قائدکے معتمد خاص‘بہادر یار جنگ
جب قائد اعظم نے انگلستان سے لوٹ آنے اور مسلم لیگ کی تنظیم نو کی ذمے داری سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو ...
جب قائد اعظم نے انگلستان سے لوٹ آنے اور مسلم لیگ کی تنظیم نو کی ذمے داری سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو چند سر برآوردہ کارکن ان کی قیادت میں کام کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہوگئے۔ ان کارکنوں میں نواب بہادر یار جنگ ایک نمایاں حیثیت کے حامل تھے اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگاکہ نواب صاحب کی اندوہناک اور ناوقت موت تک وہ قائد اعظم کے معتمد اور دست راست رہے۔ بہادر یار جنگ نے اپنے قائد کا اعتماد حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا۔ مسلم عوام کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے کی خاطر انھوں نے سارے ہندوستان کے دورے کیے اور اپنی بے مثال خطابت سے مسلم لیگ کو مسلمانان ہند کی واحد نمایندہ جماعت بنانے کے سلسلے میں غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ بہادریارجنگ بجا طورپر ان عظیم مجاہدین میں شمار کیے جاسکتے ہیں جنھوں نے قائد اعظم کی قیادت میں حصول پاکستان کی جنگ لڑی۔
محمد بہادرخان فروری1905کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ بہادر خان کی نانی نے جو ایک نہایت سمجھ دار اور مذہبی خاتون تھیں ان کی پرورش کی۔ اٹھارہ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے وقت جاگیر قرضوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ نواب صاحب نے غیر معمولی تدبر اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی سی مدت میں قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔
جاگیر کے حالات سنبھل گئے تو نواب صاحب نے حج بیت اﷲ کا عزم کیا۔ حج سے فارغ ہوکر مسلم ممالک کی سیاحت کی، سیاحت سے واپسی کے بعد خاکسار تحریک سے وابستگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی ریاست کی ایک سیاسی ومذہبی تنظیم مجلس اتحاد المسلمین میں بھی شامل ہوگئے۔
1944میں وہ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی ساری توجہ مجلس اتحاد المسلمین کی طرف مرکوز کردی۔ انھوں نے مجلس اتحاد المسلمین میں ایک رضاکار تنظیم قائم کی۔ بہادر یار جنگ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانان حیدرآباد میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کردیا۔ بہادر یار جنگ بڑی ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ بڑے ہی مذہبی اور معاملات میں انتہائی صداقت پسند اور کھرے انسان تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے اس کو کہتے اور کر گزرنے میں کسی قسم کی پرواہ نہ کرتے، وہ دامے، درمے، سخنے ہر ایک کی مدد کے لیے ہر وقت مستعد رہتے۔ قدرت نے بہادر یار جنگ کو ماحول کی پیداوار نہیں بلکہ ماحول کا مصلح بنایا۔ بچپن ہی سے وہ اسلامی جذبے سے سرشار تھے۔ مسلمانوں کی خدمت ان کا نصب العین تھا۔ ملت کی تنظیم ان کا مدعا تھا اور قومی اتحاد ان کا مطمع نظرتھا۔ اسی کے پیش نظر انھوں نے نوجوانی کے عالم میں میلاد کی محفلوں میں تقریریں شروع کیں۔ مساجد میں وعظ اور جلسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دور میں علامہ اقبالؒ سے بہت متاثر ہوئے۔ علامہ اقبال کے جذبہ اسلامی کے وہ بڑے پرستار تھے۔ ان کے کلام اوراشعار بر محل پڑھتے تھے۔ اس لگائو نے انھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ درس اقبالؒ کی محفلیں باقاعدہ منعقد کریں۔ چنانچہ وہ اپنے مکان بیت الامت میں درس اقبال کی محفلیں منعقد کرتے تھے جس میں اقبال شناس شخصیتیں موجود ہوتی تھیں۔
ایک طرف بہادر یار جنگ درس اقبال دیا کرتے تھے تو دوسری طرف درس قرآن۔ وہ جس طرح اقبال سے متاثر تھے اسی طرح مولانا رومیؒ کے زیر اثر بھی تھے۔ وہ علامہ اقبال ؒ اور مولانا رومیؒ کے تو مرید تھے۔
بہادر یار جنگ میں دو خصوصیات بہت نمایاں تھیں ان ہی خصوصیات نے انھیں اس مقام پر پہنچایا جو بہت سوں کے لیے باعث رشک تھا۔ ایک خصوصیت ان کا بے پناہ خلوص تھا، سیاست ان کے لیے پیشہ ہر گز نہ تھی اور نہ وہ اس کو اپنا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔
مسلمانوں کے سیاسی عروج اور ان کے اتحاد کے لیے وہ پورے خلوص کے ساتھ زندگی بھر کام کرتے رہے۔ اگر دولت جاہ ومنصب ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے تو وہ بڑی خوشی کے ساتھ اور بغیر کسی تامل کے انھیں ٹھکرادیتے اپنی ساری زندگی اور ساری توانائی انھوں نے بڑی ایمانداری اور جرأت کے ساتھ مسلم سیاست پر صرف کردی۔ ان کا یہی نصب العین تھا اور یہی ان کی جد وجہد کی غرض وغایت ۔ اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ سیاست میں ان کا ہیرو قائد اعظم تھے۔ جن کی زندگی سے انھوں نے عزم وثبات کا سبق سیکھا تھا ان میں قائداعظم کی سی اصول پرستی تھی اور وہی بے باکی اور صاف گوئی وہ نڈر اور جری تھے۔ مجاہد کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ جاتے اور غازی کی طرح کامیاب اور کامران رہتے۔
دوسری خصوصیت ان کی خطابت تھی، قدرت نے انھیں یہ نعمت بطور خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انھوں نے ہر موقع اور ہر محل پر صحیح کیا۔ بغیر کسی تیاری کے وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ الفاظ کا انتخاب، فقروں کی بندش اظہار خیال کی ندرت اور آواز کا اتار چڑھائو اس قدر متوازن ہوتا کہ مجموعی طورپر ان کی ہر تقریر ایک شہ پارہ ہوتی تھی۔ ہر تقریر سننے والوں کو پچھلی تقریر سے بہترمعلوم ہوتی ۔ اور وہ اس ذوق وشوق سے سنتے جیسے کہ کوئی نغمہ ہو۔ میلاد کی محفل ہو، کالج کی انجمن ہو یا سیاسی تحریک ہر جگہ ان کا طوطی بولتانظر آتاتھا۔
انھوںنے تحریک پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص وتندہی سے حصہ لیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے بڑے شیدائی تھے۔ان کی دلی تمنا تھی کہ ایک ایسی مملکت برصغیر کے اندر بنائی جائے جہاں اسلامی آئین وقوانین نافذ ہوں۔ ایسی سلطنت کے قیام کا منصوبہ دیکھ کر انھوںنے غیر مبہم الفاظ میں یہ کہہ دیا تھا۔
''میرے خیال میں پاکستان کے لیے ہر قسم کی سعی وکوشش حرام اگر پاکستان سے الٰہی اور قرآنی حکومت مراد نہیں جس میں قانون سازی کا بنیادی حق صرف خدائی قدوس کو حاصل ہو ہمارے بنائے ہوئے قوانین اس کی توصیح وتشریح کریں'' وہ آج ہم میں نہیں لیکن ان کی اعلیٰ شخصیت، بے مثال خطابت کی یاد آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔ بلا شبہ ان کی زندگی میں ہمارے لیے ایک ایسا قابل تقلید نمونہ موجود ہے جسے بلا مبالغہ اقبالؒ کے مرد مومن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
(بہادر یار جنگ کی برسی کے موقع پر خصوصی مضمون)
محمد بہادرخان فروری1905کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ بہادر خان کی نانی نے جو ایک نہایت سمجھ دار اور مذہبی خاتون تھیں ان کی پرورش کی۔ اٹھارہ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے وقت جاگیر قرضوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ نواب صاحب نے غیر معمولی تدبر اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی سی مدت میں قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔
جاگیر کے حالات سنبھل گئے تو نواب صاحب نے حج بیت اﷲ کا عزم کیا۔ حج سے فارغ ہوکر مسلم ممالک کی سیاحت کی، سیاحت سے واپسی کے بعد خاکسار تحریک سے وابستگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی ریاست کی ایک سیاسی ومذہبی تنظیم مجلس اتحاد المسلمین میں بھی شامل ہوگئے۔
1944میں وہ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی ساری توجہ مجلس اتحاد المسلمین کی طرف مرکوز کردی۔ انھوں نے مجلس اتحاد المسلمین میں ایک رضاکار تنظیم قائم کی۔ بہادر یار جنگ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانان حیدرآباد میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کردیا۔ بہادر یار جنگ بڑی ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ بڑے ہی مذہبی اور معاملات میں انتہائی صداقت پسند اور کھرے انسان تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے اس کو کہتے اور کر گزرنے میں کسی قسم کی پرواہ نہ کرتے، وہ دامے، درمے، سخنے ہر ایک کی مدد کے لیے ہر وقت مستعد رہتے۔ قدرت نے بہادر یار جنگ کو ماحول کی پیداوار نہیں بلکہ ماحول کا مصلح بنایا۔ بچپن ہی سے وہ اسلامی جذبے سے سرشار تھے۔ مسلمانوں کی خدمت ان کا نصب العین تھا۔ ملت کی تنظیم ان کا مدعا تھا اور قومی اتحاد ان کا مطمع نظرتھا۔ اسی کے پیش نظر انھوں نے نوجوانی کے عالم میں میلاد کی محفلوں میں تقریریں شروع کیں۔ مساجد میں وعظ اور جلسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دور میں علامہ اقبالؒ سے بہت متاثر ہوئے۔ علامہ اقبال کے جذبہ اسلامی کے وہ بڑے پرستار تھے۔ ان کے کلام اوراشعار بر محل پڑھتے تھے۔ اس لگائو نے انھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ درس اقبالؒ کی محفلیں باقاعدہ منعقد کریں۔ چنانچہ وہ اپنے مکان بیت الامت میں درس اقبال کی محفلیں منعقد کرتے تھے جس میں اقبال شناس شخصیتیں موجود ہوتی تھیں۔
ایک طرف بہادر یار جنگ درس اقبال دیا کرتے تھے تو دوسری طرف درس قرآن۔ وہ جس طرح اقبال سے متاثر تھے اسی طرح مولانا رومیؒ کے زیر اثر بھی تھے۔ وہ علامہ اقبال ؒ اور مولانا رومیؒ کے تو مرید تھے۔
بہادر یار جنگ میں دو خصوصیات بہت نمایاں تھیں ان ہی خصوصیات نے انھیں اس مقام پر پہنچایا جو بہت سوں کے لیے باعث رشک تھا۔ ایک خصوصیت ان کا بے پناہ خلوص تھا، سیاست ان کے لیے پیشہ ہر گز نہ تھی اور نہ وہ اس کو اپنا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔
مسلمانوں کے سیاسی عروج اور ان کے اتحاد کے لیے وہ پورے خلوص کے ساتھ زندگی بھر کام کرتے رہے۔ اگر دولت جاہ ومنصب ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے تو وہ بڑی خوشی کے ساتھ اور بغیر کسی تامل کے انھیں ٹھکرادیتے اپنی ساری زندگی اور ساری توانائی انھوں نے بڑی ایمانداری اور جرأت کے ساتھ مسلم سیاست پر صرف کردی۔ ان کا یہی نصب العین تھا اور یہی ان کی جد وجہد کی غرض وغایت ۔ اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ سیاست میں ان کا ہیرو قائد اعظم تھے۔ جن کی زندگی سے انھوں نے عزم وثبات کا سبق سیکھا تھا ان میں قائداعظم کی سی اصول پرستی تھی اور وہی بے باکی اور صاف گوئی وہ نڈر اور جری تھے۔ مجاہد کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ جاتے اور غازی کی طرح کامیاب اور کامران رہتے۔
دوسری خصوصیت ان کی خطابت تھی، قدرت نے انھیں یہ نعمت بطور خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انھوں نے ہر موقع اور ہر محل پر صحیح کیا۔ بغیر کسی تیاری کے وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ الفاظ کا انتخاب، فقروں کی بندش اظہار خیال کی ندرت اور آواز کا اتار چڑھائو اس قدر متوازن ہوتا کہ مجموعی طورپر ان کی ہر تقریر ایک شہ پارہ ہوتی تھی۔ ہر تقریر سننے والوں کو پچھلی تقریر سے بہترمعلوم ہوتی ۔ اور وہ اس ذوق وشوق سے سنتے جیسے کہ کوئی نغمہ ہو۔ میلاد کی محفل ہو، کالج کی انجمن ہو یا سیاسی تحریک ہر جگہ ان کا طوطی بولتانظر آتاتھا۔
انھوںنے تحریک پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص وتندہی سے حصہ لیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے بڑے شیدائی تھے۔ان کی دلی تمنا تھی کہ ایک ایسی مملکت برصغیر کے اندر بنائی جائے جہاں اسلامی آئین وقوانین نافذ ہوں۔ ایسی سلطنت کے قیام کا منصوبہ دیکھ کر انھوںنے غیر مبہم الفاظ میں یہ کہہ دیا تھا۔
''میرے خیال میں پاکستان کے لیے ہر قسم کی سعی وکوشش حرام اگر پاکستان سے الٰہی اور قرآنی حکومت مراد نہیں جس میں قانون سازی کا بنیادی حق صرف خدائی قدوس کو حاصل ہو ہمارے بنائے ہوئے قوانین اس کی توصیح وتشریح کریں'' وہ آج ہم میں نہیں لیکن ان کی اعلیٰ شخصیت، بے مثال خطابت کی یاد آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔ بلا شبہ ان کی زندگی میں ہمارے لیے ایک ایسا قابل تقلید نمونہ موجود ہے جسے بلا مبالغہ اقبالؒ کے مرد مومن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
(بہادر یار جنگ کی برسی کے موقع پر خصوصی مضمون)