تقسیم سے دو چار ایم کیو ایم
مخلص رہنما مایوس ہوکر خاموش بیٹھ گئے اور ایم کیو ایم زوال پذیر ہے جس کے رہنماؤں نے اپنے حامیوں کو کچھ نہیں دیا۔
ایم کیو ایم اب حقیقی، پی ایس پی، متحدہ قومی موومنٹ، ایم کیو ایم پاکستان کے بعد ایم کیو ایم نظریاتی میں تقسیم ہوچکی ہے اور اپنے قائد کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار نے جس ایم کیو ایم پاکستان کا اعلان کیا تھا ،اس کی سیاسی حیثیت کے بعد عام انتخابات میں حق پرست امیدواروں جن میں ڈاکٹر فاروق ستار و دیگر رہنما بھی شامل تھے شکست سے دو چار ہوئے۔
ایم کیو ایم کی کراچی کی نمایندگی کا دعویٰ ختم ہوا، قبل ازیں سینیٹ میں بڑی اکثریت والی ایم کیو ایم شکست، باہمی اختلافات، ارکان کی فروخت و سیاسی وفاداری کی تبدیلی کے مرحلوں سے گزر کر صرف ایک نشست لے سکی جس کے بعد اقتدار سے پانچ سال دور رہنے والی ایم کیو ایم کو تحریک انصاف سے ملنے پر مجبور ہونا پڑا، جس نے اسے شکست سے دو چار کیا اور عمران خان کو مجبوری میں انھیں اپنی حکومت میں شامل کرنا پڑا تو ڈاکٹر خالد مقبول اور فروغ نسیم کی لاٹری کھل گئی اور دونوں پہلی بار وفاقی وزیر بن گئے۔
اقتدار میں آکر ڈاکٹر خالد مقبول کو ایم کیو ایم سے زیادہ وزارت عزیز ہوگئی اور شکست کی وجوہ اور ختم ہوتی مقبولیت میں اپنی غلطیوں کی اصلاح کی بجائے ایم کیو ایم پر توجہ برائے نام رہ گئی۔
ایم کیو ایم پاکستان اب متحدہ قومی موومنٹ شاید نہیں رہی کیونکہ مہاجر، مہاجر دوبارہ سننے میں آنے لگا اور حالات سے ظاہر ہے کہ آیندہ بلدیاتی انتخابات میں تقسیم در تقسیم ایم کیو ایم سے بلدیاتی نمایندگی بھی چھین لے گی۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے قائد سے علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم کو تو سنبھال لیا تھا مگر با اختیار سربراہ بننے کے چکر میں اپنی رابطہ کمیٹی کو نہ سنبھال سکے۔ انھوں نے پہلے اپنی سربراہی گنوائی پھر خود رابطہ کمیٹی چھوڑی اور اب وہ جلد ایم کیو ایم پاکستان سے ہی فارغ ہوتے نظر آرہے ہیں، جس کی وجہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی مفاد پرستی ہی نظر آرہی ہے جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم نظریاتی ڈاکٹر فاروق ستار بنائیں گے جس کا موقع انھیں مکمل طور پر نظر انداز کرکے رابطہ کمیٹی دیتی آرہی ہے۔
نظریاتی ایم کیو ایم بعد میں اپنے دیگر گروپوں میں موجود پرانے ساتھیوں کو ملانے کی کوشش کرے گی اور مستقبل میں تقسیم در تقسیم سے دو چار ایم کیو ایم کا وہی حال ہونے جا رہا ہے جو جی ایم سید کے بعد جئے سندھ تحریک کا ہوا جو مختلف گروپوں میں منقسم ہے اور ان کے بعض رہنما اور کارکن قومی پارٹیوں میں شامل ہونے لگے ہیں۔
ایم کیو ایم کا کوئی قابل ذکر رہنما پی ٹی آئی میں نہیں گیا لیکن مایوسی میں رہنماؤں کو سیاسی وفاداری تبدیل کرنا پڑے گی کیونکہ تقسیم در تقسیم کے بعد انھیں اپنا مستقبل کہیں اور نظر آئے گا، کیونکہ ویسے بھی کراچی کی پارلیمانی نمایندگی پی ٹی آئی حاصل کرچکی ہے اور اگر وفاقی حکومت نے کراچی کو اس کا حق دے دیا اورکراچی کے لوگوں کو درپیش اہم مسائل فوری طور پر حل کرادیے تو آیندہ بلدیاتی الیکشن میں بلدیہ عظمیٰ اور 5 ڈی ایم سیز کے میئر اور چیئرمین تحریک انصاف کے ہوںگے بلکہ 2023 تک متحدہ کا اپنا باقی بچ جانے والی نشستیں بھی حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
متحدہ کو بھی انتہائی عروج کے بعد زوال کا سامنا ہے جو غیر حقیقی نہیں کیونکہ متحدہ خود کو دیگر کی طرح سیاسی جماعت نہیں بناسکی اور اس پر سنگین الزامات ہیں ۔ ایم کیو ایم کو عروج دے کر اس مقام تک پہنچانے والے اگر 1999 میں دہری پالیسی، مہاجر دشمنی نہ دکھاتے اور جرائم پیشہ عناصرکو سیاسی نہ بناتے تو متحدہ پہلے ہی زوال پذیر ہوچکی ہوتی مگر آپریشن اور دیگر اقدامات نے ایم کیو ایم کو نئی زندگی دی تھی اور اس کے قائد پر لگے الزامات دھو دیے تھے ۔
متحدہ کے ہمدردوں کو آپریشن کے باعث متحدہ کی حمایت پر مجبور کردیا تھا اور حقیقی ان کی توقعات پر پوری نہیں اترسکی تھی۔ متحدہ کو تقسیم کراکر حالیہ انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان کو محدود کرادیا گیا۔
پی ٹی آئی سمیت مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی سمیت کسی نے متحدہ کی جگہ لینے پر توجہ نہیں دی تھی اور نہ پی ٹی آئی کو کراچی سے اتنی بڑی کامیابی ملنے کی توقع تھی، جوکچھ ہوا اس کی ذمے دار ایم کیو ایم خود ہے جس کے رہنماؤں نے مظلومیت اور ناانصافی کا خوب فائدہ اٹھایا مگر اپنے ووٹ دینے والوں کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور سرکاری وسائل کو دل بھر کر لوٹا، اپنے مخصوص لوگوں کو نوازا اور سرکاری وسائل کی دولت کہاں سے کہاں پہنچے ۔ اس کی حقیقت تو متحدہ کے بانی خود آشکار کرچکے ہیں مگر یہ سو فی صد حقیقت ہے کہ لوگوں کے ایم کیو ایم کو مسلسل ووٹ دینے کے خواب پورے نہیں ہوئے اور ان پر دہشت گردی کا لیبل الگ لگا اور بڑی تعداد میں جانی نقصان الگ اٹھانا پڑا۔
ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ خود بھی ذمے دار تو ہیں ہی مگر ایم کیو ایم کا ووٹ تقسیم ہوا۔ متحدہ کے بانی نے الیکشن کا بائیکاٹ کرا کر ایم کیو ایم کو پارلیمانی نقصان پہنچایا اور جو ایم کیو ایم بچی ہے وہ اب اس کے اپنے رہنماؤں کے گروپوں میں تقسیم ہے۔ موجودہ کنوینر کو پارٹی سے دلچسپی نظر نہیں آرہی وہ وفاقی وزارت سے محظوظ ہورہے ہیں اور اربوں روپے اقتدار میں کمانے والے ملک یا غیر ممالک میں موجود متحدہ رہنماؤں کو اپنا مال بچانے کی فکر ہے۔
مخلص رہنما مایوس ہوکر خاموش بیٹھ گئے اور ایم کیو ایم زوال پذیر ہے جس کے رہنماؤں نے اپنے حامیوں کو کچھ نہیں دیا اور ذاتی مفادات کے حصول میں مصروف رہے۔ نہ حقوق ملے نہ نا انصافیاں ختم ہوئیں۔ ایم کیو ایم اپنے منشور اور نعرے بھلاچکی۔ اس کے زوال سے کراچی دہشت گردی سے ضرور محفوظ ہوا مگر مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ان کے حل کا راستہ نظر نہیں آرہا اور ایم کیو ایم اب کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہی۔
ایم کیو ایم کی کراچی کی نمایندگی کا دعویٰ ختم ہوا، قبل ازیں سینیٹ میں بڑی اکثریت والی ایم کیو ایم شکست، باہمی اختلافات، ارکان کی فروخت و سیاسی وفاداری کی تبدیلی کے مرحلوں سے گزر کر صرف ایک نشست لے سکی جس کے بعد اقتدار سے پانچ سال دور رہنے والی ایم کیو ایم کو تحریک انصاف سے ملنے پر مجبور ہونا پڑا، جس نے اسے شکست سے دو چار کیا اور عمران خان کو مجبوری میں انھیں اپنی حکومت میں شامل کرنا پڑا تو ڈاکٹر خالد مقبول اور فروغ نسیم کی لاٹری کھل گئی اور دونوں پہلی بار وفاقی وزیر بن گئے۔
اقتدار میں آکر ڈاکٹر خالد مقبول کو ایم کیو ایم سے زیادہ وزارت عزیز ہوگئی اور شکست کی وجوہ اور ختم ہوتی مقبولیت میں اپنی غلطیوں کی اصلاح کی بجائے ایم کیو ایم پر توجہ برائے نام رہ گئی۔
ایم کیو ایم پاکستان اب متحدہ قومی موومنٹ شاید نہیں رہی کیونکہ مہاجر، مہاجر دوبارہ سننے میں آنے لگا اور حالات سے ظاہر ہے کہ آیندہ بلدیاتی انتخابات میں تقسیم در تقسیم ایم کیو ایم سے بلدیاتی نمایندگی بھی چھین لے گی۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے قائد سے علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم کو تو سنبھال لیا تھا مگر با اختیار سربراہ بننے کے چکر میں اپنی رابطہ کمیٹی کو نہ سنبھال سکے۔ انھوں نے پہلے اپنی سربراہی گنوائی پھر خود رابطہ کمیٹی چھوڑی اور اب وہ جلد ایم کیو ایم پاکستان سے ہی فارغ ہوتے نظر آرہے ہیں، جس کی وجہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی مفاد پرستی ہی نظر آرہی ہے جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم نظریاتی ڈاکٹر فاروق ستار بنائیں گے جس کا موقع انھیں مکمل طور پر نظر انداز کرکے رابطہ کمیٹی دیتی آرہی ہے۔
نظریاتی ایم کیو ایم بعد میں اپنے دیگر گروپوں میں موجود پرانے ساتھیوں کو ملانے کی کوشش کرے گی اور مستقبل میں تقسیم در تقسیم سے دو چار ایم کیو ایم کا وہی حال ہونے جا رہا ہے جو جی ایم سید کے بعد جئے سندھ تحریک کا ہوا جو مختلف گروپوں میں منقسم ہے اور ان کے بعض رہنما اور کارکن قومی پارٹیوں میں شامل ہونے لگے ہیں۔
ایم کیو ایم کا کوئی قابل ذکر رہنما پی ٹی آئی میں نہیں گیا لیکن مایوسی میں رہنماؤں کو سیاسی وفاداری تبدیل کرنا پڑے گی کیونکہ تقسیم در تقسیم کے بعد انھیں اپنا مستقبل کہیں اور نظر آئے گا، کیونکہ ویسے بھی کراچی کی پارلیمانی نمایندگی پی ٹی آئی حاصل کرچکی ہے اور اگر وفاقی حکومت نے کراچی کو اس کا حق دے دیا اورکراچی کے لوگوں کو درپیش اہم مسائل فوری طور پر حل کرادیے تو آیندہ بلدیاتی الیکشن میں بلدیہ عظمیٰ اور 5 ڈی ایم سیز کے میئر اور چیئرمین تحریک انصاف کے ہوںگے بلکہ 2023 تک متحدہ کا اپنا باقی بچ جانے والی نشستیں بھی حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
متحدہ کو بھی انتہائی عروج کے بعد زوال کا سامنا ہے جو غیر حقیقی نہیں کیونکہ متحدہ خود کو دیگر کی طرح سیاسی جماعت نہیں بناسکی اور اس پر سنگین الزامات ہیں ۔ ایم کیو ایم کو عروج دے کر اس مقام تک پہنچانے والے اگر 1999 میں دہری پالیسی، مہاجر دشمنی نہ دکھاتے اور جرائم پیشہ عناصرکو سیاسی نہ بناتے تو متحدہ پہلے ہی زوال پذیر ہوچکی ہوتی مگر آپریشن اور دیگر اقدامات نے ایم کیو ایم کو نئی زندگی دی تھی اور اس کے قائد پر لگے الزامات دھو دیے تھے ۔
متحدہ کے ہمدردوں کو آپریشن کے باعث متحدہ کی حمایت پر مجبور کردیا تھا اور حقیقی ان کی توقعات پر پوری نہیں اترسکی تھی۔ متحدہ کو تقسیم کراکر حالیہ انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان کو محدود کرادیا گیا۔
پی ٹی آئی سمیت مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی سمیت کسی نے متحدہ کی جگہ لینے پر توجہ نہیں دی تھی اور نہ پی ٹی آئی کو کراچی سے اتنی بڑی کامیابی ملنے کی توقع تھی، جوکچھ ہوا اس کی ذمے دار ایم کیو ایم خود ہے جس کے رہنماؤں نے مظلومیت اور ناانصافی کا خوب فائدہ اٹھایا مگر اپنے ووٹ دینے والوں کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور سرکاری وسائل کو دل بھر کر لوٹا، اپنے مخصوص لوگوں کو نوازا اور سرکاری وسائل کی دولت کہاں سے کہاں پہنچے ۔ اس کی حقیقت تو متحدہ کے بانی خود آشکار کرچکے ہیں مگر یہ سو فی صد حقیقت ہے کہ لوگوں کے ایم کیو ایم کو مسلسل ووٹ دینے کے خواب پورے نہیں ہوئے اور ان پر دہشت گردی کا لیبل الگ لگا اور بڑی تعداد میں جانی نقصان الگ اٹھانا پڑا۔
ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ خود بھی ذمے دار تو ہیں ہی مگر ایم کیو ایم کا ووٹ تقسیم ہوا۔ متحدہ کے بانی نے الیکشن کا بائیکاٹ کرا کر ایم کیو ایم کو پارلیمانی نقصان پہنچایا اور جو ایم کیو ایم بچی ہے وہ اب اس کے اپنے رہنماؤں کے گروپوں میں تقسیم ہے۔ موجودہ کنوینر کو پارٹی سے دلچسپی نظر نہیں آرہی وہ وفاقی وزارت سے محظوظ ہورہے ہیں اور اربوں روپے اقتدار میں کمانے والے ملک یا غیر ممالک میں موجود متحدہ رہنماؤں کو اپنا مال بچانے کی فکر ہے۔
مخلص رہنما مایوس ہوکر خاموش بیٹھ گئے اور ایم کیو ایم زوال پذیر ہے جس کے رہنماؤں نے اپنے حامیوں کو کچھ نہیں دیا اور ذاتی مفادات کے حصول میں مصروف رہے۔ نہ حقوق ملے نہ نا انصافیاں ختم ہوئیں۔ ایم کیو ایم اپنے منشور اور نعرے بھلاچکی۔ اس کے زوال سے کراچی دہشت گردی سے ضرور محفوظ ہوا مگر مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ان کے حل کا راستہ نظر نہیں آرہا اور ایم کیو ایم اب کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہی۔