لندن اولمپکس کا آنکھوں دیکھاحال

لندن کے ہر سٹیشن پر اولمپک ویلج تک رسائی تک رہنمائی کرنے والے نقشے مفت تقسیم کیلئے رکھے گئے تھے۔

اولمپکس ہر چار سال بعد آتے ہیں، نتیجہ وہی ہے جو دو دہائی سے آرہا ہے۔ (فوٹو : ایکسپریس)

اولمپکس مقابلے اپنی تمام تر رعنائیوں ، نئے ریکارڈزاور امریکی برتری کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے۔ مشہور مقولہ کہ انگریز 50 سال پہلے پلاننگ کرتا ہے، لندن گیمز دیکھ کر سچ ثابت ہوگیا، دنیا کا سب سے بڑا کھیلوں کا میلہ جس منظم انداز میں منعقد کیا گیا اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ برطانوی قوم کا نظم وضبط بھی مشہور ہے جس کا عملی مظاہرہ اولمپکس کے دوران لندن میں نظر آیا۔ ٹرینوں، ٹیوبز (انڈر گرائونڈ ریلوے)، بسوں، فٹ پاتھوں اور سٹیڈیمز میں شائقین کا جم غفیر لیکن مجال ہے کہیں کوئی بدنظمی یا بھگدڑ دکھائی دے۔

لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترتے ہی احساس ہوگیا کہ آپ ایسے میزبان ملک میں آگئے ہیں جس کے باشندے اپنی خوش مزاجی اور تعاون کے ساتھ کھیلوں کے اس میگا ایونٹ کو کامیاب بنانے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ امیگریشن پر خاتون نے پاسپورٹ پر مہر ثبت کرتے ہوئے آمد کا مقصد دریافت کرنے کے بعد خوش دلی سے کہا کہ اولمپکس کی اچھی کوریج ہونی چاہیے۔

لندن کے ہر سٹیشن پر اولمپک ویلج تک رسائی تک رہنمائی کرنے والے نقشے مفت تقسیم کیلئے رکھے گئے تھے جبکہ ہرمسافر کیلئے اخبارات بھی بغیر کسی معاوضے کے دستیاب تھے جن میں اولمپکس سرگرمیوں کی بے پناہ رپورٹس دستیاب تھیں، زیر زمین ٹرین میں ہر دوسرے مسافر کے ہاتھ میں ریلوے کا نقشہ ہوتا جس سے پتہ چلتا کہ سینٹرل لائن، ڈسٹرکٹ لائن، جوبلی لائن، ہیمر سمتھ لائن یا وکٹوریا لائن میں سے کونسی گاڑی کس سٹیشن سے تبدیل کرنا ہے تاکہ آپ باآسانی سٹرٹ فورڈ پہنچ جائیں جہاں اولمپک سٹیڈیم اور اولمپک ویلج تعمیر کیا گیا ہے۔

ٹرینوں میں لگے ہوئے نقشوں میں بھی اولمپکس ویلج کی نمایاں طور پر نشاندہی کی گئی تھی۔ سٹرٹ فورڈ پر اترنے کے بعد سکیورٹی کے پیش نظر تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد اس مقام پر پہنچے جہاں سے شٹل بسیں میڈیا سینٹر، اولمپکس سٹیڈیم اور دیگر وینیوز تک پہنچانے کیلئے دستیاب تھیں۔ شائقین اور صحافیوں کیلئے جگہ جگہ گائیڈ بکس، نقشے اور لٹریچرز رکھے گئے تھے، غرض لندن والوں نے اولمپکس گیمز سے لطف اندوز ہونے والوں کو ہرقسم کی سہولیات فراہم کررکھی تھیں، سٹرٹ فورڈ کے لوکل اور انٹرنیشنل سٹیشنز کے درمیانی علاقے میں جشن کا سماں تھا، بلند کرسیوں پر بیٹھی خواتین والنٹیئرز لوگوں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ سٹیڈیم آنے جانے کے راستوں کی نشاندہی کررہی تھیں۔

بار بار یاد دہانی بھی کرائی جارہی تھی کہ ٹکٹ ضرور خریدیں ورنہ سٹیڈیم کے اندر داخل نہیں ہونے دیا جائے گا جبکہ راستوں پر بھی ورکرز ٹکٹ چیک کرنے کے بعد آگے جانے کی اجازت دے رہے تھے۔ اولمپک گیمز ہر 4 سال بعد آتے ہیں نئے رنگ، نئے ریکارڈز اور نت نئی کہانیوں کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں مگر کھیلوں کے عظیم الشان میلے میں پاکستان کی شرکت محض رسمی کارروائی بن گئی۔ پاکستان میں اولمپک گیمز کا انتظار کھلاڑیوں سے زیادہ آفیشلز اور خاص طور پر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو رہتا ہے، اس مرتبہ بھی 39 کے دستے میں کھلاڑیوں اور آفیشلز کی تعداد میں 19، 20 کا فرق تھا۔


اکثر آفیشلز گیمز کے بہانے سیر سپاٹے کرتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے جس کھیل سے وابستہ ہوکر وہ ایونٹ میں آئے ہیں ان میں شرکت محض ٹوکن ہے اور میڈل کا دور دور تک چانس نہیں۔ ہر گیمز کے انعقاد کے بعد مایوس کن نتائج کے بعد حکام اگلے گیمز میں عمدہ پرفارمنس کی نوید سناتے ہیں، لندن اولمپک گیمز میں بھی صورتحال مختلف نہیں رہی۔ وائلڈ کارڈز پر اتھلیٹس رابعہ عاشق اور لیاقت علی، سوئمرز انعم بانڈے اوراسرارحسین، شوٹرخرم انعام نے پاکستان کی نمائندگی کی مگر سب خالی ہاتھ واپس آئے۔

انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی رکن ممالک کو مخصوص کھیلوں میں تحفتاً انٹری دیتی ہے تاکہ ان کی عالمی سطح پر نمائندگی ہوسکے، بعض کھیلوں میں جہاں وائلڈ کارڈ کے دعویدار زیادہ ہوں انٹری کوالیفائنگ رائونڈز کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔ اولمپکس میں میڈل کی واحد امید ورلڈ نمبر 9 پاکستان ہاکی ٹیم تھی جس نے آغاز پر اعتماد انداز میں کیا۔ اذلان شاہ کپ میں نظر آنے والی دوسرے ہاف میں سٹیمنا کی کمی دور کرلی گئی تاہم پہلے ہاف میں ریلیکس ہوکر کھیلنے کی کمزوری کو آسٹریلیا اور انگلینڈ نے بھانپ لیا۔

دونوں ٹیموں نے سپین اور ارجنٹائن کے میچز کی وڈیو دیکھ کر پاکستانی قلعے پر ابتدائی لمحات میں حملے کرنے کی حکمت عملی اپنائی اور کامیاب رہے، ریورسائیڈ ایرینا سٹیڈیم میں پاکستان نے ورلڈ نمبر 5 سپین کے خلاف میچ 1-1 گول سے ڈرا کھیل کر چونکا دیا، دوسرے مقابلے میں ارجنٹائن کو 2-0 سے شکست دیکر گرین شرٹس نے امید دلائی مگر بعد ازاں انگلینڈ نے چھکے چھڑادیئے اور 4-1 سے کامیابی حاصل کی، میزبان ٹیم کو مقامی شائقین کی بھرپور حمایت حاصل تھی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے کھلاڑیوں کے ہاتھ پائوں پھول گئے، جنوبی افریقہ کیخلاف سنسنی خیز مقابلے کے بعد 5-4 سے کامیابی ملی،آخری 6 منٹ میں سہیل عباس اور وسیم احمد کے گول نے بازی پلٹی، آس لگی کہ ٹیم آسٹریلیا کو ہراکر فائنل فور مرحلے تک پہنچ جائیگی تاہم کوکا بوراز نے گرین شرٹس کے دفاع میں مسلسل شگاف کرکے 7-0 سے فتح پائی، ساتویں پوزیشن کے میچ میں پاکستان نے جنوبی کوریا کو ہراکر چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کا حق حاصل کرلیا۔

اولمپکس ہر چار سال بعد آتے ہیں، نتیجہ وہی ہے جو دو دہائی سے آرہا ہے گیمز کے بعد کچھ بیانات آتے ہیں، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور دیگر فیڈریشنز قوم کو طفل تسلیاں دیتی ہیں اور معاملہ اگلے اولمپک گیمز تک دب جاتا ہے۔ پی او اے ہر سال بہتر نتائج کی نوید سناتی ہے تاہم اس کا کردار مایوس کن رہا ہے، چیف ڈی مشن عاقل شاہ ٹرین میں ملے انھیں اس بات پر فخر تھا کہ ان کی بدولت پاکستانی دستہ نے اولمپکس کے افتتاحی تقریب میں قومی لباس میں شرکت کی تاہم وہ کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نادم نہیں تھے۔

انھوں نے بتایا کہ کچھ مہمان لندن آئے ہوئے ہیں ان سے ملنے جارہا ہوں، وہ ہاکی ٹیم پر بھی نکتہ چینی کررہے تھے جبکہ بطور سربراہ دستہ انھیں بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے تھا، وہ وطن واپسی پر بھی دل کی بھڑاس نکال سکتے تھے۔ پی او اے اولمپکس اور دیگر انٹرنیشنل ایونٹس میں میڈیا ایکریڈیشن کارڈز کی بندر بانٹ میں لگی رہتی ہے، اس مرتبہ بھی چند ایسے صحافیوں کو ایکریڈیشن مل گیا جن کا سپورٹس سے دور دور کا واسطہ نہیں رہا جبکہ عامل صحافی یہ موقع پانے کو ترستے رہے۔ آخرمیں پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کی مہمان نوازی کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا، لاہور کے دلاور چوہدری سائوتھ ہال میں ایک ریسٹورنٹ چلارہے ہیں، لندن میں وہ پاکستانیوں کا بھرپور خیرمقدم اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں، جب پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ جاتی ہے تو وہ اس کے آفیشل کیٹر کے فرائض بھی وہی انجام دیتے ہیں،انھوں نے لندن میں قیام کے دوران ہر طرح سے خیال رکھا اور سحری کے وقت خاص طور پر فون کرکے بیدار کرتے رہے۔
Load Next Story