چین کا دورہ یقیناً بڑا کامیاب رہا

چائنہ سے ناکام واپس لوٹنے کے بعد ہمیں اپنی ادائیگیوں کے بحران کے ٹل جانے کا بھی پتہ چل گیا ہے۔

mnoorani08@gmail.com

رفتہ رفتہ یہ بات عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی نئی جمہوری حکومت کو ورثے میں ملنے والا معاشی بحران اِس قدر شدید تھا ہی نہیں، جتنا کہ اُس کے بارے میں واویلا مچایا جا رہا تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اِس حوالے سے وہی اسٹریٹجی اپنائی جو وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے سابقہ نواز حکومت کے خلاف استعمال کرتی رہی تھی۔ یعنی بے بنیاد الزامات کے تحت اتنا شوروغوغہ کیا جائے کہ وہ جھوٹ سچ معلوم ہونے لگے۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ خان صاحب نے جب عنان حکومت سنبھالا تو ہمارے خزانے میں زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہی تھے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق اِن تین ماہ میں وہ گھٹ کر 14ارب ڈالر رہ گئے ہیں ۔ یہ صورتحال اُن دنوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے جو 2013ء میں میاں صاحب کو ملی تھی۔ اُس وقت قومی خزانے میں صرف 11ارب ڈالر موجود تھے اور ملک کو بجلی اور توانائی کا بحران اور دوسرا دہشتگردی کی عالمی جنگ کاسامنا تھا اِس کے باوجود میاں نواز شریف کی حکومت نے ہمت وجرأت کے ساتھ سارے معاملات نمٹائے اور زرمبادلہ کے ذخائرکو 24 ارب ڈالر تک پہنچا دیا۔

اِس کے بعد غیر مستحکم اور غیر یقینی سیاسی صورتحال نے اِن ساری کامیابیوں پر پانی پھیر دیا۔ موجودہ معاشی صورتحال مشکل ضرور ہے لیکن وہ اتنی گھمبیر نہیں جتنا بیان کیا جا رہا ہے۔ خود حکومتی وزراء اِس کااعتراف کرنے لگے ہیں۔ وزیراعظم کے سعودی عرب اور چائنا کے دوروں کے بعد یہ کہا جانے لگا ہے کہ غیر ملکی ادائیگیوں کا بحران اب ٹل گیا ہے۔

حالانکہ دیکھا جائے تو چائنہ کے بیل آؤٹ پیکیج میں ہمیں ایک دھیلا بھی نہیں ملا۔ جوکچھ ملا بھی تو وہ منظر عام پر نہیں لایا گیا، جب کہ سعودی عرب کے دورے کے بعد بھی یہ خوشخبریاں سنائی گئیں کہ 6 سے12ارب ڈالرزکے سمجھوتے ہوگئے ہیں، لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ کیش کے صورت میں ہمیں ابھی تک کچھ بھی نہیں ملا ہے۔سعودی عرب کے دورے کے بعد کامیابی وکامرانی کے بڑے ڈھول بجائے گئے لیکن اگر دیکھا جائے تو وہاں سے بھی ملنے والی اصل امدادی رقم محض 3 ارب ڈالر ہی ہے باقی ادھارملنے والے تیل ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ 3 ارب ڈالر بھی ابھی تک قومی خزانے کی زینت نہیں بن پائے ہیں لیکن ہمارے حکمراں قوم کو یہ نوید سنا رہے ہیں کہ غیرملکی ادائیگیوں کا بحران ٹل گیا ہے۔ حیران کن بات ہے کہ جب ہمارے خالی کشکول میں ابھی تک کسی نے کچھ بھی نہیں ڈالا ہے تو ہمارا مالی بحران بھلاکیسے ٹل گیا۔اِس کا مطلب ہے کہ جس بحران کے بارے میں اتنا شور اورواویلا مچایاگیا تھا حقیقتاً اُس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا یا پھر وہ اتنا شدید اور خوفناک نہیں تھا جتنا کہ قوم کو باور کیا گیا تھا۔

خان صاحب اور اُن کے رفقاء کی مجبوری ہے کہ وہ ابھی تک اپوزیشن کے دور سے خود کو نکال نہیں پائے ہیں۔انھوں نے ساری زندگی اپوزیشن ہی کا رول ادا کیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ قسمت نے انھیں عنان حکومت سے سرفراز کردیا مگر جھوٹ اور بے بنیاد پروپیگنڈے کی سیاست سے وہ خود کو الگ نہیں کر پا رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ جب انھیں یقین ہونے لگے گاکہ قوم اِن باتوں سے اب بیزار ہونے لگی ہے اور وہ حکومتی کارکردگی کے حوالے سے کچھ دیکھنا چاہتی ہے تو وہ پھر صحیح سمت میں آگے بڑھنے لگیں گے۔

چائنہ کے دورے نے اُن کی آنکھیں کھول دی ہیں اور انھیں احساس ہونے لگا ہے کہ کوئی ہم پر رحم کھا کر اب یکطرفہ طور پرہمیں بھیک اورامداد دینے پر راضی نہیں ہے۔ ساری دنیا کے اپنے مسائل اور مصائب ہیں۔ وہ بلاوجہ کسی کو اپنی دولت کیوں لٹانے لگیں۔


اور ہم نے بھی اپنا چہرہ انٹرنیشنل بھکاریوں والا بنالیا ہے۔ پہلے ہم صرف سعودی عرب سے اسلامی بھائی چارگی کے ناتے مفت میں امداد اور پیسے مانگ لیاکرتے تھے لیکن اب چائنہ اور دوسرے ملکوں سے بھی مانگنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ دیکھا جائے تویہ اللہ تعالیٰ کا ہم پربڑا کرم ہوا ہے کہ چائنہ نے ہمیں مایوس لوٹا دیا ہے۔ شاید اِس کے بعد ہم اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے کی کچھ نہ کچھ کوشش اورجتن کریں گے۔

چائنہ سے ناکام واپس لوٹنے کے بعد ہمیں اپنی ادائیگیوں کے بحران کے ٹل جانے کا بھی پتہ چل گیا ہے۔ ورنہ ہم تو یہی سمجھ رہے تھے کہ اگر فوری امداد نہ ملی تو ہمارا وطن عزیز بس چند مہینوں میں دیوالیہ قرار دیاجانے والا ہے۔آج ہمارے وزیرخزانہ ہمیں یہ خوشخبری سنا رہے ہیں کہ ہمارا ادائیگیوں کا بحران اب ٹل چکا ہے۔

ادائیگیوں کے بحران کے ٹل جانے کے اسباب اور محرکات کیا ہیں اِن کا تو ہمیں نہیں پتہ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ حکومت اب خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آئی ہے۔ اُسے احساس ہونے لگا ہے کہ قوم کو اب مزید جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے میں مبتلا نہیں رکھا جاسکتا ۔ لوگ اب حکومت کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں۔صرف غیر ملکی امداد پر انحصار اب ممکن نہیں رہا۔دنیا کی دیگر قومیں اب مفت میںہمیں اپنا بخار بھی دینے کو تیار نہیں۔

چائنہ نے امداد سے انکار کرکے دیکھاجائے توہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔یہی اِس دورے کی کامیابی ہے۔ قومیں امداد اور قرضوں کے پیسوں سے نہیں بنا کرتیں۔ یہ درس تو خان صاحب ہمیں گزشتہ 22 سالوں سے دیتے آئے تھے۔ وزیراعظم کی حیثیت میں خالی کشکول تھامے در در کی ٹھوکریں کھانا انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ انھیں شرم آتی تھی کہ ہمارا وزیراعظم قرض لینے کی خاطر ملکوں ملکوں گھومتا پھر رہا ہو۔

آئی ایم ایف سے قرض لینے کو بھی وہ بہت برا سمجھاکرتے تھے، پھر نجانے انھیں کس نے پٹی پڑھا دی کہ مالی مشکلات سے نکل جانے کے لیے سب سے آسان اورسہل طریقہ یہی ہے کہ پرانی کہی گئی باتوں کو بھول کر، نظریے اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر کاسہ گدائی تھامے دوست ممالک کے دورے پر نکل کھڑے ہوں۔ وہاں جاکر اُن کے ملک کی خوب تعریفیں کرکے اور اپنے ملک کی سارے برائیاں گنوا کر آپ کوشاید کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ ورنہ تو آپ تین ماہ بھی نہیں چل پائیں گے۔

خان صاحب نے اپنے اِن نام نہاد خیر خواہوں کی باتوں کو دانائی اور بصیرت افروز سمجھ کر وہی کچھ کیا جو وہ کہتے رہے۔ نتیجہ اب انھیں اکیلے ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ خجالت مٹانے کے لیے خواہ اب کچھ بھی کہاجاتا رہے لیکن الیکٹرانک میڈیا کے اِس جدید دور میں کوئی خبر اب خفیہ نہیں رکھی جاسکتی۔قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ چائنہ نے آپ کو صرف یقین دہانیوں کے وظیفے پڑھاکر واپس لوٹا دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے دورے کے بعدایسی مزید نئی خوشخبریاں سنانے کادعویٰ محض دعویٰ ہی بن کر رہ گیااور قوم وزیراعظم کے خطاب کی منتظر ہی رہ گئی۔ لگتا ہے حکومت آج کے بعد طلسماتی اور خیالی دنیا سے باہر نکل آئے گی اور کاسہ لیسی اور دریوزہ گری کو امرت دھارا سمجھنے کی بجائے کارکردگی کے حوالے سے کچھ کردکھانے پر مجبور ہوگی ۔ دیکھاجائے تویہی اِس دورے کی بڑی کامیابی ہے۔
Load Next Story