بچے کو اپنی مرضی سے کیریئر کا انتخاب کرنے دیں
اسی طرح وہ والدین بھی اپنے بچوں کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہیں جن کے اپنے خواب اور خواہشات ادھوری رہ جاتی ہیں۔
امتحانات کے بعد بچے اگلی کلاسوں میں جانے کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں خصوصاً میٹرک کے بعد ٹین ایجرز کالجز میں داخلے کی کوششوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ تاہم، کالج میں داخلے سے پہلے ایک مرحلہ اور بھی ہوتا ہے۔ اپنے کیریئر کا انتخاب۔۔۔۔ جو بہت سوچ سمجھ کر منتخب کرنا چاہیے۔ ہر نوجوان اپنی مرضی اور ذہنی رجحان کے مطابق ہی شعبے کا انتخاب کرنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں والدین کا ردعمل مثبت ہونا چاہیے۔ اگر ان کا بچہ کسی خاص شعبے کے حوالے سے اپنے اندر صلاحیت رکھتا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ وہ نوجوان موقع پاکر ایک متبادل کیریئر اپنالے گا۔ ایسا متبادل کیریئر جسے وہ آسانی سے اپنا سکتا ہے۔
آج بھی والدین کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ ان کا بچہ روایتی کیریئر اپنائے۔ مثلاً ڈاکٹر، انجینئر یا پھر ایم بی اے کرے مگر وقت بہت تیزی سے بدل رہا ہے اور مقابلہ سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے۔ لہٰذا، والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو متبادل کیریئر اپنانے کا بھی موقع دیں۔ تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ ایک کامیاب کیریئر اپنائے مگر اس کے لیے بچے کو مجبور کرنا یا اپنی مرضی مسلط کرنا اس پر بوجھ ہوگا۔ اس لیے ضروری ہوگا کہ بچہ جو بھی متبادل کیریئر اپنانا چاہتا ہے، اس میں اس کی مدد کریں۔
جو والدین لکیرکے فقیر ہیں وہ بچے کی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے مگر ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ اگر بچہ کسی خاص شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے تو والدین نے اس کو نہ صرف اسی شعبے میں جانے کی اجازت دے دی بلکہ اس کی مدد اور حوصلہ افزائی بھی کی۔ اگر بچے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا موقع دیا جائے تو مستقبل میں اس کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
کسی بھی شعبے میں خود کو منوانا اور ماہر ثابت کرنے کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے صرف چند برس کی محنت کافی نہیں ہوتی بلکہ کم ازکم سولہ یا اٹھارہ برس تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے۔ یوں تو کسی بھی نوجوان کے لیے پورا تعلیمی کیریئر، کے جی ون سے گریجویشن یا ماسٹرز تک، انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن یہ دورانیہ طلباء کے لیے اس وقت انتہائی مشکل ہوجاتا ہے جب اُن کے والدین ان پر اپنی پسند اور مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل اکثر ہوتا یوں ہے کہ والد اگر نامور ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے اپنے پیشے سے نام اور خوب دولت کمائی ہے تو ان کا ذاتی تجربہ یہی ہوتا ہے کہ جتنا کچھ اس پیشے میں ہے کسی دوسرے پیشے میں نہیں۔
اگر ان کا بچہ کسی دوسرے پیشے کا انتخاب کرے گا تو اپنا مستقبل دائو پر لگا دے گا۔ اسی لیے وہ اپنے بچے کی راہ میں آہنی دیوار بن جاتے ہیں اور اس کے مستقبل کے لیے یہی منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ وہ ان کے علم، تجربے اور ہنر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود بھی ایک کامیاب ترین ڈاکٹر بن جائے۔ جب کہ یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ والدین کی خواہش پر ڈاکٹر بننے والا بچہ اپنے کیرئیر میں اتنا ہی کامیاب ثابت ہو جتنا کہ اس کے والد ہیں۔
اسی طرح وہ والدین بھی اپنے بچوں کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہیں جن کے اپنے خواب اور خواہشات ادھوری رہ جاتی ہیں۔ مثلاً وہ ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتے تھے لیکن کسی وجہ سے نہیں بن سکے تو پھر ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر یا انجینئر بن کے اُن کی ادھوری خواہش پوری کرے۔ ایسی صورت حال میں بھی بچے کے خواب ادھورے رہ جانے کا امکان موجود ہوتا ہے۔
عموماً چھٹی جماعت تک طالب علم اپنے کیریئر سے لاعلم رہتا ہے لیکن جیسے جیسے اس کے تعلیمی سال آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اس میں آگہی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ جو بچے کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں وہ نوجوانی کی عمر تک پہنچتے ہوئے اپنے کیریئر کا فیصلہ کرچکے ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر کا استعمال بچے کو ایک مضبوط فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اگر بچہ کمپیوٹر انجینئر بننا چاہتا ہے اور والدین اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں تو بچے کے مستقبل کے لیے سخت مشکلات کھڑی ہوجاتی ہیں اور وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں کوئی مقام حاصل نہیں کرسکے گا۔
جو ٹین ایجرز اس مشکل میں گرفتار ہیںکہ ان کے والدین انہیں اپنی خواہشوں کا مرکزومحور سمجھتے ہوئے کیریئر کے انتخاب میں اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں تو یہاں ہم ایسے والدین سے گزارش کریں گے کہ وہ بچوں پر اپنی مرضی اور پسند مسلط کرنے کی بجائے ان کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کریں۔ بچے تب ہی اپنا کیریئر کامیاب بناسکتے ہیں۔ دراصل ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں عموماً بچوں کے لیے تعلیمی فیصلے والد ہی کرتے ہیں کیوںکہ گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے ناصرف ان کے فیصلوں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے بلکہ وہ عملی زندگی بھی گزار رہے ہوتے ہیں۔ گھر کی ضروریات پوری کرنا ان کا کام ہوتا ہے جس کے لیے انہیں کسی نہ کسی شعبے میں اپنی کارکردگی دکھا کر دولت کمانی ہوتی ہے۔
یوں وہ کافی تجربہ کار ہوجاتے ہیں اور اپنے کنبے کے حوالے سے ہر فیصلہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ عملی طور پر اس کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ وہ بچے زیادہ خوش قسمتی کے زمرے میں آتے ہیں جن کے ماں اور باپ، دونوں ہی تعلیم یافتہ اور معاشی میدان میں برسرِپیکار ہوں۔ اسی طرح اپنے کیریئر کے آغاز کے لیے اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور اپنی مرضی کا کیریئر منتخب کرنے کے ساتھ ساتھ بچے کے سامنے اس کے والدین کے کیریئر بھی ہوتے ہیں۔ وہ کسی ایک کو آئیڈیل بناکر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکتا ہے جہاں اس کو زیادہ مشکلات پیش نہیں آتیں۔ لیکن اگر وہ ان دونوں سے الگ ہٹ کر اپنی مرضی اور پسند کا راستہ اختیار کرتا ہے تو پھر اس کے لیے مشکلات ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان کس طرح اپنے والدین کو راضی کریںکہ وہ ان کو ان کی مرضی اور پسند کے مطابق کیریئر کا انتخاب کرنے دیں؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ مڈل کلاس کے بعد طالب علم خوب سوچ سمجھ کر اپنے لیے کسی خاص شعبے کا انتخاب کرے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کے پسندیدہ مضمون پر اس کے والدین کو اعتراض ہوگا تو وہ پہلے مرحلے میں انہیں اپنے مضمون کے انتخاب میں دلائل دے اور انہیں بتائے کہ اُس نے اِس کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ اگر وہ قائل ہوجائیں تو یہ اس کی خوش قسمتی ہوگی ورنہ دوسرے مرحلے میں اپنے اساتذہ کا سہارا لے، کیوںکہ استاد اسے اس سے زیادہ جانتا ہے اور وہ اس کے والدین کو آسانی سے بتا سکتا ہے کہ ان کے بچے کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کیا بہتر ہے؟ استاد ہی اس کے حق میں اس سے زیادہ بہتر دلائل دے سکتا ہے۔
پڑھانے کے دوران استاد اپنے شاگرد کی صلاحیتوں سے خوب واقف ہوتا ہے۔ اگر وہ استاد کے سامنے اپنی مرضی کے مضامین رکھیں گے تو یقیناً وہ بہتر مشورے سے نوازیں گے اور درست راہ نمائی بھی کریں گے۔ اس ضمن میں بچوں اور والدین کے درمیان گفتگو کا سلسلہ بھی ہونا چاہیے تاکہ والدین اپنی مرضی اور پسند بتائیں تو کوئی درمیانی راستہ نکل سکے اور دونوں ہی ایک دوسرے کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔
فیشن ڈیزائننگ ایک اچھا شعبہ ہے مگر بہت سے والدین اپنے بچوں کو یہ کیریئر اپنانے کی اجازت نہیں دیتے۔ والدین کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ فیشن کی دنیا اچھی نہیں ہوتی۔ حالاںکہ ضروری نہیں کہ اس فیلڈ میں موجود سارے لوگ ہی خراب ہوں۔ بچہ اپنا بوتیک اور فیشن ہائوس چلا سکتا ہے۔ وہ کسی ایسے فیشن ہائوس کے لیے کام کرسکتا ہے جہاں اسے اپنی تخلیقی صلاحیتیں آزمانے کا موقع ملے۔ اس حوالے سے والدین بھی بچے کی مدد اور اس کی راہ نمائی کریںکہ وہ کس طرح اس شعبے میں کام کرسکتا ہے۔ نیز اس شعبے میں موجود مشہور لوگوں سے بھی مدد لے سکتا ہے۔
فیشن ڈیزائننگ ایک تخلیقی عمل ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے بچے میں اس کی صلاحیت موجود ہو اور آپ کی بھرپور توجہ وحوصلہ افزائی سے وہ اس شعبے میں نام کماسکے۔
اسی طرح خط شناسی یعنی تحریر کی جانچ کرنے والا ''گرافولوجسٹ'' کا پیشہ بھی متبادل کیریئر کے طور پر اپنایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ کے بچے کی لکھائی بہت خوش خط ہے اور وہ تحریروں کو پڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے تو وہ گرافولوجی کو بطور کیریئر اپنا سکتا ہے۔ اس طرح کی صلاحیت والے اپنے ہنر کو میڈیکل لائن، کاروباری معاملات، ملازمت کے مواقع اور اسی قبیل کے دیگر شعبوں میں آزما سکتے ہیں۔
فوٹوگرافی بھی ایک زبردست، دل چسپ اور تخلیقی کام ہے۔ اکثر نوجوان اسے بھی بطور کیریئر اپنانا چاہتے ہیں اور اپنایا جاسکتا ہے۔
لکھنے لکھانے کے شعبے میں بھی کافی آپشنز ہیں۔ صحافت کے شعبے میں جانے والے نوجوان اسے اپنا کیریئر بناکے اپنا مستقبل روشن کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کاپی رائٹر بن سکتے ہیں جس کی طلب میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے کیوںکہ اشتہارات کی صنعت مسلسل ترقی کر رہی ہے اور اس میں ترقی کے بھی کافی امکانات ہیں۔ جو بچے ڈرائنگ اور پینٹنگ میں اچھی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ فائن آرٹس، خطاطی اور کمرشل آرٹس کے شعبوں میں خود کو منوا سکتے ہیں۔
قدرت ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازتی ہے اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ اس شعبے سے وابستہ ہوکر ہی کیا جاسکتا ہے۔
نوجوان اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق ہی اپنے شعبے کا انتخاب کریں۔ مڈل تک اپنے مضامین کا انتخاب کرلیں اور پھر اپنے والدین اور اساتذہ سے اس کے بارے میں رائے لیں۔ انہیں اپنی مرضی اور پسند کی وجوہ سے بھی آگاہ کریں تاکہ ان کے علم میں یہ بات آسکے کہ آپ نے اس مضمون کا انتخاب کس وجہ سے کیا ہے۔ آپس میں گفتگو کرنے سے اپنی بات آسانی کے ساتھ سمجھائی جاسکتی ہے۔ اپنے مضامین منتخب کرنے کے بعد آسانی سے اپنی تعلیم کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف بچوں بلکہ والدین کے لیے بھی اطمینان کا باعث بن سکتی ہے کہ ان کے بچے نے اپنے کیریئر کا انتخاب کرلیا ہے اور اب وہ آسانی سے اپنی تعلیم کی طرف توجہ دے سکے گا۔
آج بھی والدین کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ ان کا بچہ روایتی کیریئر اپنائے۔ مثلاً ڈاکٹر، انجینئر یا پھر ایم بی اے کرے مگر وقت بہت تیزی سے بدل رہا ہے اور مقابلہ سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے۔ لہٰذا، والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو متبادل کیریئر اپنانے کا بھی موقع دیں۔ تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ ایک کامیاب کیریئر اپنائے مگر اس کے لیے بچے کو مجبور کرنا یا اپنی مرضی مسلط کرنا اس پر بوجھ ہوگا۔ اس لیے ضروری ہوگا کہ بچہ جو بھی متبادل کیریئر اپنانا چاہتا ہے، اس میں اس کی مدد کریں۔
جو والدین لکیرکے فقیر ہیں وہ بچے کی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے مگر ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ اگر بچہ کسی خاص شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے تو والدین نے اس کو نہ صرف اسی شعبے میں جانے کی اجازت دے دی بلکہ اس کی مدد اور حوصلہ افزائی بھی کی۔ اگر بچے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا موقع دیا جائے تو مستقبل میں اس کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
کسی بھی شعبے میں خود کو منوانا اور ماہر ثابت کرنے کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے صرف چند برس کی محنت کافی نہیں ہوتی بلکہ کم ازکم سولہ یا اٹھارہ برس تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے۔ یوں تو کسی بھی نوجوان کے لیے پورا تعلیمی کیریئر، کے جی ون سے گریجویشن یا ماسٹرز تک، انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن یہ دورانیہ طلباء کے لیے اس وقت انتہائی مشکل ہوجاتا ہے جب اُن کے والدین ان پر اپنی پسند اور مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل اکثر ہوتا یوں ہے کہ والد اگر نامور ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے اپنے پیشے سے نام اور خوب دولت کمائی ہے تو ان کا ذاتی تجربہ یہی ہوتا ہے کہ جتنا کچھ اس پیشے میں ہے کسی دوسرے پیشے میں نہیں۔
اگر ان کا بچہ کسی دوسرے پیشے کا انتخاب کرے گا تو اپنا مستقبل دائو پر لگا دے گا۔ اسی لیے وہ اپنے بچے کی راہ میں آہنی دیوار بن جاتے ہیں اور اس کے مستقبل کے لیے یہی منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ وہ ان کے علم، تجربے اور ہنر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود بھی ایک کامیاب ترین ڈاکٹر بن جائے۔ جب کہ یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ والدین کی خواہش پر ڈاکٹر بننے والا بچہ اپنے کیرئیر میں اتنا ہی کامیاب ثابت ہو جتنا کہ اس کے والد ہیں۔
اسی طرح وہ والدین بھی اپنے بچوں کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہیں جن کے اپنے خواب اور خواہشات ادھوری رہ جاتی ہیں۔ مثلاً وہ ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتے تھے لیکن کسی وجہ سے نہیں بن سکے تو پھر ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر یا انجینئر بن کے اُن کی ادھوری خواہش پوری کرے۔ ایسی صورت حال میں بھی بچے کے خواب ادھورے رہ جانے کا امکان موجود ہوتا ہے۔
عموماً چھٹی جماعت تک طالب علم اپنے کیریئر سے لاعلم رہتا ہے لیکن جیسے جیسے اس کے تعلیمی سال آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اس میں آگہی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ جو بچے کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں وہ نوجوانی کی عمر تک پہنچتے ہوئے اپنے کیریئر کا فیصلہ کرچکے ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر کا استعمال بچے کو ایک مضبوط فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اگر بچہ کمپیوٹر انجینئر بننا چاہتا ہے اور والدین اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں تو بچے کے مستقبل کے لیے سخت مشکلات کھڑی ہوجاتی ہیں اور وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں کوئی مقام حاصل نہیں کرسکے گا۔
جو ٹین ایجرز اس مشکل میں گرفتار ہیںکہ ان کے والدین انہیں اپنی خواہشوں کا مرکزومحور سمجھتے ہوئے کیریئر کے انتخاب میں اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں تو یہاں ہم ایسے والدین سے گزارش کریں گے کہ وہ بچوں پر اپنی مرضی اور پسند مسلط کرنے کی بجائے ان کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کریں۔ بچے تب ہی اپنا کیریئر کامیاب بناسکتے ہیں۔ دراصل ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں عموماً بچوں کے لیے تعلیمی فیصلے والد ہی کرتے ہیں کیوںکہ گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے ناصرف ان کے فیصلوں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے بلکہ وہ عملی زندگی بھی گزار رہے ہوتے ہیں۔ گھر کی ضروریات پوری کرنا ان کا کام ہوتا ہے جس کے لیے انہیں کسی نہ کسی شعبے میں اپنی کارکردگی دکھا کر دولت کمانی ہوتی ہے۔
یوں وہ کافی تجربہ کار ہوجاتے ہیں اور اپنے کنبے کے حوالے سے ہر فیصلہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ عملی طور پر اس کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ وہ بچے زیادہ خوش قسمتی کے زمرے میں آتے ہیں جن کے ماں اور باپ، دونوں ہی تعلیم یافتہ اور معاشی میدان میں برسرِپیکار ہوں۔ اسی طرح اپنے کیریئر کے آغاز کے لیے اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور اپنی مرضی کا کیریئر منتخب کرنے کے ساتھ ساتھ بچے کے سامنے اس کے والدین کے کیریئر بھی ہوتے ہیں۔ وہ کسی ایک کو آئیڈیل بناکر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکتا ہے جہاں اس کو زیادہ مشکلات پیش نہیں آتیں۔ لیکن اگر وہ ان دونوں سے الگ ہٹ کر اپنی مرضی اور پسند کا راستہ اختیار کرتا ہے تو پھر اس کے لیے مشکلات ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان کس طرح اپنے والدین کو راضی کریںکہ وہ ان کو ان کی مرضی اور پسند کے مطابق کیریئر کا انتخاب کرنے دیں؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ مڈل کلاس کے بعد طالب علم خوب سوچ سمجھ کر اپنے لیے کسی خاص شعبے کا انتخاب کرے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کے پسندیدہ مضمون پر اس کے والدین کو اعتراض ہوگا تو وہ پہلے مرحلے میں انہیں اپنے مضمون کے انتخاب میں دلائل دے اور انہیں بتائے کہ اُس نے اِس کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ اگر وہ قائل ہوجائیں تو یہ اس کی خوش قسمتی ہوگی ورنہ دوسرے مرحلے میں اپنے اساتذہ کا سہارا لے، کیوںکہ استاد اسے اس سے زیادہ جانتا ہے اور وہ اس کے والدین کو آسانی سے بتا سکتا ہے کہ ان کے بچے کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کیا بہتر ہے؟ استاد ہی اس کے حق میں اس سے زیادہ بہتر دلائل دے سکتا ہے۔
پڑھانے کے دوران استاد اپنے شاگرد کی صلاحیتوں سے خوب واقف ہوتا ہے۔ اگر وہ استاد کے سامنے اپنی مرضی کے مضامین رکھیں گے تو یقیناً وہ بہتر مشورے سے نوازیں گے اور درست راہ نمائی بھی کریں گے۔ اس ضمن میں بچوں اور والدین کے درمیان گفتگو کا سلسلہ بھی ہونا چاہیے تاکہ والدین اپنی مرضی اور پسند بتائیں تو کوئی درمیانی راستہ نکل سکے اور دونوں ہی ایک دوسرے کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔
فیشن ڈیزائننگ ایک اچھا شعبہ ہے مگر بہت سے والدین اپنے بچوں کو یہ کیریئر اپنانے کی اجازت نہیں دیتے۔ والدین کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ فیشن کی دنیا اچھی نہیں ہوتی۔ حالاںکہ ضروری نہیں کہ اس فیلڈ میں موجود سارے لوگ ہی خراب ہوں۔ بچہ اپنا بوتیک اور فیشن ہائوس چلا سکتا ہے۔ وہ کسی ایسے فیشن ہائوس کے لیے کام کرسکتا ہے جہاں اسے اپنی تخلیقی صلاحیتیں آزمانے کا موقع ملے۔ اس حوالے سے والدین بھی بچے کی مدد اور اس کی راہ نمائی کریںکہ وہ کس طرح اس شعبے میں کام کرسکتا ہے۔ نیز اس شعبے میں موجود مشہور لوگوں سے بھی مدد لے سکتا ہے۔
فیشن ڈیزائننگ ایک تخلیقی عمل ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے بچے میں اس کی صلاحیت موجود ہو اور آپ کی بھرپور توجہ وحوصلہ افزائی سے وہ اس شعبے میں نام کماسکے۔
اسی طرح خط شناسی یعنی تحریر کی جانچ کرنے والا ''گرافولوجسٹ'' کا پیشہ بھی متبادل کیریئر کے طور پر اپنایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ کے بچے کی لکھائی بہت خوش خط ہے اور وہ تحریروں کو پڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے تو وہ گرافولوجی کو بطور کیریئر اپنا سکتا ہے۔ اس طرح کی صلاحیت والے اپنے ہنر کو میڈیکل لائن، کاروباری معاملات، ملازمت کے مواقع اور اسی قبیل کے دیگر شعبوں میں آزما سکتے ہیں۔
فوٹوگرافی بھی ایک زبردست، دل چسپ اور تخلیقی کام ہے۔ اکثر نوجوان اسے بھی بطور کیریئر اپنانا چاہتے ہیں اور اپنایا جاسکتا ہے۔
لکھنے لکھانے کے شعبے میں بھی کافی آپشنز ہیں۔ صحافت کے شعبے میں جانے والے نوجوان اسے اپنا کیریئر بناکے اپنا مستقبل روشن کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کاپی رائٹر بن سکتے ہیں جس کی طلب میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے کیوںکہ اشتہارات کی صنعت مسلسل ترقی کر رہی ہے اور اس میں ترقی کے بھی کافی امکانات ہیں۔ جو بچے ڈرائنگ اور پینٹنگ میں اچھی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ فائن آرٹس، خطاطی اور کمرشل آرٹس کے شعبوں میں خود کو منوا سکتے ہیں۔
قدرت ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازتی ہے اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ اس شعبے سے وابستہ ہوکر ہی کیا جاسکتا ہے۔
نوجوان اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق ہی اپنے شعبے کا انتخاب کریں۔ مڈل تک اپنے مضامین کا انتخاب کرلیں اور پھر اپنے والدین اور اساتذہ سے اس کے بارے میں رائے لیں۔ انہیں اپنی مرضی اور پسند کی وجوہ سے بھی آگاہ کریں تاکہ ان کے علم میں یہ بات آسکے کہ آپ نے اس مضمون کا انتخاب کس وجہ سے کیا ہے۔ آپس میں گفتگو کرنے سے اپنی بات آسانی کے ساتھ سمجھائی جاسکتی ہے۔ اپنے مضامین منتخب کرنے کے بعد آسانی سے اپنی تعلیم کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف بچوں بلکہ والدین کے لیے بھی اطمینان کا باعث بن سکتی ہے کہ ان کے بچے نے اپنے کیریئر کا انتخاب کرلیا ہے اور اب وہ آسانی سے اپنی تعلیم کی طرف توجہ دے سکے گا۔