ہر غلطی عدالتی حکم سے ٹھیک ہوگی

عدالتی حکم پر سندھ حکومت، شہری حکومت اور انتظامیہ نے تمام تجاوزات کو ختم کردیا ہے اور یہ آپریشن تاحال جاری بھی ہے۔

٭ '' بھائی! میں تو اپنی دکان کا اضافی چھجہ خود ہی ختم کرارہا ہوں۔ حکومت نے آکر توڑا تو بڑی بے عزتی ہوگی''۔

'' اگر ایک غلطی ہم نے کردی تھی تو اُسے صحیح بھی ہم نے ہی کرنا ہے۔ اچھے کام کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے''۔

'' دکانوں کے حد سے بڑھے ہوئے بورڈ اور جنگلے ہم نے لگائے، حکام بھی اُس وقت خاموش رہے لیکن یہ غلطی کسی نہ کسی دن تو پکڑ میں آنی ہی تھی''۔

'' میں تو اس لیے خود ہی یہ اضافی بورڈ گروارہا ہوں تاکہ زیادہ نقصان نہ ہو۔ حکومتی بلڈوزر چلے گا تو زیادہ نقصان ہوگا''۔

یہ اور ایسے بہت سے جملے اور باتیں گذشتہ چند دنوں میں شہر کراچی کے مختلف علاقوں میں موجود لوگوں کی زبانی سُنیں ۔

یہ باتیں کرنے والے زیادہ تر دکاندار تھے جو کراچی میں تجاوزات کے خلاف میگا کریک ڈاؤن اور شہر کے سب سے گنجان آباد اور تجاوزات سے اَٹے صدر میں ''آپریشن کلین اپ'' کے بعد اپنے تاثرات کااظہار کررہے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اِن میں سے زیادہ تر لوگ ایمپریس مارکیٹ صدر سے بہت دور کے علاقوں میں رہنے والے اور کام کرنے والے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے احکام اور حکومتی اداروں کی موثر کارروائی نے انھیں بھی اپنی غلطیوں کو سُدھارنے پر مائل کیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت سے قبل اور حکومت سنبھالنے کے بعد بھی ''تبدیلی آئے گی'' اور ''تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے'' کے جو نعرے لگاتے تھے ، تجاوزات کے خلاف آپریشن دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ وہ نعرے اب حقیقت کا روپ دھاررہے ہیں۔ ''سزا'' اور اپنے خلاف ''تادیبی کارروائی'' کا خوف ہی ہے جو لوگوں کو غلط کاموں سے روکتا ہے۔ جب یہ ڈر ختم ہوجاتا ہے تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ہم برس ہا برس سے مملکت خداداد پاکستان کے تقریباً ہر بڑے چھوٹے شہر میں دیکھتے رہے اور اب بھی دیکھ رہے ہیں تاہم اب بہتری کی امید ضرور کرنی چاہیے۔

اگر کسی بھی شعبے میں غلط کام پر بروقت روک ٹوک ہو، سزا اور جرمانہ ملے تو نہ صرف سزا یافتہ دوبارہ وہ ''جرم'' کرنے سے پہلے کئی بار سوچے گا اور دوسرے لوگ بھی اُس کے ساتھ ہونے والی ''کارروائی'' کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی کسی بھی غلطی سے گریز کرینگے جو بعد میں اُن کے لیے پریشانی، شرمندگی اور نقصان کا باعث بنے۔

سپریم کورٹ کے احکام پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ملک کے مختلف شہروں خصوصاً اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں انسداد تجاوزات مہم کا آغاز کیا ہے جو زوروشور سے جاری ہے۔ کراچی میں ایمپریس مارکیٹ صدر جیسے علاقے میں جو آپریشن کیا گیا ، وہ شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا۔


کراچی کے جو باسی ایمپریس مارکیٹ کے محل وقوع، اس کی ملحقہ سڑکوں، بازاروں سے بخوبی آگاہ ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ انھیں صدر کے اس علاقے میں کبھی آرام سے فٹ پاتھوں پر چلنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ دکانوں کے باہر بھی سجی ہوئی دکانیں اُن کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی ہیں۔ پرندہ مارکیٹ، باڑہ مارکیٹ، پھلوںاور دیگر اشیا کے ٹھیلے، پتھارے، ہوٹلیں اور دیگر دکانیں نصف سے زائد سڑک اور ایمپریس مارکیٹ کے آس پاس سارے علاقے پر اس طرح موجود تھیں کہ ٹریفک جام بھی روز کا معمول بن گیا تھا اور پیدل چلنے والوں کو بھی مختلف نوعیت کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔

اب عدالتی حکم پر سندھ حکومت، شہری حکومت اور انتظامیہ نے تمام تجاوزات کو ختم کردیا ہے اور یہ آپریشن تاحال جاری بھی ہے لیکن یہ کارروائی اُس وقت ہی موثر ثابت ہوگی جب تجاوزات کو دوبارہ قائم نہ ہونے دیا جائے۔

کراچی کا شہری ہونے کے ناتے میری حقیر رائے میں حکومتی اداروں کی کوتاہی، غفلت اور کہیں کہیں جان بوجھ کر معاملات کو نظرانداز کرنے کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی اتنی بڑی کارروائی کرنی پڑی۔ ورنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب تجاوزات قائم کرنے والے پہلی اینٹ یا پہلا بورڈ لگارہے تھے تو انھیں اُسی وقت روک دیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہُوا۔ مختلف محکموں کے اہلکاروں کی جانب سے ایسی ہی مجرمانہ غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ معمول کی بات ہے کہ جب پانی سَر سے اونچا ہوتا ہے تو ہر کوئی کام شروع کردیتا ہے ورنہ ہر غلب کام کو معمولی سمجھ کر پروان چڑھنے دیا جاتا ہے۔

شہر کے تقریباً ہر علاقے میں دکانداروں نے اپنا کاروبار سجایا جو اچھی بات ہے اور اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں۔ اپنے کاروبار کی پبلسٹی کرنا بھی اُن کا حق ہے لیکن اپنے حقوق استعمال کرنے کی بھی حد ہوتی ہے جو وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں آپ کے فرائض کا آغاز ہوتا ہے۔

ایک اچھے شہری ہونے کی حیثیت میں جہاں ہمارے بہت سے حقوق ہیں اور حکومت ہمیں وہ تمام حقوق دینے کی پابند ہے تو دوسری جانب شہریوں کے بھی بہت سے فرائض ہیں۔ جن لوگوں نے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے حدود سے تجاوز نہیں کیا آج وہ اطمینان میں ہیں لیکن جنھیں اس بات کا گمان نہ تھا کہ کبھی کارروائی بھی ہوسکتی ہے، وہ آج بہت پریشان ہیں۔

معمولات زندگی کی بجا آوری میں مزہ تو جب ہے کہ ہر شہری ''ذمے دار شہری'' ہونے کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے ''فرائض '' ادا کرے اور پھر اپنے ''حقوق'' مانگے ۔

کراچی میں مسئلہ صرف دکانوں کے بڑھے ہوئے چھجوں، بل بورڈز اور مقررہ حد سے بہت آگے تک بڑھے ہوئے ''کاروبار'' کا نہیں ہے ، یہاں تو ہر شعبے میں ایسی موثر اور بلا امتیاز کارروائی کی ضرورت ہے کہ قانونی طریقے چلنے والے بغیر کسی روک ٹوک کے اپنا کام کرتے رہیں اور غیر قانونی انداز اپنانے والوں کو فوری طور پر اُن کی غلطی کا احساس دلایا جائے۔

تجاوزات کے خلاف موجودہ کارروائی کو دیکھتے ہوئے کراچی کے عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اب سپریم کورٹ کو دیگر معاملات میں بھی احکام دینے پڑیں گے کیونکہ بغیر عدالتی حکم کے تو ایسا کام کبھی نہیں ہُوا۔ ٹریفک کی روانی میں خلل، ٹریفک قوانین کی شدید خلاف ورزیاں روز کا معمول ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ بہت ساری خلاف ورزیوں کو تو ہم شہری ہی خلاف ورزیاں نہیں سمجھتے۔ اسی طرح بجلی کے استعمال ، پانی کی فراہمی ، سڑکوں کی مرمت جیسے معاملات میں بھی ''سزا'' اور ''جزا'' کا قانون فعال کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر ہم لوگ چل نہیں سکتے۔

جن غلط کام پر جرمانے اور سزائیں ملیں گی تو دوسرے لوگ بھی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ جن ملکوں کی ترقی کی باتیں ہم ایک دوسرے سے کرتے ہیں، میڈیا کے ذریعے سنتے اور دیکھتے ہیں ، وہ اس لیے ترقی یافتہ ہیں کہ انھوں نے قوانین کو صرف کتابوں میں نہیں بنایا بلکہ اُن پر عملدرآمد کا بھی سلسلہ جاری رکھا ہُوا ہے۔

ہمارے ملک میں بھی اگر قوانین پر صحیح طرح عمل درآمد کیا جائے، وی آئی پی کلچر کو جڑ سے اُکھاڑپھینکا جائے اور غلطی کرنے والے کو بلاامتیاز اس کے کیے کی سزا ملے تو بہت سے معاملات تو چند دنوں میں ٹھیک ہوسکتے ہیںلیکن اس کے لیے شرط صرف قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر صرف ملک و قوم کے لیے کام کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہم شہریوں کو بھی روزمرہ زندگی میں مثبت سوچ کے ساتھ معمولات انجام دینے کی عادت ڈالنی چاہیے، اگر ہم ایسا کرینگے تو باقی معاملات خودبخود ٹھیک ہوجائینگے، انشاء اللہ
Load Next Story