ ''السنن'' میں حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: '' جب شعبان کی پندرہویں شب آئے، تو اس رات قیام کیا کرو اور دن میں روزہ رکھا کرو۔ اس رات غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان قدرت کے ساتھ) نزولِ اِجلال فرماتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے گناہوں کی معافی مانگنے والا سو میں اسے معاف کردوں، ہے کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کے رزق میں وسعت پیدا کر دوں، ہے کوئی مصائب و آلام میں مبتلا شخص کہ مجھ سے مانگے سو میں اسے عافیت عطا کر دوں، ہے کوئی ایسا شخص ، کوئی ایسا شخص ہے، کوئی ایسا شخص ہے (ساری رات اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا رہتا ہے اور اپنی عطا و سخا کے دامن کو پھیلائے رکھتا ہے) حتیٰ کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔
دوستو! آج کی رات جب رحمت الہٰی کا سمندر طغیانی پہ ہو تو ہمیں بھی خلوص دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے کیوں کہ اس وقت رحمت الہٰی پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی ہے بخشش مانگنے والا کہ اسے بخش دوں، کوئی ہے رزق کا طلب گار کہ میں اس کا دامن مراد بھردوں۔ امام ابن ماجہ ''السنن'' میں حدیث بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ سے بہترین دعا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا: ترجمہ: '' اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ پس اے بخشنے والے! ہمیں بھی بخش دے۔''
یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ شبِ برات کی اس قدر فضیلت و اہمیت اور برکت وسعادت کے باوجود ہم یہ مقدس رات بھی توہمات اور فضول رسومات کی نذر کر دیتے ہیں اور اس رات میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہو کر اسے کھیل کود اور آتش بازی میں گزار دیتے ہیں۔ من حیث القوم آج ہم جس ذلت و رسوائی، بے حسی، بدامنی، خوف و دہشت گردی اور بے برکتی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے چھٹکارے اور نجات کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ساری قوم اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت طلب کرے اور اس رات کو شبِ توبہ اور شبِ دعا کے طور پر منائے۔ آیئے اس غفار، رحمن اور رحیم ربّ کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو بہائیں اور خلوصِ دل سے توبہ کریں، حسبِ توفیق تلاوت کلام پاک کریں، نوافل پڑھیں۔
استغفار اور دیگر مسنون اَذکار کے ساتھ دلوں کی زمین میں بوئی جانے والی فصل تیار کریں اور پھر اسے آنسوؤں کی نہروں سے سیراب کریں تاکہ رمضان المبارک میں معرفت و محبت الہٰی کی کھیتی اچھی طرح نشوونما پاکر تیار ہو سکے۔ قیام اللیل اور روزوں کی کثرت ہی ہمارے دل کی زمین پر اْگی خود رَو جھاڑیوں کو (جو پورا سال دنیاوی معاملات میں غرق رہنے کی وجہ سے حسد، بغض، لالچ، نفرت، تکبر، خودغرضی، ناشکری اور بے صبری کی شکل میں موجود رہتی ہیں) اکھاڑ سکے گی اور ہمارے دل کے اندر ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے کے لیے قبولیت اور انجذاب کا مادہ پیدا ہو گا۔ سو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ماہ شعبان المعظم، عظیم ماہ رمضان المبارک کا ابتدائیہ اور مقدمہ ہے، جس میں ہم خود کو بہتر طور پر آنے والے مقدس مہینے کے لیے تیار کر سکتے ہیں۔