پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلائیں گے وزیراعظم
موجودہ حکومت اپنے آپ کو آئین اور قانون کو اس کی روح کے مطابق عمل کی پابند سمجھتی ہے،وزیر اعظم
وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کے اقدامات غیر آئینی تھے اس لئے حکومت سابق صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلائے گی۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان جمہوریت کے ذریعے وجود میں آیا، قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم اور ان کے رفقا نے ملک میں جمہوری سفر جاری رکھا، کئی مشکلات کے باوجود ملک کے سیاست دان اس چیلنج سے بخوبی عہدہ برآ ہوگئے اور 1956 کا آئین منظور ہوا، ابھی اس آئین کے تحت انتخابی تیاریاں جاری تھیں کہ ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر آمریت نافذ کردی گئی۔ اس کا سلسلہ کسی نا کسی طرح 2008 تک جاری رہا۔ ملک میں کبھی فوجی آمریت رہی تو کبھی نیم آمریت اور نیم جمہوریت، تاہم 2008 کے انتخابات کے بعد قیام ہونے والے حکومت نے کسی بھی نادیدہ چھتری کے بغیر اپنی مدت مکمل کی اور آئینی مدت کے اختتام پر ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو انتقال اقتدار ہوا۔ وہ امید کرتے ہیں کہ جمہوری نظام کے ذریعے انتقال اقتدار کا عمل جاری و ساری رہے گا کیونکہ ملک کی خوشحالی کاراستہ یہی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے بیشتر مسائل آئین سے انحراف کا نتیجہ ہے، جمہوریت کا تقاضا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر سر تسلیم خم کیا جائے، سابق صدر پرویز مشرف نے ملک میں دو بار آئین توڑا، پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے اگلے ہی دن سے پارلیمنٹ پر یہ دباؤ تھاکہ سابق صدر کے 3 نومبر 2007 کے اقدامات کو استثنیٰ دیا جائے لیکن پارلیمنٹ نے ایسا نہیں کیا اور سینیٹ نے اس سلسلے میں متقفہ قرار داد منظور کی۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے اقدامات کے حوالے سے حکومتی موقف مانگا تھا، حکومت نے ضروری سمجھا کہ اس مسئلے پر خود پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے، حکومت نے عدالت میں اپنے جواب میں کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر 2007 کے اقدامات آئین کے خلاف تھے، موجودہ حکومت اپنے آپ کو آئین اور قانون کو اس کی روح کے مطابق عمل کی پابند سمجھتی ہے، اس لئے حکومت سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے خلاف مقدمے میں آئین کے تحت پیروی کرے گی۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان جمہوریت کے ذریعے وجود میں آیا، قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم اور ان کے رفقا نے ملک میں جمہوری سفر جاری رکھا، کئی مشکلات کے باوجود ملک کے سیاست دان اس چیلنج سے بخوبی عہدہ برآ ہوگئے اور 1956 کا آئین منظور ہوا، ابھی اس آئین کے تحت انتخابی تیاریاں جاری تھیں کہ ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر آمریت نافذ کردی گئی۔ اس کا سلسلہ کسی نا کسی طرح 2008 تک جاری رہا۔ ملک میں کبھی فوجی آمریت رہی تو کبھی نیم آمریت اور نیم جمہوریت، تاہم 2008 کے انتخابات کے بعد قیام ہونے والے حکومت نے کسی بھی نادیدہ چھتری کے بغیر اپنی مدت مکمل کی اور آئینی مدت کے اختتام پر ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو انتقال اقتدار ہوا۔ وہ امید کرتے ہیں کہ جمہوری نظام کے ذریعے انتقال اقتدار کا عمل جاری و ساری رہے گا کیونکہ ملک کی خوشحالی کاراستہ یہی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے بیشتر مسائل آئین سے انحراف کا نتیجہ ہے، جمہوریت کا تقاضا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر سر تسلیم خم کیا جائے، سابق صدر پرویز مشرف نے ملک میں دو بار آئین توڑا، پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے اگلے ہی دن سے پارلیمنٹ پر یہ دباؤ تھاکہ سابق صدر کے 3 نومبر 2007 کے اقدامات کو استثنیٰ دیا جائے لیکن پارلیمنٹ نے ایسا نہیں کیا اور سینیٹ نے اس سلسلے میں متقفہ قرار داد منظور کی۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے اقدامات کے حوالے سے حکومتی موقف مانگا تھا، حکومت نے ضروری سمجھا کہ اس مسئلے پر خود پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے، حکومت نے عدالت میں اپنے جواب میں کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر 2007 کے اقدامات آئین کے خلاف تھے، موجودہ حکومت اپنے آپ کو آئین اور قانون کو اس کی روح کے مطابق عمل کی پابند سمجھتی ہے، اس لئے حکومت سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے خلاف مقدمے میں آئین کے تحت پیروی کرے گی۔