اینجل مینزسینڈروم اس کا شکارایک سالہ ریونابینا بھی ہےاورنیند سےمحروم بھی
ان بچوں کو بولنے میں کافی پریشانی ہوتی ہے۔ ان کی بات چیت یا تو...
گھنگریالے بالوں والا ریو وکاری صرف ایک سال کا ہے، مگر ایک ایسے جینیاتی خلل کا شکار ہے جس کی وجہ سے نہ وہ سو سکتا ہے، نہ چل سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے، اس کے باوجود وہ اپنے والدین کے لیے ہر وقت ہنستا مسکراتا رہتا ہے۔ ریو کو چوبیس گھنٹے نگہ داشت کی ضرورت ہے۔ وہ جس جینیاتی خلل کا شکار ہے، اسے اینجل مینز سینڈروم کہتے ہیں۔
اس بیماری کی تشخیص اس وقت ہوئی جب ریو صرف دو ہفتے کا تھا۔ اس بے چارے بچے نے اپنی اب تک کی مختصر زندگی کا زیادہ حصہ شیفیلڈ اسپتال میں گزارا ہے جہاں ریو کی نگہ داشت اسپیشلسٹ کررہے ہیں۔ ریو کی رنگت غیرمعمولی سفید اور زرد ہے۔ اس کے علاوہ وہ نابینا بھی ہے، پھر بھی وہ روشنی پسند کرتا ہے۔ اسے نہ جانے کیسے معلوم ہوجاتا ہے کہ کب کمرے میں روشنی ہے اور کب نہیں۔ وہ موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔
اس کے ممی گیما اور ڈیڈی وین اس کے لیے ہاف وے شیفیلڈ میں واقع اپنے گھر میں ایک خصوصی کمرہ بنوارہے ہیں جہاں وہ اپنے ممی ڈیڈی اور دونوں بھائیوں کوڈی (سات سالہ) اور جیڈن (چار سالہ) کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتا ہے۔
ریو کی ممی گیما کا کہنا ہے:''چوں کہ ریو سوتا نہیں اور ہر وقت کھیلنا چاہتا ہے، اس لیے ہم نے اس طرح کا پروگرام بنالیا ہے کہ اس کے ساتھ وقت گزار سکیں اور وہ اکیلا نہ رہ سکے۔''
ریو کے ایک tracheostomy لگادی گئی ہے۔ یہ ایک ٹیوب ہے جو کھانے کے لیے اس کی گردن میں نصب کی گئی ہے۔ جب یہ ٹیوب لگائی گئی تو اس کو یکایک کھانسی ہوگئی تھی اور اس کی ممی کو اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے فوری طور پر ہنگامی مدد منگانی پڑی۔ اس دوران انہوں نے ریو کی پسلیوں کو زور زور سے دبایا، مگر اس کی آواز بھی نہ نکلی۔ انہوں نے پھر کوشش کی تو اس بار اس کے سینے سے ایک شور سنائی دیا۔ جب تک ایمبولینس پہنچی، وہ دوبارہ سانس لینے لگا تھا۔
گیما کو اب اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ریو کی فیڈنگ ٹیوب مائع وغیرہ سے بالکل صاف رہے۔
ان کے دونوں بیٹے بھی اس کام میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس بیماری سے محفوظ ہیں۔ گیما کہتی ہیں کہ یہ فیڈنگ ٹیوب زندگی بچانے والی چیز ہے۔ وہ ہر وقت کھانستا رہتا ہے جس کے لیے مجھے ٹیوب پر منہ لگاکر سانس اندر کی طرف کھینچنا ہوتا ہے۔ ریو کے حلق سے آوازیں تو نکلتی ہیں، مگر وہ کبھی بول نہیں سکے گا۔ اور یہ اینجل مینز سینڈروم کی ایک علامت ہے جو ذہانتی نشوونما پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسی کے باعث نیند نہ آنے کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ بیماری دنیا میں ریو کے علاوہ ایک سالہ لڑکی کو ہے جو امریکا میں رہتی ہے۔ ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ شاید کسی دن اس بیماری کا علاج بھی دریافت ہوجائے۔
اینجل مینز سینڈروم کے مرض میں مبتلا بچوں کو اینجلز یا فرشتے کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ معصوم اور پیارے پیارے بچے ہر مشکل سے بے خبر ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہتے ہیں۔
اسپتال کے کنسلٹنٹ ڈیوڈ کیمپ بیل نے کہا:''بے چارہ ریو کئی مسائل میں مبتلا ہے، لیکن یہ ننھا بچہ بہت بہادر ہے۔ اس کا خلل بہت ہی نادر ہے، اسی لیے ریو بھی ایک یکتا اور منفرد بچہ بن گیا ہے۔ وہ خوش رہتا ہے اور روشنی اور موسیقی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔''
٭ اینجل مینز سینڈروم کیا ہے؟
یہ ایک کروموسوم ڈس آرڈر ہے جو ماں سے ورثے میں ملتا ہے اور ہر 25000افراد میں سے ایک کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے متاثرہ بچہ اپنی پیدائش کے وقت نارمل لگتا ہے جس میں کوئی بڑا نقص یا عیب نظر بھی نہیں آتا، تاہم اس کی نشوونما یا بڑھوتری میں تاخیر چھ ماہ کے اندر عیاں ہوجاتی ہے۔ اس کے بیٹھنے کا مسئلہ بارہ ماہ تک اور چلنے کا مسئلہ چار سال کی عمر تک ظاہر ہوجاتا ہے۔
ان بچوں کو بولنے میں کافی پریشانی ہوتی ہے۔ ان کی بات چیت یا تو الفاظ بالکل نہیں ہوتے یا بہت کم ہوتے ہیں۔ اینجل مینز سینڈروم میں مبتلا لوگ اکثر ہنستے اور مسکراتے ہیں، خاص طور سے اگر کوئی انہیں ہنسانے کی کوشش کرے یا ان پر خاص توجہ دے تو یہ کھلکھلانے لگتے ہیں۔ یہ زور زور سے ہاتھ ہلاتے ہیں اور خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں۔ ذرا بڑی عمر کے بچوں میں چبھونے، کچھ پکڑنے اور کاٹنے کا رجحان ہوتا ہے۔ یہ نیند کے خلل کا بہت زیادہ شکار ہوتے ہیں، لیکن بعد میں یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔
اینجل مینز سینڈروم میں مبتلا افراد کی عام صحت اچھی ہوتی ہے اور ان کی زندگی کا چکر بھی نارمل ہوتا ہے۔
اس بیماری کی تشخیص اس وقت ہوئی جب ریو صرف دو ہفتے کا تھا۔ اس بے چارے بچے نے اپنی اب تک کی مختصر زندگی کا زیادہ حصہ شیفیلڈ اسپتال میں گزارا ہے جہاں ریو کی نگہ داشت اسپیشلسٹ کررہے ہیں۔ ریو کی رنگت غیرمعمولی سفید اور زرد ہے۔ اس کے علاوہ وہ نابینا بھی ہے، پھر بھی وہ روشنی پسند کرتا ہے۔ اسے نہ جانے کیسے معلوم ہوجاتا ہے کہ کب کمرے میں روشنی ہے اور کب نہیں۔ وہ موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔
اس کے ممی گیما اور ڈیڈی وین اس کے لیے ہاف وے شیفیلڈ میں واقع اپنے گھر میں ایک خصوصی کمرہ بنوارہے ہیں جہاں وہ اپنے ممی ڈیڈی اور دونوں بھائیوں کوڈی (سات سالہ) اور جیڈن (چار سالہ) کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتا ہے۔
ریو کی ممی گیما کا کہنا ہے:''چوں کہ ریو سوتا نہیں اور ہر وقت کھیلنا چاہتا ہے، اس لیے ہم نے اس طرح کا پروگرام بنالیا ہے کہ اس کے ساتھ وقت گزار سکیں اور وہ اکیلا نہ رہ سکے۔''
ریو کے ایک tracheostomy لگادی گئی ہے۔ یہ ایک ٹیوب ہے جو کھانے کے لیے اس کی گردن میں نصب کی گئی ہے۔ جب یہ ٹیوب لگائی گئی تو اس کو یکایک کھانسی ہوگئی تھی اور اس کی ممی کو اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے فوری طور پر ہنگامی مدد منگانی پڑی۔ اس دوران انہوں نے ریو کی پسلیوں کو زور زور سے دبایا، مگر اس کی آواز بھی نہ نکلی۔ انہوں نے پھر کوشش کی تو اس بار اس کے سینے سے ایک شور سنائی دیا۔ جب تک ایمبولینس پہنچی، وہ دوبارہ سانس لینے لگا تھا۔
گیما کو اب اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ریو کی فیڈنگ ٹیوب مائع وغیرہ سے بالکل صاف رہے۔
ان کے دونوں بیٹے بھی اس کام میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس بیماری سے محفوظ ہیں۔ گیما کہتی ہیں کہ یہ فیڈنگ ٹیوب زندگی بچانے والی چیز ہے۔ وہ ہر وقت کھانستا رہتا ہے جس کے لیے مجھے ٹیوب پر منہ لگاکر سانس اندر کی طرف کھینچنا ہوتا ہے۔ ریو کے حلق سے آوازیں تو نکلتی ہیں، مگر وہ کبھی بول نہیں سکے گا۔ اور یہ اینجل مینز سینڈروم کی ایک علامت ہے جو ذہانتی نشوونما پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسی کے باعث نیند نہ آنے کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ بیماری دنیا میں ریو کے علاوہ ایک سالہ لڑکی کو ہے جو امریکا میں رہتی ہے۔ ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ شاید کسی دن اس بیماری کا علاج بھی دریافت ہوجائے۔
اینجل مینز سینڈروم کے مرض میں مبتلا بچوں کو اینجلز یا فرشتے کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ معصوم اور پیارے پیارے بچے ہر مشکل سے بے خبر ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہتے ہیں۔
اسپتال کے کنسلٹنٹ ڈیوڈ کیمپ بیل نے کہا:''بے چارہ ریو کئی مسائل میں مبتلا ہے، لیکن یہ ننھا بچہ بہت بہادر ہے۔ اس کا خلل بہت ہی نادر ہے، اسی لیے ریو بھی ایک یکتا اور منفرد بچہ بن گیا ہے۔ وہ خوش رہتا ہے اور روشنی اور موسیقی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔''
٭ اینجل مینز سینڈروم کیا ہے؟
یہ ایک کروموسوم ڈس آرڈر ہے جو ماں سے ورثے میں ملتا ہے اور ہر 25000افراد میں سے ایک کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے متاثرہ بچہ اپنی پیدائش کے وقت نارمل لگتا ہے جس میں کوئی بڑا نقص یا عیب نظر بھی نہیں آتا، تاہم اس کی نشوونما یا بڑھوتری میں تاخیر چھ ماہ کے اندر عیاں ہوجاتی ہے۔ اس کے بیٹھنے کا مسئلہ بارہ ماہ تک اور چلنے کا مسئلہ چار سال کی عمر تک ظاہر ہوجاتا ہے۔
ان بچوں کو بولنے میں کافی پریشانی ہوتی ہے۔ ان کی بات چیت یا تو الفاظ بالکل نہیں ہوتے یا بہت کم ہوتے ہیں۔ اینجل مینز سینڈروم میں مبتلا لوگ اکثر ہنستے اور مسکراتے ہیں، خاص طور سے اگر کوئی انہیں ہنسانے کی کوشش کرے یا ان پر خاص توجہ دے تو یہ کھلکھلانے لگتے ہیں۔ یہ زور زور سے ہاتھ ہلاتے ہیں اور خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں۔ ذرا بڑی عمر کے بچوں میں چبھونے، کچھ پکڑنے اور کاٹنے کا رجحان ہوتا ہے۔ یہ نیند کے خلل کا بہت زیادہ شکار ہوتے ہیں، لیکن بعد میں یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔
اینجل مینز سینڈروم میں مبتلا افراد کی عام صحت اچھی ہوتی ہے اور ان کی زندگی کا چکر بھی نارمل ہوتا ہے۔