آسٹریلیا کے خلاف سیریزکےلئےکمزوربولنگ لائن کاانتخاب

سلیکشن کمیٹی کے انوکھے فیصلے پاکستان کرکٹ کو لے ڈوبیں گے۔

سلیکشن کمیٹی کے انوکھے فیصلے پاکستان کرکٹ کو لے ڈوبیں گے۔ (فوٹو : ایکسپریس)

ہینی بال کا شمار تاریخ کے ان کامیاب سپہ سالاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے حالات سے گھبرانے اور ہمت ہارنے کی بجائے اپنے سے کئی گنا بڑے اور طاقتور دشمن کو شکست دی۔چھوٹے سے ملک قرطاجنہ سے تعلق رکھنے والے اس مرد آہن نے اس وقت کی سپر پاور ''روما'' کو 17 برس تک تگنی کا ناچ نچائے رکھا اورایک مرتبہ نہیں بلکہ درجنوں بار ناکوں چنے چبوائے۔ ہینی بال کہتا ہے کہ جنگ کے میدان افراد سے نہیں بلکہ بھر پور حکمت عملی اور جرات و بہادری سے سر کئے جاتے ہیں، میری کامیابیوں کا راز یہی ہے کہ میں دشمن کے جال میں پھنسنے کی بجائے اس کو اپنے من پسند میدان میں گھیر کر مارتا ہوں۔

ملکی کرکٹ کی تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی اصل طاقت اس کا بولنگ بالخصوص فاسٹ بولنگ کا شعبہ رہا ہے ۔ فضل محمود، سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم ، وقار یونس ، شعیب اختر یہ ہمارے وہ مایہ ناز پیسرز ہیں جن کا سامنا کرتے وقت مخالف بلے باز تھر تھر کانپتے اور گھبراہٹ اور پریشانی کے اس عالم میں غیر ضروری شاٹس کھیل کر اپنی وکٹیں گنوا دیتے تھے۔1992ء کے ورلڈ کپ کے فاتح کپتان عمران خان بھی جیت کا زیادہ تر انحصار بولنگ کے شعبے پر ہی کیا کرتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ بولرز کے پاس تو اصلاح کی کافی گنجائش ہوتی ہے تاہم دنیا کے بڑے سے بڑے بیٹسمین کی چھوٹی سی غلطی اسے پویلین کی راہ دکھا سکتی ہے۔

رواں برس سری لنکا میں شیڈول پاکستان کرکٹ ٹیم کو ٹوئنٹی20 ورلڈ کپ سے قبل آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ اور ٹوئنٹی 20 سیریز کی صورت میں بڑے چیلنج کا سامنا ہے جس کے لئے پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی حال ہی میں قومی سکواڈ کا اعلان بھی کر چکی ہے تاہم حیران کن طور پر ون ڈے سیریز کے لئے تجربہ کار کھلاڑیوں کی بجائے نوجوان پلیئرز پر زیادہ انحصار کیا گیا ہے۔ اعلان کر دہ ٹیم دیکھ کو دیکھ کر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مصباح الحق الیون دنیا کی مضبوط ٹیم کی بجائے کمزور ترین سائیڈکے خلاف کرکٹ کھیلنے کے لئے جا رہی ہے۔

جنید خان نے سری لنکا کے خلاف شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کے بعد انہیں سکواڈ میں شامل کرنا خوش آئند ہے لیکن آسٹریلیا کے خلاف مقابلوں کے دوران انہیں دوسرے اینڈ سے سپورٹ کرنے والا کوئی باصلاحیت فاسٹ بولر موجود نہیں، سہیل تنویر مختلف مسائل کے سبب اب تک ٹیم میں مستقل جگہ نہیں بنا سکے، فٹنس اعزاز چیمہ کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف 2008ء میں واحد ٹوئنٹی 20 انٹرنیشنل میچ کھیلنے کے بعد ٹیم سے مسلسل باہر رہنے والے انور علی سے بھی فوری طور پر شاندار کارکردگی کی توقع کم ہی کی جا سکتی ہے۔ محمد طلحہ کا شمار ہمیشہ باصلاحیت فاسٹ بولرز میں کیا گیا لیکن وہ بار بار نظر انداز ہوئے، وہاب ریاض نے ورلڈ سیمی فائنل میں بھارت کیخلاف شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے5 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی، اس کے بعد پیسر کو کبھی ان، کبھی آئوٹ کرکے اعتماد متزلزل کردیا گیا اور تو اور تجربہ کار پیسر عمر گل کو بھی آرام دینے کا بہانہ ڈھونڈ کر سکواڈ سے باہر کر دیا گیا۔

اقبال قاسم نے چیف سلیکٹر کا دوسری بار عہدہ سنبھالنے کے بعد شعیب اختر کے متبادل کے طور پر محمد سمیع کو واپسی کا موقع فراہم کرکے تینوں طرز کی کرکٹ میں قومی سکواڈ کا حصہ بنایا مگر دورئہ سری لنکا کے بعد ایک بار پھر ٹیم سے باہر بٹھا دیا گیا، راحت علی اور صدف حسین بھی اقبال قاسم کی دریافت تھا لیکن انہیں بھی مناسب مواقع دیئے بغیر آئوٹ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مبصرین کی رائے میں اقبال قاسم پی سی بی کے سابق چیئرمین اعجاز بٹ کے دور میں چیف سلیکٹر بنے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کی نہ ختم ہونے والی شکستوں کا سلسلہ شروع ہوا ، مصباح الحق کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے مسلسل 6ٹیسٹ سیریز میں فتوحات حاصل کیں، سری لنکا کے خلاف سیریز سے پہلے اقبال قاسم دوبارہ چیف سلیکٹر بنے تو ماضی کی طرح انہوں نے ایک بار پھر نت نئے تجربات شروع کئے جس کی وجہ سے آئی لینڈرز کے ہاتھوں ایک روزہ اور ٹیسٹ دونوں سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، ٹیم میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہا تو پے در پے شکستیں گرین شرٹس کا مقدر بن جائیں گی۔ ملکی دوسرے کھیلوں کا حال تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، لندن اولمپکس میں کھلاڑیوں کی شرمناک پرفارمنس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔


واحد کھیل کرکٹ ہی باقی رہ جاتا ہے جس نے ایک بار نہیں متعدد بارجیت کی شکل میں قوم کو خوشیاں عطاء کی ہیں۔1992 کا ورلڈ کپ ہو یا 2009 کا ٹوئنٹی 20 عالمی کپ گرین شرٹس نے پے در پے کامیابیاں سمیٹ کر دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا ہے۔ اسی جیت کی وجہ سے پاکستان میں کرکٹ سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم سے وابستہ کھلاڑی جہاں بھی جاتے ہیں تو ان کے چاہنے اور محبت کرنے والے پرستار ان کے وارے جاتے ہیں اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ عالمی سطح پر ہونے والے مقابلوں کے دوران عوام کا جوش قابل دید ہوتا ہے اور وہ راتوں کو جاگ کر جہاں سنسنی خیز مقابلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں اپنی ٹیم کی کامیابی کے لئے گڑ گڑا کر دعا بھی مانگتے ہیں ، شائقین کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا پسندیدہ کھیل بھی نت نئے تجربات کی نظرہو کر تباہی کی طرف دھکیل دیا جائے۔

پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں غیر ملکی کوچ کا تجربہ زیادہ خوشگوار نہیں رہا، رچرڈ پائی بس، باب وولمر، جیف لاسن یہ پاکستان کو کوئی بڑی کامیابی نہیں دلا سکے۔باب وولمر کی کوچنگ میں تو گرین شرٹس عالمی کپ 2007ء کے پہلے ہی رائونڈ سے باہر ہو گئی۔ موجودہ فارن کوچ ڈیو واٹمور کی کوچنگ میں گرین شرٹس ایشیا کپ کے علاوہ تاحال کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ سری لنکا میں قومی ٹیم کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کے ساتھ کام کرنے والے ایک اور غیر ملکی کوچ جولین فائونٹین ہیں، یہ ملک بھر میں ہونی والی تقاریب حتیٰ کہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں بھی ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ خوش اور مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ بورڈ ذرائع کا کہنا ہے کہ جولین اپنے ملک میں 3 ہزار ڈالر کی نوکری ڈھونڈ رہا تھا جو لاکھ کوششوں کے باوجود نہیں مل رہی تھی انہیں پی سی بی نے تین گنا زیادہ معاوضے پر ملازمت دے دی۔

ان کی کوچنگ کا قومی ٹیم کو جتنا اور جس قدر فائدہ ہوا ہے اس کا اندازہ سری لنکا کے خلاف سیریز میں بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھاری معاوضے پر جنوبی افریقہ کے جونٹی رہوڈز کو 2 ہفتے کے لئے فیلڈنگ کوچ کی خدمات حاصل کیں، ذرائع کے مطابق معاہدہ مکمل ہونے کے بعد جونٹی نے پی سی بی میں جو رپورٹ پیش کی اس میں اس نے کھلاڑیوں بالخصوص سینئرز کھلاڑیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ان کو اپنی فیلڈنگ بہتر بنانے میں دلچسپی ہی نہیں ہے، اس نے رپورٹ میں لکھا کہ پی سی بی نے نہ صرف اپنا پیسہ ضائع کیا ہے بلکہ میرا وقت بھی برباد کیا۔ ماضی قریب میںکچھ دیر کے لئے ٹیم کی فیلڈنگ میں بہتری کے کچھ آثار دکھائی دیئے جو کسی غیر ملکی کوچ کی بجائے اعجاز احمد کی کوچنگ کا نیتجہ تھے۔

عاقب جاوید کے مستعفی ہونے کے بعد پی سی بی کی کوچ کمیٹی ایک اور غیر ملکی بولنگ کوچ کی تلاش میں ہے، ذرائع کے مطابق اس حوالے سے ای این پونٹنگ کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔گو 3 روز قبل سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے بھی قومی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ میں دلچسپی ظاہر کی ہے لیکن ان کے نام پر اس لئے غور نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ کوالیفائیڈ کوچ ہیں اور نہ ان کے پاس لیول تھری کی ڈگری اور پانچ سال کی کوچنگ کاتجربہ ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے 1992 کا ورلڈ کپ اور 2009 کا ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ ملکی کوچز کی نگرانی میں جیتا اور اتفاق سے دونوں عالمی کپ میں ٹیم کے کوچنگ کے فرائض سابق کپتان اورکوچ کمیٹی کے سربراہ انتخاب عالم نے ادا کئے۔انتخاب عالم سے سوال یہ ہے کہ ان کے پاس وہ کون سی غیر ملکی ڈگریاں تھیں جس نے پاکستان کو 2 بار عالمی چیمپئن بنانے میں راہ ہموار کی۔

ذکاء اشرف کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا منصب سنبھالنے کے بعد جن چیلنجز کا سامنا رہا ہے اس کی ماضی میں مثال کم ہی ملتی ہے، ان کے آنے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں ''مسٹر لکی چیئرمین'' کے حوالے سے پکارا جانے لگا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم کا قبلہ درست کرنے کے ساتھ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی ذکاء اشرف کے لئے کڑا امتحان ہے۔ان کی کوششوں کی وجہ سے بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم پاکستان میں آنے کے لئے تیار تو ہو گئی لیکن حکومت پنجاب کی بیان بازی اور بنگلہ دیش کی ہائیکورٹ کی وجہ سے ویران گرائونڈز آباد نہ ہو سکے۔ ذکاء اشرف کی جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار بیٹھتا لیکن انہوں نے امید کا دامن نہ چھوڑا اور انتھک کوششوں کے بعد بھارت پاکستان ٹیم کواپنے ملک میں بلانے پر تیار ہو گیا ہے اور روایتی حریفوں کے درمیان یہ سیریز دسمبر میں ہوگی، اس سیریز کے بعدکامیاب انعقاد کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ بھارتی ٹیم بھی پاکستان آ کر کھیلے گی اور ویران گرائونڈز آباد کرے گی۔

mian.asghar@express.com.pk
Load Next Story