نمونیے کے مرض کی ہلاکت خیزیاں
نمونیے کی بیماری پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ترقی یافتہ ملکوں میں زیادہ عمرکے لوگوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
نمونیے کی وباء ایک بار پھر دنیا بھر میں پھیل گئی ہے جس نے 2016ء میں دو سال سے کم عمر کے 8 لاکھ 80 ہزار سے زائد بچوں کو ہلاک کر دیا تھا ۔ اب عالمی ادارہ صحت نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ اگر نمونئے کی وباء پر قابو نہ پایا گیا تو دنیا بھر میں 2030ء تک پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ بچے لقمہ اجل بن جائیں گے۔
نمونیے کی بیماری پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ترقی یافتہ ملکوں میں زیادہ عمر کے لوگوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں چھوٹے بچے اس ہلاکت خیز مرض کا زیادہ شکار بنتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں بچے اس جان لیوا بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں حالانکہ بروقت علاج سے ان بچوں کی جان بآسانی بچائی جا سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر اس بیماری پر قابو نہ پایا گیا توصرف پاکستان میں 2030ء تک 7 لاکھ سے زیادہ بچے نمونیے کی وجہ جان سے جا سکتے ہیں ۔ یہ نیا تجزیہ جان ہاپکنز یونیورسی میں بچوں کی جان بچانے کی کوشش کرنے والے اسکالروں کے ایک گروپ نے کیا ہے جس میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ آیندہ دس سال کے اختتام تک پانچ سال سے کم عمر کے دس کروڑ سے زیادہ بچے اس مہلک بیماری سے ہلاکت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
دیگر کئی دوسرے ممالک میں بھی کم عمر بچوں کی ہلاکت بعیدازقیاس نہیں ہے۔ ان ممالک میں نائیجیریا، کانگو اور بھارت سرفہرست ہیں جہاں چالیس لاکھ سے زائد بچے اس خطرناک وباء کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔
گزشتہ دنوں نمونیے کی وباء سے آگاہی کے لیے نمونیے کا عالمی دن منایا گیا جس کے دوران اس امید کا اظہار کیا گیا کہ بروقت امدادی اقدامات سے چالیس لاکھ سے زائد بچوں کی جان بجائی جا سکتی ہے۔ ان کے لیے نمونیہ سے بچاؤ کی ویکسین کے علاوہ بعض جڑی بوٹیوں کی بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ بچوں کو خوراک کے ذریعے کمزوری سے بچانے سے بھی بہت سے بچوں کو ہلاکت سے بچایا جا سکتا ہے۔
نمونیے کی بیماری پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں ترقی یافتہ ملکوں میں زیادہ عمر کے لوگوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں چھوٹے بچے اس ہلاکت خیز مرض کا زیادہ شکار بنتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں بچے اس جان لیوا بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں حالانکہ بروقت علاج سے ان بچوں کی جان بآسانی بچائی جا سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر اس بیماری پر قابو نہ پایا گیا توصرف پاکستان میں 2030ء تک 7 لاکھ سے زیادہ بچے نمونیے کی وجہ جان سے جا سکتے ہیں ۔ یہ نیا تجزیہ جان ہاپکنز یونیورسی میں بچوں کی جان بچانے کی کوشش کرنے والے اسکالروں کے ایک گروپ نے کیا ہے جس میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ آیندہ دس سال کے اختتام تک پانچ سال سے کم عمر کے دس کروڑ سے زیادہ بچے اس مہلک بیماری سے ہلاکت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
دیگر کئی دوسرے ممالک میں بھی کم عمر بچوں کی ہلاکت بعیدازقیاس نہیں ہے۔ ان ممالک میں نائیجیریا، کانگو اور بھارت سرفہرست ہیں جہاں چالیس لاکھ سے زائد بچے اس خطرناک وباء کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔
گزشتہ دنوں نمونیے کی وباء سے آگاہی کے لیے نمونیے کا عالمی دن منایا گیا جس کے دوران اس امید کا اظہار کیا گیا کہ بروقت امدادی اقدامات سے چالیس لاکھ سے زائد بچوں کی جان بجائی جا سکتی ہے۔ ان کے لیے نمونیہ سے بچاؤ کی ویکسین کے علاوہ بعض جڑی بوٹیوں کی بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ بچوں کو خوراک کے ذریعے کمزوری سے بچانے سے بھی بہت سے بچوں کو ہلاکت سے بچایا جا سکتا ہے۔