سیاسی طاقت اقوام کی علمی برتری کا ذریعہ بھی ہوتی ہے پروفیسر خادم علی ہاشمی

ضروری نہیں ہر سائنسی اصطلاح کا اردو ترجمہ کیا جائے‘ معروف ماہر تعلیم‘ مصنف پروفیسر خادم علی ہاشمی سے مکالمہ

ضروری نہیں ہر سائنسی اصطلاح کا اردو ترجمہ کیا جائے‘ معروف ماہر تعلیم‘ مصنف پروفیسر خادم علی ہاشمی سے مکالمہ۔ فوٹو: فائل

''عہد وسطی جو مسلمانوں کی غیر معمولی علمی ترقی کے حوالے سے تاریخ میں پہچانا جاتا ہے' اُس میں سامنے آنے والی کم و بیش سب عظیم شخصیات قاموسی ذہن کی مالک تھیں، قاموسی ذہن کی دلچسپیوں کا دائرہ غیر معمولی حد تک وسیع تھا۔'' یہ چند لائنیں پروفیسر خادم علی ہاشمی کی کتاب ''البیرونی'' پر تحریر کردہ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے دیباچہ میں شامل ہیں۔

مسلم سائنسدانوں ، مفکرین اور فلاسفرز کے غیر معمولی کارناموں پر کام کرنے کیلئے ایسی ہی قاموسی ذہنیت درکار تھی اور پروفیسر خادم علی ہاشمی نے یہ کارمشکل اپنی صلاحیتوں سے آسان کردکھایا ہے' ان کی تصانیف مسلمانوں کے درخشاں علمی عہد کی طرف کھلنے والا دریچہ ہے جہاں عمر خیام، الکندی، المسکویہ، البیرونی و دیگر مسلم مفکرین اپنے پورے قد کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ فزکس کے استاد کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے پروفیسر خادم علی ہاشمی زندگی بھر علم کے فروغ کیلئے کوشاں رہے۔

ٹیکسٹ بکس کی تیاری سے لے کر ایجوکیشنل ٹیکنالوجی تک ان کی مہارت اور خدمات کے بہت سے پہلو ہیں۔ استاذ الاساتذہ پروفیسر خادم علی ہاشمی حیدر آباد، لاڑکانہ، لاہور اور ملتان کے علاوہ افریقی ملک گھانا میں بھی علم کے موتی بانٹتے رہے۔ سائنسی موضوعات پر سیکڑوں مضامین تحریر کئے، تراجم کئے، عرب فلسفی یعقوب الکندی پر اُردو میں اولین کتاب مرتب کی۔ ورلڈ بینک اور یونیسکو کے تعلیمی پراجیکٹ کا بطور کنسلٹنٹ حصہ رہے۔ طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد نے بھی ان کی زیر نگرانی علمی مدارج طے کئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے علمی کاموں میں مصروف رہے ۔ آئیے ان کی جیون کہانی کی طرف بڑھتے ہیں:

ان کاخاندان قریباً دو صدیاں پیشتر گجرات، وزیر آباد سے نواب شجاع خان کے عہد میں شجاع آباد منتقل ہوا' شجاع آباد میں ان کا گھر بھی گورنر ملتان نواب مظفر خان کے محل کے قریب ہی تھا۔ دادا سرکاری ملازم تھے' والد بھی فوڈ گرین کے محکمہ میں رہے' ایک تایا نے 1918ء میں بی اے کیا' چچا نے 1938ء میں دہلی طبیہ کالج سے سند فراغت حاصل کی' حکیم سعید کے کلاس فیلو تھے۔ خاندان میں تین چار نسلوں سے جدید تعلیم کی روایت چلی آرہی ہے۔

پروفیسر خادم علی ہاشمی اسی علمی گھرانے میں 9 اگست 1933ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مختلف شہروں سے حاصل کی' جہانیاں سے میٹرک کرنے کے بعد ایس ای کالج بہاولپور میں داخل ہوئے' تاہم ایف ایس سی اور بی ایس سی گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے کی۔ 1955ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم ایس سی فزکس کیا' رزلٹ آنے سے پہلے ہی انہیں بی ایس سی کی بنیاد پر منگلا ڈیم پراجیکٹ، جس کی ابھی ابتداء بھی نہیں ہوئی تھی، کی ریسرچ لیبارٹری میں ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر ملازمت مل گئی۔ ڈیمز انویسٹی گیشن سرکل کے نام سے قائم اس ادارے کے تحت ڈیم کیلئے سائٹس تلاش کی جارہی تھیں' ساتھ ایک سائیل ٹیسٹنگ لیبارٹری بنائی گئی جس میں منتخب کردہ سائٹ کی مٹی کی جانچ کی جاتی' ان کے ذمہ یہ کام تھا کہ یہ مٹی کے کچھ ٹیسٹ لاہور میں کرتے اور کچھ منگلا ڈیم کی سائٹ پر۔

انہوں نے ایک سال یہ ملازمت کی' ایم ایس سی فزکس کا رزلٹ آنے کے بعد بطور لیکچرر فزکس حیدر آباد میں تعینات ہوئے جہاں ان کے بہت سی علمی، ادبی شخصیات سے تعلقات بھی استوار ہوئے۔ 1956ء سے 58ء تک حیدر آباد کالج میں رہے، بعد ازاں ان کے ایک کولیگ پرنسپل بن کر لاڑکانہ گئے تو ان کا تبادلہ بھی لاڑکانہ کرا لیا۔ حیدر آباد میں ان کا زیادہ تعلق شعبہ اردو کے منظر حسین کاظمی سے رہا جو لکھنؤ سے ایم اے اردو کرکے آئے تھے' اسی زمانے میں ان کی معروف شاعر قابل اجمیری سے بھی ملاقات ہوئی جو ان دنوں سخت بیمار تھے اور اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے۔ حمایت علی شاعر اور محسن بھوپالی سے بھی ان کے تعلقات رہے۔

حیدر آباد میں قیام کے دوران پروفیسر خادم علی ہاشمی نے فزکس میں پی ایچ ڈی کے لیے کینیڈا میں اپلائی کیا جس کے لیے ان کی سلیکشن بھی ہوئی لیکن مشرقی پاکستان کے المیے اور ان کے سندھ سے پنجاب تبادلہ کی وجہ سے یہ مزید تعلیم کے لیے بیرون ملک نہ جا سکے۔ اس سے پیشتر حیدر آباد میں قیام کے دوران سندھ یونیورسٹی میں اسٹرانومی کی کلاسز کا اجراء ہوا تو انہوں نے اس میں داخلہ لے لیا لیکن یہ شعبہ سیاست کی نذر ہو گیا اور پاکستان میں فلکیات کے واحد استاد پروفیسر علی مہدی نقوی جو ہاروڈ یونیورسٹی سے فلکیاتی طبیعات میں پی ایچ ڈی تھے کو بھگا دیا گیا' یوں وہ امریکہ چلے گئے اور ناسا میں سینئر سائنٹسٹ ہو گئے۔

1968ء میں پاکستان میں ریاضی اور فزکس کے نئے نصاب بننا شروع ہوئے، معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام ان دنوں حکومت کے سائنس ایڈوائزر تھے۔ پاکستان میں سائنسی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے انہوں نے اس وقت کی حکومت سے خصوصی اجازت لی، میٹرک اور انٹر کی نصاب سازی کے لیے جو کمیٹی بنائی اس میں پروفیسر خدم علی ہاشمی بھی شامل تھے۔

اسی دوران ان کا تبادلہ لاہور ٹیچرز ٹریننگ سنٹر میں ہو گیا جہاں انہوں نے نئے نصاب کے حوالے سے ٹیچرز ٹریننگ بھی شروع کی۔ پروفیسر خادم علی ہاشمی فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے خواہش مند تھے لیکن لاہور ٹیچرز ٹریننگ سنٹر کے ڈائریکٹر نے انہیں کہا آپ ایجوکیشن میں اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ جائیں، 1974ء میں یہ یونیسکو کی فیلو شپ کے لیے منتخب ہوئے' برطانیہ میں ایک ٹرم تو انہوں نے نیو میتھڈ ان فزکس ایجوکیشن میں کی' ایجوکیشنل ٹیکنالوجی کے نان ڈگری پروگرام میں بھی شریک ہوئے اور اس دوران کئی شارٹ کورسز بھی کیئے جن سے سائنسی تعلیم کی بابت ان کا ویژن بڑھا۔

پروفیسر خادم علی ہاشمی برطانیہ سے ٹیچرز ٹریننگ سنٹر لاہور میں واپس آئے تو کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنے شہر شجاع آباد میں ٹرانسفر کرا لی جہاں ان دنوں نیا نیا کالج کھلا تھا۔ بعدازاں لاہور میں 'کریکولم ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر' میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہوئے۔ یہاں انہوں نے بہت سا کام کیا، بطور وائس پرنسپل ٹیچرز ٹریننگ سنٹر لاہور سے بھی وابستہ رہے پھر گورنمنٹ سائنس کالج ملتان میں بطور وائس پرنسپل آئے۔

یہاں پڑھانے کے مواقع کم ہونے کی وجہ گورنمنٹ ایجوکیشن کالج ملتان میں آگئے جہاں انہوں نے ایم ایڈ کی کلاسز شروع کیں۔ پروفیسر خادم ہاشمی ٹیکسٹ بک تیار کرنے والی بہت سی کمیٹیوں میں شامل رہے۔ 64ء سے 76ء تک پہلی سے میٹرک تک ہر درجے کی کتاب میں ان کا لکھا ہوا کوئی نہ کوئی باب شامل رہا۔ لاہور میں قیام کے دوران ہی یہ ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے رجسٹرڈ ہوئے۔ برطانیہ سے آنے کے بعد فرسٹ ایئر کے لیے کتاب لکھی جس میں کچھ اور لوگ بھی بطور ساتھی لکھاری شامل تھے۔

جنرل سائنس کی کتابوں میں بھی ان کے لکھے گئے ابواب شامل ہوئے، جنرل سائنس کے لیے گائیڈ بک بھی لکھی۔ ایف ایس سی کے لیے بھی انہوں نے کتاب لکھی جس میں سول لائنز کالج کے پرنسپل انوار احمد اور خادم حسین سیال بھی ان کے ہمراہ تھے لیکن ٹیکسٹ بک بورڈ نے ان کے ناموں کے ساتھ لاہور کے کچھ نام بھی شامل کر دیئے' یوں انہوں نے ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے کتابیں نہ لکھنے کا فیصلہ کیا۔

وہ جن دنوں شجاع آباد کالج میں وائس پرنسپل تھے، ایک امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر سردار احمد تنویر بین الاقوامی پروگرام کے تحت سائنس پر ایک کتاب لکھنے کے لیے پاکستان آئے، پروفیسر خادم علی ہاشمی نے ان کے ساتھ مل کر کتاب ''سائنس سیکھئے'' لکھی، یہ کتاب چھپ گئی تو سردار احمد تنویر جو اسسٹنٹ پروفیسر تھے' اس کتاب کی بنیاد پر پروفیسر بنا دیئے گئے لیکن ہاشمی صاحب کو ان کی محنت کا صلہ اس انداز میں نہ ملا۔ یہ کتاب جو مڈل اور نویں جماعت کے طلباء کے لیے ہے، نصاب میں پڑھائی جانے والی تھیوری کے عملی پس منظر سے متعارف کراتی ہے' اس کے علاوہ ''اصطلاحات فنیات'' کے نام سے بھی انہوں نے طلباء کی رہنمائی کے لیے ایک کتاب لکھی، مقتدرہ قومی زبان نے بھی ان سے تعلیمی اصطلاحات پر ایک کتاب لکھوائی۔ کہتے ہیں: ''ہم نے حکومتی اداروں کے لیے اس لیے کتابیں لکھیں تاکہ کسی تاجر کی تجوری نہ بھرے اور ہمیں علمی کریڈیٹ ملتا رہے' اس کے باوجود اداروں نے ہمیں بھرپور کریڈٹ نہ دیا۔''

ان کی کتاب ''تعلیمی اصطلاحات'' ایجوکیشن کے حوالے سے ایک ڈکشنری ہے، کہیں کہیں اس میں فزکس، کیمسٹری اور ٹیچنگ میتھڈ پر بھی اصطلاحات ہیں، اس کتاب کے مسودہ کی جانچ کے لیے جو کمیٹی بنی ڈاکٹر اجمل نفسیات والے اس کے چیئرمین تھے۔ سرکاری محکموں کے لیے پروفیسر خادم علی ہاشمی نے اور بھی بہت سارے کام کیے' کریکولم سنٹر کے لیے بھی انہوں نے ایک میگزین، نیوز لیٹر، کئی سال ایڈٹ کیا لیکن یہ ان تمام کتابوں کو اپنی تصانیف میں شمار نہیں کرتے۔ پروفیسر خادم علی ہاشمی نے سائنسی موضوعات پر لکھنے کا آغاز نویں جماعت سے ہی کر دیا تھا' ان کی دلچسپی کا میدان مسلم فلاسفرز اور سائنس دانوں کی خدمات، کارنامے اور ایجادات ہیں، مختلف ادوار کے مسلم سائنس دانوں کی فکر کے یورپ پر اثرات بھی ان کی تحریروں کا موضوع رہا' اس حوالے سے انہوں نے پورے مسلم دور کا احاطہ کیا، ہر اہم سائنس دان، مفکر اور فلسفی کے حالات زندگی اور کارنامے ان کی کتابوں میں شامل ہیں۔


ہم نے ان سے پوچھا طبیعات کے استاد کا دیگر علوم و فنون سے بھی گہرا رشتہ ہوتا ہے تو کہنے لگے: ''اگر آپ فزکس کو ہائر ڈگری پر لے جائیں تو فزکس، فلاسفی اور ریاضی آپس میں مل جاتے ہیں' ہمارے ہاں جو لوگ فزکس میں پی ایچ ڈی کرتے ہیں ان کا علم فزکس کے دائرے میں محدود ہوتا ہے' وہ فلسفہ اور ریاضی کی طرف کم دیکھتے ہیں یا ریاضی کو بطور Tool استعمال کرتے ہیں۔ میں نے ایسا نہیں کیا کہ کسی ایک موضوع کے دائرے میں ریسرچ کی ہو میں، نے متنوع مضامین کا مطالعہ کیا۔ ایجوکیشن سے بھی فلسفہ کی طرف جانا پڑتا ہے اس لئے جب میں ٹیچرز ایجوکیشن کی طرف آیا تو میرا ویژن اور بڑھا، جب تک میں فزکس پڑھاتا رہا میں ایک دائرے میں ہی رہا۔''

اسلامی عہد میں سائنس کی روایت اور آغاز کے حوالے سے انہوں نے بتایا: ''امیہ خاندان میں یزیدثانی کے بیٹے خالد بن یزید کو حکومت نہیں ملی تو وہ کیمیاگری کی طرف آگیا، اس نے ایک یونانی راہب جس کا نام غالباً مریانس تھا سے کیمیاگری سیکھی اور اس سے ایک یونانی کتاب کا عربی میں ترجمہ بھی کرایا۔ سائنس کے حوالے سے ہمیں پہلا کام خالد بن یزید کے ہاں ملتا ہے لیکن جو پہلا بڑا سائنس دان ہے، وہ یعقوب الکندی ہے جو فلسفی، ریاضی دان، طبیب اور ماہر فلکیات بھی تھا' اس نے بڑا کام کیا ہے، اس کے ہم عصر موسیٰ بن شاکر بھی سائنس دان تھے۔

عباسی دور میں مسلمانوں نے سائنس کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیئے، ہارون الرشید نے دارالحکمت بنایا، مامون الرشید نے بیت الحکمت بنایا، دارالحکمت کا اتنا اثر نہیں تھا لیکن بیت الحکمت کا دائرہ اثر بہت زیادہ تھا، الکندی بھی بیت الحکمت سے ہی وابستہ تھا، بیشتر مسلمان سائنس دان بنیادی طور پر طبیب تھے اور طبابت کے راستے ہی سائنس کی طرف آئے، اس دور کے مسلم سائنس دان مختلف علوم پر دسترس رکھتے تھے، اس زمانے میں یہ علوم اتنے پھیلے ہوئے بھی نہیں تھے، یہ سارے علوم دراصل فلسفے سے الگ ہوئے، پہلے ریاضی اسڑانومی کی ایک شاخ سمجھی جاتی تھی، اسٹرانومی بذات خود طبیعات کی شاخ تھی جس میں فزکس بھی شامل تھی اور موسمیات بھی۔''

ہم نے ان سے پوچھا کہ قوموں کی تشکیل میں سماجی علوم کا کیا کردار رہا ہے' مزید یہ کہ ہمارے ہاں جامعات میں کیسی علمی روایت چل رہی ہے تو کہنے لگے: ''یہ جو ہمارے ہاں آپا دھاپی لگی ہوئی ہے یہ دراصل انہی علوم سے دوری کی وجہ سے ہے۔ اگر آپ فزکس، کیمسٹری، ریاضی، بیالوجی یا اکنامکس اور کمپیوٹر ہی پڑھاتے رہیں گے تو انسانی روابط کہاں پڑھائیں گے، فلسفہ اور ادب تو آدمی کو انسان بناتے ہیں، برطانیہ کی کئی جامعات میں بی اے چار سال کا ہوتا ہے، کہیں تین سال کا بھی ہوتا ہے، پہلے سال میں تو پروفیسر ہفتے میں ایک لیکچر دیتا ہے، اٹامک سٹرکچر سے لے کر گلیکسی تک، انسانی جسم سے لے کر معاشرے تک مختلف موضوعات پر لیکچر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد طلبا کو کام پر لگادیا جاتا ہے کہ لائبریری میں جاؤ اور اس موضوع پر مضمون لکھ کر لاؤ۔

وہ طلباء جنہوں نے پہلی دو ٹرمز سائنس، مذاہب، ریاضی، اکنامکس، الٰہیات اور سماجیات پر لیکچر سنے ہیں انہیں کہا جاتا ہے اب بتاؤ کیا پڑھنا چاہتے ہو، یوں ان کی مضبوط بنیاد بن جاتی ہے۔ کسی نے کہا میں فزکس اور فلاسفی پڑھنا چاہتا ہوں، کسی نے کہا میں مذہبیات اور بیالوجی، اس طرح سے وہ ایک مکمل شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں، یہاں تو اس کا تصور ہی نہیں۔ ہمارے ہاں تو فلسفے اور دیگر سماجی علوم کے شعبوں میں طالب علم ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے' ہمارے ہاں سائنسی علوم سے عدم رغبت بہت پرانی چلی آ رہی ہے' مغلوں نے عمارتیں بنائیں' کہیں کہیں علوم کی بھی باتیں ہوئیں مگر وہ علوم سائنسی علوم نہیں تھے' سائنس کی ترقی وہاں ہوتی ہے جہاں کوئی مشکل پیش آئے' ہمارے ہاں اسٹرانومی پڑھائی ہی نہیں جاتی حالانکہ وہ بنیادی سائنس ہے' ہمارے ہاں ایم ایس سی ریاضی اور فزکس کرنے والوں کو پتہ ہی نہں اسٹرانومی ہوتی کیا ہے' جب نئے آفاق کی تلاش ہوتی ہے تو علوم خودبخود اُبھرتے ہں 'کسی بھی قوم کی سیاسی طاقت اس کی علمی طاقت کا ذریعہ بنتی ہے۔''

جنرل ضیاء کے دور میں 'مقتدرہ قومی زبان' کا ادارہ قائم ہوا، جس اجلاس میں ادارہ کا نام تجویز ہوا پروفیسر خادم علی ہاشمی بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مقتدرہ کے پہلے چیئرمین میجر آفتاب حسن معتمد تھے، میجر آفتاب حسن نے کام کرنے والے لوگوں کو اس ادارہ میں شامل کیا' اصطلاحات کی مجلس کا پروفیسر خادم علی ہاشمی کو بھی رکن بنایا گیا، بعدازاں بھی انہوں نے اس ادارے کے لیے بہت سی علمی خدمات انجام دیں۔ مقتدرہ قومی زبان کی انگریزی اردو کی قومی لغت کے لیے بھی انہوں نے ایک لیٹر ''G'' تیار کیا، ڈاکٹر جمیل جالبی اس وقت مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین تھے۔

پروفیسر خادم علی ہاشمی کراچی سے شائع ہونے والے میجر آفتاب حسن کے سائنس میگزین ''جدید سائنس'' کی مجلس ادارت میں بھی شامل رہے، ان کے بہت سارے مضامین بھی اس میگزین میں شائع ہوتے رہے۔ پروفیسر خادم علی ہاشمی کی مسلم سائنس دانوں پر جو تصانیف اب تک شائع ہو چکی ہیں' ان میں عمر خیام، عمر خیام کا الجرا، البیرونی، المسکویہ، الکندی اور شجاع ناموس: شخصیت اور فن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تین صد سے زائد مسلمان سائنس دانوں پر ان کے تحریر کردہ مضامین ابھی کتابی شکل میں شائع ہونا ہیں، ان مضامین کا آغاز اموی دور کے خالد بن یزید سے ہوتا ہے اور تقریباً دو سال پہلے انتقال کر جانے والی ایرانی خاتون سائنس دان مریم مرزا پر اختتام ہورہا ہے۔

اصطلاحات کا ترجمہ

یہ ضروری نہیں آپ ہر لفظ کا ترجمہ کریں' عربوں نے بھی جب یونانی سے تراجم شروع کیے تو بہت سے لفظ بجائے ترجمہ کرنے کے ADPOT کر لیے، انگریزوں نے بھی بہت سے یونانی اور عربی الفاظ جوں کے توں لئے۔ اصطلاحات کا ترجمہ ہر زبان کا المیہ رہا ہے' جرمن زبان میں زیادہ سائنسی اصطلاحات ہونے کی وجہ یہ ہے وہاں زیادہ سائنسی ایجادات ہوئیں، جیسے ہمارے ہاں دلی اور لکھنؤ والوں نے نئی شعری اصطلاحات وضع کیں اور فارسی سے بھی آگے چلے گئے، ادب میں اصطلاحات اس لیے زیادہ ہوئیں کہ نیا شعر کہا جا رہا تھا۔ یہی حال سائنسی علوم میں ہے جہاں نیا علم تشکیل پاتا وہیں زیادہ اصطلاحات وجود میں آتی ہیں' سائنسی ایجاد کا موجد اس کے لیے جو لفظ استعمال کرے' دوسرے اس کو اپنا لیتے ہیں۔

نئی اصطلاحات گھڑنا بھی ایک عجیب بات ہے جیسے کسی کو وجدان ہو، بعض اوقات مجبوری کے تحت بھی اصطلاحات وجود میں آتی ہیں جیسے ایکسرے کے موجد کو کچھ سمجھ نہ آئی تو اس نے اس کا نام ایکسرے رکھ دیا، جہاں تک اردو میں سائنسی اصطلاحات کا تعلق ہے تو بہت سی اصطلاحات تو ہم نے وہ استعمال کیں جو پہلے سے مستعمل تھیں جو عربی سے اردو میں آئیں بعض انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں سے آئیں' ان میں بعض اصطلاحات کا اردو میں بھی ترجمہ ہوا بعض کے تراجم نہیں چل سکے مثلاً حیدر آباد دکن والوں نے ہر سائنسی اصطلاح کا اردو میں ترجمہ کرایا، اگر آپ ان کی سائنس کی کوئی کتاب دیکھیں تو وہ سمجھ میں ہی نہیں آتی یعنی وہ اس قدر معرب اور مفرس ترجمہ ہے۔

پاکستان میں ایک اور کام ہوا کہ یہاں دو مکتب فکر تھے ایک کراچی کا دوسرا لاہور کا' کراچی والے حیدرآباد دکن کی روایت کو آگے بڑھانا چاہتے تھے کہ ہر اصطلاح کا اردو ترجمہ کیا جائے۔ لاہور میں اردو مرکزی بورڈ جو اب اردو سائنس بورڈ ہے کے چیئرمین اشفاق احمد تھے، انہوں نے کہا اگر یہ اصطلاحات کے چکر میں ہی پڑے رہیں گے تو باقی مواد کب ترجمہ ہو گا چنانچہ انہوں نے حمید عسکری کی بی ایس سی اور ایم ایس سی کی سطح کی کتابیں چھاپیں' انگریزی اصطلاحات کو کہیں انگریزی میں لکھا اور کہیں اردو رسم الخط میں انگریزی لکھی' بعد میں جب کام آگے بڑھا تو دونوں کے بین بین راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہوا یہ کہ جب انگریزی پہلی جماعت سے رائج ہو گئی تو یہ سارا کام ہی ختم ہو گیا یعنی یہ ساری کاوش ہی رائیگاں چلی گئی۔

باقی یہ کہ کس زبان میں تعلیم ضروری ہے تو اس سلسلے میں ہمارے علماء کی رائے ہے جو زبان معاشرے میں بولی جا رہی ہے' اسی میں پڑھایا جائے۔ اگر اردو بولی جا رہی ہے تو ابتدائی کلاسز میں سائنس بھی اردو میں پڑھائی جائے۔ ہمارا المیہ یہ ہے ہم کوئی بھی زبان نہیں پڑھا رہے' گونگی قوم پیدا کی جا رہی ہے۔ ابتدائی کلاسوں میں سائنسی مضامین بھی اردو میں پڑھائے جائیں' ہائی کلاسز میں زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے انگریزی میں پڑھنا چاہیے۔

پرتاپ پبلک لائبریری شجاع آباد

پروفیسر خادم علی ہاشمی کم عمری سے ہی کتاب کے رسیا رہے۔ تاریخی موضوعات پر بہت سی کتب انہوں نے اپنے گھر میں پڑھیں۔ فارسی اور اُردو کی کلاسیک شاعری سے انہیں ان کے والد نے متعارف کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس اور فلسفہ جیسے خشک موضوعات پر ان کی تصانیف ایک خاص ادبی چاشنی اور ذائقہ رکھتی ہیں ۔ تقسیم کے وقت ان کی عمر 14سال تھی اور یہ نویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ شجاع آباد میں ایک مالدار ہندو چودھری پرتاپ سنگھ بیلا نے ''پرتاپ پبلک لائبریری '' قائم کی تھی ۔

یہ بھی اپنے ہندو کلاس فیلوز کے ساتھ اس لائبریری میں جاتے تھے۔ یہاں الازہر یونیورسٹی کی چھپی ہوئی قرآن کی تفاسیر اور اسلامی کتب کا ایک پورا سیکشن تھا۔ جب پاکستان بنا تو یار لوگوں نے اس لائبریری کی کتابیں لوٹ لیں اور جو بچ گئیں انہیں آگ لگا دی گئی۔ تقسیم کے ہنگامے ختم ہوئے تو اس لائبریری کی لوٹی گئی کتابیں فٹ پاتھ پر بک رہی تھیں۔ پروفیسر خادم علی ہاشمی بتاتے ہیں کہ انہوں نے بھی فٹ پاتھ سے چند کتابیں خریدیں جن پر اس لائبریری کی مہر لگی ہوئی تھی۔
Load Next Story