ہمارے جگنو ہمارا مستقبل
اگر مونٹیسوری سسٹم صحیح معنوں میں رائج ہوجائے تو ہمارا بچہ بہت خود اعتماد، باشعور اور متحمل مزاج ہوگا
LONDON:
زندگی میں سب سے خوبصورت اور مزیدار دور بچپن کا ہوتا ہے۔ کم از کم یہ فکر نہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے؟ عزت میں کمی نہ آجائے یا پھر معاشرے میں بنے مقام میں... جو دل میں آیا بغیر خوف و خطر بس کہہ دیا۔
گو کہ پابندیاں لگانے والے یہاں بھی زبان پر قفل لگانے کی بے حد کوششیں کرچکے، مگر الحمدللہ ہمارا آج کا بچہ آزادی سے سوچتا اور بے خوف ہوکر کہتا ہے، جو بھی اس کے دل میں ہو۔
ایسے ہی ایک روز بچوں کو اسکول کےلیے تیار کیا تو میرے آٹھ سالہ بیٹے نے معمول کے مطابق ناک چڑھا رکھی تھی۔ ایک تو صبح جلد بیداری کا پرانا گلہ اور دوسرا بے جا مضامین کا بوجھ، میں نے بھی حسب معمول اس کے رویّے کو نظرانداز کیا۔
لیکن آج شاید کچھ اور چل رہا تھا اس کے ذہن میں۔ یک دم بولا، 'ماما یہ بتائیے کہ اسکول کا کانسیپٹ کس نے دیا تھا؟' اور اتنی صبح ہی کیوں؟ اب جواب تو تھا مگر وقت درکار تھا؛ تو وعدہ لیا واپسی پر تفصیلاً جواب دوں گی۔
گلہ تو مجھے بھی ہے۔ دین کی تعلیمات بھی سامنے رکھیں تو پہلے سات سال تو ہمارے نبیﷺ نے بھی ماں کی گود کو پہلی تربیت گاہ کہا ہے۔ ہم دو سے تین سال کے بچے کو مکتب کی نذر کر دیتے ہیں۔ وجوہ گو بہت سی ہیں لیکن انصاف تو یہی ہے کہ جب بچہ دنیا میں آگیا تو والدین کی پہلی ترجیح پھر وہی ذات ہونی چاہیے۔
دوسری طرف تعلیم کے نام پر سجی ہوئی دلکش دکانیں، اشتہارات پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرنے والی یہ تعلیمی انڈسٹری جن کے سال کا آغاز پرافٹ/ لاس پر ہوتا ہے اور اختتام بھی۔
اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً پانچ سے چھ بڑے نام ہیں پرائیویٹ سیکٹر میں، جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ صرف تعلیم بیچ رہے ہیں۔ ماہانہ فیس کی مد میں کم از کم دس ہزار اور زیادہ سے زیادہ پچیس ہزار فی بچہ فیس وصول کی جاتی ہے۔ اسپورٹس یونیفارم، اسکول یونیفارم، پی ٹی ڈریس اور اسٹیشنری کے نام پر اخراجات کی ایک لمبی فہرست الگ تھما دی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود بھی بچہ بخوشی اسکول نہ جائے تو کیا آپ اس کے ساتھ بھلا کر رہے ہیں یا برا؟
خراب طبیعت کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس جائیں تو آدھا علاج اس کی ظاہری شخصیت اور حسنِ اخلاق ہی کردیتا ہے، تو کیا ہمارے ان اداروں میں ایسے اساتذہ موجود نہیں جو بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان سے دوستی کر پائیں؟
''مار نہیں پیار'' حکومت کی طرف سے اٹھایا بہترین قدم تھا۔ مگر کیا حکومت وقت کی ذمہ داری سرکاری تعلیمی اداروں تک ہی محدود ہے؟ اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں کھلے پرائیویٹ اسکولز میں کس کس طرح بچوں کو ٹارچر کیا جاتا ہے، ہم بے خبر ہیں۔
مونٹیسوری اسکولز، مونٹیسوری کیمپس، مونٹیسوری طریقہ تدریس، یہ وہ خوبصورت اور دلکش جملے ہیں جن سے متاثر ہوکر تین سال کے بچے کو ''پلے گروپ'' میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ماں باپ خود لاعلم ہیں کہ مونٹیسوری کون تھیں اور ان کا دیا ہوا یہ نظام تدریس کیا ہے؟
بچہ، ہر بچہ اپنی انفرادی حیثیت کے ساتھ ایک وجود رکھتا ہے۔ اس طریقہ تدریس میں پڑھائی کتاب کے ذریعے نہیں بلکہ قدرتی ماحول میں بچے کے ذاتی تجربات کی صورت دی جاتی ہے۔ سوچنے کی، مسائل حل کرنے کی اور عمل کرنے کی آزادی۔ اہم بات یہ کہ اس عمر میں تعلیمی عمل کا آغاز ہی صبح دس بجے کے بعد ہو تا ہے۔
ہمارے کمرہ جماعت میں بچے پر چیخا جاتا ہے، تین سے دس سال تک کے بچوں پر۔ وہ ذہن جو ابھی رویّے بنانا سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ شور کرنے سے منع کرنے کےلیے استاد خود شور مچا رہے ہوتے ہیں۔ آپ اداروں کی کمی کا رونا نہیں رو سکتے۔ تربیت یافتہ اسٹاف نہ ہونے کا گلہ کریں تو کسی حد تک قابلِ قبول ہے بھی ہے۔
تعلیمی شعبہ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، اور دیر سے ہی سہی مگر پہلا قدم سوچ ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو، آخر اٹھایا تو گیا۔
مغرب جس تیزی سے ترقی کررہا ہے ہمیں اپنے بچوں کو ان کے مقابل کھڑا ہونے کے قابل کرنا ہے؛ اور یہ نہ صرف نصابی کتب میں مواد کی بہتری، جدید مضامین کو نصاب میں شامل کرنے، ہم نصابی صحت مند سرگرمیوں کے رحجان کو تقویت دینے بلکہ سب سے اہم اساتذہ کی تربیت سے ممکن ہے۔
بچے پر اس کی بساط سے زیادہ بوجھ، خواہ کتب کی صورت ہو یا ہوم ورک کی، سراسر ظلم ہے۔ ان معصوم ذہنوں کو کھل کر پنپنے دینا ضروری ہے۔ بوجھ بھاری بستے کی صورت میں ہو یا بے تحاشہ مضامین کا، اسے بہرصورت کم کرنا ہو گا۔
اب وقت ہے کہ تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں ابتدائی سطح پر ایک سا نصاب رائج کرکے اساتذہ کو جدید طریقہ تدریس اور مونٹیسوری طریقہ کی مکمل تربیت دی جائے، نتائج بہت کم وقت میں بہت امید افزاء ہوں گے۔
یقین جانیے کہ جس مونٹیسوری کے دھوکے میں ہم بچوں کو مہنگے اسکولوں میں بھیجتے ہیں، اگر وہی طریقہ تدریس حقیقت میں رائج ہو جائے تو ہمارا بچہ بہت خود اعتماد، باشعور اور متحمل مزاج ہوگا۔
یہ تو ایک پہلو ہوا۔ دوسرا پہلو والدین ہیں۔ ان کی وابستگی بے حد اہم ہے۔ انہیں پتا ہو کہ بچہ کیا پڑھ رہا ہے؟ کن مسائل سے دو چار ہے؟ اور کہاں کتنی توجہ درکار ہے؟ حکومت اور والدین بچوں کے پہلے دس سال پر مکمل توجہ دے لیں تو یقین مانیے ہمارے معاشرے میں ستر فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
چیک اینڈ بیلنس بھی بہت اہم ہے۔ طبقاتی تفریق کا خاتمہ بھی ضروری ہے لیکن سب ذمہ داری حکومت پر ڈالنا غلط ہوگا۔ تعلیم کو بوجھ نہیں بنانا کہ جس کا مقصد بس کسی اچھی نوکری کا حصول ہوا کرتا ہے۔
اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ ہمارے دین کا آغاز ہی لفظ 'اقراء' سے ہوا یعنی 'پڑھ۔' مگر مدارس کا ایسا نظام تب رائج نہیں تھا جیسا اب ہے۔ ہمارے دین میں تو اساتذہ کو روحانی والدین قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح شفقت اور محبت تو پورے تدریسی عمل کی بنیاد قرار پاتے ہیں۔
رویّے بہتر کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ تعلیم کو دماغ میں ٹھونسنا نہیں بلکہ ذہن کو قائل کرنا ہے؛ اور سوچ بچار کے قابل بنانا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی اور سوال کرنے کے رحجان کی ترویج، ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
زندگی میں سب سے خوبصورت اور مزیدار دور بچپن کا ہوتا ہے۔ کم از کم یہ فکر نہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے؟ عزت میں کمی نہ آجائے یا پھر معاشرے میں بنے مقام میں... جو دل میں آیا بغیر خوف و خطر بس کہہ دیا۔
گو کہ پابندیاں لگانے والے یہاں بھی زبان پر قفل لگانے کی بے حد کوششیں کرچکے، مگر الحمدللہ ہمارا آج کا بچہ آزادی سے سوچتا اور بے خوف ہوکر کہتا ہے، جو بھی اس کے دل میں ہو۔
ایسے ہی ایک روز بچوں کو اسکول کےلیے تیار کیا تو میرے آٹھ سالہ بیٹے نے معمول کے مطابق ناک چڑھا رکھی تھی۔ ایک تو صبح جلد بیداری کا پرانا گلہ اور دوسرا بے جا مضامین کا بوجھ، میں نے بھی حسب معمول اس کے رویّے کو نظرانداز کیا۔
لیکن آج شاید کچھ اور چل رہا تھا اس کے ذہن میں۔ یک دم بولا، 'ماما یہ بتائیے کہ اسکول کا کانسیپٹ کس نے دیا تھا؟' اور اتنی صبح ہی کیوں؟ اب جواب تو تھا مگر وقت درکار تھا؛ تو وعدہ لیا واپسی پر تفصیلاً جواب دوں گی۔
گلہ تو مجھے بھی ہے۔ دین کی تعلیمات بھی سامنے رکھیں تو پہلے سات سال تو ہمارے نبیﷺ نے بھی ماں کی گود کو پہلی تربیت گاہ کہا ہے۔ ہم دو سے تین سال کے بچے کو مکتب کی نذر کر دیتے ہیں۔ وجوہ گو بہت سی ہیں لیکن انصاف تو یہی ہے کہ جب بچہ دنیا میں آگیا تو والدین کی پہلی ترجیح پھر وہی ذات ہونی چاہیے۔
دوسری طرف تعلیم کے نام پر سجی ہوئی دلکش دکانیں، اشتہارات پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرنے والی یہ تعلیمی انڈسٹری جن کے سال کا آغاز پرافٹ/ لاس پر ہوتا ہے اور اختتام بھی۔
اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً پانچ سے چھ بڑے نام ہیں پرائیویٹ سیکٹر میں، جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ صرف تعلیم بیچ رہے ہیں۔ ماہانہ فیس کی مد میں کم از کم دس ہزار اور زیادہ سے زیادہ پچیس ہزار فی بچہ فیس وصول کی جاتی ہے۔ اسپورٹس یونیفارم، اسکول یونیفارم، پی ٹی ڈریس اور اسٹیشنری کے نام پر اخراجات کی ایک لمبی فہرست الگ تھما دی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود بھی بچہ بخوشی اسکول نہ جائے تو کیا آپ اس کے ساتھ بھلا کر رہے ہیں یا برا؟
خراب طبیعت کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس جائیں تو آدھا علاج اس کی ظاہری شخصیت اور حسنِ اخلاق ہی کردیتا ہے، تو کیا ہمارے ان اداروں میں ایسے اساتذہ موجود نہیں جو بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان سے دوستی کر پائیں؟
''مار نہیں پیار'' حکومت کی طرف سے اٹھایا بہترین قدم تھا۔ مگر کیا حکومت وقت کی ذمہ داری سرکاری تعلیمی اداروں تک ہی محدود ہے؟ اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں کھلے پرائیویٹ اسکولز میں کس کس طرح بچوں کو ٹارچر کیا جاتا ہے، ہم بے خبر ہیں۔
مونٹیسوری اسکولز، مونٹیسوری کیمپس، مونٹیسوری طریقہ تدریس، یہ وہ خوبصورت اور دلکش جملے ہیں جن سے متاثر ہوکر تین سال کے بچے کو ''پلے گروپ'' میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ماں باپ خود لاعلم ہیں کہ مونٹیسوری کون تھیں اور ان کا دیا ہوا یہ نظام تدریس کیا ہے؟
بچہ، ہر بچہ اپنی انفرادی حیثیت کے ساتھ ایک وجود رکھتا ہے۔ اس طریقہ تدریس میں پڑھائی کتاب کے ذریعے نہیں بلکہ قدرتی ماحول میں بچے کے ذاتی تجربات کی صورت دی جاتی ہے۔ سوچنے کی، مسائل حل کرنے کی اور عمل کرنے کی آزادی۔ اہم بات یہ کہ اس عمر میں تعلیمی عمل کا آغاز ہی صبح دس بجے کے بعد ہو تا ہے۔
ہمارے کمرہ جماعت میں بچے پر چیخا جاتا ہے، تین سے دس سال تک کے بچوں پر۔ وہ ذہن جو ابھی رویّے بنانا سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ شور کرنے سے منع کرنے کےلیے استاد خود شور مچا رہے ہوتے ہیں۔ آپ اداروں کی کمی کا رونا نہیں رو سکتے۔ تربیت یافتہ اسٹاف نہ ہونے کا گلہ کریں تو کسی حد تک قابلِ قبول ہے بھی ہے۔
تعلیمی شعبہ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، اور دیر سے ہی سہی مگر پہلا قدم سوچ ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو، آخر اٹھایا تو گیا۔
مغرب جس تیزی سے ترقی کررہا ہے ہمیں اپنے بچوں کو ان کے مقابل کھڑا ہونے کے قابل کرنا ہے؛ اور یہ نہ صرف نصابی کتب میں مواد کی بہتری، جدید مضامین کو نصاب میں شامل کرنے، ہم نصابی صحت مند سرگرمیوں کے رحجان کو تقویت دینے بلکہ سب سے اہم اساتذہ کی تربیت سے ممکن ہے۔
بچے پر اس کی بساط سے زیادہ بوجھ، خواہ کتب کی صورت ہو یا ہوم ورک کی، سراسر ظلم ہے۔ ان معصوم ذہنوں کو کھل کر پنپنے دینا ضروری ہے۔ بوجھ بھاری بستے کی صورت میں ہو یا بے تحاشہ مضامین کا، اسے بہرصورت کم کرنا ہو گا۔
اب وقت ہے کہ تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں ابتدائی سطح پر ایک سا نصاب رائج کرکے اساتذہ کو جدید طریقہ تدریس اور مونٹیسوری طریقہ کی مکمل تربیت دی جائے، نتائج بہت کم وقت میں بہت امید افزاء ہوں گے۔
یقین جانیے کہ جس مونٹیسوری کے دھوکے میں ہم بچوں کو مہنگے اسکولوں میں بھیجتے ہیں، اگر وہی طریقہ تدریس حقیقت میں رائج ہو جائے تو ہمارا بچہ بہت خود اعتماد، باشعور اور متحمل مزاج ہوگا۔
یہ تو ایک پہلو ہوا۔ دوسرا پہلو والدین ہیں۔ ان کی وابستگی بے حد اہم ہے۔ انہیں پتا ہو کہ بچہ کیا پڑھ رہا ہے؟ کن مسائل سے دو چار ہے؟ اور کہاں کتنی توجہ درکار ہے؟ حکومت اور والدین بچوں کے پہلے دس سال پر مکمل توجہ دے لیں تو یقین مانیے ہمارے معاشرے میں ستر فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
چیک اینڈ بیلنس بھی بہت اہم ہے۔ طبقاتی تفریق کا خاتمہ بھی ضروری ہے لیکن سب ذمہ داری حکومت پر ڈالنا غلط ہوگا۔ تعلیم کو بوجھ نہیں بنانا کہ جس کا مقصد بس کسی اچھی نوکری کا حصول ہوا کرتا ہے۔
اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ ہمارے دین کا آغاز ہی لفظ 'اقراء' سے ہوا یعنی 'پڑھ۔' مگر مدارس کا ایسا نظام تب رائج نہیں تھا جیسا اب ہے۔ ہمارے دین میں تو اساتذہ کو روحانی والدین قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح شفقت اور محبت تو پورے تدریسی عمل کی بنیاد قرار پاتے ہیں۔
رویّے بہتر کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ تعلیم کو دماغ میں ٹھونسنا نہیں بلکہ ذہن کو قائل کرنا ہے؛ اور سوچ بچار کے قابل بنانا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی اور سوال کرنے کے رحجان کی ترویج، ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔